اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جن چیزوں کا ذکر ہے ان کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے؛ بلکہ یہ سب چیزیں بدعت اور باعث شرک ہیں اس لیے شریعت نے ایسی چیزوں کی قطعاً اجازت نہیں دی ہے۔ مزارات پر عرس ودیگر تقریبات عرس میں شریک ہونا شرعاً جائز نہیں۔(۱)

(۱) ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
وقد فصل صاحب الہدایۃ فیہا أن المغني للناس إنما لا یقبل شہادتہ لا یجمعہم علی کبیرۃ والقرطبي علی أن ہذا الغناء وضرب القضیب والرقص حرام بالإجماع عند مالک وأبي حنیفۃ وأحمد رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہم في مواضع من کتابہ إلخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، فتاویٰ بزازیہ علی ہامش الہندیۃ، ’’کتاب ألفاظ تکون إسلاماً أو کفراً أو خطأً: باب في المتفرقات‘‘: ج ۶، ص: ۳۴۹)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص367

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ ایک غیر شرعی رسم ہے اور لڑکے یا لڑکی والوں پر بلاوجہ کا خرچ اور مصارف کا ڈالنا ہے۔ بعض مقروض بھی ہو جاتے ہیں اور برادری، خاندان کے طعنہ زنی سے بچنے کے لئے پریشانیاں اٹھاتے ہیں۔ شریعت میں اس کی نظیر نہیں، ضرورت ہے کہ اصلاح کی جائے اور اس طریقے کو بند کرایا جائے۔(۲)

(۲) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا، إنہ لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث عم أبي حرۃ الرقاشي‘‘: ج ۳۴، ص: ۲۹۹، رقم: ۲۰۶۹۵)
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص455

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب برأت میں تنہا تنہا عبادت منقول ہے؛ اس لیے دعوت دے کر لوگوں کو جمع کرنا مکروہ ہے؛(۱) البتہ اگر اتفاقاً لوگ تنہا تنہا آکر تعداد مجمع کی ہوجائے، تو مضائقہ نہیں اور اتفاقاً چائے وغیرہ پلا دینے میں بھی حرج نہیں ہے، لیکن ثواب سمجھ کر اس کا رواج بنا لینا جائز نہیں۔

(۱) عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا فإن اللّٰہ تعالیٰ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر، رواہ ابن ماجہ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، رقم: ۱۳۰۸)وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحیا اللیالي الخمس وجبت لہ الجنۃ لیلۃ الترویۃ ولیلۃ عرفۃ ولیلۃ النحر ولیلۃ الفطر ولیلۃ النصف من شعبان۔ وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قام لیلۃ النصف من شعبان ولیلتی العیدین لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ص: ۴۰۱)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي المتقدم ذکرہا في المساجد وغیرہا: … لأنہ لم یفعلہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا أصحابہ فأنکرہ أکثر العلماء من أہل الحجاز …  وقالوا: ذلک کلہ بدعۃ۔ (’’أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۲)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي في المساجد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في إحیاء لیالي العیدین والنصف وعشر الحجۃ ورمضان‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص503

اسلامی عقائد

Ref. No. 2725/45-4243

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رضاعی باپ نکاح کے سلسلہ میں حقیقی باپ کی طرح ہوتاہے،  اس سے نکاح نہیں ہوسکتاہے اور نہ ہی اس  سے پردہ ہے۔ البتہ گال یا پیشانی کا بوسہ لینے میں احیتاط کرنی چاہئے۔ یحرم من الرضاع مایحرم من النسب۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/887

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نماز ہوجائے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:انسانی زندگی کے تین ادوار ہیں: حیات دنیوی، حیات برزخی اور حیات اخروی، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے، یعنی قیام قیامت تک کا زمانہ عالم برزخ کہلاتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے: {وَمِنْ وَّرَآئِہِمْ بَرْزَخٌ إِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَہ۱۰۰}(۲) اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ ہے جس دن وہ قبروں سے اٹھائے جائیں گے:

’’قال ابن الکثیر: البرزخ المقابر لا ہم في الدنیا ولا ہم في الآخرۃ فہم مقیمون إلی یوم یبعثون‘‘(۱)
صاحب روح المعانی نے لکھا ہے: ’’وذہب بعضہم إلی أن الأجل الأول ما بین الخلق والموت، والثاني ما بین الموت والبعث‘‘ (۲) عالم برزخ مرنے سے لے کر قیامت تک کا وقفہ ہے؛ اسی کو عالم قبر بھی کہا جاتا ہے، دنیا میں جس طرح کے اعمال ہوں گے اسی طرح عالم برزخ کی زندگی میں سزا اور جزا ہوگی، اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو انسانوں سے مخفی رکھا ہے۔
’’قال: محمد بن کعب البرزخ ما بین الدنیا والآخرۃ لیسوا مع أہل الدنیا یأکلون ویشربون ولا مع أہل الآخرۃ یجازون بأعمالہم‘‘(۳)

(۲) سورۃ المؤمنون: ۲۳۔

(۱) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ المؤمنون: ۱۰۰‘‘: ج ۳، ص: ۲۳۲۔
(۲) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ الأنعام: ۱-۶‘‘: ج ۴، ص: ۱۲۷۔
(۳) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ المؤمنون: ۱۰۰‘‘: ج ۳، ص: ۲۳۲۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص248

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مرد ے کے اوپر گھر میں ڈالنا تو شرعاً درست ہے(۱) لیکن قبر پر یا قبر میں مردے پر ڈالنا اسراف محض ہونے کی وجہ سے شرعاً نا درست اور بدعت ہے۔(۲)

۱) قال ویکفیہ من الطیب ما عمل لہ وہو البیت فنحن متبعون لا مبتدعون فحیث وقفنا سلفنا ووقفنا إلخ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في حملہا ودفنہا‘‘: ص: ۶۰۸)
کذا في تالیفات رشیدیہ مع فتاویٰ رشیدیہ: ص: ۲۴۰)
(۲) وذکر ابن الحاج في المدخل أنہ ینبغي أن یجتنب ما أحدثہ بعضہم من أنہم یأتون بماء الورد فیجعلونہ علی المیت في قبرہ فإن ذلک لم یرد عن السلف رضي اللّٰہ عنہم فہو بدعۃ۔ (أیضاً:)
(۳) لا یسن الأذان عند إدخال المیت في قبرہ کما ہو المعتاد ألأٰن وقد صرح ابن حجر في فتاویہ بأنہ بدعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند  ج 1 ص368

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بالکل ہی ناجائز اور گناہ کا عمل ہے، اس بے حیائی کی رسم کو بند کیا جانا چاہیے۔(۱)

(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
والإسلام قد حرم علی المرأۃ أن تکشف شیئاً من عورتہا أمام الأجانب خشیۃ الفتنۃ۔ (محمد علي الصابوني، روائع البیان: ج ۲، ص: ۱۷۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص456

اسلامی عقائد

Ref. No. 2761/45-4329

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ناپاک پانی سے مصالہ یا اینٹیں جو زمین یا دیوار وغیرہ میں لگادی گئی ہیں اور وہ اس طرح ثبت اور نصب کردی گئی ہوں کہ ہلتی نہ ہوں، وہ خشک ہونے کے بعد مثل زمین کے پاک ہوجاتے ہیں، اس لیے جو مکان ناپاک پانی سے تعمیر ہوچکے ہیں وہ پاک ہیں، اسے پاک کرنے کی ضرورت نہیں۔ در مختارمیں ہے۔

’’وحکم آجر ونحوہ کلبن مفروش … کأرض فیطہر بجفاف وکذا کل ما کان ثابتاً فیہا لأخذہ حکمہا باتصالہ بہا فالمنفصل یغسل لا غیر‘‘ (الدر المختار: ج ۱، ص: ۵۱۳)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/968

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں جماعتوں کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ کوئی جماعت اگر پہلے سے کسی مسجد میں ہو اور دوسری جماعت آجائے تو ان کو ساتھ لے کر کام کرنا چاہئے یہی پہلے سے اصول رہا ہے۔ دونوں کا مقصد ایک ہے ، ہر ایک کو مقصد میں لگ جانا چاہئے اور فساد کو دبادینا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند