اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:درست ہے؛ لیکن مستحب ہے(۱) ضروری نہیں ہے۔

(۱) عن علي رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا فإن اللّٰہ تعالیٰ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر، رواہ ابن ماجہ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، رقم: ۱۳۰۸)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي في المساجد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في إحیاء لیالي العیدین والنصف وعشر الحجۃ ورمضان‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۹)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أنہا قالت: مارأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في شہرٍ أکثر صیاماً منہ في شعبان کان یصومہ إلا قلیلاً بل کان یصومہ کلہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصوم: باب ما جاء في وصال شعبان برمضان‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۵، رقم: ۷۳۷)
عن ابن عباسٍ رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یفطر أیام البیض في حضرٍ ولا سفرٍ۔ (أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب الصیام: صوم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۰، رقم: ۲۳۴۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص499

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:صور نور کا بنا ہوا ایک سینگ ہے، جس میں پھونک ماری جائے گی۔ ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت فرمایا ’’ما الصور‘‘ صور کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’قرنِ ینفخ فیہ‘‘ ایک سینگ ہے کہ جس میں پھونک ماری جائے گی۔(۱) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک معنی نر سنگھا ہے۔(۲)

(۱) فقد أخرجہ الترمذي عن عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص -رضي اللّٰہ عنہما- قال: جاء أعرابي إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: ما الصور؟ قال قرن ینفخ فیہ۔في سننہ، ’’أبواب الزہد عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في الصور‘‘: ج ۲، ص: ۶۹، رقم: ۲۴۳۰)
(۲) عن عبد اللّٰہ بن عمرو -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال أعرابي: یا رسول اللّٰہ ما الصور؟ قال: قرن ینفخ فیہ۔ (أحمد بن حنبل، في مسندہ، عبد اللّٰہ بن عمرو - رضي اللّٰہ عنہ-: ج ۱۱، ص: ۵۳،رقم: ۶۵۰۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص245

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ رسم ورواج خلاف شریعت ہے، اس کی کوئی اصل حضور صلی اللہ علیہ سلم اور حضرات صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں نہیں ملتی، چوںکہ لوگ ہندوستانی قوم کے ہیںاور بعد میں ایمان لائے، ان کے اندر کفریہ رسمیں موجود ہیں، جن کو ترک کرنا ضروری ہے، ایسی ہی رسوم کی پابندیوں نے ہمارے سماج کو بگاڑ دیا ہے، اس لئے زید کا قول درست ہے، اس پر عمل کرنا چاہئے۔ (۱)
ہندوستان میں اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا اور نہ ہی کوئی بادشاہ اس مقصد سے ہندوستان آیا اور جن کی سالہا سال حکومت رہی، انہوںنے بھی اس طرف توجہ نہیں دی؛ بلکہ بزرگوں اور صوفیوں کے ذریعہ یہاں اسلام پھیلا، ان حضرات نے اسلام لانے والوں کو فرائض، واجبات، سنن واذکار واشغال کی تعلیم تو دی؛ لیکن ان قوموں میں جو غیر اسلامی برادری کی رسمیں تھیں وہ بھی ان میں جاری رہیں، سماج کی اصلاح کی سعی کی طرف سے غفلت رہی، یہی وجہ ہے کہ اب بھی برادری اور خاندانی غیرشرعی رسمیں بعض قوموں اور برادریوں میں رائج ہیں۔ مذکورۃ السوال رسوم بھی انہی میں سے ہیں۔ جن کا بند کرنا اور سماج کی اصلاح ضروری ہے اور ایسا کرنا باعث اجر وثواب بھی ہے۔ (۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
(۱) فکم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم والتخصیص بغیر مخصص مکروہا۔ (سیاحۃ الفکر: ج ۳، ص: ۳۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص453

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پندرہویں شعبان کی رات میں انفرادی طور پر دعاء، تلاوت، نماز وغیرہ عبادات میں مشغول ہونے اور دن میں روزہ رکھنے کی فضیلت روایات سے ثابت ہے۔
’’عن علي رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا فإن اللّٰہ تعالیٰ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر، رواہ ابن ماجہ‘‘(۱)
اس وجہ سے دیگر راتوں کے مقابلہ میں اس رات کی نوافل کا ثواب زیادہ ہے۔اس کے علاوہ دیگر خرافات اور بدعات جو آج کل شروع ہوگئی ہیں، مثلاً: حلوہ پکانا، چراغاں کرنا، رات بھر جاگ کرمسجد اور قبرستان میں شور شرابہ کرنا یہ سب خلاف شریعت امور ہیں۔(۲) قبرستان جانا بھی حدیث سے ثابت ہے؛ اس لیے اگر کبھی چلاجائے، تو حرج نہیں تاہم اس کو رسم نہ بنایا جائے اور قبرستان کے تقدس کی پامالی اور شور وغل سے اجتناب کیا جائے، قبرستان جانے کا مقصد تذکیر آخرت اور اہل قبور کے احوال سے عبرت حاصل کرنا ہی ہو۔(۳)

(۱)  مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۲) السراج الکثیر الزائد عن الحاجۃ لیلۃ البراء ۃ ہل یجوز؟ … ہو بدعۃ۔ (نفع المفتي والسائل: ص: ۱۳۸)
من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’من قام لیلۃ النصف من شعبان ولیلتی العیدین لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب‘‘ ومعنی القیام أن یکون مشتغلا معظم اللیل بطاعۃ وقیل بساعۃ منہ یقرأ أو یسمع القرآن أو الحدیث أو یسبح أو یصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ بصلاۃ العشاء جماعۃ والعزم علی صلاۃ الصبح جماعۃ کما في إحیاء لیلتی العیدین، وقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ لیہ وسلم: من صلی العشاء في جماعۃ فکأنما قام نصف اللیل، …بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ: پر…
ومن صلی الصبح في جماعۃ فکأنما قام اللیل کلہ (رواہ مسلم) ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي المتقدم ذکرہا في المساجد وغیرہا لأنہ لم یفعلہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا الصحابۃ، فأنکرہ أکثر العلماء من أہل الحجاز: منہم عطاء وابن أبي ملیکۃ وفقہاء أہل المدینۃ وأصحاب مالک وغیرہم وقالوا: ذلک کلہ بدعۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد، وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۲)
(۳) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم- کلما کان لیلتہا من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخرج من آخر اللیل إلی البقیع۔ فیقول: السلام علیکم دار قوم مؤمنین، وأتاکم ما توعدون غدا، مؤجلون، وإنا إن شاء اللّٰہ بکم لاحقون، اللّٰہم اغفر لأہل بقیع الغرقد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في التسلیم علی أہل القبور والدعاء والاستغفار لہم‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۳، رقم: ۹۷۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص500

اسلامی عقائد

Ref. No. 2563/45-3962

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مساجد میں اہل سنت والجماعت کے باشرع اور متدین علماء کو مدعو کرنا چاہئے، جن کے افکار علماء دیوبند سے قریب تر ہوں زیادہ بہتر ہے ۔ ایسے لوگوں کو بلانا جن کے افکار میں انحراف و اعتزال ہو درست نہیں ہے۔ اس میں عوام الناس فکری انتشار وانحراف میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ علماء دیوبند داڑھی کے سلسلہ میں متشدد ہیں وہ غلطی پر ہیں ، داڑھی تو تمام انبیاء کرام کی مشترکہ سنت ہے، اور داڑھی کا کاٹنا ائمہ اربعہ کے مطابق ناجائز ہے، اس میں علماء دیوبند کی تخصیص کیا ہے۔؟

 عن عائشۃ قالت: قال رسول اللہ ﷺ عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ (صحیح مسلم 1/223) کان حلق اللحیۃ محرما عند ائمۃ المسلمین المجتھدین ابی حنیفۃ ومالک والشافعی واحمد وغیرھم (المنھل العذب المورود 1/186)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/891

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر ایک طلاق یا دو طلاق تھی تو عورت زوج اول کے لئے حلال  ہے، زوج اول سے نکاح کرسکتی ہے۔ اور اگر زوج اول نے تین طلاق دیا ہے تو مذکورہ صورت میں حلال نہیں  ہوگی، بلکہ مسلمان ہونے کے بعد اس کا دوسرا نکاح صحیح طور پر کسی مسلمان مرد سے کرنا ہوگا۔  بعد نکاح  صحیح و دخول اگر زوج ثانی نے طلاق دے دیا تو عدت کے بعد عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگی۔

لا بملک یمین لاشتراط الزوج بالنص فلایحل وطئ المولی ولاملک امۃ بعد طلقتین او حرۃ بعد ثلاث وردۃ وسبی نظیرہ من فرق بینھما بظہار او لعان ثم ارتدت وسبیت ثم ملکھا لم تحل لہ ابدا فوجہ الشبہ بین المسئلتین ان الردۃ واللحاق لم تبطل حکم الظہار واللعان کما لاتبطل الطلاق۔ (الدر المختار43/5)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مرنے کے بعد آدمیوں کی جگہ علین ہے یا سجین ہے، نیک لوگوں کی روحیں علین میں رہتی ہیں اور بدکاروں کی روحیں سجین میں رہتی ہیں (۱) ان مقررہ جگہوں سے روحوں کی دنیا میں واپسی نہیں ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شہید فی سبیل اللہ شہادت کے قیام و مرتبہ کو دیکھنے کے بعد دوبارہ دنیا میں لوٹنے کی تمنا کرتا ہے کہ پھر لڑکر اور شہید ہوکر دوبارہ شہادت کا مرتبہ حاصل کروں؛ لیکن شہید کو بھی دنیا میں دوبارہ واپسی کی اجازت نہیں ملتی، یہ جو گاہے بگاہے کچھ لوگوں کے حالات اور واقعات سننے میں آتے ہیں ان کو اگر جسمانی مرض اور بیماری کی کوئی قسم نہ مان لی جائے، تو ان کا حاصل یہ ہے کہ شیطان جس کو انسان کے بدن میں خون کی طرح دوڑنے تک کی قدت دی گئی ہے وہ بسا اوقات لوگوں کو گمراہ کرنے اور بدعقیدگی میں مبتلا کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے کہ کسی میں سرایت کرگیا اور کسی مشہور بزرگ کے حوالے دینے لگایا کسی پر سوار ہوگیا، اور برے آدمی کا حوالہ دینے لگا، اور پیشین گوئی کرنے لگا، جس سے سادہ لوحوں کو دھوکہ ہوجاتا ہے اور ذہنی خلفشار یا بدعقیدگی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ عبد الوہاب صاحب بھی ایسی ہی کوئی بات سن کر یا کوئی چیز دیکھ کر غلط فہمی میں مبتلاء معلوم ہوتے ہیں، ان کو مذکورہ صورت حال اگر بتلائی جائے تو وہ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ اپنی سوچ کی اصلاح کریں گے۔ ایسا سمجھنے والے کے لئے عقیدہ کی تعبیر صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ عقیدہ تو شرعی بنیاد پر ہوتا ہے، جب کہ اس کے لئے کوئی مذہبی اور شرعی بنیاد ہی نہیں؛ بلکہ یہ تو محض سنی سنائی بات ہے جس کو سن کر یا دیکھ کر متعین کرنا چاہئے۔(۱) (۱) {اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْأَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِہَا ج فَیُمْسِکُ الَّتِيْ قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْأُخْرٰی إِلٰٓی أَجَلٍ مُّسَمًّی ط إِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَأٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ہ۴۲} (سورۃ الزمر: ۴۲) قال: أما علیون فالسماء السابعۃ فیہا أرواح المؤمنین، وأما سجین فالأرض السابعۃ السفلیٰ وأرواح الکفار تحت جسد إبلیس۔ (ابن قیم الجوزي، ’’کتاب الروح، المسألۃ الخامسۃ عشرۃ، فصل: أرواح المؤمنین عند اللّٰہ تعالیٰ‘‘: ص: ۱۱۹) عن مسروق قال: سألنا عبد اللّٰہ عن أرواح الشہداء؟، ولولا عبد اللّٰہ لم یحدثنا أحد، قال: أرواح الشہداء عند اللّٰہ یوم القیامۃ في حواصل طیر خضر، لہا قنادیل معلقۃ بالعرش، تسرح في الجنۃ شاء ت، ثم ترجع إلی قنادیلہا فیشرف علیہم ربہم فیقول: ألکم حاجۃ؟ تریدون شیئا؟ فیقولون: لا، إلا أن نرجع إلی الدنیا فنقتل مرۃ أخری۔ (عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن: سنن دارمي، ’’کتاب الجہاد: باب أرواح الشہداء‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۲۴۵۴) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص246

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اوڑھنا اور لباس جوڑا وغیرہ کی یہ رسم ہندوانی رسم ہے، جو قابل ترک ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
فکم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم والتخصیص بغیر مخصص مکروہا۔ (سیاحۃ الفکر: ج ۳، ص
: ۳۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص454

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس رات قبرستان میں لائٹیں لگوانے اور کھانا تقسیم کرنے وغیرہ امور کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے؛(۱) تاہم یہ رات فضائل والی رات ہے، اس وجہ سے اپنے گھر پر نفل عبادات میں مشغول رہنا مستحب ہے؛ جب تک بشاشت ہو گھر میں عبادت کریں(۲) ورنہ سوجائیں، خرافات میں وقت ضائع نہ کریں۔

(۱) وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مستد لہا في الکتاب والسنۃ … ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن، ’’باب التشدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
(۲) عن علي رضي اللّٰہ عنہ، قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ص : ۱۱۵، رقم: ۱۳۰۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص502

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ باتیں غلط ہیں، شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں ہے اور حدیث میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔(۱)

۱) {کَلَّآ إِنَّ کِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِيْ سِجِّیْنٍہط ۷ }
{کَلَّآ إِنَّ کِتٰبَ الْأَبْرَارِ لَفِيْ عِلِّیِّیْنَہط ۱۸} (سورۃ المطففین: ۷ اور ۱۸)
قال صاحب المظہري: أن مقر أرواح المؤمنین في علین أو في المساء السابعۃ ونحو ذلک کما مر، ومقر أرواح الکفار في سجین۔ (قاضي ثناء اللّٰہ -رحمہ اللّٰہ- التفسیر المظہري، ’’سورۃ المطففین: آیۃ: ۲۶‘‘: ج ۱۰، ص: ۱۹۶)
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃاللہ علیہ نے اشرف الجواب میں لکھا ہے کہ: مردے کی روح دنیا میں واپس نہیں آتی ہے۔ (اشرف علی تھانویؒ، اشرف الجواب، ص: ۱۵۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص247