Frequently Asked Questions
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:احکامِ الٰہی پر عمل پیرا ہونا انسان پر لازم وفرض ہے اور ان سے اعراض شرعاً وعقلاً ناجائز ہے وہ طریقے اپنانا جن سے احکام الٰہی پر عمل میں مدد ملے یا دوسروں کو اس سے فائدہ پہونچے یہ بھی انسان پر لازم ہے کہ خود بھی رضائے الٰہی کے حصول کے مختلف طریقے ہیں جس نے جس کو بہتر سمجھا اس پر زور ڈالا اور لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کیا بس۔ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ کے معروف طریقے کو اصلاح النفس کے لئے بہتر سمجھا، تو اسی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور اس کے اصول مرتب کئے جو اس طریقہ کو بہتر سمجھے اس پر عمل کرے، اگر اس سے اصلاح کا ارادہ ونیت ہو، تو یہ باعث اجرو ثواب ہے اور اگر اس طریقہ کے علاوہ کوئی دیگر طریقہ اختیار کرے، تو اس میں مضائقہ نہیں بنیت صالحہ چلہ لگادے، تو ثواب ہوگا اور ترک پر کوئی گناہ نہیں؛ اس لئے اس کو مستحب کا درجہ دیا جاسکتا ہے، چالیس دنوں کو تفسیر احوال میں خصوصی دخل ہے۔(۱)
(۱) {وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّأَتْمَمْنٰھَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃًج} (سورۃ الأعراف: ۱۴۲)
عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، قال: حدثنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہو الصادق المصدوق إن أحدکم یجمع خلقہ في بطن أمہ في أربعین یوما، ثم یکون علقۃ مثل ذلک، ثم یکون مضغۃ مثل ذلک، ثم یرسل اللّٰہ إلیہ الملک فینفخ فیہ الروح ویؤمر بأربع: یکتب رزقہ وأجلہ وعملہ وشقي أو سعید، فوالذي لا إلہ غیرہ، وإن أحدکم لیعمل بعمل أہل الجنۃ حتی ما یکون بینہ وبینہا إلا ذراع ثم یسبق علیہ الکتاب، فیختم لہ بعمل أہل النار فیدخلہا، وإن أحدکم لیعمل بعمل أہل النار حتی ما یکون بینہ وبینہما إلا ذراع، ثم یسبق علیہ الکتاب، فیختم لہ بعمل أہل الجنۃ، فیدخلہا، قال أبو عیسی: ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب القدر، باب ما جاء أن الأعمال بالخواتیم‘‘: ج ۲، ص: ۳۵، رقم: ۲۱۳۷)
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی للّٰہ أربعین یوما في جماعۃ یدرک التکبیرۃ الأولی کتب لہ برائتان: برائۃ من النار وبرائۃ من النفاق۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب في فضل التکبیرۃ الأولی‘‘: ج ۱، ص: ۵۶، رقم: ۲۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص327
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آداب مسجد کی رعایت کرتے ہوئے مسجد میں سونا درست ہے، بلکہ اعتکاف کی نیت بھی کرلینی چاہئے۔ مسجد میں سونے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور اسکول میں نظم کریں تو زیادہ بہتر ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ النوم والأکل فیہ لغیر المعتکف، وإذا أراد أن یفعل ذلک ینبغي أن ینوي الاعتکاف فیدخل فیہ ویذکر اللّٰہ تعالیٰ بقدر ما نوی أو یصلي ثم یفعل ما شاء، کذا في السراجیۃ۔ ولا بأس للغریب ولصاحب الدار أن ینام في المسجد في الصحیح من المذہب، والأحسن أن یتورع فلا ینام، کذا في خزانۃ الفتاوی۔ (جماعۃ من العلماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس، في أداب المسجد، والقبلۃ، والمصحف‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۱)
عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، أنہ کان ینام وہو شاب أعزب لا أہل لہ في مسجد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب نوم الرجال في المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۶۳، رقم: ۴۴۰)
وقد سئل سعید بن المسیب وسلیمان بن یسار عن النوم فیہ فقالا: کیف تسألون عنہا وقد کان أہل الصفۃ ینامون فیہ وہم قوم کان مسکنہم المسجد۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب نوم الرجال في المسجد‘‘: ج ۴، ص: ۱۹۸، رقم: ۱۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص328
بدعات و منکرات
Ref. No. 1530/43-1034
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح ڈاکٹر مریض کے احوال دیکھ کر مرض کی تشخیص کرتاہے، اور اندازہ لگالیتاہے کہ اس کو کون سا مرض لاحق ہے، اسی طرح عاملین کچھ آثار سے اور علامات سے جادو یا آسیبی اثرات کی تشخیص کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ہے البتہ عاملین کے اپنے قدیم تجربات ہیں جو لوگوں کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں ، لیکن اس میں غلطی کا امکان بہرحال رہتاہے، تاہم اس کو علم غیب سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک اندازہ ہوتاہے اور اس کے مطابق تعویذ و رقیہ کے ذریعہ اس کا علاج کیاجاتاہے۔ اور تعویذ ورقیہ کی شریعت میں اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ اس میں شرکیہ کوئی بات نہ ہواور عقیدہ کے فساد کا سبب نہ بنے۔ اس لئے ایسے عامل سے علاج کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے جو متبع سنت ہو اور شرکیہ کلمات سے بچتے ہوئے قرآن و حدیث سے علاج کرتاہو۔
’’ عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك»‘‘. صحیح مسلم، (4/ 1727، رقم الحدیث: 2200، باب لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک، ط: دار احیاء التراث العربی)
’’ذكر مالك في " موطئه ": عن زيد بن أسلم: ( «أن رجلاً في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم أصابه جرح، فاحتقن الجرح الدم، وأن الرجل دعا رجلين من بني أنمار، فنظرا إليه، فزعما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لهما: " أيكما أطب"؟ فقال: أو في الطب خير يا رسول الله؟ فقال: " أنزل الدواء الذي أنزل الداء (ففي هذا الحديث أنه ينبغي الاستعانة في كل علم وصناعة بأحذق من فيها فالأحذق، فإنه إلى الإصابة أقرب‘‘.(زاد المعاد فی ھدی خیرالعباد، ص:781، فصل في هديه صلى الله عليه وسلم في الإرشاد إلى معالجة أحذق الطبيبين، دار الفکر بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 40/
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عبادی مذہب کی تفصیلات جانے بغیر کوئی بات نہیں کہی جاسکتی ہے۔ اگر آپ کو ان کی تفصیلات کا علم ہو تو تحریر کریں ، پھر جواب لکھاجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 1531/43-1033
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علم الاعداد حروف ابجد کا ایک علم ہے جوقدیم زمانہ سے چلا آرہاہے۔ قرآنی آیات یا اسماء حسنی وغیرہ کے اعداد نکالنا درست ہے اور اکابر کے تجربہ سے ثابت ہے۔ اور کسی مریض کے احوال معلوم کرنے میں اس سے مدد لینا بھی معروف ہے، البتہ اس علم سےمستقبل میں پیش آنے والی غیب کی خبریں جاننے کا دعوی کرنا غلط ہے۔ جو کچھ اس علم سے احوال معلوم ہوتے ہیں وہ ظنی ہیں، ان پر مکمل یقین نہیں کیاجاسکتاہے۔ اس میں غلطی کا امکان بہرحال رہتاہے، تاہم اس کو علم غیب سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک اندازہ ہوتاہے اور اس کے مطابق تعویذ و رقیہ کے ذریعہ اس کا علاج کیاجاتاہے۔ اور تعویذ ورقیہ کی شریعت میں اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ اس میں شرکیہ کوئی بات نہ ہواور عقیدہ کے فساد کا سبب نہ بنے۔ اس لئے ایسے عامل سے علاج کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے جو متبع سنت ہو اور شرکیہ کلمات سے بچتے ہوئے قرآن و حدیث سے علاج کرتاہو۔
’’ عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك»‘‘. صحیح مسلم، (4/ 1727، رقم الحدیث: 2200، باب لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک، ط: دار احیاء التراث العربی)
’’ذكر مالك في " موطئه ": عن زيد بن أسلم: ( «أن رجلاً في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم أصابه جرح، فاحتقن الجرح الدم، وأن الرجل دعا رجلين من بني أنمار، فنظرا إليه، فزعما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لهما: " أيكما أطب"؟ فقال: أو في الطب خير يا رسول الله؟ فقال: " أنزل الدواء الذي أنزل الداء (ففي هذا الحديث أنه ينبغي الاستعانة في كل علم وصناعة بأحذق من فيها فالأحذق، فإنه إلى الإصابة أقرب‘‘.(زاد المعاد فی ھدی خیرالعباد، ص:781، فصل في هديه صلى الله عليه وسلم في الإرشاد إلى معالجة أحذق الطبيبين، دار الفکر بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر والدین کو خدمت کی ضرورت ہو، تو والدین کی خدمت مقدم ہے۔(۱)
(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رجل للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أجاہد؟ قال لک أبوان؟ قال: نعم! قال ففیہما فجاہد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الأدب: باب لا یجاہد إلا بإذن الأبوین‘‘: ج ۲، ص: ۸۸۳، رقم: ۵۹۷۲)
فیفہم منہ أنہ لا یجاہد إلا إذا أذنا لہ بالجہاد فیجاہد فیکون جہادہ موقوفاً علی إذنہما۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’باب لا یسب الرجل والدیہ‘‘: ج ۴، ص: ۸۳، رقم: ۵۹۷۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص329
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ اچھا ہے۔(۲)
(۲) ولأہلک علیک حقا فأعط کل ذي حق حقہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصوم: باب من أقسم علی أخیہ یفطر في التطوع‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۴، رقم: ۱۹۶۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص329
بدعات و منکرات
Ref. No. 2788/45-4341
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حیض کے خون کو جذب کرنے اور کپڑے کو خون سے آلودہ ہونے سے بچانےکے لئے ، حیض والے کپ کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے، اس میں آسانی ہے اور زیادہ صفائی کا خیال رکھاگیاہے تو شرعا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں تمام انتظامات کے بعد محمد ارشد کا جماعت میں دینی اصلاح کے لئے جانا درست ہے، ایسی اصلاح ہونی چاہئے، وہ جماعت میں جاکر ہو یاکسی دینی مدرسہ، خانقاہ میں یا کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ کر۔(۱)
(۱) یطلق أیضاً: علی مجاہدۃ النفس والشیطان والفساق فأما مجاہدۃ النفس فعلی تعلم أمور الدین ثم علی العمل بہا ثم علی تعلیمہا۔ (ابن حجر، فتح الباري، ’’کتاب الجہاد والسیر‘‘: ج ۶، ص: ۷۷، رقم:۲۷۸۱)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بلغوا عني أي: انقلوا إلی الناس، وأفیدوہم ما أمکنکم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’قولہ کتاب الجہاد‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۷، رقم: ۱۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص331
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد اصلیہ میں داخل تھا کہ اسلام و احکام اسلام کی تبلیغ فرماکر دنیاسے گمراہی و ضلالت کو دور فرمائیں۔ متعدد نصوص قطعیہ اس پر شاہد ہیں {ٰٓیأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط}(۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب ضرورت و موقع دعوت کے طریقے اختیار کئے جس بے نظیر اولو العزم، جانفشانی، مسلسل جدوجہد اور صبر و استقلال سے فرض رسالت و تبلیغ کو ادا کیا وہ اس کی واضح دلیل تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں ہر چیز سے بڑھ کر اپنے فرض منصبی رسالت و ابلاغ کا احساس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعوت اسلام کا کامیاب طریقہ بھی خود ہی مصرح فرمایا {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِوَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُط} (۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ کو ہر قدم پر پیش نظر رکھا اور کامیابی و کامرانی کا اعلیٰ مقام حاصل کیا اس طریقہ دعوت اسلام ہی کو دوسرے مقام پر اس طرح واضح فرمایا {وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِ عِلْمٍط} (۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تازیست پیغام رسالت کو پہونچانے کی پیہم سعی فرمائی، پھر حجۃ الوداع کے موقعہ پر اس ذمہ داری کی تکمیل اس حد تک فرمادی کہ عام خطاب فرمایا کہ جو یہاں موجود ہیں ان پر لازم ہے کہ یہ پیغام ان لوگوں تک پہونچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں، اس طرح یہ سلسلہ قیامت تک کے لئے جاری ہوگیا، یہ سب اسی پیغام کی تکمیل ہے؛ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَہ۱۰۴}(۱) یعنی ایمان، اعتصام بحبل اللہ، اتفاق ، اتحاد اس وقت باقی رہ سکتا ہے، جب مسلمانوں میں ایک خاص جماعت دعوت وارشاد کے لیے باقی رہے اور اس کا طریقہ کار وہ ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں الفاظ بیان کیا ’’من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ الخ‘‘ (۲) یعنی حسب موقع قول و عمل، تقریر وتحریر وعظ و نصیحت اور ذرائع اشاعت وغیرہ کے ذریعہ ہر برائی کو دنیا سے مٹانے کی سعی کی جائے لیکن یہ سعی حسب موقع و حسب استطاعت ہو یعنی اس طریقہ کو اختیار کئے جانے میں کسی فتنہ میں مبتلاء ہونے کا احتمال نہ ہو ظاہر ہے کہ یہ کام وہی حضرات کر سکتے ہیں جو معروف و منکر کا علم رکھنے اور قرآن و سنت سے باخبر ہونے کے ساتھ ذی ہوش و موقع شناس بھی ہوں ورنہ بہت ممکن ہے کہ ایک جاہل آدمی معروف کو منکر ومنکر کو معروف خیال کرکے بجائے اصلاح کے سارا نظام مختل کر دے، یا ایک منکر کی اصلاح کا ایسا طریقہ اختیار کرلے جو اس سے بھی زیادہ منکرات کا موجب ہو جائے یا نرمی کی جگہ سختی اور سختی کی جگہ نرمی برتنے لگے یا احوال و کوائف کو مدنظر نہ رکھ کر عظیم فتنہ میں پڑ جائے شاید اسی لئے مسلمانوں میں سے ایک مخصوص جماعت کو اس منصب پر مامور کیا گیا جو ہر طرح دعوت الی الخیر، امر بالمعروف نہی عن المنکر کی اہل ہو اس مختصر وضاحت کی روشنی میں معلوم ہوا کہ:
(۱) غیر مسلموں میں اسلام اور مسلمانوں میں احکام کی دعوت دینا فرض کفایہ ہے۔
(۲) اسلام واحکام اسلام کی دعوت میں تقدم وتاخر زمانہ واحوال کے اعتبار سے ہے۔
(۳) دعوت اسلام ہو یا دعوت احکام اسلام اس کی ذمہ داری صرف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں؛ بلکہ حسب وضاحت مذکور امت مسلمۃ پر بھی عائد ہوتی ہے۔
(۴) اگر کسی بڑے فتنہ میں مبتلاء ہونے کا احتمال ہو اور اس لئے کسی علاقہ کے لوگوں کو دعوت نہ پہونچ سکی تو ان شاء اللہ امت مسلمۃ ماخوذ نہ ہوگی۔
(۵) جو جماعت دعوت اسلام یا احکام اسلام کا کام انجام دے اس جماعت کا تعاون کرنا بلاشبہ موجب اجر و ثواب ہے۔ {وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰیص} (۱)
(۱) سورۃ المائدۃ: ۶۷۔ (۲) سورۃ النحل: ۱۲۵۔ (۳) سورۃ الإنعام: ۱۰۸۔
(۱) سورۃ النساء: ۱۰۴۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۴۹)
--------------------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص332