بدعات و منکرات

Ref. No. 1531/43-1033

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علم الاعداد حروف ابجد کا ایک علم ہے جوقدیم زمانہ سے چلا آرہاہے۔ قرآنی آیات یا اسماء حسنی وغیرہ  کے اعداد نکالنا درست  ہے اور اکابر کے تجربہ سے ثابت ہے۔  اور کسی مریض کے احوال معلوم کرنے میں اس سے مدد لینا بھی معروف ہے، البتہ اس علم سےمستقبل میں پیش آنے والی  غیب کی خبریں جاننے کا دعوی کرنا غلط ہے۔ جو کچھ اس علم سے احوال معلوم ہوتے ہیں وہ ظنی ہیں، ان پر مکمل یقین نہیں کیاجاسکتاہے۔ اس میں غلطی کا امکان بہرحال رہتاہے، تاہم اس کو علم غیب سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک اندازہ ہوتاہے اور اس کے مطابق تعویذ و رقیہ کے ذریعہ اس کا علاج کیاجاتاہے۔ اور تعویذ ورقیہ کی شریعت میں اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ اس میں شرکیہ کوئی بات نہ ہواور عقیدہ کے فساد کا سبب نہ بنے۔ اس لئے ایسے عامل سے علاج  کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے جو  متبع سنت ہو اور شرکیہ کلمات سے بچتے ہوئے قرآن و حدیث سے علاج کرتاہو۔

’’ عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك»‘‘. صحیح مسلم، (4/ 1727، رقم الحدیث: 2200، باب لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک، ط: دار احیاء التراث العربی)

’’ذكر مالك في " موطئه ": عن زيد بن أسلم: ( «أن رجلاً في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم أصابه جرح، فاحتقن الجرح الدم، وأن الرجل دعا رجلين من بني أنمار، فنظرا إليه، فزعما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لهما: " أيكما أطب"؟ فقال: أو في الطب خير يا رسول الله؟ فقال: " أنزل الدواء الذي أنزل الداء (ففي هذا الحديث أنه ينبغي الاستعانة في كل علم وصناعة بأحذق من فيها فالأحذق، فإنه إلى الإصابة أقرب‘‘.(زاد المعاد  فی ھدی خیرالعباد، ص:781، فصل في هديه صلى الله عليه وسلم في الإرشاد إلى معالجة أحذق الطبيبين، دار الفکر بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر والدین کو خدمت کی ضرورت ہو، تو والدین کی خدمت مقدم ہے۔(۱)

(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رجل للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أجاہد؟ قال لک أبوان؟ قال: نعم! قال ففیہما فجاہد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الأدب: باب لا یجاہد إلا بإذن الأبوین‘‘: ج ۲، ص: ۸۸۳، رقم: ۵۹۷۲)
فیفہم منہ أنہ لا یجاہد إلا إذا أذنا لہ بالجہاد فیجاہد فیکون جہادہ موقوفاً علی إذنہما۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’باب لا یسب الرجل والدیہ‘‘: ج ۴، ص: ۸۳، رقم: ۵۹۷۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص329

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ اچھا ہے۔(۲)

(۲) ولأہلک علیک حقا فأعط کل ذي حق حقہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصوم: باب من أقسم علی أخیہ یفطر في التطوع‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۴، رقم: ۱۹۶۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص329

بدعات و منکرات

Ref. No. 2788/45-4341

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حیض کے خون کو جذب کرنے اور کپڑے کو خون سے آلودہ ہونے سے بچانےکے لئے ، حیض والے کپ کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے، اس میں آسانی ہے اور زیادہ صفائی کا خیال رکھاگیاہے تو شرعا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں تمام انتظامات کے بعد محمد ارشد کا جماعت میں دینی اصلاح کے لئے جانا درست ہے، ایسی اصلاح ہونی چاہئے، وہ جماعت میں جاکر ہو یاکسی دینی مدرسہ، خانقاہ میں یا کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ کر۔(۱)

(۱) یطلق أیضاً: علی مجاہدۃ النفس والشیطان والفساق فأما مجاہدۃ النفس فعلی تعلم أمور الدین ثم علی العمل بہا ثم علی تعلیمہا۔ (ابن حجر، فتح الباري، ’’کتاب الجہاد والسیر‘‘: ج ۶، ص: ۷۷، رقم:۲۷۸۱)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بلغوا عني أي: انقلوا إلی الناس، وأفیدوہم ما أمکنکم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’قولہ کتاب الجہاد‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۷، رقم: ۱۹۸)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص331

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد اصلیہ میں داخل تھا کہ اسلام و احکام اسلام کی تبلیغ فرماکر دنیاسے گمراہی و ضلالت کو دور فرمائیں۔ متعدد نصوص قطعیہ اس پر شاہد ہیں {ٰٓیأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط}(۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب ضرورت و موقع دعوت کے طریقے اختیار کئے جس بے نظیر اولو العزم، جانفشانی، مسلسل جدوجہد اور صبر و استقلال سے فرض رسالت و تبلیغ کو ادا کیا وہ اس کی واضح دلیل تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں ہر چیز سے بڑھ کر اپنے فرض منصبی رسالت و ابلاغ کا احساس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعوت اسلام کا کامیاب طریقہ بھی خود ہی مصرح فرمایا {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِوَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُط} (۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ کو ہر قدم پر پیش نظر رکھا اور کامیابی و کامرانی کا اعلیٰ مقام حاصل کیا اس طریقہ دعوت اسلام ہی کو دوسرے مقام پر اس طرح واضح فرمایا {وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِ عِلْمٍط} (۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تازیست پیغام رسالت کو پہونچانے کی پیہم سعی فرمائی، پھر حجۃ الوداع کے موقعہ پر اس ذمہ داری کی تکمیل اس حد تک فرمادی کہ عام خطاب فرمایا کہ جو یہاں موجود ہیں ان پر لازم ہے کہ یہ پیغام ان لوگوں تک پہونچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں، اس طرح یہ سلسلہ قیامت تک کے لئے جاری ہوگیا، یہ سب اسی پیغام کی تکمیل ہے؛ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَہ۱۰۴}(۱) یعنی ایمان، اعتصام بحبل اللہ، اتفاق ، اتحاد اس وقت باقی رہ سکتا ہے، جب مسلمانوں میں ایک خاص جماعت دعوت وارشاد کے لیے باقی رہے اور اس کا طریقہ کار وہ ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں الفاظ بیان کیا ’’من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ الخ‘‘ (۲) یعنی حسب موقع قول و عمل، تقریر وتحریر وعظ و نصیحت اور ذرائع اشاعت وغیرہ کے ذریعہ ہر برائی کو دنیا سے مٹانے کی سعی کی جائے لیکن یہ سعی حسب موقع و حسب استطاعت ہو یعنی اس طریقہ کو اختیار کئے جانے میں کسی فتنہ میں مبتلاء ہونے کا احتمال نہ ہو ظاہر ہے کہ یہ کام وہی حضرات کر سکتے ہیں جو معروف و منکر کا علم رکھنے اور قرآن و سنت سے باخبر ہونے کے ساتھ ذی ہوش و موقع شناس بھی ہوں ورنہ بہت ممکن ہے کہ ایک جاہل آدمی معروف کو منکر ومنکر کو معروف خیال کرکے بجائے اصلاح کے سارا نظام مختل کر دے، یا ایک منکر کی اصلاح کا ایسا طریقہ اختیار کرلے جو اس سے بھی زیادہ منکرات کا موجب ہو جائے یا نرمی کی جگہ سختی اور سختی کی جگہ نرمی برتنے لگے یا احوال و کوائف کو مدنظر نہ رکھ کر عظیم فتنہ میں پڑ جائے شاید اسی لئے مسلمانوں میں سے ایک مخصوص جماعت کو اس منصب پر مامور کیا گیا جو ہر طرح دعوت الی الخیر، امر بالمعروف نہی عن المنکر کی اہل ہو اس مختصر وضاحت کی روشنی میں معلوم ہوا کہ:
(۱) غیر مسلموں میں اسلام اور مسلمانوں میں احکام کی دعوت دینا فرض کفایہ ہے۔
(۲) اسلام واحکام اسلام کی دعوت میں تقدم وتاخر زمانہ واحوال کے اعتبار سے ہے۔
(۳) دعوت اسلام ہو یا دعوت احکام اسلام اس کی ذمہ داری صرف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں؛ بلکہ حسب وضاحت مذکور امت مسلمۃ پر بھی عائد ہوتی ہے۔
(۴) اگر کسی بڑے فتنہ میں مبتلاء ہونے کا احتمال ہو اور اس لئے کسی علاقہ کے لوگوں کو دعوت نہ پہونچ سکی تو ان شاء اللہ امت مسلمۃ ماخوذ نہ ہوگی۔
(۵) جو جماعت دعوت اسلام یا احکام اسلام کا کام انجام دے اس جماعت کا تعاون کرنا بلاشبہ موجب اجر و ثواب ہے۔ {وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰیص} (۱)

(۱) سورۃ المائدۃ: ۶۷۔    (۲) سورۃ النحل: ۱۲۵۔         (۳) سورۃ الإنعام: ۱۰۸۔
(۱) سورۃ النساء: ۱۰۴۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۴۹)

--------------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص332

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی فکر کرنا اور قرض کو ادا کرنے کی کوشش کرنا اللہ تعالیٰ سے تعلق کی دلیل ہے اور یہ توکل کے منافی بھی نہیں ہے۔ دنیا دار الاسباب ہے، یہاں اسباب اختیار کرنے کے بعد توکل کرنا ہوگا، آپ نماز وتلاوت وغیرہ کے ساتھ ہی تبلیغی جماعت سے جڑے رہیں اور قرض کو جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کریں، قرض کی ادائیگی سے پہلے مزید قرض لینا یا اس کا مشورہ دینا حماقت ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی ہرگز نہ کریں۔(۱)
 

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمٰنٰتِ إِلٰٓی أَھْلِھَالا} (سورۃ النساء: ۵۸)…بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ پر……إن دمائکم وأموالکم وأعراضکم بینکم حرام، الحدیث۔ (تحفۃ الأحوذي، باب ما جاء دمائکم وأموالکم علیکم حرام: ص: ۳۱۳)

----------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص330

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا سیکھنا فرض عین ہے خواہ مدرسہ کے ذریعہ ہو یا خانقاہ کے ذریعہ یا جماعت کے ذریعہ، البتہ تبلیغ میں نکلنا بھی دینی عمل ہے جس سے اصلاح نفس وابستہ ہے۔
’’قال العلامۃ الآلوسي رحمہ اللّٰہ: في ہذ الآیۃ {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط} إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایات۔(۲) وإعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین وہو بقدر ما یحتاج لدینہ وفرض کفایۃ وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ(۱) قال العلامي في فصولہ: من فرائض الإسلام تعلم ما یحتاج إلیہ العبد في إقامۃ دینہ وإخلاص عملہ للّٰہ تعالی ومعاشرۃ عبادہ۔ وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ تعلم علم الوضوء والغسل والصلاۃ والصوم، وعلم الزکاۃ لمن لہ نصاب، والحج لمن وجب علیہ۔(۲)
 

(۲) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ آل عمران: ۱۰۴‘‘: ج ۳، ص: ۳۴۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’المقدمۃ، مطلب في فرض الکفایۃ وفرض العنایۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔
(۲) ’’أیضاً‘‘:۔


--------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص334

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اپنے عقیدہ کی درستگی، اعمال صالحہ کی تحصیل اور دین کے دیگر بنیادی مسائل کا جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے۔(۳) یہ تمام امور دینی مدرسہ، خانقاہ، وغیرہ سے جس طرح حاصل ہوتے ہیں، اسی طرح تبلیغی جماعت میں نکلنے سے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ آج کے دور میں اپنی اصلاح اور لوگوں میں دینی بیداری پیدا کرنے کا یہ موثر طریقہ ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم عام ہے؛ ہر دور میں ہر شخص پر وقت اور حالت کے تقاضہ کے مطابق ضروری ہے۔ اپنے گھر پر رہ کر بھی لوگوں کو نیکی کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا حتی الوسع ضروری ہے۔(۱) اگرآپ اس راہ میں نکلیں گے، تو آپ کو بھی فائدہ ہوگا اور آپ کی ذات سے دوسروں کو بھی فائدہ ہوگا، جو ذخیرہ آخرت ہوگا۔ ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کوسمجھنے اور اس کو پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ خود بھی شامل ہوں اور اپنے متعلقین کو بھی شامل کریں۔ کچھ دن اس راستہ میں لگانے کے بعد ہی اس کا فائدہ آپ کی سمجھ میں آئے گا۔ علاوہ ازیں اپنی اصلاح اور دینی مسائل کو سمجھنے کے لئے علماء سے بھی رابطہ رکھیں۔(۲)

(۳) واعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین وہو بقدر ما یحتاج لدینہ وفرض کفایۃ وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’المقدمۃ، مطلب في فرض الکفایۃ وفرض العنایۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶)
قال العلامي في فصولہ: من فرائض الإسلام تعلم ما یحتاج إلیہ العبد في إقامۃ دینہ وإخلاص عملہ للّٰہ تعالی ومعاشرۃ عبادہ۔ وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ تعلم علم الوضوء والغسل والصلاۃ والصوم، وعلم الزکاۃ لمن لہ نصاب، والحج لمن وجب علیہ۔ (’’أیضاً‘‘)
(۱) إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایات۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني للآلوسي:، ’’سورۃ آل عمران: ۱۰۴‘‘: ج ۳، ص: ۳۴)


--------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص335

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسجدوں میں محراب کے سامنے کرسی رکھ کر تقریر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، البتہ مصلی حضرات سنت ونوافل سے فارغ ہوجائیں تاکہ تقریر کی وجہ سے ان کی نماز سنت ونوافل میں خلل نہ ہو۔(۱)

(۱) إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہي أن یحلق یوم الجمعۃ قبل الصلوٰۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، فرض الجمعۃ، باب الحلق یوم الجمعۃ،قبل الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۳۱۴)
إن المسجد بني للصلوٰۃ وغیرہا تبع لہا بدلیل أنہ إذا ضاق فللمصلي إزعاج القاعد للذکر أو القرائۃ أو التدریس۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الدیات: باب ما یحدثہ الرجل في الطریق وغیرہ‘‘: ج ۱۰، ص: ۲۶۱)

----------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص336