حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سرندیپ میں ہے۔(۲) بعض حضرات مسجد حنیف میں ہونے کے قائل ہیں۔(۱)

(۲) قال علي بن أبي طالب وقتادۃ وأبو العالیہ، أہبط بالہند فقال قوم بل أہبط بسرندیب علی جبل یقال لہ: نود۔ (المنتظم، لابن الجوزي، ’’باب ذکر آدم علیہ السلام‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۸)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: صلی جبریل علی آدم کبر علیہ أربعاً وصلی جبریل بالملائکۃ یومئذ ودفن في مسجد الحنیف واحد من قبل القبلۃ ولحد لہ وکتم کبرہ۔ (’’أیضاً‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص224

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حسب تصریح سیرت خاتم الانبیاء حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں تشریف لائے ہوئے تقریباً ۶۸۴۸؍ چھے ہزار آٹھ سو اڑتالیس سال ہوگئے(۲)۔ حضرت آدم علیہ السلام حسب تصریح النور المبین: ۹۳۰؍(۳) سال اور حسب تصریح حیات الحیوان ۹۴۰؍ سال بقید حیات رہے۔ تاہم اس پر کوئی صحیح حدیث نہیں ملتی، مگر امام ابن عساکر کی عبارت سے مذکورہ وضاحت ملتی ہے۔

(۲) محمد بن إسحاق بن یسار قال: کان من آدم إلی نوح ألف ومائتا سنۃ ومن نوح إلی إبراہیم ألف ومائۃ واثنتان وأربعون سنۃ وبین إبرہیم إلی موسیٰ خمسمائۃ وخمس وستون سنۃ ومن موسیٰ إلی داؤد خمسمائۃ تسعۃ وستون سنۃ ومن داؤد إلی عیسیٰ ألف وثلاثۃ مائۃ وست وخمسون سنۃ ومن عیسیٰ إلی محمد علیہ السلام ستمائۃ سنۃ فذلک خمسۃ آلاف وأربعمائۃ واثنان وثلاثون سنۃ، ہذا الأجمال صحیح۔ (تاریخ دمشق الابن عساکر: ج ۱، ص: ۳۱)
(۳)أحمد بن محمد الصاوي،  تفسیر الصاوي: ج ۱، ص: ۴۹۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص225

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام ’’یوخا بذ‘‘یا ’’یوکا بد‘‘ بنت لاوی بن یعقوب‘‘ تھا۔ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے ثعلبی کا یہی قول نقل کیا ہے اور یہی راجح قول ہے۔(۱)

(۱)امام بغوی رحمہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ان کا نام یوحانذ بنت لاوي بن یعقوب تھا۔ (البغوي،معالم التنزیل(تفسیر بغوي) ج ۳، ص: ۴۲۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص226

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان تو سریانی تھی، مگر جب نمرود کے کارندوں کے ساتھ آپ علیہ السلام نے گفتگو فرمائی، تو اس وقت عبرانی زبان میں گفتگو کی تھی، تاکہ وہ گرفت نہ کرسکیں۔(۲)

(۲) کان آدم علیہ السلام یتکلم باللغۃ السریانیۃ وکذلک أولادہ من الأنبیاء… وغیرہم غیر أن إبراہیم علیہ السلام حولت لغتہ إلی العبرانیۃ حین عبر النہر أي الفرات۔ (عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، باب قول اللّٰہ: ونضع الموازین‘‘: ج ۱، ص: ۵۳، رقم: ۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص226

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پوری حدیث اس طرح ہے:
’’عن عبد اللّٰہ بن عمر بن العاص قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لایقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من الناس ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم یترک عالماً اتخذ الناس رؤساً جہالا فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا‘‘(۱)
اسی حوالہ کے حاشیہ میں اس حدیث کا مطلب مذکور ہے، کہ قیامت سے پہلے دنیا سے علم اٹھالیا جائے گا اور علم کے اٹھانے کی یہ صورت نہیں ہوگی، کہ ایک بارگی لوگوں کے دلوں سے علم نکل جائے گا؛ بلکہ علم اس طرح اٹھے گا کہ دھیرے دھیرے اہل علم اٹھ جائیں گے اور جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا، تو لوگ جاہلوں کو اپنا مقتدیٰ بنائیں گے اور ان سے مسائل معلوم کریں گے، تو وہ ایسے فتوے دیں گے کہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
حاصل یہ ہے کہ اس حدیث میں قیامت کی ایک علامت اور اس کی صورت واقعیہ کو بیان کیا گیا ہے۔

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم: باب ما جاء في ذہاب العلم‘‘: ج ۲، ص: ۳۱، رقم: ۲۶۵۲۔
وعن عبد اللّٰہ بن عمر بن العاص قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لایقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد الخ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳؛ وأخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العلم: باب کیف یقبض العلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۱۰۰)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص73

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت وہب فرماتے ہیں کہ آپ کے بدن پر نور کا لباس پڑا ہوا تھا اور دنیا میں اتارے جانے کے بعد بھیڑ کے بالوں کا خود تیار کردہ جبہ زیب تن فرمایا اور حضرت حواء علیہا السلام کے لئے لفافہ اور اوڑھنی تیار کرکے دی ،انہوں نے وہ استعمال فرمائی۔(۱)

(۱) عن وہب بن منبہ أنہ کان لباسہما من النور۔ (محمد ثناء اللّٰہ پانی پتی، تفسیر المظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۲۲‘‘: ج ۳، ص: ۳۵۹)

فتاوی دارالعلوم وقف  دیوبند ج2ص227

حدیث و سنت

Ref. No. 1544/43-1085

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کی شرمگاہ پر شہوت سے نظر ڈالنے سے اس عورت کے اصول و فروع مرد کے لئے حرام ہوجاتے ہیں یہ احناف کے نزدیک ہے، احناف نے قیاس کے ساتھ اس سلسلہ میں منقول احادیث و آثار کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔ جس حدیث کا آپ نے تذکرہ کیا ہے یہ حدیث اور اس کے علاوہ متعدد آثار اور مرسل روایتیں ہیں، احناف کے یہاں مرسل روایتیں بھی حجت ہیں، بعض روایت اگرچہ مجہول ہے لیکن تعدد طرق سے اس میں قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ علامہ ابن ھمام نے اس پر کافی تفصیلی کلام کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:

أن الآثار جاءت بالحرمة في المس ونحوه. وقد روي في الغاية السمعانية حديث أم هانئ عنه - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «من نظر إلى فرج امرأة بشهوة حرمت عليه أمها وابنتها» وفي الحديث «ملعون من نظر إلى فرج امرأة وابنتها» وعن عمر: أنه جرد جارية ونظر إليها ثم استوهبها منه بعض بنيه فقال: أما إنها لا تحل لك. (فتح القدیر، فصل فی بیان المحرمات 3/224)  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

Ref. No. 2166/44-2245

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مندرجہ ذیل روایتیں امام بیہقی نے سنن کبری میں نقل کی ہیں:

  حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : سنو اور اطاعت کرو، چاہے تم پر گھنگریالے بالوں والا حبشی ہی امیر کیوں نہ بنادیا جائے!(سننِ کبریٰ بیہقی) حضرت ابو ذرؓکہتے ہیں، مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں سنوں اور اطاعت کروں، اگرچہ مجھ پر حبشی غیر مناسب اعضا والا غلام ہی امیر کیوں نہ ہو۔)سننِ کبریٰ بیہقی(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جن حضرات کو قطرات آنے کا صرف وسوسہ ہوتا ہے، ان کے لیے یہ عمل کرنا بہتر ہے اس سے وسوسہ شیطانی ختم ہوجائے گا۔(۱)

۱) ولو عرض لہ الشیطان کثیراً لا یلتفت إلی ذلک، کما في الصلوٰۃ وینضح فرجہ بماء حتی لو رأی بللا حملہ علی بلۃ الماء ہکذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الثالث في الاستنجاء، کیفیۃ الاستنجاء من البول‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص74

حدیث و سنت

Ref. No. 1543/43-1080

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں احناف کا مسلک احتیاط پر مبنی ہے جس کی تائید میں صحابہ کے آثار موجود ہیں، علامہ عینی نے ان آثار کو نقل کیا ہے اس لئے مطلقا مذہب غیر پر عمل کا فتوی نہیں دیاجاسکتاہے ۔ دوسال قبل مباحث فقہیہ جمعیۃ علماء ہند کا اس موضوع پر سیمینار ہواتھا اس کی تجویز یہی ہے کہ مطلقا مذہب غیر پر عمل کا فتوی نہیں دیاجاسکتاہے، ہاں انفرادی طور پر کسی کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آجائے تو وہ مفتی سے رجوع کرے، اگر حالات و قرائن سے مفتی کو مناسب لگے تو خصوصی حالت میں مفتی اس کے لئے مذہب غیر پر عمل کی اجازت دے سکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند