حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:خوشبو دل ودماغ کو معطر کرتی ہے اور عقل میں اضافہ کرتی ہے اور عقل دین کو قائم رکھتی ہے؛ اس لئے خوشبو محبوب ہے اور عورتیں مردوں کے لئے عفت وپاکدامنی اور امت میں اضافہ کا ذریعہ ہیں؛ اس لیے عورتیں محبوب ہیں اور نماز اسلامی رکن اور دین کی بنیاد ہے اور نماز کے وقت دربار خداوندی میں حاضری ہوتی ہے؛ اس لئے نماز محبوب ہے۔(۱)

(۱) وعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعجبہ من الدنیا ثلاثۃ: الطعام والنساء والطیب، فأصاب اثنین ولم یصب واحداً أصاب النساء والطیب ولم یصب الطعام رواہ أحمد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الرقاق: باب فضل الفقراء‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹، رقم: ۵۲۶۰)
وعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعجبہ من الدنیا ثلثۃ) أي ثلاثۃ أشیاء کما في روایۃ (الطعام) أي حفظا لبدنہ وتقویۃ علی دینہ (والنساء) أيصونا النفسہ النفیسہ عن الخواطر الخسیسۃ (والطیب) أي لتقویۃ الدماغ الذي ہو محل العقل عند بعض الحکماء الخ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الرقاق: باب فضل الفقراء وماکان من عیش النبي صلی اللہ علیہ وسلم‘‘: ج ۵، ص: ۲۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص125

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی یہ حدیث بخاری شریف کی ہے اور صحیح روایت ہے؛ البتہ حضرات محدثین نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سب سے اہم مسئلہ جہاد کا تھا، کھیتی میں مشغولی یہ جہاد سے اعراض کا باعث بنتاہے، اور جہاد سے اعراض یہ ذلت کا باعث ہے؛ اس لیے کھیتی کے آلات کے گھر میں ہو نے کو ذلت کا باعث قرار دیا گیا ہے، ورنہ کھیتی ایسی چیز ہے جس پر دنیاکی بنیاد ہے، کھیتی کی چیزیں ہی لوگ کھاتے ہیں؛ اس لیے مطلقاً اس کو ذلت کا باعث نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ہاں بعض اعتبار سے کھیتی میں مشغول لوگ خیر کے کاموں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جیسے وعظ ونصیحت کی مجلس یا صلحاء کی صحبت سے محروم ہوتے ہیں، اس اعتبار سے بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے۔ فیض البار ی میں علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’واعلم أن الحرث والمزارعۃ ملاک العالم، لا یتم نظامہ إلا بہ، ومع ذلک ترد الأحادیث في کراہتہ، فیتحیر منہ الناظر۔ وما ذکرناہ في الحجامۃ لا ینفع ہہنا، فإن الحجام الواحد یکفي لجماعات، بخلاف الحرث۔ وأجیب أن الأہم في عہدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کان الجہاد، والاشتغال بالحرث یوجب الاشتغال عنہ، فذمَّہ(۱) لہذا۔ ثم إن مخالب السلطنۃ تنشب بالمزارع، أکثر مما تنشب بالتاجر۔ وکذا المزارع یحرم من الخیر کثیرًا، فلا یجد فرصۃ لاستماع الوعظ، وصحبۃ الصلحاء۔ والحاصل: أن الشيء إذا دار بین خیر وشر، لا یحکم علیہ بالخیریۃ مطلقا، أو الکراہۃِکذلک۔ ولتجاذب الأطراف، فترد الأحادیثُ فیہ بالنحوین لذلک، فأفہم(۲) ولما ذکر فضل الزرع والغرس في الباب السابق أراد الجمع بینہ وبین حدیث ہذا الباب، لأن بینہما منافاۃ بحسب الظاہر۔ وأشار إلی کیفیۃ الجمع بشیئین أحدہما: ہو قولہ: ما یحذر من عواقب الاشتغال بآلۃ الزرع، وذلک إذا اشتغل بہ فضیع بسببہ ما أمر بہ۔ والْآخر: ہو قولہ: أو مجاوزۃ الحد، وذلک فیما إذا لم یضیع، ولکنہ جاوز الحد فیہ۔ وقال الداوردي: ہذا لمن یقرب من العدو فإنہ إذا اشتغل بالحرث لا یشتغل بالفروسیۃ ویتأسد علیہ العدو، وأما غیرہم فالحرث محمود لہم۔ وقال عزوجل: {وأعدوا لہم ما استطعتم} (الأنفال:۶) ولا یقوم إلا بالزراعۃ۔ ومن ہو بالثغور المتقاربۃ للعدو لا یشتغل بالحرث، فعلی المسلمین أن یمدوہم بما یحتاجون إلیہ۔(۱)
 

(۱) عن أبي أمامۃ الباہلي قال: ورأی سکۃ وشیئاً من آلۃ  الحرث فقال سمعت النبي رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول: لا یدخل ہذا بیت قوم إلا أدخلہ الذل۔ (بدر الدین العیني، عمدۃ القاري، ’’باب ما یحذر من عوقب‘‘: ج ۱۲، ص: ۱۵۶)
ما ذکر من آلۃ الحرث بیت قومٍ إلا أدخلہ أي: اللّٰہ کما في نسخۃ صحیحۃ (الذل) بضم أولہ أي: المذلۃ بأداء الخراج والعشر، والمقصود الترغیب والحث علی الجہاد۔ قال التوربشتي: و إنما جعل آلۃ الحرث مذلۃ للذل لأن أصحابہا یختارون ذلک إما بالجبن في النفس، أو قصور في الہمۃ، ثم إن أکثرہم ملزومون بالحقوق السلطانیۃ في أرض الخراج ولو آثروا الخراج لدرت علیہم الأرزاق واتسعت علیہم المذاہب، وجبی لہم الأموال مکان ما یجبی عنہم۔ قیل: قریب من ہذا المعنی حدیث۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرخ مشکاۃ المصابیح، ’’باب المساقاۃ والمزارعۃ‘‘: ج ۵، ص: ۱۹۸۹، رقم: ۲۹۷۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص126

حدیث و سنت

Ref. No. 1620/43-1316

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احادیث کی کتابوں میں ہمیں یہ دعا نہیں ملی۔ البتہ اس دعا کے الفاظ میں کوئی خرابی نہیں ہے، اس لئے یہ دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

Ref. No. 1817/43-1674

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ الفاظ الگ الگ ہیں لیکن مقصود ایک  ہی ہے، جو بھی دیندار، متقی اور ولی ہوگا، وہ ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرے گا، اور اوامر پر عمل پیرا ہوگا۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سرندیپ میں ہے۔(۲) بعض حضرات مسجد حنیف میں ہونے کے قائل ہیں۔(۱)

(۲) قال علي بن أبي طالب وقتادۃ وأبو العالیہ، أہبط بالہند فقال قوم بل أہبط بسرندیب علی جبل یقال لہ: نود۔ (المنتظم، لابن الجوزي، ’’باب ذکر آدم علیہ السلام‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۸)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: صلی جبریل علی آدم کبر علیہ أربعاً وصلی جبریل بالملائکۃ یومئذ ودفن في مسجد الحنیف واحد من قبل القبلۃ ولحد لہ وکتم کبرہ۔ (’’أیضاً‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص224

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حسب تصریح سیرت خاتم الانبیاء حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں تشریف لائے ہوئے تقریباً ۶۸۴۸؍ چھے ہزار آٹھ سو اڑتالیس سال ہوگئے(۲)۔ حضرت آدم علیہ السلام حسب تصریح النور المبین: ۹۳۰؍(۳) سال اور حسب تصریح حیات الحیوان ۹۴۰؍ سال بقید حیات رہے۔ تاہم اس پر کوئی صحیح حدیث نہیں ملتی، مگر امام ابن عساکر کی عبارت سے مذکورہ وضاحت ملتی ہے۔

(۲) محمد بن إسحاق بن یسار قال: کان من آدم إلی نوح ألف ومائتا سنۃ ومن نوح إلی إبراہیم ألف ومائۃ واثنتان وأربعون سنۃ وبین إبرہیم إلی موسیٰ خمسمائۃ وخمس وستون سنۃ ومن موسیٰ إلی داؤد خمسمائۃ تسعۃ وستون سنۃ ومن داؤد إلی عیسیٰ ألف وثلاثۃ مائۃ وست وخمسون سنۃ ومن عیسیٰ إلی محمد علیہ السلام ستمائۃ سنۃ فذلک خمسۃ آلاف وأربعمائۃ واثنان وثلاثون سنۃ، ہذا الأجمال صحیح۔ (تاریخ دمشق الابن عساکر: ج ۱، ص: ۳۱)
(۳)أحمد بن محمد الصاوي،  تفسیر الصاوي: ج ۱، ص: ۴۹۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص225

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام ’’یوخا بذ‘‘یا ’’یوکا بد‘‘ بنت لاوی بن یعقوب‘‘ تھا۔ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے ثعلبی کا یہی قول نقل کیا ہے اور یہی راجح قول ہے۔(۱)

(۱)امام بغوی رحمہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ان کا نام یوحانذ بنت لاوي بن یعقوب تھا۔ (البغوي،معالم التنزیل(تفسیر بغوي) ج ۳، ص: ۴۲۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص226

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان تو سریانی تھی، مگر جب نمرود کے کارندوں کے ساتھ آپ علیہ السلام نے گفتگو فرمائی، تو اس وقت عبرانی زبان میں گفتگو کی تھی، تاکہ وہ گرفت نہ کرسکیں۔(۲)

(۲) کان آدم علیہ السلام یتکلم باللغۃ السریانیۃ وکذلک أولادہ من الأنبیاء… وغیرہم غیر أن إبراہیم علیہ السلام حولت لغتہ إلی العبرانیۃ حین عبر النہر أي الفرات۔ (عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، باب قول اللّٰہ: ونضع الموازین‘‘: ج ۱، ص: ۵۳، رقم: ۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص226

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پوری حدیث اس طرح ہے:
’’عن عبد اللّٰہ بن عمر بن العاص قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لایقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من الناس ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم یترک عالماً اتخذ الناس رؤساً جہالا فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا‘‘(۱)
اسی حوالہ کے حاشیہ میں اس حدیث کا مطلب مذکور ہے، کہ قیامت سے پہلے دنیا سے علم اٹھالیا جائے گا اور علم کے اٹھانے کی یہ صورت نہیں ہوگی، کہ ایک بارگی لوگوں کے دلوں سے علم نکل جائے گا؛ بلکہ علم اس طرح اٹھے گا کہ دھیرے دھیرے اہل علم اٹھ جائیں گے اور جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا، تو لوگ جاہلوں کو اپنا مقتدیٰ بنائیں گے اور ان سے مسائل معلوم کریں گے، تو وہ ایسے فتوے دیں گے کہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
حاصل یہ ہے کہ اس حدیث میں قیامت کی ایک علامت اور اس کی صورت واقعیہ کو بیان کیا گیا ہے۔

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم: باب ما جاء في ذہاب العلم‘‘: ج ۲، ص: ۳۱، رقم: ۲۶۵۲۔
وعن عبد اللّٰہ بن عمر بن العاص قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لایقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد الخ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳؛ وأخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العلم: باب کیف یقبض العلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۱۰۰)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص73

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت وہب فرماتے ہیں کہ آپ کے بدن پر نور کا لباس پڑا ہوا تھا اور دنیا میں اتارے جانے کے بعد بھیڑ کے بالوں کا خود تیار کردہ جبہ زیب تن فرمایا اور حضرت حواء علیہا السلام کے لئے لفافہ اور اوڑھنی تیار کرکے دی ،انہوں نے وہ استعمال فرمائی۔(۱)

(۱) عن وہب بن منبہ أنہ کان لباسہما من النور۔ (محمد ثناء اللّٰہ پانی پتی، تفسیر المظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۲۲‘‘: ج ۳، ص: ۳۵۹)

فتاوی دارالعلوم وقف  دیوبند ج2ص227