حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سلطان سے مراد ہر صاحب اقتدار بادشاہ ہے۔(۱)

(۱) أفضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الملاحم: باب الأمر والنہي‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۷، رقم: ۴۳۴۴)
نقل في الحاشیۃ: عن مرقات الصعود قال الخطابي: وإنما صار ذلک أفضل الجہاد لأن من جاہد العدو کان مترددا بین رجاء وخوف لا یدري ہل یغلب أو یغلب وصاحب السلطان مقہور في یدہ فہو إذا قال الحق وأمرہ بالمعروف فقد نعرض للتلف واہراق نفسہ للہلاک فصار ذلک أفضل أنواع الجہاد من أجل غلبۃ الخوف۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجہود، ’’کتاب الملاحم: باب الأمر بالمعروف الخ‘‘: ج ۵، ص: ۱۱۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص75

حدیث و سنت

Ref. No. 2768/45-4309

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ انسان کو اپنی صلاحیت کے مطابق کتابیں پڑھنی چاہئے، تاکہ اس کو صحیح طور پر سمجھ سکے اور اس پر مکمل طور پر عمل کر سکے، احادیث کی بھی بہت سی کتابیں اسی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہیں اس سلسلے میں حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب کی معارف الحدیث بہت عمدہ ہے اسی طرح حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی صاحب کی ترجمان السنۃ ہے، حضرت مفتی سعید احمد صاحب کی تحفہ المعی بھی حدیث کو سمجھنے کے لیے مفید کتاب ہے تاہم یہ ترمذی کی شرح ہے جس میں بعض بحثیں علمی ہیں اسی طرح مختلف جگہوں پر سند سے کلام ہوتا ہے جو عام لوگوں کے لیے نہیں ہے، حجۃ اللہ البالغہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی ہے اس کی شرح مفتی سعید احمد صاحب کی رحمت اللہ الواسعہ کے نام سے ہے اس کے مباحث دقیق ہیں جو عام لوگوں کے فہم سے بلند ہیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطبہ حجۃ الوداع میں سواری پر سوار ہوکر دیا۔(۲)

(۲) عن خالد بن العداء، قال: رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخطب الناس…… یوم عرفۃ علی بعیر قائما في الرکابین۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب المناسک: باب الخطبۃ علی المنبر بعرفۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۵، رقم: ۱۹۱۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص75

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث ترمذی شریف میں موجود ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو سندا ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔(۱) اس حدیث میں کلونجی کے استعمال کی ترغیب ہے۔کاروبار کے لیے اگر اس کے فضائل وترغیب کو بیان کردیا جائے، تو کوئی مضائقہ نہیں۔(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ج۲، ص:۲۵، رقم:۱۳۸۳
(۲)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: علیکم بہذہ الحبۃ السوداء، فإن فیہا شفاء من کل داء إلا السام، والسام الموت۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطب: باب ما جاء في الحبۃ السوداء‘‘: ج ۲، ص: ۲۴، رقم: ۱۳۸۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص76

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث موضوع نہیں ہے؛ ہاں ایک روای کے نام میں اضطراب کی وجہ سے ضعیف ہے۔ امام ترمذی، امام احمد اور ابن حبان وغیرہ نے اپنی کتابوں میں اس کو نقل کیا ہے، امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کرکے ’’ہذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ‘‘ کا حکم لگایا ہے؛ اس لیے یہ حدیث موضوع نہیں ہے۔ جمعہ کے خطبہ وغیرہ میں اس کا پڑھنا درست ہے۔
’’عن عبد اللّٰہ بن مغفل، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ اللّہ في أصحابي، لا تتخذوہم غرضا من بعدي، فمن أحبہم فبحبي أحبہم، ومن أبغضہم فببغضي أبغضہم، ومن آذاہم فقد أٓذاني، ومن أٓذاني فقد آذی اللّٰہ، ومن آذی اللّٰہ فیوشک أن یأخذہ ہذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ۔(۱) إسنادہ ضعیف۔ عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن، ویقال: عبد الرحمن بن زیاد، ویقال عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ، وقال الذہبي: لا یعرف۔ وجاء في ’’التہذیب‘‘ في ترجمۃ عبد الرحمن بن زیاد: قیل إنہ أخو عبید اللّٰہ بن زیاد بن أبیہ، وقیل: عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن۔(۲)

 (۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب المناقب، باب في من سب أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵، رقم: ۳۸۶۲۔
(۲) أخرجہ محمد بن حبان بن أحمد، في صحیح ابن حبان، ’’باب ذکر الزجر عن اتخاذ المرء أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم غرضاً بالتنقص‘‘: ج ۸، ص: ۲۴۴، رقم: ۷۲۵۶۔
إسنادہ ضعیف لجہالۃ عبد الرحمن بن زیاد أو عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ، أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۳۴، ص: ۱۶۹، رقم: ۲۰۵۴۸۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص128

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:متعدد احادیث سے اس کا ثبوت ہے، کہ اس مبارک مہینہ میں نفل کا ثواب فرض کے برابر ہوتا ہے۔(۱)

(۱) فمن تطوع فیہ بخصلۃ من الخیر کان کمن أدی فریضۃ فیما سواہ۔…(مسند الحارث، ’’باب في فضل شہر رمضان‘‘: رقم: ۳۲۱؛ صحیح ابن خزیمۃ، ’’باب فضائل شہر رمضان‘‘: رقم: ۱۸۸۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص129

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ ہیں۔(۲)

(۲) دحیۃ بن خلیفۃ بن فروہ الخ وکان جبرئیل علیہ السلام ینزل علی صورتہ۔ (ابن حجر العسقلاني، الإصابۃ في تمییز الصحابۃ: ج ۲، ص: ۳۲۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص129

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کتاب فردوس سے جن الفاظ سے آپ نے حدیث نقل کی ہے، وہ کتب صحاح ستہ میں نہیں ہے؛ البتہ دیگر احادیث موجود ہیں، جن سے علماء کی عزت اور ان کے احترام کرنے کا حکم ملتا ہے۔ بخاری شریف میں ہے ’’إن علماء ہم ورثۃ الأنبیاء، ورّثوا العلم من أخذہ أخذ بحظ وافر‘‘(۱) قرآن کریم میں ہے: {إنما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء، وما یعقلہا الالعالمون، وقال ہل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون، من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین، وأما العلم بالتعلیم} دین ومذہب اور احکامِ شریعت سے واقف کردینے والے علماء حق ہی ہیں، اگر ان کا اتباع نہ کیا جائے، تو ضلالت وگمراہی پھیل جائے۔(۱)

(۱) عن قیس بن کثیر عن أبي الدرداء رضي اللّٰہ عنہ، أن الني صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم، قال: من سلک طریقاً یطلب فیہ علماً سہل اللّٰہ لہ طریقاً إلی الجنۃ، وأن الملائکۃ لتضع أجنحتہا رضي لطالب العلم، وأن العالم لیستغفر لہ من في السموٰت ومن في الأرض، حتی الحیتان في الماء۔ وفضل العالم علی العابد کفضل القمر لیلۃ البدر علی سائر الکواکب، وأن العلماء ورثۃ الأنبیاء، وأن الأنبیاء، علیہم السلام، لم یورثوا دیناراً ولا درہما، وإنما ورثوا العلم فمن أخذہ أخذ بحظ وافر۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاری، ’’باب العلم قبل القول والعمل لقولہ تعالیٰ {فَاعْلَمْ أَنَّہٗ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ} (سورۃ المحمد: ۱۹) فبدأ بالعلم‘‘: ج ۲، ص: ۳۹، رقم: ۶۷)
وإنما ورثوا العلم): لإظہار الإسلام ونشر الأحکام أو بأحوال الظاہر والباطن علی تباین أجناسہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۶، رقم: ۲۱۲)
قال ابن حجر: والفقہ ہو الفہم قال اللّٰہ تعالیٰ: لا یکادون یفقہون حدیثا، أي: لا یفہمون والمراد الفہم في الأحکام الشرعیۃ قولہ: وإنما العلم بالتعلم ہو حدیث مرفوعٌ، أیضاً: أوردہ بن أبي عاصم والطبراني من حدیث معاویۃٌ أیضاً: بلفظ یا أیہا الناس: تعلموا إنما العلم بالتعلم والفقہ بالتفقہ ومن یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین إسنادہ حسنٌ۔ (ابن حجر، فتح الباري شرح صحیح البخاري، ’’کتاب العلم: قولہ باب العلم قبل القول والعمل‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۱، رقم: ۶۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص130

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں اس رات کی عظمت و شرافت و کرامت کی وجہ سے اس کو لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر ورّاق ؒ فرماتے ہیں کہ گناہوں کی وجہ سے جس آدمی کی کوئی قدر وعظمت اللہ کے یہاں نہیں ہوتی وہ شخص اس رات میں توبہ و استغفار کرکے، عبادت کرکے صاحب قدر ومنزلت ہو جاتا ہے۔ اور قدر کے دوسرے معنی تقدیر و حکم کے بھی آتے ہیں چونکہ سال بھر کے حالات ومعاملات اس رات میں لکھے جاتے ہیں اس لئے اس کو قدر کہتے ہیں۔(۱)

(۱) وقال مجاہد: سلام الملائکۃ والروح علیک تلک اللیلۃ خیر من سلام الخلق علیک ألف شہر۔ قولہ: {تنزل الملائکۃ والروح} أي: جبریل علیہ والسلام {فیہا} أي: لیلۃ القدر، قولہ: {من کل أمر} أي: تنزل من أجل کل أمر قضاہ اللّٰہ وقدرہ في تلک السنۃ إلی قابل، تم الکلام عند قولہ: {من کل أمر} ثم ابتدأ فقال: {سلام} أي: ما لیلۃ القدر إلا سلامۃ وخیر کلہا لیس فیہا شر وقال الضحاک، لا یقدر اللّٰہ في تلک اللیلۃ إلا السلامۃ کلہا، فأما اللیالي الأخر فیقضي فیہن البلاء والسلامۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح: ج ۱۱، ص: ۱۲۹)
فضل لیلۃ القدر ثبت في روایۃ أبي ذر قبل الباب بسلمۃ، ومعنی لیلۃ القدر: لیلۃ تقدیر الأمور وقضائہا والحکم الفضل، یقضي اللّٰہ فیہا قضاء السنۃ، وہو مصدر قولہم: قدر اللّٰہ الشيء قدرا وقدراً، لغتان، کالنہر والنہر، وقدرہ تقدیرا بمعنی واحد۔ وقیل: سمیت بذلک الخطرہا وشرفہا۔ وعن الزہري: ہي لیلۃ العظمۃ والشرف، من قول الناس: فلان عند الأمیر قدر، أي: جاہ ومنزلۃ۔ ویقال: قدرت فلاناً، أي: عظمتہ، قال اللّٰہ تعالیٰ: {وما قدروا اللّٰہ حق قدرہ}۔ أي: ما عظموہ حق عظمتہ۔ (العیني، عمدۃ القاري: ج ۱۱، ص: ۲۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص131

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بعض معتبر تفاسیر میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح زلیخا سے ہوا ہے؛ چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی تفسیر معارف القرآن میں ہے  بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس زمانہ میں عزیز مصر (قطمیر) کا انتقال ہوگیا تو شاہ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کی شادی کرادی۔ حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زلیخا کے بطن سے دو لڑکے بھی پیدا ہوئے، ایک کا نام افرایم، دوسرے کا نام منشا تھا۔ تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر، معارف القرآن میں دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک سو دس سال یا ایک سو سات سال کی عمر میں وفات پائی اور عزیز مصر کی عورت کے بطن سے ان کے دو لڑکے پیدا ہوئے اور ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی۔ ایک کا نام افرایم، دوسرے کا نام میشا تھا اور لڑکی کا نام رحمت تھا، جو حضرت ایوب علیہ السلام کے نکاح میں آئیں۔(۱)

(۱) وکان الذي اشتراہ من مصر عزیز ہا وہو الوزیر: حدثنا العوفي عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، وکان إسمہ قطفیر، وقال محمد بن إسحاق: اسمہ أطفیر بن روحیب وہو العزیز وکان علی خزائن مصر، وکان الملک یومئذ الریان بن الولید رجلٌ من العمالیق۔ وقال: وإسم إمرائۃ واعیل بنت دعائیل، وقال غیرہ إسمہا زلیخا۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ یوسف‘‘: ج ۴، ص: ۳۲۴)
وقال اشتراہ من مصر یعني قطفیر لإمراء تہ إسمہا راعیل وقیل زلیخا۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتیؒ، تفسیر المظہري، ’’سورۃ یوسف‘‘: ج ۵، ص: ۱۵۱)
مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن ’’سورۃ یوسف: ۲۱‘‘: ج ۵، ص: ۸۹۔
محمد إدریس کاندھلويؒ، معارف القرآن ’’سورۃ یوسف: ۲۱‘‘: ج ۴۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص227