Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
Ref. No. 1544/43-1085
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کی شرمگاہ پر شہوت سے نظر ڈالنے سے اس عورت کے اصول و فروع مرد کے لئے حرام ہوجاتے ہیں یہ احناف کے نزدیک ہے، احناف نے قیاس کے ساتھ اس سلسلہ میں منقول احادیث و آثار کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔ جس حدیث کا آپ نے تذکرہ کیا ہے یہ حدیث اور اس کے علاوہ متعدد آثار اور مرسل روایتیں ہیں، احناف کے یہاں مرسل روایتیں بھی حجت ہیں، بعض روایت اگرچہ مجہول ہے لیکن تعدد طرق سے اس میں قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ علامہ ابن ھمام نے اس پر کافی تفصیلی کلام کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
أن الآثار جاءت بالحرمة في المس ونحوه. وقد روي في الغاية السمعانية حديث أم هانئ عنه - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «من نظر إلى فرج امرأة بشهوة حرمت عليه أمها وابنتها» وفي الحديث «ملعون من نظر إلى فرج امرأة وابنتها» وعن عمر: أنه جرد جارية ونظر إليها ثم استوهبها منه بعض بنيه فقال: أما إنها لا تحل لك. (فتح القدیر، فصل فی بیان المحرمات 3/224)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 2166/44-2245
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مندرجہ ذیل روایتیں امام بیہقی نے سنن کبری میں نقل کی ہیں:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : سنو اور اطاعت کرو، چاہے تم پر گھنگریالے بالوں والا حبشی ہی امیر کیوں نہ بنادیا جائے!(سننِ کبریٰ بیہقی) حضرت ابو ذرؓکہتے ہیں، مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں سنوں اور اطاعت کروں، اگرچہ مجھ پر حبشی غیر مناسب اعضا والا غلام ہی امیر کیوں نہ ہو۔)سننِ کبریٰ بیہقی(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جن حضرات کو قطرات آنے کا صرف وسوسہ ہوتا ہے، ان کے لیے یہ عمل کرنا بہتر ہے اس سے وسوسہ شیطانی ختم ہوجائے گا۔(۱)
۱) ولو عرض لہ الشیطان کثیراً لا یلتفت إلی ذلک، کما في الصلوٰۃ وینضح فرجہ بماء حتی لو رأی بللا حملہ علی بلۃ الماء ہکذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الثالث في الاستنجاء، کیفیۃ الاستنجاء من البول‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص74
حدیث و سنت
Ref. No. 1543/43-1080
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں احناف کا مسلک احتیاط پر مبنی ہے جس کی تائید میں صحابہ کے آثار موجود ہیں، علامہ عینی نے ان آثار کو نقل کیا ہے اس لئے مطلقا مذہب غیر پر عمل کا فتوی نہیں دیاجاسکتاہے ۔ دوسال قبل مباحث فقہیہ جمعیۃ علماء ہند کا اس موضوع پر سیمینار ہواتھا اس کی تجویز یہی ہے کہ مطلقا مذہب غیر پر عمل کا فتوی نہیں دیاجاسکتاہے، ہاں انفرادی طور پر کسی کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آجائے تو وہ مفتی سے رجوع کرے، اگر حالات و قرائن سے مفتی کو مناسب لگے تو خصوصی حالت میں مفتی اس کے لئے مذہب غیر پر عمل کی اجازت دے سکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سلطان سے مراد ہر صاحب اقتدار بادشاہ ہے۔(۱)
(۱) أفضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الملاحم: باب الأمر والنہي‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۷، رقم: ۴۳۴۴)
نقل في الحاشیۃ: عن مرقات الصعود قال الخطابي: وإنما صار ذلک أفضل الجہاد لأن من جاہد العدو کان مترددا بین رجاء وخوف لا یدري ہل یغلب أو یغلب وصاحب السلطان مقہور في یدہ فہو إذا قال الحق وأمرہ بالمعروف فقد نعرض للتلف واہراق نفسہ للہلاک فصار ذلک أفضل أنواع الجہاد من أجل غلبۃ الخوف۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجہود، ’’کتاب الملاحم: باب الأمر بالمعروف الخ‘‘: ج ۵، ص: ۱۱۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص75
حدیث و سنت
Ref. No. 2768/45-4309
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ انسان کو اپنی صلاحیت کے مطابق کتابیں پڑھنی چاہئے، تاکہ اس کو صحیح طور پر سمجھ سکے اور اس پر مکمل طور پر عمل کر سکے، احادیث کی بھی بہت سی کتابیں اسی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہیں اس سلسلے میں حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب کی معارف الحدیث بہت عمدہ ہے اسی طرح حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی صاحب کی ترجمان السنۃ ہے، حضرت مفتی سعید احمد صاحب کی تحفہ المعی بھی حدیث کو سمجھنے کے لیے مفید کتاب ہے تاہم یہ ترمذی کی شرح ہے جس میں بعض بحثیں علمی ہیں اسی طرح مختلف جگہوں پر سند سے کلام ہوتا ہے جو عام لوگوں کے لیے نہیں ہے، حجۃ اللہ البالغہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی ہے اس کی شرح مفتی سعید احمد صاحب کی رحمت اللہ الواسعہ کے نام سے ہے اس کے مباحث دقیق ہیں جو عام لوگوں کے فہم سے بلند ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطبہ حجۃ الوداع میں سواری پر سوار ہوکر دیا۔(۲)
(۲) عن خالد بن العداء، قال: رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخطب الناس…… یوم عرفۃ علی بعیر قائما في الرکابین۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب المناسک: باب الخطبۃ علی المنبر بعرفۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۵، رقم: ۱۹۱۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص75
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث ترمذی شریف میں موجود ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو سندا ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔(۱) اس حدیث میں کلونجی کے استعمال کی ترغیب ہے۔کاروبار کے لیے اگر اس کے فضائل وترغیب کو بیان کردیا جائے، تو کوئی مضائقہ نہیں۔(۲)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ج۲، ص:۲۵، رقم:۱۳۸۳
(۲)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: علیکم بہذہ الحبۃ السوداء، فإن فیہا شفاء من کل داء إلا السام، والسام الموت۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطب: باب ما جاء في الحبۃ السوداء‘‘: ج ۲، ص: ۲۴، رقم: ۱۳۸۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص76
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث موضوع نہیں ہے؛ ہاں ایک روای کے نام میں اضطراب کی وجہ سے ضعیف ہے۔ امام ترمذی، امام احمد اور ابن حبان وغیرہ نے اپنی کتابوں میں اس کو نقل کیا ہے، امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کرکے ’’ہذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ‘‘ کا حکم لگایا ہے؛ اس لیے یہ حدیث موضوع نہیں ہے۔ جمعہ کے خطبہ وغیرہ میں اس کا پڑھنا درست ہے۔
’’عن عبد اللّٰہ بن مغفل، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ اللّہ في أصحابي، لا تتخذوہم غرضا من بعدي، فمن أحبہم فبحبي أحبہم، ومن أبغضہم فببغضي أبغضہم، ومن آذاہم فقد أٓذاني، ومن أٓذاني فقد آذی اللّٰہ، ومن آذی اللّٰہ فیوشک أن یأخذہ ہذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ۔(۱) إسنادہ ضعیف۔ عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن، ویقال: عبد الرحمن بن زیاد، ویقال عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ، وقال الذہبي: لا یعرف۔ وجاء في ’’التہذیب‘‘ في ترجمۃ عبد الرحمن بن زیاد: قیل إنہ أخو عبید اللّٰہ بن زیاد بن أبیہ، وقیل: عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن۔(۲)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب المناقب، باب في من سب أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵، رقم: ۳۸۶۲۔
(۲) أخرجہ محمد بن حبان بن أحمد، في صحیح ابن حبان، ’’باب ذکر الزجر عن اتخاذ المرء أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم غرضاً بالتنقص‘‘: ج ۸، ص: ۲۴۴، رقم: ۷۲۵۶۔
إسنادہ ضعیف لجہالۃ عبد الرحمن بن زیاد أو عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ، أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۳۴، ص: ۱۶۹، رقم: ۲۰۵۴۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص128
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:متعدد احادیث سے اس کا ثبوت ہے، کہ اس مبارک مہینہ میں نفل کا ثواب فرض کے برابر ہوتا ہے۔(۱)
(۱) فمن تطوع فیہ بخصلۃ من الخیر کان کمن أدی فریضۃ فیما سواہ۔…(مسند الحارث، ’’باب في فضل شہر رمضان‘‘: رقم: ۳۲۱؛ صحیح ابن خزیمۃ، ’’باب فضائل شہر رمضان‘‘: رقم: ۱۸۸۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص129