Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
Ref. No. 2624/45-3984
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قیامت کے دن ہرجان کواس کے جسم میں لوٹا دیاجائے گااور روح اپنےجسم کی جانب پرواز کرے گی اور اعمال نامے دائیں اور بائیں جانب پرواز کرکے انسانوں تک پہنچ جائیں گے۔ دنیا میں ہمارا اعمال نامہ جوفرشتے تیارکرتے ہیں وہ پوشیدہ ہیں اور قیامت میں وہ ظاہر ہوں گے۔انسان کا ہر عمل اور ہر گناہ و ثواب بالکل واضح ہوگا، پھر بھی اس سے اقرار کرایاجائے گا اور اقرار کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ انسان کا سونا‘ جاگنا اوراس کے جسم کے تمام اعضاء اس کے اعمال کے گواہ ہوں گے۔ اپنی ذمہ داریوں میں جو کوتاہی کی ہو گی وہ بھی اس کے سامنے ہوگی اور اس پر جزا یا سزا کا ترتب ہوگا۔ وغیرہ
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت زکریا علیہ السلام کی اہلیہ کا نام ایشاع بنت فاقوذ ہے۔(۱)
(۱) قولہ تعالیٰ: {وکانت امرأتي عاقراً} امرأتہ ہي إیشاع بنت فاقوذ ابن قبیل، وہي أخت حنہ بنت فاقوذا قالہ الطبري، وحنۃ ہي أمّ مریم۔
وقال القرطبي: امرأۃ زکریا ہي إیشاع بنت عمران فعلی ہذا القول: یکون یحییٰ ابن خالۃ عیسیٰ علیہما السلام علی الحقیقۃ، وعلی القول الأخر یکون ابن خالۃ أمہ۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد، تفسیر القرطبي، ’’سورۃ مریم: ۱۵‘‘: ج ۱۱، ص: ۷۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص228
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت مریم علیہا السلام کے والد کا نام عمران اور والدہ کا نام حَنَّہ ہے۔(۲)
(۲)أحمد بن محمد الصاوي، تفسیر الصاوي: ج۳، ص ۳۶۔
{إِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ إِنِّيْ نَذَرْتُ لَکَ مَافِيْ بَطْنِيْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّيْج إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُہ۳۵} (سورۃ آل عمران: ۳۵)
قال الدمشقي: إمراء ۃ عمران ہذہ أم مریم بنت عمران علیہا السلام وہي حنہ بنت فاقوذ۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ آل عمران: ۳۵‘‘ : ج ۴، ص: ۳۲۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص229
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت یوسف علیہ السلام کے زلیخا سے دو لڑکے پیدا ہوئے۔ ’’افراثیم، میشا‘‘ (۱)
(۱) وقیل إنہ لما مات زوجہ إمرأتہ زلیخا فوجدہا عذراء، لأن زوجہا کان لا یأتي النساء فولدت لیوسف علیہ السلام رجلین وہما افراثیم ومنشا۔ (ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ’’ذکر ما وقع من الأمور‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰)
فزوج الملک یوسف راعیل امرأۃ العزیز، فلما دخل علیہا قال: ألیس ہذا خیراً مما کنت تریدین؟ فقالت: أیہا الصدیق لا تلمني، فأني کنت المرأۃ حسناء ناعمۃ کما تری، وکان صاحبي لا یأتي النساء، وکنت کما جعلک اللّٰہ من الحسن فغلبتني نفسي۔ فوجدہا یوسف عذراء فأصابہا فولدت لہ رجلین إفراثیم بن یوسف، ومنشا بن یوسف۔ (القرطبي، الجامع لأحکام القرآن: ج ۹، ص: ۲۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص230
حدیث و سنت
Ref. No. 1822/43-1586
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو شخص بھی چند لوگوں کا ذمہ دار ہوگا، اس پر ان کے درمیان عدل و انصاف کرنا لازم ہوگا، اور اس کو اس عدل و انصاف کے نتیجہ میں ان شاء اللہ عرش الہی کا سایہ بھی نصیب ہوگا، تاہم ذمہ داریوں کے کم یا زیادہ ہونے سے عدل کا دائرہ بھی کم یازیادہ ہوگا اور نتیجۃً عرش کے سایہ میں یہ فرق مراتب ظاہر ہوگا۔ ہاں اگر اللہ تعالی چاہے تو کسی کو اس کے استحقاق سے زیادہ دیدے، یہ اس کی مرضی ہے۔
’’یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَائَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰی أَنْفُسِکُمْ أَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ إِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا أَوْفَقِیْرًا فَاللّٰہُ أَوْلٰی بِھِمَا فَلاَ تَتَّبِعُوْا الْھَوٰی أَنْ تَعْدِلُوْا۔‘‘ (النساء:۱۳۵)
’’یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَائَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَأٰنُ قَوْمٍ عَلٰی أَنْ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔‘‘ (المائدۃ:۸)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) مشکوٰۃ شریف احادیث مقدسہ کا انتہائی اہم ذخیرہ ہے، جس کو علماء نے غیر معمولی اہمیت دی ہے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اور آثار تابعین رحمہم اللہ اجمعین کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ رہا معاملہ استدلال کا تو کسی بھی کتاب سے استدلال کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ استدلال کس مسئلہ سے متعلق ہے، کبھی اس کا تعلق عقائد سے ہوگا، تو کبھی واجبات وفرائض سے اور کبھی سنن ونوافل سے یا معاشرت واخلاقیات سے اس کا تعلق ہوگا۔ ہر ایک پر استدلال کے لیے مستدل منہ کے لئے شرائط علیحدہ ہیں، مشکوٰۃ شریف کی خصوصیت ہے کہ اس میں راوی کی وضاحت اور جس کتاب سے روایت لی گئی اس کا عموماً حوالہ بھی ہوتا ہے؛ لہٰذا عمومی استدلال، فتن، ادعیہ، اعتصام بالکتاب، اسماء حسنی، فضائل ونوافل اور ترغیب وترہیب وغیرہ کے لیے اس سے استدلال بالکل درست ہے اور معاملہ عقائد وواجبات وغیرہ کا ہو، تو اس پر استدلال کے لیے حوالہ موجود ہے کہ حدیث کے مراتب کو معلوم کرکے ضروری ہو، تو مرجع کی طرف رجوع کرلیا جائے؛ بالکلیہ یہ کہہ دینا کہ اس سے استدلال درست نہیں ہے یہ غلط ہے۔
(۲) پندرہ شعبان کے روزے کی فضیلت ثابت ہے کتب حدیث میں اس کا ذکر ہے اور کتب فقہ میں بھی وضاحت ہے، روزہ رکھنا افضل ہے اور ثواب ہے؛ اگر کوئی روزہ نہ رکھے، تو بھی کوئی برائی نہیں ہے، افضلیت کا انکار بھی درست نہیں ہے اور پھر مذکورہ فی السوال شدت تو بالکل ہی غلط ہے، ایسی شدت اختیار نہ کرنی چاہئے۔ (۱)
(۱) عن علي ابن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إمامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا: باب ماجاء في لیلۃ النصف من شعبان‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۳، رقم: ۱۳۸۸)
إذا روینا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الحلال والحرام والسنن والأحکام تشددنا في الأسانید وإذا روینا عن النبي في فضائل الأعمال وما لا یضع حکما ولایرفعہ تساہلنا في الأسانید۔ (الخطیب البغوي، الکفایۃ في علم الروایۃ، ’’باب التشدید في أحادیث الأحکام‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص132
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پانچ نبیوں کے نام ان کی پیدائش سے قبل رکھے گئے ہیں:
(۱) نبی آخرالزماں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کہ ارشاد باری {مبشرا برسول یأتي من بعدي، إسمہ أحمد}(۲)
(۲) حضرت یحییٰ علیہ السلام جن کا ذکر قرآن پاک میں {یٰزکر یا إنا نبشرک بغلام إسمہ یحیی}(۱)
(۳) حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کا ذکر قرآن پاک میں {بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسی ابن مریم}(۲)
(۴) حضرت اسحاق علیہ السلام۔ (۵) حضرت یعقوب علیہ السلام۔
جن کا ذکر قرآن پاک میں ہے {فبشرناہ بإسحاق ومن وراء إسحاق یعقوب}(۳)
(۲) {وَإِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ٰیبَنِیْٓ إِسْرَآئِیْلَ إِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰئۃِ وَ مُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّأْتِيْ مِنْ م بَعْدِی اسْمُہٗٓ أَحْمَدُط فَلَمَّا جَآئَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْاھٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ہ۶ } (سورۃ الصف: ۶)
(۱) {ٰیزَکَرِیَّآ إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِ نِ اسْمُہٗ یَحْیٰی لا لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّاہ۷ } (سورۃ مریم: ۷)
(۲) {إِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ إِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ صلے ق اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْھًا فِي الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَہلا ۴۵} (سورۃ آل عمران: ۴۵)
(۳) {وَامْرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنٰھَا بِإِسْحٰقَ لا وَمِنْ وَّرَآئِ إِسْحٰقَ یَعْقُوْبَہ۷۱} (سورۃ ہود:۱ ۷)
الإتقان: ج ۲، ص: ۳۴۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص231
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں ہی کی طرف بھیجا تھا؛ اس لیے کہ مسلمانوں میں بعض لوگ قبروں کو بہت اونچا کردیتے تھے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ قبروں کو ٹھیک کر دو یعنی ایک بالشت اونچا کرنا، جو عموماً قبر کی نکلی ہوئی مٹی سے ہی ہوجاتا ہے، اتنا تو شرعاً جائز بھی ہے اور مطلوب بھی ہے۔ احادیث سے اس کا مطلوب ہونا ثابت ہے؛ لیکن قبر کو اس سے زیادہ اونچا کرنا شرعاً درست نہیں؛ لہٰذا حدیث کے لفظ ’’سویتہ‘‘ سے مراد قبر کو شرعی حدود کے موافق اور ٹھیک کردینا ہے؛ نیز قبر پر قبے وغیرہ بنانا شرعاً جائز نہیںہے۔ احادیث وکتب فقہ میں اس کی ممانعت صراحت کے ساتھ ہے۔(۱)
(۱) عن أبي الہیاج الأسدي قال: قال لي علي ألا أبعثک علی ما بعثني علیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن لا تدع تمثالاً إلا طمستہ، ولا قبرا مشرفاً إلا سویتہ رواہ مسلم۔ قولہ أن لا تدع أي لا تترک (تمثالاً) أي صورۃ (إلا طمستہ) أي محوتہ وأبطلتہ والاستثناء من أعم الأحوال (ولا قبرا مشرفا) ہو الذي بني علیہ حتی ارتفع دون الذي أعلم علیہ بالرمل والحصباء، أو محسوسۃ بالحجارۃ لیعرف ولا یوطأ (إلا سویتہ) في الأزہار قال العلماء: یستحب أن یرفع القبر قدر شبر، ویکرہ فوق ذلک، ویستحب الہدم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، باب دفن المیت‘‘: ج ۴، ص: ۶۸، رقم: ۱۶۹۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص134
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت ایوب علیہ السلام کے جسد مبارک میں کیڑے پڑنے کی روایات معتبر نہیں ہیں، جن روایات وآثار سے کیڑے پڑنے اور جسد اطہر میں پھوڑے، پھنسی وغیرہ کا ثبوت ہوتا ہے، ان کو محققین نے رد کیا ہے؛ کیوں کہ انبیاء علیہم السلام کو بشری بیماری لاحق ہونا، تو ثابت ہے؛ لیکن ایسی بیماری کا لاحق ہونا، جس سے انسانی طبیعت نفرت کرتی ہو نصوص شرعیہ کے خلاف ہے؛ بلکہ صحیح روایات اور آیت قرآنی سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوا تھا، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں لکھا ہے، قرآن میں اتنا تو بتلایا گیا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوگیا تھا؛ لیکن اس مرض کی نوعیت نہیں بتائی گئی۔ احادیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے؛ البتہ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے ہر حصہ پر پھوڑے نکل گئے تھے، یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو کوڑی پر ڈال دیا تھا، لیکن بعض محقق مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بیماریاں تو آسکتی ہیں؛ لیکن انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلانہیں کیا جاتا، جن سے لوگ گھن کرنے لگیں،(۱) ’’أہل التحقیق أنہ لا یجوز أن یکون بصفۃ یستقذرہ الناس علیہا لأن في ذلک تنفیرا فأما الفقر والمرض وذہاب الأہل فیجوز أن یمتحنہ اللّٰہ تعالی بذلک‘‘۔
’’وفي ہدایۃ المرید للفاني أنہ یجوز علی الأنبیاء علیہم السلام کل عرض بشری لیس محرما ولا مکروہا ولا مباحا مزریا ولا مزمنا ولا مما تعافہ الأنفس ولا مما یؤدي إلی النفرۃ ثم قال بعد ورقتین، واحترزنا بقولنا ولا مزمنا ولا مما تعافہ الأنفس عما کان کذلک کالإقعاد والبرص والجذام والعمي والجنون، وأما الإغماء، فقال النووي: لا شک في جوازہ علیہم لأنہ مرض بخلاف الجنون فإنہ نقص، وقید أبو حامد الإغماء بغیر الطویل وجزم بہ البلقیني، قال السبکی: ولیس کإغماء غیرہم لأنہ إنما یستر حواسہم الظاہرۃ دون قلوبہم لأنہا معصومۃ من النوم الأخف، قال: ویمتنع علیہم الجنون وإن قل لأنہ نقص ویلحق بہ العمي ولم یعم نبي قط، وما ذکر عن شعیب من کونہ کان ضریرا لم یثبت، وأما یعقوب فحصلت لہ غشاوۃ وزالت اہـ‘‘۔
’’وفرق بعضہم في عروض ذلک بین أن یکون بعد التبلیغ وحصول الغرض من النبوۃ فیجوز وبین أن یکون قبل فلا یجوز، ولعلک تختار القول بحفظہم بما تعافہ النفوس ویؤدي إلی الاستقذار والنفرۃ مطلقا وحینئذ فلا بد من القول بأن ما ابتلي بہ أیوب علیہ السلام لم یصل إلی حد الاستقذار والنفرۃ کما یشعر بہ ما روي عن قتادۃ ونقلہ القصاص في کتبہم، وذکر بعضہم أن دائہ کان الجدري ولا أعتقد صحۃ ذلک(۱)۔ واللّٰہ تعالی أعلم‘‘۔
(۱) مفتي محمد شفیع العثمانيؒ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۵۲۲۔
(۱) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ صٓ: ۳۸‘‘: ج ۱۲، ص: ۱۹۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص135
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال حدیث مسلم شریف، بخاری شریف میں ہے(۱) علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہے اور اس کا صحیح مصداق وہی ہیں اور علامہ سیوطیؒ کے ایک شاگرد ہیں، جو فرماتے ہیں کہ ہمارے استاد علامہ سیوطی نے جو فرمایا وہی صحیح ہے؛ اس لیے فارس کے لوگوں میں سوائے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے کوئی بھی اتنے اونچے علم کو نہیں پہونچا۔ (۲)
(۱) لوکان الإیمان عند الثریا لنالہ رجال أو رجل من ہؤلاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر، سورۃ الجمعۃ: باب قولہ: أخرین منہم لما یلحقوا بہم‘‘: ج ۲، ص: ۷۲۷؛و أخرجہ المسلم، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم: باب فضل فارس‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲، رقم: ۲۵۴۶)
(۲) في حاشیۃ الشبراملسي علی المواہب عن العلامۃ الشامي تلمیذ الحافظ السیوطي قال: ما جزم بہ شیخنا الرملي أن أبا حنیفۃ ہو المراد من ہذا الحدیث ظاہر لا شک فیہ لأنہ یبلغ من أبناء فارس في العلم مبلغہ أحد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص137