Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:متعدد احادیث سے اس کا ثبوت ہے، کہ اس مبارک مہینہ میں نفل کا ثواب فرض کے برابر ہوتا ہے۔(۱)
(۱) فمن تطوع فیہ بخصلۃ من الخیر کان کمن أدی فریضۃ فیما سواہ۔…(مسند الحارث، ’’باب في فضل شہر رمضان‘‘: رقم: ۳۲۱؛ صحیح ابن خزیمۃ، ’’باب فضائل شہر رمضان‘‘: رقم: ۱۸۸۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص129
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ ہیں۔(۲)
(۲) دحیۃ بن خلیفۃ بن فروہ الخ وکان جبرئیل علیہ السلام ینزل علی صورتہ۔ (ابن حجر العسقلاني، الإصابۃ في تمییز الصحابۃ: ج ۲، ص: ۳۲۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص129
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کتاب فردوس سے جن الفاظ سے آپ نے حدیث نقل کی ہے، وہ کتب صحاح ستہ میں نہیں ہے؛ البتہ دیگر احادیث موجود ہیں، جن سے علماء کی عزت اور ان کے احترام کرنے کا حکم ملتا ہے۔ بخاری شریف میں ہے ’’إن علماء ہم ورثۃ الأنبیاء، ورّثوا العلم من أخذہ أخذ بحظ وافر‘‘(۱) قرآن کریم میں ہے: {إنما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء، وما یعقلہا الالعالمون، وقال ہل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون، من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین، وأما العلم بالتعلیم} دین ومذہب اور احکامِ شریعت سے واقف کردینے والے علماء حق ہی ہیں، اگر ان کا اتباع نہ کیا جائے، تو ضلالت وگمراہی پھیل جائے۔(۱)
(۱) عن قیس بن کثیر عن أبي الدرداء رضي اللّٰہ عنہ، أن الني صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم، قال: من سلک طریقاً یطلب فیہ علماً سہل اللّٰہ لہ طریقاً إلی الجنۃ، وأن الملائکۃ لتضع أجنحتہا رضي لطالب العلم، وأن العالم لیستغفر لہ من في السموٰت ومن في الأرض، حتی الحیتان في الماء۔ وفضل العالم علی العابد کفضل القمر لیلۃ البدر علی سائر الکواکب، وأن العلماء ورثۃ الأنبیاء، وأن الأنبیاء، علیہم السلام، لم یورثوا دیناراً ولا درہما، وإنما ورثوا العلم فمن أخذہ أخذ بحظ وافر۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاری، ’’باب العلم قبل القول والعمل لقولہ تعالیٰ {فَاعْلَمْ أَنَّہٗ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ} (سورۃ المحمد: ۱۹) فبدأ بالعلم‘‘: ج ۲، ص: ۳۹، رقم: ۶۷)
وإنما ورثوا العلم): لإظہار الإسلام ونشر الأحکام أو بأحوال الظاہر والباطن علی تباین أجناسہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۶، رقم: ۲۱۲)
قال ابن حجر: والفقہ ہو الفہم قال اللّٰہ تعالیٰ: لا یکادون یفقہون حدیثا، أي: لا یفہمون والمراد الفہم في الأحکام الشرعیۃ قولہ: وإنما العلم بالتعلم ہو حدیث مرفوعٌ، أیضاً: أوردہ بن أبي عاصم والطبراني من حدیث معاویۃٌ أیضاً: بلفظ یا أیہا الناس: تعلموا إنما العلم بالتعلم والفقہ بالتفقہ ومن یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین إسنادہ حسنٌ۔ (ابن حجر، فتح الباري شرح صحیح البخاري، ’’کتاب العلم: قولہ باب العلم قبل القول والعمل‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۱، رقم: ۶۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص130
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں اس رات کی عظمت و شرافت و کرامت کی وجہ سے اس کو لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر ورّاق ؒ فرماتے ہیں کہ گناہوں کی وجہ سے جس آدمی کی کوئی قدر وعظمت اللہ کے یہاں نہیں ہوتی وہ شخص اس رات میں توبہ و استغفار کرکے، عبادت کرکے صاحب قدر ومنزلت ہو جاتا ہے۔ اور قدر کے دوسرے معنی تقدیر و حکم کے بھی آتے ہیں چونکہ سال بھر کے حالات ومعاملات اس رات میں لکھے جاتے ہیں اس لئے اس کو قدر کہتے ہیں۔(۱)
(۱) وقال مجاہد: سلام الملائکۃ والروح علیک تلک اللیلۃ خیر من سلام الخلق علیک ألف شہر۔ قولہ: {تنزل الملائکۃ والروح} أي: جبریل علیہ والسلام {فیہا} أي: لیلۃ القدر، قولہ: {من کل أمر} أي: تنزل من أجل کل أمر قضاہ اللّٰہ وقدرہ في تلک السنۃ إلی قابل، تم الکلام عند قولہ: {من کل أمر} ثم ابتدأ فقال: {سلام} أي: ما لیلۃ القدر إلا سلامۃ وخیر کلہا لیس فیہا شر وقال الضحاک، لا یقدر اللّٰہ في تلک اللیلۃ إلا السلامۃ کلہا، فأما اللیالي الأخر فیقضي فیہن البلاء والسلامۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح: ج ۱۱، ص: ۱۲۹)
فضل لیلۃ القدر ثبت في روایۃ أبي ذر قبل الباب بسلمۃ، ومعنی لیلۃ القدر: لیلۃ تقدیر الأمور وقضائہا والحکم الفضل، یقضي اللّٰہ فیہا قضاء السنۃ، وہو مصدر قولہم: قدر اللّٰہ الشيء قدرا وقدراً، لغتان، کالنہر والنہر، وقدرہ تقدیرا بمعنی واحد۔ وقیل: سمیت بذلک الخطرہا وشرفہا۔ وعن الزہري: ہي لیلۃ العظمۃ والشرف، من قول الناس: فلان عند الأمیر قدر، أي: جاہ ومنزلۃ۔ ویقال: قدرت فلاناً، أي: عظمتہ، قال اللّٰہ تعالیٰ: {وما قدروا اللّٰہ حق قدرہ}۔ أي: ما عظموہ حق عظمتہ۔ (العیني، عمدۃ القاري: ج ۱۱، ص: ۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص131
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بعض معتبر تفاسیر میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح زلیخا سے ہوا ہے؛ چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی تفسیر معارف القرآن میں ہے بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس زمانہ میں عزیز مصر (قطمیر) کا انتقال ہوگیا تو شاہ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کی شادی کرادی۔ حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زلیخا کے بطن سے دو لڑکے بھی پیدا ہوئے، ایک کا نام افرایم، دوسرے کا نام منشا تھا۔ تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر، معارف القرآن میں دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک سو دس سال یا ایک سو سات سال کی عمر میں وفات پائی اور عزیز مصر کی عورت کے بطن سے ان کے دو لڑکے پیدا ہوئے اور ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی۔ ایک کا نام افرایم، دوسرے کا نام میشا تھا اور لڑکی کا نام رحمت تھا، جو حضرت ایوب علیہ السلام کے نکاح میں آئیں۔(۱)
(۱) وکان الذي اشتراہ من مصر عزیز ہا وہو الوزیر: حدثنا العوفي عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، وکان إسمہ قطفیر، وقال محمد بن إسحاق: اسمہ أطفیر بن روحیب وہو العزیز وکان علی خزائن مصر، وکان الملک یومئذ الریان بن الولید رجلٌ من العمالیق۔ وقال: وإسم إمرائۃ واعیل بنت دعائیل، وقال غیرہ إسمہا زلیخا۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ یوسف‘‘: ج ۴، ص: ۳۲۴)
وقال اشتراہ من مصر یعني قطفیر لإمراء تہ إسمہا راعیل وقیل زلیخا۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتیؒ، تفسیر المظہري، ’’سورۃ یوسف‘‘: ج ۵، ص: ۱۵۱)
مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن ’’سورۃ یوسف: ۲۱‘‘: ج ۵، ص: ۸۹۔
محمد إدریس کاندھلويؒ، معارف القرآن ’’سورۃ یوسف: ۲۱‘‘: ج ۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص227
حدیث و سنت
Ref. No. 2624/45-3984
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قیامت کے دن ہرجان کواس کے جسم میں لوٹا دیاجائے گااور روح اپنےجسم کی جانب پرواز کرے گی اور اعمال نامے دائیں اور بائیں جانب پرواز کرکے انسانوں تک پہنچ جائیں گے۔ دنیا میں ہمارا اعمال نامہ جوفرشتے تیارکرتے ہیں وہ پوشیدہ ہیں اور قیامت میں وہ ظاہر ہوں گے۔انسان کا ہر عمل اور ہر گناہ و ثواب بالکل واضح ہوگا، پھر بھی اس سے اقرار کرایاجائے گا اور اقرار کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ انسان کا سونا‘ جاگنا اوراس کے جسم کے تمام اعضاء اس کے اعمال کے گواہ ہوں گے۔ اپنی ذمہ داریوں میں جو کوتاہی کی ہو گی وہ بھی اس کے سامنے ہوگی اور اس پر جزا یا سزا کا ترتب ہوگا۔ وغیرہ
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت زکریا علیہ السلام کی اہلیہ کا نام ایشاع بنت فاقوذ ہے۔(۱)
(۱) قولہ تعالیٰ: {وکانت امرأتي عاقراً} امرأتہ ہي إیشاع بنت فاقوذ ابن قبیل، وہي أخت حنہ بنت فاقوذا قالہ الطبري، وحنۃ ہي أمّ مریم۔
وقال القرطبي: امرأۃ زکریا ہي إیشاع بنت عمران فعلی ہذا القول: یکون یحییٰ ابن خالۃ عیسیٰ علیہما السلام علی الحقیقۃ، وعلی القول الأخر یکون ابن خالۃ أمہ۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد، تفسیر القرطبي، ’’سورۃ مریم: ۱۵‘‘: ج ۱۱، ص: ۷۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص228
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت مریم علیہا السلام کے والد کا نام عمران اور والدہ کا نام حَنَّہ ہے۔(۲)
(۲)أحمد بن محمد الصاوي، تفسیر الصاوي: ج۳، ص ۳۶۔
{إِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ إِنِّيْ نَذَرْتُ لَکَ مَافِيْ بَطْنِيْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّيْج إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُہ۳۵} (سورۃ آل عمران: ۳۵)
قال الدمشقي: إمراء ۃ عمران ہذہ أم مریم بنت عمران علیہا السلام وہي حنہ بنت فاقوذ۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ آل عمران: ۳۵‘‘ : ج ۴، ص: ۳۲۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص229
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت یوسف علیہ السلام کے زلیخا سے دو لڑکے پیدا ہوئے۔ ’’افراثیم، میشا‘‘ (۱)
(۱) وقیل إنہ لما مات زوجہ إمرأتہ زلیخا فوجدہا عذراء، لأن زوجہا کان لا یأتي النساء فولدت لیوسف علیہ السلام رجلین وہما افراثیم ومنشا۔ (ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ’’ذکر ما وقع من الأمور‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰)
فزوج الملک یوسف راعیل امرأۃ العزیز، فلما دخل علیہا قال: ألیس ہذا خیراً مما کنت تریدین؟ فقالت: أیہا الصدیق لا تلمني، فأني کنت المرأۃ حسناء ناعمۃ کما تری، وکان صاحبي لا یأتي النساء، وکنت کما جعلک اللّٰہ من الحسن فغلبتني نفسي۔ فوجدہا یوسف عذراء فأصابہا فولدت لہ رجلین إفراثیم بن یوسف، ومنشا بن یوسف۔ (القرطبي، الجامع لأحکام القرآن: ج ۹، ص: ۲۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص230
حدیث و سنت
Ref. No. 1822/43-1586
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو شخص بھی چند لوگوں کا ذمہ دار ہوگا، اس پر ان کے درمیان عدل و انصاف کرنا لازم ہوگا، اور اس کو اس عدل و انصاف کے نتیجہ میں ان شاء اللہ عرش الہی کا سایہ بھی نصیب ہوگا، تاہم ذمہ داریوں کے کم یا زیادہ ہونے سے عدل کا دائرہ بھی کم یازیادہ ہوگا اور نتیجۃً عرش کے سایہ میں یہ فرق مراتب ظاہر ہوگا۔ ہاں اگر اللہ تعالی چاہے تو کسی کو اس کے استحقاق سے زیادہ دیدے، یہ اس کی مرضی ہے۔
’’یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَائَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰی أَنْفُسِکُمْ أَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ إِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا أَوْفَقِیْرًا فَاللّٰہُ أَوْلٰی بِھِمَا فَلاَ تَتَّبِعُوْا الْھَوٰی أَنْ تَعْدِلُوْا۔‘‘ (النساء:۱۳۵)
’’یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَائَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَأٰنُ قَوْمٍ عَلٰی أَنْ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔‘‘ (المائدۃ:۸)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند