Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
Ref. No. 1617/43-1203
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مذاق کو مذاق کی حد تک رہنے دیں۔ اایسا کہنے والوں پر بھی کوئی گناہ نہیں۔سفید رنگ کا صاف ستھرا جبہ پہنیں تو شاید ایسی بات لوگ نہ کہیں۔ ہوسکتاہے آپ کا جبہ رنگین ہو۔ اور اگر پھر بھی لوگ کہیں تو کہنے دیں، آپ کو جبہ پسند ہے ، آپ اپنی پسند پر عمل کریں ۔ البتہ اگر وہ اس سے آپ کا مذاق اڑاتے ہیں، اور آپ کی توہین کرتے ہیں تو اس تذلیل کا ان کو گناہ ہوگا۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (سورۃ الحجرات 11)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ الفاظ کے ساتھ کوئی حدیث نہیں ملی؛ لیکن قرآن کریم اور احادیث سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے کہ شادی کرنے سے اللہ تعالیٰ فقر وفاقہ دور فرماتے ہیں اور ما تحتوں پر خرچ کرنے سے برکات ہوتی ہیں۔ (۱)
(۱) {وَأَنْکِحُوا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَآئِکُمْ ط إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌہ۳۲} (سورۃ النور: ۳۲)
ثلاثۃ حق علی اللّٰہ عونہم المجاہد في سبیل اللّٰہ والمکاتب الذي یرید الأداء والناکح الذي یرید العفاف۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجہاد، باب الجہاد والناکح‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۵، رقم: ۱۶۵۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص119
حدیث و سنت
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:ڈاڑھی ایک مشت سے کم کرنا یا بالکل منڈانا، موجب فسق وگناہِ کبیرہ ہے(۱)؛ لیکن مذکورہ فی السوال باتیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں ہیں، وعظ ونصیحت کے وقت انتہائی احتیاط لازم ہے جو حدیث نہ ہو، اس کو حدیث کہہ کر بیان کرنا شرعاً درست نہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ’’من تعمد علی کذباً فلیتبؤ مقعدہ من النار‘‘(۲)
(۱) أما الأخذ منہا وہي دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد، وأخذ کلہا فعل یہود الہند ومجوس الأعاجم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: إثم من کذب علي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۱۰۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص120
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اتبعوا السواد الأعظم فإنہ من شذ شذ في النار‘‘(۱) سواد اعظم کی پیروی کرو کیونکہ جو اس سے الگ ہوا وہ جہنم میں گیا، سواد اعظم سے مراد بڑی جماعت، حق پر چلنے والی جماعت ہے۔ اس کا مصداق اہل سنت والجماعت ہے۔ اور اہل سنت والجماعت سے مراد وہ حضرات ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے طریقے پر چلتے ہیں۔
’’أہل السنۃ والجماعۃ ہم الفرقۃ الناجیۃ والطائفۃ المنصورۃ أخبر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عنہم بأنہم یسیرون علی طریقتہ وأصحابہ الکرام دون انحراف؛ فہم أہل الإسلام المتبعون للکتاب والسنۃ المجانبون لطرق أہل الضلال‘‘(۲)
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ یقول: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقول: إن أمتي لا تجمع علی ضلالۃ فإذا رأیتم اختلافاً فعلیکم بالسواد الأعظم‘‘۔(۳)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہوگی؛ لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو سواد اعظم (بڑی جماعت) کو لازم پکڑو‘‘۔
(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۳، رقم: ۱۷۴۔
(۲) الندوۃ العالمیۃ للشباب الإسلامي، الموسوعۃ المیسرۃ: ج ۱، ص: ۳۶۔
(۳) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب الفتن، باب السواد الأعظم‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳، رقم: ۳۹۵۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص121
حدیث و سنت
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’قال ابن حجر في فتح الباري: السکینۃ في أہل الغنم أي الوقار أو الرحمۃ أو الطمأنیۃ مأخوذ من سکون القلب وتطلق السکینۃ، أیضاً: بإزا معان غیر ما ذکر منہا الملائکۃ‘‘(۱)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سکینہ سے مراد طمانیت ہے اور وہ چیز ہے جس سے سکون و صفائی قلب حاصل ہو اور ظلمت نفسانیہ دور ہو اور جو باعث حصول رحمت ہو اگر حضور قلب سے نمازیں ادا کی جائیں تو اس زمانہ میں بھی یہ چیز حاصل ہوسکتی ہے۔
(۱) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحیح البخاري، ’’مقدمہ: فصل: س، ک: ج ۱، ص: ۱۶۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص122
حدیث و سنت
حدیث و سنت
Ref. No. 40/799
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہاء کرام بہت سی احادیث کو بالمعنی روایت کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر تنقیح و استخراج مسائل ہے۔ ان کا یہ وظیفہ یعنی بیان مسئلہ اول درجہ میں اور بیان احادیث دوسرے درجہ میں ہے جبکہ محدثین کا مطمح نظر اول درجہ میں بیان حدیث من و عن اور بیان مسئلہ ثانوی درجہ میں ہوتا ہے؟ اسی تناظر میں بعض احادیث کو محدثین لم اجدہ وغیرہ فرماتے ہیں حالیکہ وہ معنوی اعتبار سے ثابت ہوتی ہیں۔ دیگر توجیہات بھی شراح ہدایہ نے لکھی ہیں رجوع کرلیا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند