حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بنی نوع انسانی اور جنوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے؛ اس لئے ہر انسان اور جنوں پر واجب ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کی اتباع کرے۔ فتاویٰ حدیثیہ میں ہے:
’’ولم یبعث إلیہم نبي قبل نبینا قطعا علی ماقالہ ابن حزم: أي وإنما کانوا متطوعین بالایمان لموسی مثلاً والدخول في شریعتہ۔ وقال السبکی: لا شک أنہم مکلفون في الأمم الماضیۃ کہذہ الملۃ إما بسما عہم من الرسول أو من صادق عنہ، کونہ إنسیاً أو جنیا لا قاطع بہ‘‘۔(۲)
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ثقلین ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں اور جناتوں دونوں کے نبی ہیں جنوں کے ایمان لانے کا واقعہ کتب احادیث وغیرہ میں اس طرح ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنات کو قرآن کریم بالقصد سنایا نہیں؛بلکہ ان کو دیکھا بھی نہیں ہے۔(۱)
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت جب جنات کو آسمانی خبریں سننے سے روک دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت وبعثت کے بعد جو جنات آسمانی خبریں سننے کے لئے اوپر جاتے تھے تو ان پر شہاب ثاقب پھینک کر دفع کر دیا جانے لگا، جنات میں اس کا تذکرہ ہوا کہ اس کا سبب معلوم کرنا چاہئے کہ کونسا نیا واقعہ دنیا میں پیش آیا ہے جس کی وجہ سے جنات کو آسمانی خبروں سے روک دیا گیا ہے، جنات کے مختلف گروہ دنیا کے مختلف خطوں میں اس کی تحقیقات کے لئے پھیل گئے ان کا ایک گروہ حجاز کی طرف بھی پہونچا، اسی روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپس لوٹے تھے اور اپنے اصحاب کے ہمراہ وادئی نخلہ میں نماز پڑھ رہے تھے، اس وقت جنوں کے ایک گروہ نے قرآن کریم سنا اور اپنی قوم کی طرف واپس جاکر انہیں ڈرایا، اس واقعہ کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور سورۃ احقاف کی آیت نازل فرمائی:

{وَإِذْ صَرَفْنَآ إِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَج فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا أَنْصِتُوْاج فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلٰی قَوْمِھِمْ مُّنْذِرِیْنَہ۲۹ قَالُوْا ٰیقَوْمَنَآ إِنَّا سَمِعْنَا کِتٰبًا أُنْزِلَ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَھْدِيْٓ إِلَی الْحَقِّ وَإِلٰی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍہ۳۰ ٰیقَوْمَنَآ أَجِیْبُوْا دَاعِيَ اللّٰہِ وَأٰمِنُوْا بِہٖ یَغْفِرْلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍہ۳۱  وَمَنْ لَّا یُجِبْ دَاعِيَ اللّٰہِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَیْسَ لَہٗ مِنْ دُوْنِہٖٓ أَوْلِیَآئُط أُولٰٓئِکَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍہ۳۲ }(۲)

اوراے پیغمبر! ان لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر بھی کیجئے، جب کہ ہم چند جنوں کو تمہاری طرف لے آئے کہ وہ قرآن سنیں پھر جب وہ اس موقع پر حاضر ہوئے تو ایک دوسرے سے بولے کہ چپ بیٹھے سنتے رہو۔ (پھر چپ بیٹھے سنتے رہے) اور جب قرآن پڑھا جا چکا یعنی نماز میں قرآن پڑھنا ختم ہو چکا، تو وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے (کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں) کہنے لگے اے ہماری قوم! ہم ایک کتاب سن کر آئے ہیں، جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، دینِ حق بتاتی ہے اور سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔ اے ہماری قوم! اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلانے والے کی بات مانو اور اس پر ایمان لاؤ، وہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو آخرت کے درد ناک عذاب سے محفوظ رکھے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے کی دعوت کو نہ مانے گا وہ زمین کے کسی حصے میں اللہ کو عاجز نہیں کرسکے گا خدا کے سواء اور کوئی حامی بھی نہ ہوگا ایسے لوگ صریح گمراہی میں مبتلا ہیں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورۃ الجن کی یہ آیات نازل فرمائیں:
{قُلْ أُوْحِيَ إِلَيَّ أَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًاہلا ۱   یَّھْدِيْٓ إِلَی الرُّشْدِ فَأٰمَنَّا بِہٖط وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَدًاہلا ۲   وَّأَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًاہلا ۳  وَّأَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ سَفِیْھُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًاہلا ۴  وَّأَنَّا ظَنَنَّآ أَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْإِنْسُ  وَالْجِنُّ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًاہلا ۵ وَّأَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَھَقًاہلا ۶  }(۱)

اے پیغمبر! آپ لوگوں کو بتا دیجئے کہ میرے پاس (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اس امر کی وحی آئی ہے کہ جنات میں سے ایک جماعت نے قرآن سنا اور اس کے بعد اپنے لوگوں سے جاکر کہا کہ ہم نے ایک عجیب طرح کا قرآن سنا جو نیک راہ بتاتا ہے۔ سو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم تو کسی کو اپنے پروردگار کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہمارے پروردگار کی بڑی اونچی شان ہے کہ اس نے نہ تو کسی کو اپنی بیوی بنایا اور نہ کسی کو اولاد۔ اور ہم میں کچھ احمق ایسے بھی ہیں جو اللہ کی نسبت بڑھ بڑھ کر باتیں بنایا کرتے تھے اور ہمارا پہلے یہ خیال تھا کہ انسان اور جنات کبھی خدا کی شان میں جھوٹ بات نہ کہیں گے۔ اور آدمیوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض لوگوں کی پناہ پکڑا کرتے تھے تو اس سے ان آدمیوں نے جنات کو اور بھی زیادہ مغرور اور بد دماغ کردیا۔
پھر جس وقت جنوں نے قرآن سنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان پر ایمان لے آئے۔ یہ شہر نصیبین کے جن تھے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے:
’’عن عبد اللّٰہ بن عباس رضي اللّٰہ عنہما، قال: ’’انطلق النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في طائفۃ منْ أصحابہ عامدین إلی سوق عکاظ، وقد حیل بین الشیاطین وبین خبر السماء، وأرسلت علیہم الشہب، فرجعت الشیاطین إلی قومہم، فقالوا: مالکم؟ قالوا: حیل بیننا وبین خبر السماء، وأرسلت علینا الشہب، قالوا: ماحال بینکم وبین خبر السماء إلا شيء حدث، {فاضْرِبُوا مَشَارِقَ الأرضِ ومغَارِبَہا}، فَانْظُرُوا مَا ہٰذا الذي حال بینکم وبین خبر السماء، فانصرف أولئک الذین توجہوا نحو تہامۃ إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو بنخلۃ عامدین إلی سوق عکاظ، وہو یصلی بأصحابہ صلاۃ الفجر، فلما سمعوا القرآن استمعوا لہ، فقالوا: ہذا واللّٰہ الذي حال بینکم وبین خبر السماء، فہنالک حین رجعوا إلی قومہم، قالوا: یا قومنا: {إِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًاہلا ۱   یَّھْدِيْٓ إِلَی الرُّشْدِ فَأٰمَنَّا بِہٖط وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَدًاہلا ۲ } (الجن: ۲) فأنزل اللّٰہ علی نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: {قُلْ أُوْحِيَ إِلَيَّ} (الجن: ۱) وإنَّمَا أُوحِيَ إِلَیْہِ قَوْلُ الجِنِّ‘‘۔(۱)

(۲) أحمد بن محمد بن حجر الہتیمي، الفتاویٰ الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۴۹۔
(۱) مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۵۷۴۔
(۲) سورۃ الأحقاف: ۲۹ تا ۳۲۔

(۱) سورۃ الجن: ۱ تا ۶۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب الجہر بقراۃ صلاۃ الصبح‘‘: ج۱، ص ۱۰۶، رقم: ۷۷۳۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص214
 

حدیث و سنت

Ref. No. 1617/43-1203

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مذاق کو مذاق کی حد تک رہنے دیں۔ اایسا کہنے والوں پر بھی کوئی گناہ نہیں۔سفید رنگ کا صاف ستھرا جبہ پہنیں تو شاید ایسی بات لوگ نہ کہیں۔ ہوسکتاہے آپ کا جبہ رنگین ہو۔ اور اگر پھر بھی لوگ کہیں تو کہنے دیں، آپ کو جبہ پسند ہے ، آپ اپنی پسند پر عمل کریں ۔  البتہ اگر وہ اس سے آپ کا مذاق اڑاتے ہیں، اور آپ کی توہین کرتے ہیں تو اس تذلیل کا ان کو گناہ ہوگا۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (سورۃ الحجرات 11)   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ الفاظ کے ساتھ کوئی حدیث نہیں ملی؛ لیکن قرآن کریم اور احادیث سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے کہ شادی کرنے سے اللہ تعالیٰ فقر وفاقہ دور فرماتے ہیں اور ما تحتوں پر خرچ کرنے سے برکات ہوتی ہیں۔ (۱)

(۱) {وَأَنْکِحُوا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَآئِکُمْ ط إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌہ۳۲} (سورۃ النور: ۳۲)
ثلاثۃ حق علی اللّٰہ عونہم المجاہد في سبیل اللّٰہ والمکاتب الذي یرید الأداء والناکح الذي یرید العفاف۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجہاد، باب الجہاد والناکح‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۵، رقم: ۱۶۵۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص119

حدیث و سنت

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:ڈاڑھی ایک مشت سے کم کرنا یا بالکل منڈانا، موجب فسق وگناہِ کبیرہ ہے(۱)؛ لیکن مذکورہ فی السوال باتیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں ہیں، وعظ ونصیحت کے وقت انتہائی احتیاط لازم ہے جو حدیث نہ ہو، اس کو حدیث کہہ کر بیان کرنا شرعاً درست نہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ’’من تعمد علی کذباً فلیتبؤ مقعدہ من النار‘‘(۲)

(۱) أما الأخذ منہا وہي دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد، وأخذ کلہا فعل یہود الہند ومجوس الأعاجم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: إثم من کذب علي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۱۰۸۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص120

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اتبعوا السواد الأعظم فإنہ من شذ شذ في النار‘‘(۱) سواد اعظم کی پیروی کرو کیونکہ جو اس سے الگ ہوا وہ جہنم میں گیا، سواد اعظم سے مراد بڑی جماعت، حق پر چلنے والی جماعت ہے۔ اس کا مصداق اہل سنت والجماعت ہے۔ اور اہل سنت والجماعت سے مراد وہ حضرات ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے طریقے پر چلتے ہیں۔
’’أہل السنۃ والجماعۃ ہم الفرقۃ الناجیۃ والطائفۃ المنصورۃ أخبر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عنہم بأنہم یسیرون علی طریقتہ وأصحابہ الکرام دون انحراف؛ فہم أہل الإسلام المتبعون للکتاب والسنۃ المجانبون لطرق أہل الضلال‘‘(۲)
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ یقول: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقول: إن أمتي لا تجمع علی ضلالۃ فإذا رأیتم اختلافاً فعلیکم بالسواد الأعظم‘‘۔(۳)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہوگی؛ لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو سواد اعظم (بڑی جماعت) کو لازم پکڑو‘‘۔

(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۳، رقم: ۱۷۴۔
(۲) الندوۃ العالمیۃ للشباب الإسلامي، الموسوعۃ المیسرۃ: ج ۱، ص: ۳۶۔
(۳) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب الفتن، باب السواد الأعظم‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳، رقم: ۳۹۵۰۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص121

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت نوح علیہ السلام کے تین لڑکے تھے حام، سام، یافث۔ حام کی اولاد افریقی ممالک کے لوگ اور بعض نے ہندوستان کے باشندے مراد لئے ہیں اور سام کی اولاد اہل عرب، روم اور فارس کے لوگ ہیں اور یافث کی اولاد میں یاجوج ماجوج اور ترک، منگول وغیرہ ہیں۔ (۱) (۱) مفتي محمد شفیع العثمانيؒ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۴۴۴۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص218

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’قال ابن حجر في فتح الباري: السکینۃ في أہل الغنم أي الوقار أو الرحمۃ أو الطمأنیۃ مأخوذ من سکون القلب وتطلق السکینۃ، أیضاً: بإزا معان غیر ما ذکر منہا الملائکۃ‘‘(۱)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سکینہ سے مراد طمانیت ہے اور وہ چیز ہے جس سے سکون و صفائی قلب حاصل ہو اور ظلمت نفسانیہ دور ہو اور جو باعث حصول رحمت ہو اگر حضور قلب سے نمازیں ادا کی جائیں تو اس زمانہ میں بھی یہ چیز حاصل ہوسکتی ہے۔

(۱) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحیح البخاري، ’’مقدمہ: فصل: س، ک: ج ۱، ص: ۱۶۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص122

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسلم شریف کی صحیح روایت ہے کہ سورج طلوع ہونے والے دنوں میں سب سے بہتر دن جمعہ کا ہے، اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن جنت میں داخل ہوئے اور اسی دن جنت سے نکالے گئے اور اسی دن قیامت آئے گی۔(۲) اور ایک قول کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کی وفات بھی جمعہ کے دن ہوئی تھی ۔(۱) (۲)جلال الدین السیوطي، الدر المنثور: ج ۲، ص: ۱۱۱۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص218

حدیث و سنت

Ref. No. 40/799

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  فقہاء کرام بہت سی احادیث کو بالمعنی روایت کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر تنقیح و استخراج مسائل ہے۔ ان کا یہ وظیفہ یعنی بیان مسئلہ اول درجہ میں اور بیان احادیث دوسرے درجہ میں ہے جبکہ محدثین کا مطمح نظر اول درجہ میں بیان حدیث من و عن اور بیان مسئلہ ثانوی درجہ میں ہوتا  ہے؟ اسی تناظر میں بعض احادیث کو محدثین لم اجدہ وغیرہ فرماتے ہیں حالیکہ  وہ معنوی اعتبار سے ثابت ہوتی ہیں۔  دیگر توجیہات بھی شراح ہدایہ نے لکھی ہیں رجوع کرلیا جائے۔  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پیدائش آدم علیہ السلام سے دو ہزار سال پہلے سے دنیا میں جنات آباد تھے، جب انہوں نے قتل وغارت گری شروع کردی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا ایک لشکر بھیجا جنہوں نے جنات کو بھگاکر پہاڑوں، سمندروں، جز یروں اور ویران علاقوں میں پہونچا دیا۔(۲) (۲)جلال الدین السیوطي، الدر المنثور: ج ۲، ص: ۱۱۱۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص220