Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی کہ حضرت ھاجرہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ان سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ اس کے بعد حضرت سارہ رضی اللہ عنہا سے بھی حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہ السلام پیدا ہوئے۔(۲)
ان دونوں بیویوں کی وفات کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قطورا بنت یقطن سے شادی کی ان سے چھ اولاد ہوئیں جن کے نام یہ ہیں:
(۱) یقشان (۲) زمران (۳) مدین (۴) مدان (۵) نشق (۶) سو۔
اور قطورا کی وفات کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حجون بنت اہیر سے شادی کی تھی۔(۱)
(۲) قیل کانت ہاجر جاریۃ ذات ہیئۃ فوہبتہا سارۃ لإبراہیم، وقالت: خذہا لعل اللّٰہ یرزقک منہا ولدا، وکانت سارۃ قد منعت الولد حتی أسنت فوقع إبراہیم علی ہاجر فولدت إسماعیل فلما ولد إسماعیل حزنت سارۃ حزنا شدیدا فوہبہا اللّٰہ إسحاق۔ (أبو الحسن الجزري، الکامل في التاریخ: ج۱، ص ۹۴)
(۱) ’’أیضاً‘‘:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص223
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لاکر پینتالیس سال دنیا میں زندہ رہیں گے اور میرے مقبرے کے قریب دفن ہوں گے اور قیامت کے دن میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ساتھ ہی قبر سے اٹھیں گے۔
یہ حدیث علامہ ابن جوزی نے عقائد نفس میں ذکر کی ہے۔ (۲)
(۲) مشکوٰۃ المصابیح،: ج۲، ص ۴۸۰؛ وحاشیہ جلالین: ج ۱، ص ۵۲۔
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ینزل عیسیٰ ابن مریم إلی الأرض فیتزوج ویولد لہ ویمکث خمسا وأربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معي في قبري فأقوم أنا وعیسیٰ ابن مریم في قبر واحد بین أبي بکر وعمر، رواہ ابن الجوزي في کتاب الوفاء۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب نزول عیسیٰ علیہ السلام، الفصل الثالث‘‘: ج۲، ص ۴۸۰، رقم: ۵۵۰۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص223
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کا ثبوت حدیث میں ہے۔ ترمذی شریف میں ہے۔ ’’فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم برکۃ الطعام الوضوء قبلہ والوضوء بعدہ‘‘(۱)
۱) وقال الترمذي: لا نعرف ہذا الحدیث إلا من حدیث قیس بن الربیع، وقیس بن الربیع یضعف في الحدیث، قال الباني: ضعیف۔ (أخرجہ الترمذي: في سننہ، ’’أبواب الأطعمۃ: باب ما جاء في الوضوء قبل الطعام وبعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۶، رقم: ۱۸۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص123
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ایک ہزار نوسو پچھتر سال عرصہ گزرا ہے۔(۱)
(۱) بین یدي قلبي من التوراۃ أي وہي کتاب موسیٰ وکان بینہ وبین عیسیٰ ألف وتسعمائۃ وخمس وسبعون سنۃ وأول أنبیاء بني إسرائیل یوسف وآخرہم عیسیٰ۔ (حاشیۃ جلالین: ج ۲، ص:۵۱)
اور ابن عساکر نے ایک ہزار نو سو پچیس سال کا فاصلہ بیان کیا ہے۔
ومن موسیٰ إلی داؤد خمسمائۃ سنۃ وتسعۃ وستون سنۃ ومن داؤد إلی عیسیٰ ألف وثلاث مائۃ سنۃ وست وخمسون سنۃ۔ (تاریخ مدینہ دمشق: ج ۱، ص: ۴۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص224
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جس حدیث سے متعلق سوال کیا گیا ہے، در حقیقت یہ علماء کو ان کے مقام سے بڑھانا ہے، عالم کی زیارت، دیدار انبیاء کرام کی طرح ہے؛ یہ حدیث موضوع ہے، ’’کما نقلہ ابن الحجر المکي عن السیوطي‘‘(۲)
(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ بلفظ: إن مدینۃ تحت العرش من مسبک إذا فر علی بابہا … ملک ینادي کل یوم ألا من زار العلماء فقد زار الأنبیاء۔
أخرجہ إسماعیل بن محمد، في کشف الخفاء، ’’باب حرف الہمزۃ مع النون‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۷؛ وقال السیوطي: ملک ینادي کل یوم ألا من زار عالما فقد زار الرب فلہ الجنۃ۔ (الحاوي للفتاویٰ، ’’باب العجابۃ الزرنیۃ‘‘: ج ۳، ص: ۵۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص123
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ بادشاہ کو عمدہ اوصاف سے متصف ہونا چاہئے، نرمی کے وقت نرمی، سختی کے وقت سختی کی ضرورت ہے اور عدل وانصاف وغیرہ میں اس کو نمونہ ہونا چاہئے اور بادشاہ کا رعایا کو احترام کرنا چاہئے اور اس کی عزت وتوقیر کو لازم سمجھنا چاہئے، باقی تفصیلات کتب حدیث میں دیکھی جاسکتی ہیں۔(۱)
(۱) وأما الحدیث النبوي (السلطان ظل اللّٰہ فيالأرض یأوي إلیہ کل ضعیف وملہوف) وہذا صحیح، فإن الظل مفتقر إلی آو وہو رفیق لہ مطابق لہ نوعاً من المطابقۃ والآوي إلی الظل المکتنف بالمظل صاحب الظل فالسلطان عبد اللّٰہ مخلوق مفتقر إلیہ لا یستغني عنہ طرفۃ عین، وفیہ من القدرۃ والسلطان والحفظ والنصرۃ وغیر ذلک من معاني السؤدد والصمدیۃ التي بہا قوام الخلق، ما یشبہ أن یکون ظل اللّٰہ في الأرض وہو أقوي الأسباب التي بہا یصلح أمور خلقہ وعبادہ، فإذا صلح ذو السلطان صلحت أمور الناس، وإذا فسد فسدت یحسب فسادہ؛ ولا تفسد من کل وجہ، بل لا بد من مصالح، إذ ہو ظل اللّٰہ، لکن الظل تارۃ یکون کاملاً مانعاً من جمیع الأذي وتارۃ لا یمنع إلا بعض الأذي، وأما إذا عدم الظل فسد الأمر، کعدم سر الربیۃ التي بہا قیام الأمۃ الإنسانیۃ۔ واللّٰہ أعلم۔ (ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاویٰ، ’’کتاب قتال أصل البغي إلی نہایۃ الإقرار‘‘: ج ۱۸، ص: ۳۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص124
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:خوشبو دل ودماغ کو معطر کرتی ہے اور عقل میں اضافہ کرتی ہے اور عقل دین کو قائم رکھتی ہے؛ اس لئے خوشبو محبوب ہے اور عورتیں مردوں کے لئے عفت وپاکدامنی اور امت میں اضافہ کا ذریعہ ہیں؛ اس لیے عورتیں محبوب ہیں اور نماز اسلامی رکن اور دین کی بنیاد ہے اور نماز کے وقت دربار خداوندی میں حاضری ہوتی ہے؛ اس لئے نماز محبوب ہے۔(۱)
(۱) وعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعجبہ من الدنیا ثلاثۃ: الطعام والنساء والطیب، فأصاب اثنین ولم یصب واحداً أصاب النساء والطیب ولم یصب الطعام رواہ أحمد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الرقاق: باب فضل الفقراء‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹، رقم: ۵۲۶۰)
وعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعجبہ من الدنیا ثلثۃ) أي ثلاثۃ أشیاء کما في روایۃ (الطعام) أي حفظا لبدنہ وتقویۃ علی دینہ (والنساء) أيصونا النفسہ النفیسہ عن الخواطر الخسیسۃ (والطیب) أي لتقویۃ الدماغ الذي ہو محل العقل عند بعض الحکماء الخ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الرقاق: باب فضل الفقراء وماکان من عیش النبي صلی اللہ علیہ وسلم‘‘: ج ۵، ص: ۲۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص125
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی یہ حدیث بخاری شریف کی ہے اور صحیح روایت ہے؛ البتہ حضرات محدثین نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سب سے اہم مسئلہ جہاد کا تھا، کھیتی میں مشغولی یہ جہاد سے اعراض کا باعث بنتاہے، اور جہاد سے اعراض یہ ذلت کا باعث ہے؛ اس لیے کھیتی کے آلات کے گھر میں ہو نے کو ذلت کا باعث قرار دیا گیا ہے، ورنہ کھیتی ایسی چیز ہے جس پر دنیاکی بنیاد ہے، کھیتی کی چیزیں ہی لوگ کھاتے ہیں؛ اس لیے مطلقاً اس کو ذلت کا باعث نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ہاں بعض اعتبار سے کھیتی میں مشغول لوگ خیر کے کاموں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جیسے وعظ ونصیحت کی مجلس یا صلحاء کی صحبت سے محروم ہوتے ہیں، اس اعتبار سے بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے۔ فیض البار ی میں علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’واعلم أن الحرث والمزارعۃ ملاک العالم، لا یتم نظامہ إلا بہ، ومع ذلک ترد الأحادیث في کراہتہ، فیتحیر منہ الناظر۔ وما ذکرناہ في الحجامۃ لا ینفع ہہنا، فإن الحجام الواحد یکفي لجماعات، بخلاف الحرث۔ وأجیب أن الأہم في عہدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کان الجہاد، والاشتغال بالحرث یوجب الاشتغال عنہ، فذمَّہ(۱) لہذا۔ ثم إن مخالب السلطنۃ تنشب بالمزارع، أکثر مما تنشب بالتاجر۔ وکذا المزارع یحرم من الخیر کثیرًا، فلا یجد فرصۃ لاستماع الوعظ، وصحبۃ الصلحاء۔ والحاصل: أن الشيء إذا دار بین خیر وشر، لا یحکم علیہ بالخیریۃ مطلقا، أو الکراہۃِکذلک۔ ولتجاذب الأطراف، فترد الأحادیثُ فیہ بالنحوین لذلک، فأفہم(۲) ولما ذکر فضل الزرع والغرس في الباب السابق أراد الجمع بینہ وبین حدیث ہذا الباب، لأن بینہما منافاۃ بحسب الظاہر۔ وأشار إلی کیفیۃ الجمع بشیئین أحدہما: ہو قولہ: ما یحذر من عواقب الاشتغال بآلۃ الزرع، وذلک إذا اشتغل بہ فضیع بسببہ ما أمر بہ۔ والْآخر: ہو قولہ: أو مجاوزۃ الحد، وذلک فیما إذا لم یضیع، ولکنہ جاوز الحد فیہ۔ وقال الداوردي: ہذا لمن یقرب من العدو فإنہ إذا اشتغل بالحرث لا یشتغل بالفروسیۃ ویتأسد علیہ العدو، وأما غیرہم فالحرث محمود لہم۔ وقال عزوجل: {وأعدوا لہم ما استطعتم} (الأنفال:۶) ولا یقوم إلا بالزراعۃ۔ ومن ہو بالثغور المتقاربۃ للعدو لا یشتغل بالحرث، فعلی المسلمین أن یمدوہم بما یحتاجون إلیہ۔(۱)
(۱) عن أبي أمامۃ الباہلي قال: ورأی سکۃ وشیئاً من آلۃ الحرث فقال سمعت النبي رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول: لا یدخل ہذا بیت قوم إلا أدخلہ الذل۔ (بدر الدین العیني، عمدۃ القاري، ’’باب ما یحذر من عوقب‘‘: ج ۱۲، ص: ۱۵۶)
ما ذکر من آلۃ الحرث بیت قومٍ إلا أدخلہ أي: اللّٰہ کما في نسخۃ صحیحۃ (الذل) بضم أولہ أي: المذلۃ بأداء الخراج والعشر، والمقصود الترغیب والحث علی الجہاد۔ قال التوربشتي: و إنما جعل آلۃ الحرث مذلۃ للذل لأن أصحابہا یختارون ذلک إما بالجبن في النفس، أو قصور في الہمۃ، ثم إن أکثرہم ملزومون بالحقوق السلطانیۃ في أرض الخراج ولو آثروا الخراج لدرت علیہم الأرزاق واتسعت علیہم المذاہب، وجبی لہم الأموال مکان ما یجبی عنہم۔ قیل: قریب من ہذا المعنی حدیث۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرخ مشکاۃ المصابیح، ’’باب المساقاۃ والمزارعۃ‘‘: ج ۵، ص: ۱۹۸۹، رقم: ۲۹۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص126
حدیث و سنت
Ref. No. 1620/43-1316
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احادیث کی کتابوں میں ہمیں یہ دعا نہیں ملی۔ البتہ اس دعا کے الفاظ میں کوئی خرابی نہیں ہے، اس لئے یہ دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند