Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
Ref. No. 40/799
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہاء کرام بہت سی احادیث کو بالمعنی روایت کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر تنقیح و استخراج مسائل ہے۔ ان کا یہ وظیفہ یعنی بیان مسئلہ اول درجہ میں اور بیان احادیث دوسرے درجہ میں ہے جبکہ محدثین کا مطمح نظر اول درجہ میں بیان حدیث من و عن اور بیان مسئلہ ثانوی درجہ میں ہوتا ہے؟ اسی تناظر میں بعض احادیث کو محدثین لم اجدہ وغیرہ فرماتے ہیں حالیکہ وہ معنوی اعتبار سے ثابت ہوتی ہیں۔ دیگر توجیہات بھی شراح ہدایہ نے لکھی ہیں رجوع کرلیا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
حدیث و سنت
حدیث و سنت
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی کہ حضرت ھاجرہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ان سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ اس کے بعد حضرت سارہ رضی اللہ عنہا سے بھی حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہ السلام پیدا ہوئے۔(۲)
ان دونوں بیویوں کی وفات کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قطورا بنت یقطن سے شادی کی ان سے چھ اولاد ہوئیں جن کے نام یہ ہیں:
(۱) یقشان (۲) زمران (۳) مدین (۴) مدان (۵) نشق (۶) سو۔
اور قطورا کی وفات کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حجون بنت اہیر سے شادی کی تھی۔(۱)
(۲) قیل کانت ہاجر جاریۃ ذات ہیئۃ فوہبتہا سارۃ لإبراہیم، وقالت: خذہا لعل اللّٰہ یرزقک منہا ولدا، وکانت سارۃ قد منعت الولد حتی أسنت فوقع إبراہیم علی ہاجر فولدت إسماعیل فلما ولد إسماعیل حزنت سارۃ حزنا شدیدا فوہبہا اللّٰہ إسحاق۔ (أبو الحسن الجزري، الکامل في التاریخ: ج۱، ص ۹۴)
(۱) ’’أیضاً‘‘:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص223
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لاکر پینتالیس سال دنیا میں زندہ رہیں گے اور میرے مقبرے کے قریب دفن ہوں گے اور قیامت کے دن میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ساتھ ہی قبر سے اٹھیں گے۔
یہ حدیث علامہ ابن جوزی نے عقائد نفس میں ذکر کی ہے۔ (۲)
(۲) مشکوٰۃ المصابیح،: ج۲، ص ۴۸۰؛ وحاشیہ جلالین: ج ۱، ص ۵۲۔
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ینزل عیسیٰ ابن مریم إلی الأرض فیتزوج ویولد لہ ویمکث خمسا وأربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معي في قبري فأقوم أنا وعیسیٰ ابن مریم في قبر واحد بین أبي بکر وعمر، رواہ ابن الجوزي في کتاب الوفاء۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب نزول عیسیٰ علیہ السلام، الفصل الثالث‘‘: ج۲، ص ۴۸۰، رقم: ۵۵۰۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص223
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کا ثبوت حدیث میں ہے۔ ترمذی شریف میں ہے۔ ’’فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم برکۃ الطعام الوضوء قبلہ والوضوء بعدہ‘‘(۱)
۱) وقال الترمذي: لا نعرف ہذا الحدیث إلا من حدیث قیس بن الربیع، وقیس بن الربیع یضعف في الحدیث، قال الباني: ضعیف۔ (أخرجہ الترمذي: في سننہ، ’’أبواب الأطعمۃ: باب ما جاء في الوضوء قبل الطعام وبعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۶، رقم: ۱۸۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص123
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ایک ہزار نوسو پچھتر سال عرصہ گزرا ہے۔(۱)
(۱) بین یدي قلبي من التوراۃ أي وہي کتاب موسیٰ وکان بینہ وبین عیسیٰ ألف وتسعمائۃ وخمس وسبعون سنۃ وأول أنبیاء بني إسرائیل یوسف وآخرہم عیسیٰ۔ (حاشیۃ جلالین: ج ۲، ص:۵۱)
اور ابن عساکر نے ایک ہزار نو سو پچیس سال کا فاصلہ بیان کیا ہے۔
ومن موسیٰ إلی داؤد خمسمائۃ سنۃ وتسعۃ وستون سنۃ ومن داؤد إلی عیسیٰ ألف وثلاث مائۃ سنۃ وست وخمسون سنۃ۔ (تاریخ مدینہ دمشق: ج ۱، ص: ۴۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص224
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جس حدیث سے متعلق سوال کیا گیا ہے، در حقیقت یہ علماء کو ان کے مقام سے بڑھانا ہے، عالم کی زیارت، دیدار انبیاء کرام کی طرح ہے؛ یہ حدیث موضوع ہے، ’’کما نقلہ ابن الحجر المکي عن السیوطي‘‘(۲)
(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ بلفظ: إن مدینۃ تحت العرش من مسبک إذا فر علی بابہا … ملک ینادي کل یوم ألا من زار العلماء فقد زار الأنبیاء۔
أخرجہ إسماعیل بن محمد، في کشف الخفاء، ’’باب حرف الہمزۃ مع النون‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۷؛ وقال السیوطي: ملک ینادي کل یوم ألا من زار عالما فقد زار الرب فلہ الجنۃ۔ (الحاوي للفتاویٰ، ’’باب العجابۃ الزرنیۃ‘‘: ج ۳، ص: ۵۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص123
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ بادشاہ کو عمدہ اوصاف سے متصف ہونا چاہئے، نرمی کے وقت نرمی، سختی کے وقت سختی کی ضرورت ہے اور عدل وانصاف وغیرہ میں اس کو نمونہ ہونا چاہئے اور بادشاہ کا رعایا کو احترام کرنا چاہئے اور اس کی عزت وتوقیر کو لازم سمجھنا چاہئے، باقی تفصیلات کتب حدیث میں دیکھی جاسکتی ہیں۔(۱)
(۱) وأما الحدیث النبوي (السلطان ظل اللّٰہ فيالأرض یأوي إلیہ کل ضعیف وملہوف) وہذا صحیح، فإن الظل مفتقر إلی آو وہو رفیق لہ مطابق لہ نوعاً من المطابقۃ والآوي إلی الظل المکتنف بالمظل صاحب الظل فالسلطان عبد اللّٰہ مخلوق مفتقر إلیہ لا یستغني عنہ طرفۃ عین، وفیہ من القدرۃ والسلطان والحفظ والنصرۃ وغیر ذلک من معاني السؤدد والصمدیۃ التي بہا قوام الخلق، ما یشبہ أن یکون ظل اللّٰہ في الأرض وہو أقوي الأسباب التي بہا یصلح أمور خلقہ وعبادہ، فإذا صلح ذو السلطان صلحت أمور الناس، وإذا فسد فسدت یحسب فسادہ؛ ولا تفسد من کل وجہ، بل لا بد من مصالح، إذ ہو ظل اللّٰہ، لکن الظل تارۃ یکون کاملاً مانعاً من جمیع الأذي وتارۃ لا یمنع إلا بعض الأذي، وأما إذا عدم الظل فسد الأمر، کعدم سر الربیۃ التي بہا قیام الأمۃ الإنسانیۃ۔ واللّٰہ أعلم۔ (ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاویٰ، ’’کتاب قتال أصل البغي إلی نہایۃ الإقرار‘‘: ج ۱۸، ص: ۳۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص124