Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ شریف کی چابی اس پہلے ہی متولی ومنتظم کو دیدی تھی، جن کا نام عثمان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ تھا اور ان کے لئے دعا بھی فرمائی تھی کہ ’’خالدۃ تالدۃ‘‘ یعنی آپ کے پاس یہ چابی ہمیشہ ہمیشہ رہے گی۔(۱)
(۱) دخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم البیت وصلی فیہ رکعتین فلما خرج سألہ العباس أن یعطیہ المفتاح وأن یجمع لہ بین السقایۃ والسدانۃ فأنزل اللّٰہ ہذہ الأیۃ فأمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیا أن یرد المفتاح إلی عثمان ویعتذر إلیہ۔ (’’تفسیر الخازن سورۃ النساء: ۵۸‘‘: ج ۱، ص: ۳۹؛ ومحمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري، ’’سورۃ النساء: ۵۸‘‘؛ ج ۲، ص: ۱۴۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص203
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱، ۵) رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں جو منبر خطبہ کے لئے بنایا گیا تھا اس کی تین سیڑھیاں تھیں۔ ’’ومنبرُہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان ثلاث درجٍ غیر المسماۃ بالمستراح قال ابنُ حجر: في التحفۃ وبحث بعضہم أن مااعتید الآن من النزول في الخطبۃ الثانیۃ إلی درجہ سفلی ثم العود بدعۃ قبیحۃ شنیعۃ‘‘(۱) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اوپر کی سیڑھی پر خطبہ دیتے تھے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس سے زیریں سیڑھی پر اور عمر رضی اللہ عنہ تیسری سیڑھی پر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر اوپر ہی کی سیڑھی پر خطبہ دیا۔ تیسری پر نہیں کہ راحت کے لئے بیٹھنے کے وقت زمین پر پیر رکھنے پڑتے ہیں، شرح بخاری میں ہے ’’إن المنبر لم یزل علی حالہ ثلاث درجات‘‘(۲) اور طبرانی میں ہے ’’عن ابن عمر قال لم یجلس أبوبکر الصدیق في مجلس رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی المنبر حتی لقي اللّٰہ عزوجل ولم یجلس عمر في مجلس أبوبکر حتی لقي اللّٰہ، ولم یجلس عثمان في مجلس عمر، حتی لقي اللّٰہ‘‘(۳) پس مسنون طریقہ یہی ہے کہ منبر کی تین ہی سیڑھیاں ہوں؛ لیکن حسب ضرورت اور احوال کا لحاظ رکھتے ہوئے، اگر کم اور زیادہ کر لی جائیں، تو بھی جائز ہے۔ بہر صورت ایک درجہ سے زائد ہونی چاہئیں تاکہ زمین پر پیر نہ رکھنے پڑیں۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۱۔
(۲) العیني عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’باب الخطبۃ علی المنبر‘‘: ج ۶،ص: ۲۱۵، رقم: ۹۷۱۔
(۳) الطبراني، المعجم الأوسط، ’’باب من اسمہ محمود‘‘: ج ۸، ص: ۴۹، رقم: ۷۹۲۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص205
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب معراج کی سواری کا نام براق تھا، جس کی جسامت کے بارے میں صرف اتنا منقول ہے کہ وہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا (۱)، آج کل جو شکل اس کی کیلنڈر پر ملتی ہے، اس کی کوئی اصل وحقیقت نہیں ہے؛ اس لئے ان کا گھر میں رکھنا بھی درست نہیں ہے۔
(۱) وأتیت بدابۃ أبیض، دون البغل وفوق الحمار: البراق۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب ذکر الملائکۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۵، رقم: ۳۲۰۷)
ثم أتیت بدابۃ أبیض یقال لہ البراق فوق الحمار ودون البغل یقع خطوہ عند أقصی طرفہ فحملت علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الإسراء برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، رقم: ۱۶۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص206
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ خصوصیات امت محمدیہ کہلاتی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے۔
(۱) غنائم کا حلال ہونا۔ یعنی جہاد میں ہاتھ لگا ہوا مال غنیمت حلال ہونا۔(۱)
(۲) تمام روئے زمین پر نماز کا جائز ہونا۔(۲)
(۳) نماز میں صفوف کا بطرز ملائکہ ہونا۔(۳)
(۴) جمعہ کے دن کا ایک خاص عبادت کے لئے مقرر ہونا۔
(۵) جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی کا آنا کہ جس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔(۴)
(۶) روزہ کے لئے سحری کی اجازت کا ہونا۔(۵)
(۷) رمضان المبارک میں شب قدر کا عطا ہونا جو ایک ہزار مہینہ کی راتوں سے افضل ہے۔(۶)
(۸) وسوسہ اور خطاء و نسیان کا گناہ نہ ہونا۔
(۹) احکام شاقہ کا مرتفع ہونا یعنی جو احکام مشکل تھے اللہ تعالیٰ نے اس امت سے ان کو اٹھا لیا ہے۔
(۱۰) تصویر کا ناجائز ہونا۔
(۱۱) اجماع امت کا حجت ہونا اور اس میں ضلالت و گمراہی کا احتمال نہ ہونا ہے۔(۷)
(۱۲) فروعی اختلاف کا رحمت ہونا۔
(۱۳) پہلی امتوں کی طرح عذابوں کا نہ آنا۔(۸)
(۱۴) علماء سے وہ کام لینا جو انبیاء کرتے تھے۔ (۱)
(۱۵) قیامت تک جماعت اہل حق کا مؤید من اللہ ہوکر پایا جانا۔(۲)
(۱۶) امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیگر امتوں پر گواہ بننا جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ {لتکونوا شہداء علي الناس} (القرآن الکریم) یعنی تم گواہ بنوگے لوگوں پر قیامت کے دن۔(۳)
(۱) أعطیت خمسا لم یعطہن أحد من الأنبیاء قبلی: نصرت بالرعب مسیرۃ شہر وجعلت لي الأرض کلہا مسجد أ و طہوراً واحلت لي الغنائم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التیمم: باب إذا لم یجد ماء ولا تراباً‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۳۳۵)
(۲-۳) فضلنا علی الناس بثلاث: جعلت لنا الأرض کلہا مسجداً وجعلت تربتہا طہوراً إذا لم نجد الماء وجعلت صفوفنا کصفوف الملائکۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب المساجد‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۵۲۲)
(۴) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب الساعۃ التی في یوم الجمعۃ: ج ۱، ص: ۱۲۸، رقم: ۹۳۵)
(۵) أخرجہ مسلم، في صححیہ، ’’کتاب الصیام: باب فضل السحور‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۰، رقم: ۱۰۹۶۔
(۶) شرح الزرقاني علی المواہب: ج ۷، ص: ۴۵۰۔
(۷) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الفتن، باب ماجاء في لزوم الجماعۃ: ج ۲، ص: ۳۹، رقم: ۲۱۶۷۔
(۸) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب ہلاک ہذہ الأمۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۲، رقم: ۲۸۸۹۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب العلم قبل القول والعمل‘‘: ج۱، ص: ۲۴۔
(۲) أشرف علي التھانوي، نشر الطیب، ’’في ذکر النبي الطبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ص: ۱۸۵۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب قول اللّٰہ {إنا أرسلنا نوحاً إلی قومہ}‘‘: ج ۲، ص: ۶۷۱، رقم: ۳۳۳۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص207
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:امی اس کو کہتے ہیں جس نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو اور جاہل وہ ہے، جس کو کوئی علم حاصل نہ ہو، دونوں میں فرق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی استاذ نہیں تھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امی کہا جاتا ہے اور یہ کہنا درست ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنے علوم عطا فرمائے تھے کہ دنیا میں کسی کو بھی اتنے علوم لکھنا پڑھنا سیکھنے کے باوجود حاصل نہیں ہوسکے؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے عالم ومعلم ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہل کہنا خلاف واقعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے پڑھے ہوئے نہ تھے؛ اس لئے انپڑھ کہنا درست نہیں ہے۔ اب اگر کوئی شخص آپ کو صلی اللہ علیہ وسلم کو انپڑھ کہتا ہے اور اس کی سمجھ میں یہ امی کا ترجمہ ہے (جس نے پڑھنا لکھنا نہ سیکھا ہو)، تو وہ گنہگار نہیں ہے، تاہم انپڑھ کا لفظ استعمال کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رفعت کے خلاف ہے۔ اور جاہل کہنا تو قطعاً درست نہیں ہے، اگر اپنی دانست میں اس نے یہ امی ہی کا ترجمہ کیا ہے؛ اگرچہ غلط کیا ہے، تو وہ اس کلمہ سے دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوا اور اگر عیاذا باللہ اہانت کے لئے اس جملہ کو استعمال کیا تو وہ بلا شبہ مرتد ہوجائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لفظ امی بولنے کی ضرورت پیش آئے تو امی لفظ بولا جائے، انپڑھ وغیرہ الفاظ سے اجتناب کیا جائے۔(۱)
(۱) محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسر المظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۱۵۷‘‘: ج ۳، ص: ۴۴۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص208
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قریش ایک بحری جانور ہے جو اپنی قوت کی وجہ سے سب جانوروں پر غالب رہتا ہے وہ جس جانور کو چاہتا ہے کھا لیتا ہے، مگر اس کو کوئی نہیں کھا سکتا ہے، اسی طرح قریش بھی اپنی شجاعت اور بہادری کی وجہ سے سب پر غالب رہتے ہیں کسی سے مغلوب نہیں ہوتے اس لیے قریش کے نام سے موسوم ہوئے (۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان اگرچہ ’’أبا عن جد‘‘ معزز اور ممتاز چلا آتا تھا، لیکن جس شخص نے اس خاندان کو قریش کے لقب سے ممتاز کیا وہ نضر بن کنانہ تھے، بعض محققین کے مطابق قریش کا لقب سب سے پہلے فہر کو ملا اور انہی کی اولاد قریشی ہے۔
نضر کے بعد فہر اور فہر کے بعد قصی بن کلاب نے نہایت عزت واحترام حاصل کیا، قصی نے بڑے بڑے نمایاں کام کیے، قصی کی چھ اولاد تھیں، ان میں ایک عبد مناف تھے، قصی کے بعد قریش کی ریاست عبد مناف نے حاصل کی اور انہی کا خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص خاندان ہے۔ تفصیل کے لیے سیرت مصطفی اور سیرت النبی کا مطالعہ کریں۔(۱)
(۲)ادریس کاندھلویؒ، سیرت المصطفیٰ: ج ۱، ص: ۲۵۔
(۱) علامہ سیّد سلیمان ندویؒ، سیرت النبی: ج ۱، ص: ۱۰۶؛ والعیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري: ج ۷، ص: ۴۸۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص209
حدیث و سنت
Ref. No. 2001/44-1957
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دوران اسباق تلامذہ کا حق ہے کہ جو بات انہیں سمجھ میں نہ آئے اسے اپنے اساتذہ سے دریافت کرلیں، لیکن احترام بہرصورت ملحوظ رکھنا چاہئے، کیونکہ تنقید کرنا جائز ہے مگر تحقیر کسی صورت جائز نہیں ہے۔ آپ کے سوال سے ظاہرہوتاہے کہ آپ کا یہ رویہ استاذ کی حقارت کاباعث بن رہاہے ، جوکہ انتہائی نامناسب اور غلط عمل ہے۔ اساتذہ اسباق میں اپنے نظریات بھی بتلاتے ہیں، جن کا ماننا لازم نہیں ہوتاہے ؛ آپ ان کے نظریات سے متفق ہوں تو ٹھیک ، نہیں ہوں تو بھی کوئی بات نہیں ، ۔ نہ تو اساتذہ کو اپنا نظریہ دوسروں پر تھوپنا چاہئے اور نہ طالب عمل ہی استاذ کو اپنے نظریات کا پابند بنائے۔ نیز طالب علم کو اسباق میں اپنانظریہ لے کر نہیں بیٹھناچاہئے، ورنہ دوسرے نظریہ کی حقیقت و حقانیت کبھی بھی طالب علم پر عیاں نہیں ہوگی۔ ایسے معاملہ میں بہتر یہ ہے کہ خارج میں استاذ سے مل کر معلومات حاصل کرے، مگر ایسی بحثوں سے پھر بھی گریز کریں جس سے استاذ کو خفگی محسوس ہو، اساتذہ کا اپنے نظریات کے مطابق اسباق سمجھانا غیبت نہیں ہوتاہے۔
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه انہ قال تعلموا العلم وتعلموا لہ السكينة والوقار وتواضعوا لمن تتعلمون منه ولمن تعلمونہ ولا تكونوا جبابرة العلماء۔ (جامع بیان العلم 1/512)
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أَنَّهُ سَمِعَ النَّبيَّ -صلّى اللهُ عليه وسَلَّم يقول-: «إن العبد ليتكلم بالكلمة ما يتبين فيها يزلُّ بها إلى النار أبعدَ مما بين المشرق والمغرب». (مسلم شریف الرقم 2988)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ تمام نظریات سراسر غلط اور تاریخ سے عدم واقفیت پر مبنی ہیں۔ ان نظریات کا حامل شخص گمراہ اور صراط مستقیم سے ہٹا ہوا ہے۔ اس کی باتوں پر بالکل توجہ نہ دی جائے۔ ان نظریات کی کوئی بنیاد نہیں ہے؛ بلکہ سب اٹکل ہے جو اس شخص نے خود سے گھڑ لیے ہیں۔ یہ نظریات حدیث واجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ اس شخص سے ہی ان نظریات پر ثبوت طلب کرلیں، تو اس کی حقیقت سامنے آجائے گی۔
صحاح ستہ کے حوالہ سے شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’چھ کتابیں جو کہ اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔‘‘(۱) حاصل یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے؛ لہٰذا چند روایات کے ضعیف ہونے کی وجہ سے سب کا انکار کر دینا غلط ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کچھ باتیں لکھی ہیں وہ سب غلط ہیں۔(۲)
اس سلسلے میں حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق کا مطالعہ مفید ہوگا۔
(۱) الشیخ عبد الحق الدہلوي، أشعۃ اللمعات، شرح مشکوٰۃ المصابیح: ج ۱، ص: ۱۳۹۔
(۲) یقول: لقد قتل عثمان وما أعلم أحدًا یتہم علیًا في قتلہ أسمی المطالب في سیرۃ علي بن أبي طالب: ج ۱، ص: ۴۴۰) ؛ وتاریخ ابن عساکر، ترجمۃ عثمان، ص: ۳۵؛ و لقد أنکر علي رضي اللّٰہ عنہ قتل عثمان رضي اللّٰہ عنہ وتبرأ من دمہ، وکان یقسم علی ذلک في خطبہ وغیرہا أنہ لم یقتلہ ولا أمر بقتلہ ولا مالأ ولا رضي، وقد ثبت ذلک عنہ بطریق تفید القطع۔ (ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ: ج ۷، ص: ۲۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص112
حدیث و سنت
Ref. No. 2464/45-4468
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ غافلین سے مراد یہاں یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل شمار نہیں کیا جائے گا۔
قال العلامة العيني: قوله لم تكتيب من الغافلين أي الغافلين عن ذكره الله‘‘ (شرح سنن ابي داؤد للعيني: ج 5، ص: 303)
محافظت سے مراد اوقات نماز کی حفاظت، نماز کے ارکان وشرائط کی حفاظت اور مساجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا دوام مراد ہے۔
(٣) یقیمون الصلاۃ: ابن کثیر کی تفسیر میں ہے: نماز قائم کرتے ہیں سے مراد فرض نمازوں کو کامل رکوع وسجدے ،تلاوت اور خشوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں یہ ابن عباس کی تفسیر ہے، مقاتل بن حبان نے تفسیر کی ہے اوقات کی حفاظت کرنا، کامل طور پر وضو کرنے، مکمل رکوع، سجدہ، تلاوت قرآن، تشہد ،حضورﷺ پر درود وغیرہ پڑھنا اقامت صلاۃ ہے۔
وقال مقاتل بن حبان: المحافظة علي اقامة واسباغ الطهور فيها وتمام ركوعها وسجودها وتلاوة القرآن فيها والتشهد والصلاة علي النبي فهذا اقامتها‘‘ (تفسير ابن كثير: ج 1، ص: 168)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند