حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قریش ایک بحری جانور ہے جو اپنی قوت کی وجہ سے سب جانوروں پر غالب رہتا ہے وہ جس جانور کو چاہتا ہے کھا لیتا ہے، مگر اس کو کوئی نہیں کھا سکتا ہے، اسی طرح قریش بھی اپنی شجاعت اور بہادری کی وجہ سے سب پر غالب رہتے ہیں کسی سے مغلوب نہیں ہوتے اس لیے قریش کے نام سے موسوم ہوئے (۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان اگرچہ ’’أبا عن جد‘‘ معزز اور ممتاز چلا آتا تھا، لیکن جس شخص نے اس خاندان کو قریش کے لقب سے ممتاز کیا وہ نضر بن کنانہ تھے، بعض محققین کے مطابق قریش کا لقب سب سے پہلے فہر کو ملا اور انہی کی اولاد قریشی ہے۔
نضر کے بعد فہر اور فہر کے بعد قصی بن کلاب نے نہایت عزت واحترام حاصل کیا، قصی نے بڑے بڑے نمایاں کام کیے، قصی کی چھ اولاد تھیں، ان میں ایک عبد مناف تھے، قصی کے بعد قریش کی ریاست عبد مناف نے حاصل کی اور انہی کا خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص خاندان ہے۔ تفصیل کے لیے سیرت مصطفی اور سیرت النبی کا مطالعہ کریں۔(۱)

(۲)ادریس کاندھلویؒ، سیرت المصطفیٰ: ج ۱، ص: ۲۵۔
(۱) علامہ سیّد سلیمان ندویؒ، سیرت النبی: ج ۱، ص: ۱۰۶؛ والعیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري: ج ۷، ص: ۴۸۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص209

حدیث و سنت

Ref. No. 2001/44-1957

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دوران اسباق تلامذہ کا حق ہے کہ جو بات انہیں سمجھ میں نہ آئے اسے اپنے اساتذہ سے دریافت کرلیں، لیکن احترام بہرصورت ملحوظ رکھنا چاہئے، کیونکہ تنقید کرنا جائز ہے مگر تحقیر کسی صورت جائز نہیں ہے۔ آپ کے سوال سے ظاہرہوتاہے کہ آپ کا یہ رویہ استاذ کی حقارت کاباعث بن رہاہے ، جوکہ انتہائی نامناسب اور غلط عمل ہے۔ اساتذہ اسباق میں اپنے نظریات بھی بتلاتے ہیں، جن کا ماننا لازم نہیں ہوتاہے ؛ آپ ان کے نظریات سے متفق ہوں تو ٹھیک ، نہیں  ہوں تو بھی کوئی بات نہیں ،  ۔ نہ تو اساتذہ کو اپنا نظریہ دوسروں پر تھوپنا چاہئے  اور نہ طالب عمل ہی استاذ کو اپنے نظریات کا پابند بنائے۔ نیز طالب علم کو اسباق میں  اپنانظریہ لے کر نہیں بیٹھناچاہئے، ورنہ دوسرے نظریہ کی حقیقت و حقانیت کبھی بھی طالب علم پر عیاں نہیں ہوگی۔ ایسے معاملہ میں بہتر یہ ہے کہ خارج میں استاذ سے مل کر معلومات حاصل کرے، مگر ایسی بحثوں سے پھر بھی گریز کریں جس سے استاذ کو خفگی محسوس ہو، اساتذہ کا اپنے نظریات کے مطابق اسباق سمجھانا غیبت نہیں ہوتاہے۔

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه  انہ قال تعلموا العلم وتعلموا لہ السكينة والوقار وتواضعوا لمن تتعلمون منه ولمن تعلمونہ ولا تكونوا جبابرة العلماء۔ (جامع بیان العلم 1/512)

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أَنَّهُ سَمِعَ النَّبيَّ -صلّى اللهُ عليه وسَلَّم يقول-: «إن العبد ليتكلم بالكلمة ما يتبين فيها يزلُّ بها إلى النار أبعدَ مما بين المشرق والمغرب». (مسلم شریف الرقم 2988)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسلمان مسلمان کا دینی بھائی ہے(۱) اور غیرمسلم وطنی بھائی ہیں اور کچھ تو نسبی بھائی بھی ہوتے ہیں۔(۲) (۱) {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃ} (حجرات: ۱۰) (۲) کل شیئین یکون بینہما اتفاق تطلق علیہما إسم الأخوۃ۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح البخاري، ’’باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ‘‘: ج ۱۲، ص: ۲۸۹، رقم: ۲۴۴۲) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص110

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ تمام نظریات سراسر غلط اور تاریخ سے عدم واقفیت پر مبنی ہیں۔ ان نظریات کا حامل شخص گمراہ اور صراط مستقیم سے ہٹا ہوا ہے۔ اس کی باتوں پر بالکل توجہ نہ دی جائے۔ ان نظریات کی کوئی بنیاد نہیں ہے؛ بلکہ سب اٹکل ہے جو اس شخص نے خود سے گھڑ لیے ہیں۔ یہ نظریات حدیث واجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ اس شخص سے ہی ان نظریات پر ثبوت طلب کرلیں، تو اس کی حقیقت سامنے آجائے گی۔
صحاح ستہ کے حوالہ سے شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’چھ کتابیں جو کہ اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔‘‘(۱) حاصل یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے؛ لہٰذا چند روایات کے ضعیف ہونے کی وجہ سے سب کا انکار کر دینا غلط ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کچھ باتیں لکھی ہیں وہ سب غلط ہیں۔(۲)
اس سلسلے میں حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق کا مطالعہ مفید ہوگا۔

(۱) الشیخ عبد الحق الدہلوي، أشعۃ اللمعات، شرح مشکوٰۃ المصابیح: ج ۱، ص: ۱۳۹۔
(۲) یقول: لقد قتل عثمان وما أعلم أحدًا یتہم علیًا في قتلہ أسمی المطالب في سیرۃ علي بن أبي طالب: ج ۱، ص: ۴۴۰) ؛ وتاریخ ابن عساکر، ترجمۃ عثمان، ص: ۳۵؛ و لقد أنکر علي رضي اللّٰہ عنہ قتل عثمان رضي اللّٰہ عنہ وتبرأ من دمہ، وکان یقسم علی ذلک في خطبہ وغیرہا أنہ لم یقتلہ ولا أمر بقتلہ ولا مالأ ولا رضي، وقد ثبت ذلک عنہ بطریق تفید القطع۔ (ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ: ج ۷، ص: ۲۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص112

حدیث و سنت

Ref. No. 2464/45-4468

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ غافلین سے مراد یہاں  یہ ہے کہ ان کو  اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل شمار نہیں کیا جائے گا۔

قال العلامة العيني: قوله لم تكتيب من الغافلين أي الغافلين عن ذكره الله‘‘ (شرح سنن ابي داؤد للعيني: ج 5، ص: 303)

محافظت سے مراد اوقات نماز کی حفاظت، نماز کے ارکان وشرائط کی حفاظت اور مساجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا دوام مراد ہے۔

(٣) یقیمون الصلاۃ: ابن کثیر کی تفسیر میں ہے: نماز قائم کرتے ہیں سے مراد فرض نمازوں کو کامل رکوع وسجدے ،تلاوت اور خشوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں یہ ابن عباس کی تفسیر ہے، مقاتل بن حبان نے تفسیر کی ہے اوقات کی حفاظت کرنا، کامل طور پر وضو کرنے، مکمل رکوع، سجدہ، تلاوت قرآن، تشہد ،حضورﷺ پر درود وغیرہ پڑھنا اقامت صلاۃ ہے۔

وقال مقاتل بن حبان: المحافظة علي اقامة واسباغ الطهور فيها وتمام ركوعها وسجودها وتلاوة القرآن فيها والتشهد والصلاة علي النبي فهذا اقامتها‘‘ (تفسير ابن كثير: ج 1، ص: 168)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:روایت کا مطلب یہ ہے کہ پوری کی پوری امت کبھی شرک میں مبتلا نہیں ہوگی؛ بلکہ ہر دور میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو شرک سے بچنے والے ہوں گے؛ جب کہ کچھ لوگ شرک بھی کریں گے، جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لا تقوم الساعۃ حتی تلحق قبائل من أمتي بالمشرکین وحتی تعبد قبائل من أمتي بالأوثان‘‘(۱)

(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الفتن: ذکر الفتن ودلائلہا‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۴؛ أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷، رقم: ۲۲۱۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص113

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:احادیث کی معتبر کتابوں میں اس کا ذکر ہمیں نہیں ملا، علامہ حلبی نے اس کے بطلان کی صراحت کی ہے۔(۱)

(۱) وأما ما ذکر في المضمرات أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لفاطمۃ رضي اللّٰہ عنہا: ما من مؤمن ولا مؤمنۃ یسجد سجدتین إلی آخر ما ذکر، فحدیث موضوع باطل لا أصل لہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ، مطلب في سجدۃ الشکر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص114

حدیث و سنت

Ref. No. 1794/43-1561

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  غلام کی ذات اس کے آقا کے پاس مملوک ہوتی تھی،  اور غلام کو کسی بھی طرح کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتاتھا، وہ اپنی مرضی سے غلامیت سے باہر نہیں آسکتا تھا وہ اپنی مرضی سے اپنے آپ کو کسی سےبیچے یا خریدے اس کا بھی کوئی اختیار نہیں تھا۔ جبکہ آج کل کے ملازمین خودمختار ہوتے ہیں ، ملازمت پر رکھنے والے سے ایک معاہدہ ہوتاہے اور دونوں فریق کی رضامندی سے ملازمت کے اصول طے ہوتے ہیں، ملازم جب چاہے ملازمت ترک کرسکتاہے،  اور دوسری جگہ ملازمت تلاش کرسکتاہے۔ معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں دونوں قابل گرفت ہوں گے۔ اس لئے غلام اور ملازم  کے اجروثواب میں فرق ہوگا،  اور جو دوہرے اجر کی بات غلام کے لئے ہے وہ آزاد کے لئے نہیں ہوگی۔ البتہ اپنے اہل وعیال کی عمدہ طریقہ پر  کفالت کرنے کے لئے کوشاں رہنے کا ثواب ضرور حاصل ہوگا جس کی حدیث میں تاکید آئی ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’یداً بیدٍ‘‘ کا ورود بیع کے لیے ہے نہ کہ قرض میں؛ لہٰذا قرض پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔(۱)

(۱) حدیث کا تعلق بیع سے ہے، قرض سے نہیں اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک جنس کی بیع اسی جنس سے ہو رہی ہو تو نقد در نقد ہونا چاہیے ادھار جائز نہیں ہے، حدیث میں ’’الحنطۃ بالحنطۃ‘‘ سے پہلے ’’بیعوا‘‘ محذوف ہے۔
’’وأما عدم جواز بیع الحنطۃ بالحنطۃ وزنا معلوما فلعدم العلم بالمساواۃ الذہب بالذہب مثلاً بمثل وقد تقدم وجہ انتصابہ إنہ بالعامل المقدر أي بیعوا وفي البخاري لا تبیعوا الذہب بالذہب إلا مثلا بمثل۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصرف‘‘: ج ۷، ص: ۱۳۴)
قال الحنطۃ بالحنطۃ مثلاً بمثل یدا بید والفضل ربا أي: بیعوا الحنطۃ بالحنطۃ مثلاً بمثل یدا بیدا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل في شرائط الصحۃ في البیوع‘‘: ج ۵، ص: ۱۸۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص115

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صحیح قول کے مطابق حج ۹ھ میں یا اس کے بعد فرض ہوا(۲) اور فرض ہونے کے بعد جیسا کہ تمام احکام الٰہی کے متعلق آپ کی سیرت شاہد ہے، فوراً وقتِ حج آنے پر آپ نے حج ادا کیا؛ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی تاخیر نہیں کی۔(۳)

(۲) قال القاضي عیاض: وإنما لم یذکر الحج لأن وفادۃ عبد القیس کانت عام الفتح ونزلت فریضۃ الحج سنۃ تسع بعدہا علی الأشہر۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: ج ۱، ص: ۹۰، رقم: ۱۷)
إنہ علیہ السلام حج سنۃ عشر وفریضۃ الحج کانت سنۃ تسع۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۴)
(۳) ابوالبرکات، اصح السیر: ص: ۵۲۵۔


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص210