Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صحیح قول کے مطابق حج ۹ھ میں یا اس کے بعد فرض ہوا(۲) اور فرض ہونے کے بعد جیسا کہ تمام احکام الٰہی کے متعلق آپ کی سیرت شاہد ہے، فوراً وقتِ حج آنے پر آپ نے حج ادا کیا؛ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی تاخیر نہیں کی۔(۳)
(۲) قال القاضي عیاض: وإنما لم یذکر الحج لأن وفادۃ عبد القیس کانت عام الفتح ونزلت فریضۃ الحج سنۃ تسع بعدہا علی الأشہر۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: ج ۱، ص: ۹۰، رقم: ۱۷)
إنہ علیہ السلام حج سنۃ عشر وفریضۃ الحج کانت سنۃ تسع۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۴)
(۳) ابوالبرکات، اصح السیر: ص: ۵۲۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص210
حدیث و سنت
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرات صحابۂ کرامؓ نے غزوات کے مواقع پر جہاد میں نظم وضبط قائم رکھنے کے لیے جھنڈا استعمال فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفید رنگ پسند تھا۔ ترمذی شریف میں ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ کا جھنڈا سفید رنگ کا تھا البتہ ابن قیم کے بیان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے میں کبھی کبھی سیاہ رنگ کو بھی اختیار کیا گیا اور خاص خاص قبائل اور لشکروں کے جھنڈوں کا رنگ کبھی سفید کبھی سرخ کبھی زرد کبھی سیاہ وسفید کا مجموعہ منقول ہے۔ احادیث پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہؓ کے جھنڈے استعمال کرنے کا مقصد اور اس کی حکمت جہاد میں نظم وضبط کو قائم کرنا اور اس کو باقی رکھنا تھا۔ اور ان میں کسی خاص کپڑے کا اہتمام مقصود وملحوظ نہ تھا، جو کپڑا میسر آگیا اسی کو استعمال کرلیا گیا حتی کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چادر ہی کا جھنڈا بنالیا گیا تھا؛ لہٰذا جہاد کے موقع پر مذکورہ مقصد کے لیے جھنڈے کا استعمال نہ صرف جائز ہے؛ بلکہ مسنون ہے۔ لیکن دیگر مقاصد کے لئے جھنڈوں یا خاص رنگوں کو مسنون سمجھنا درست نہیں۔(۱)
(۱) عن براء بن عازب اسألہ عن رایۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: کانت سوداء مربعۃ من نمرۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجہاد، باب ما جاء في الرایات‘‘: ج ۲، ص: ۶ ۲۹، رقم: ۱۶۸۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص211
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:{وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ ط}(۱) قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے جو نبی اور رسول بھیجا ہے اس کو اس کی قوم کی زبان دے کر بھیجا، تاکہ وہ اپنی قوم کو تبلیغ کرسکے اور اسی زبان میں اس کو وحی دے کر بھیجا گیا جس زبان کو وہ جانتے تھے، چنانچہ بعض رسولوں اور نبیوں کو عربی زبان میں اور بعض کو سریانی زبان میں وحی بھیجی گئی؛ کیونکہ وہ اس کو جاننے والے تھے اور وہی زبان ان کی قوم کی زبان تھی ورنہ نبی اور رسول کا تخاطب بے کار ہو جاتا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف عربی زبان میں وحی بھیجی جو قرآن پاک کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔(۲)
(۱) سورۃ الإبراہیم: ۴۔
(۲) {نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْأَمِیْنُہلا ۱۹۳عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ہلا ۱۹۴ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِیْنٍ ہط۱۹۵} (سورۃ الشعراء: ۱۹۵)
{فَإِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّاہ۹۷} (سورۃ المریم: ۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص213
حدیث و سنت
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث درست اور معجم کبیر وغیرہ میں مذکور ہے۔(۲)
(۲) عن عبد اللّٰہ: عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من وسع علی عیالہ یوم عاشوراء لم یزل في سعۃ سائر سنتہ۔ (أخرجہ سلیمان بن أحمد، المعجم الکبیر: ج ۱۰، ص: ۷۷، رقم: ۱۰۰۰۷) حدیث: من وسع علی عیالہ في یوم عاشوراء وسع اللّٰہ علیہ السنۃ کلہا، الطبراني في الشعب وفضائل الأوقات، وأبو الشیخ عن ابن مسعود، والأولان فقط عن أبي سعید، والثاني فقط في الشعب عن جابر وأبي ہریرۃ، وقال: إن أسانیدہ کلہا ضعیفۃ، ولکن إذا ضم بعضہا إلی بعض أفاد قوۃ، بل قال العراقي في أمالیہ: لحدیث أبي ہریرۃ طرق، صحح بعضہا ابن ناصر الحافظ، وأوردہ ابن الجوزي في الموضوعات من طریق سلیمان ابن أبي عبد اللّٰہ عنہ، وقال: سلیمان مجہول، وسلیمان ذکرہ ابن حبان في الثقات، فالحدیث حسن علی رأیہ، قال: ولہ طریق عن جابر علی شرط مسلم، أخرجہا ابن عبد البر في الاستذکار من روایۃ أبي الزبیر عنہ، وہي أصح طرقہ، ورواہ ہو والدارقطني في الأفراد بسند جید، عن عمر موقوفا علیہ، والبیہقي في الشعب من جہۃ محمد بن المنتشر، قال: کان یقال، فذکرہ، قال: وقد جمعت طرقہ في جزء، قلت: واستدرک علیہ شیخنا رحمہ اللّٰہ کثیرا لم یذکرہ، وتعقب اعتماد ابن الجوزي في الموضوعات، قول العقیلي في ہیصم بن شداخ راوي حدیث ابن مسعود: إنہ مجہول بقولہ بل ذکرہ ابن حبان في الثقات والضعفاء۔ (شمس الدین، المقاصد الحسنۃ: ج ۱، ص: ۶۷۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص115
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱،۲) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’من کذب علي متعمداً فلیتبوأ مقعدہ في النار أو قال من النار أو کما قال علیہ الصلوۃ والسلام‘‘۔(۱)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسے کلام کا منسوب کرنا، جو آپ سے صادر نہ ہوا ہو۔ بہت بڑا گناہ ہے، اکثر صحابہؓ حدیث کی روایت کرنے سے؛ اس لیے احتراز کرتے تھے کہ جو بات آپ نے نہ کہی ہو، ہمارے سہو یا غلطی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہوجائے۔ مقرر نے جو کچھ بھی حدیث کے نام سے بیان کیا صحیح نہیں؛ اس لیے صحیح روایت اور سند میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔
(۱) عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کذب علي متعمداً فلیتبوأ مقعدہ في النار۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب التحذیر من الکذب علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۱۰، رقم: ۳)؛ وعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص117
حدیث و سنت
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ واقعہ من گھڑت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط واقعہ کا منسوب کرنا گناہ عظیم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’من تعمد علي کذبا فلیتبوأ مقعدہ من النار ‘‘ (۱)مجھ پر جو شخص جھوٹ بولے اس کو چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کرے۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: إثم من کذب علي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۱۰۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص118
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بنی نوع انسانی اور جنوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے؛ اس لئے ہر انسان اور جنوں پر واجب ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کی اتباع کرے۔ فتاویٰ حدیثیہ میں ہے:
’’ولم یبعث إلیہم نبي قبل نبینا قطعا علی ماقالہ ابن حزم: أي وإنما کانوا متطوعین بالایمان لموسی مثلاً والدخول في شریعتہ۔ وقال السبکی: لا شک أنہم مکلفون في الأمم الماضیۃ کہذہ الملۃ إما بسما عہم من الرسول أو من صادق عنہ، کونہ إنسیاً أو جنیا لا قاطع بہ‘‘۔(۲)
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ثقلین ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں اور جناتوں دونوں کے نبی ہیں جنوں کے ایمان لانے کا واقعہ کتب احادیث وغیرہ میں اس طرح ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنات کو قرآن کریم بالقصد سنایا نہیں؛بلکہ ان کو دیکھا بھی نہیں ہے۔(۱)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت جب جنات کو آسمانی خبریں سننے سے روک دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت وبعثت کے بعد جو جنات آسمانی خبریں سننے کے لئے اوپر جاتے تھے تو ان پر شہاب ثاقب پھینک کر دفع کر دیا جانے لگا، جنات میں اس کا تذکرہ ہوا کہ اس کا سبب معلوم کرنا چاہئے کہ کونسا نیا واقعہ دنیا میں پیش آیا ہے جس کی وجہ سے جنات کو آسمانی خبروں سے روک دیا گیا ہے، جنات کے مختلف گروہ دنیا کے مختلف خطوں میں اس کی تحقیقات کے لئے پھیل گئے ان کا ایک گروہ حجاز کی طرف بھی پہونچا، اسی روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپس لوٹے تھے اور اپنے اصحاب کے ہمراہ وادئی نخلہ میں نماز پڑھ رہے تھے، اس وقت جنوں کے ایک گروہ نے قرآن کریم سنا اور اپنی قوم کی طرف واپس جاکر انہیں ڈرایا، اس واقعہ کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور سورۃ احقاف کی آیت نازل فرمائی:
{وَإِذْ صَرَفْنَآ إِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَج فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا أَنْصِتُوْاج فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلٰی قَوْمِھِمْ مُّنْذِرِیْنَہ۲۹ قَالُوْا ٰیقَوْمَنَآ إِنَّا سَمِعْنَا کِتٰبًا أُنْزِلَ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَھْدِيْٓ إِلَی الْحَقِّ وَإِلٰی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍہ۳۰ ٰیقَوْمَنَآ أَجِیْبُوْا دَاعِيَ اللّٰہِ وَأٰمِنُوْا بِہٖ یَغْفِرْلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍہ۳۱ وَمَنْ لَّا یُجِبْ دَاعِيَ اللّٰہِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَیْسَ لَہٗ مِنْ دُوْنِہٖٓ أَوْلِیَآئُط أُولٰٓئِکَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍہ۳۲ }(۲)
اوراے پیغمبر! ان لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر بھی کیجئے، جب کہ ہم چند جنوں کو تمہاری طرف لے آئے کہ وہ قرآن سنیں پھر جب وہ اس موقع پر حاضر ہوئے تو ایک دوسرے سے بولے کہ چپ بیٹھے سنتے رہو۔ (پھر چپ بیٹھے سنتے رہے) اور جب قرآن پڑھا جا چکا یعنی نماز میں قرآن پڑھنا ختم ہو چکا، تو وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے (کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں) کہنے لگے اے ہماری قوم! ہم ایک کتاب سن کر آئے ہیں، جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، دینِ حق بتاتی ہے اور سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔ اے ہماری قوم! اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلانے والے کی بات مانو اور اس پر ایمان لاؤ، وہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو آخرت کے درد ناک عذاب سے محفوظ رکھے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے کی دعوت کو نہ مانے گا وہ زمین کے کسی حصے میں اللہ کو عاجز نہیں کرسکے گا خدا کے سواء اور کوئی حامی بھی نہ ہوگا ایسے لوگ صریح گمراہی میں مبتلا ہیں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورۃ الجن کی یہ آیات نازل فرمائیں:
{قُلْ أُوْحِيَ إِلَيَّ أَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًاہلا ۱ یَّھْدِيْٓ إِلَی الرُّشْدِ فَأٰمَنَّا بِہٖط وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَدًاہلا ۲ وَّأَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًاہلا ۳ وَّأَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ سَفِیْھُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًاہلا ۴ وَّأَنَّا ظَنَنَّآ أَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًاہلا ۵ وَّأَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَھَقًاہلا ۶ }(۱)
اے پیغمبر! آپ لوگوں کو بتا دیجئے کہ میرے پاس (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اس امر کی وحی آئی ہے کہ جنات میں سے ایک جماعت نے قرآن سنا اور اس کے بعد اپنے لوگوں سے جاکر کہا کہ ہم نے ایک عجیب طرح کا قرآن سنا جو نیک راہ بتاتا ہے۔ سو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم تو کسی کو اپنے پروردگار کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہمارے پروردگار کی بڑی اونچی شان ہے کہ اس نے نہ تو کسی کو اپنی بیوی بنایا اور نہ کسی کو اولاد۔ اور ہم میں کچھ احمق ایسے بھی ہیں جو اللہ کی نسبت بڑھ بڑھ کر باتیں بنایا کرتے تھے اور ہمارا پہلے یہ خیال تھا کہ انسان اور جنات کبھی خدا کی شان میں جھوٹ بات نہ کہیں گے۔ اور آدمیوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض لوگوں کی پناہ پکڑا کرتے تھے تو اس سے ان آدمیوں نے جنات کو اور بھی زیادہ مغرور اور بد دماغ کردیا۔
پھر جس وقت جنوں نے قرآن سنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان پر ایمان لے آئے۔ یہ شہر نصیبین کے جن تھے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے:
’’عن عبد اللّٰہ بن عباس رضي اللّٰہ عنہما، قال: ’’انطلق النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في طائفۃ منْ أصحابہ عامدین إلی سوق عکاظ، وقد حیل بین الشیاطین وبین خبر السماء، وأرسلت علیہم الشہب، فرجعت الشیاطین إلی قومہم، فقالوا: مالکم؟ قالوا: حیل بیننا وبین خبر السماء، وأرسلت علینا الشہب، قالوا: ماحال بینکم وبین خبر السماء إلا شيء حدث، {فاضْرِبُوا مَشَارِقَ الأرضِ ومغَارِبَہا}، فَانْظُرُوا مَا ہٰذا الذي حال بینکم وبین خبر السماء، فانصرف أولئک الذین توجہوا نحو تہامۃ إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو بنخلۃ عامدین إلی سوق عکاظ، وہو یصلی بأصحابہ صلاۃ الفجر، فلما سمعوا القرآن استمعوا لہ، فقالوا: ہذا واللّٰہ الذي حال بینکم وبین خبر السماء، فہنالک حین رجعوا إلی قومہم، قالوا: یا قومنا: {إِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًاہلا ۱ یَّھْدِيْٓ إِلَی الرُّشْدِ فَأٰمَنَّا بِہٖط وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَدًاہلا ۲ } (الجن: ۲) فأنزل اللّٰہ علی نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: {قُلْ أُوْحِيَ إِلَيَّ} (الجن: ۱) وإنَّمَا أُوحِيَ إِلَیْہِ قَوْلُ الجِنِّ‘‘۔(۱)
(۲) أحمد بن محمد بن حجر الہتیمي، الفتاویٰ الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۴۹۔
(۱) مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۵۷۴۔
(۲) سورۃ الأحقاف: ۲۹ تا ۳۲۔
(۱) سورۃ الجن: ۱ تا ۶۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب الجہر بقراۃ صلاۃ الصبح‘‘: ج۱، ص ۱۰۶، رقم: ۷۷۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص214