Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’یداً بیدٍ‘‘ کا ورود بیع کے لیے ہے نہ کہ قرض میں؛ لہٰذا قرض پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔(۱)
(۱) حدیث کا تعلق بیع سے ہے، قرض سے نہیں اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک جنس کی بیع اسی جنس سے ہو رہی ہو تو نقد در نقد ہونا چاہیے ادھار جائز نہیں ہے، حدیث میں ’’الحنطۃ بالحنطۃ‘‘ سے پہلے ’’بیعوا‘‘ محذوف ہے۔
’’وأما عدم جواز بیع الحنطۃ بالحنطۃ وزنا معلوما فلعدم العلم بالمساواۃ الذہب بالذہب مثلاً بمثل وقد تقدم وجہ انتصابہ إنہ بالعامل المقدر أي بیعوا وفي البخاري لا تبیعوا الذہب بالذہب إلا مثلا بمثل۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصرف‘‘: ج ۷، ص: ۱۳۴)
قال الحنطۃ بالحنطۃ مثلاً بمثل یدا بید والفضل ربا أي: بیعوا الحنطۃ بالحنطۃ مثلاً بمثل یدا بیدا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل في شرائط الصحۃ في البیوع‘‘: ج ۵، ص: ۱۸۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص115
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صحیح قول کے مطابق حج ۹ھ میں یا اس کے بعد فرض ہوا(۲) اور فرض ہونے کے بعد جیسا کہ تمام احکام الٰہی کے متعلق آپ کی سیرت شاہد ہے، فوراً وقتِ حج آنے پر آپ نے حج ادا کیا؛ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی تاخیر نہیں کی۔(۳)
(۲) قال القاضي عیاض: وإنما لم یذکر الحج لأن وفادۃ عبد القیس کانت عام الفتح ونزلت فریضۃ الحج سنۃ تسع بعدہا علی الأشہر۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: ج ۱، ص: ۹۰، رقم: ۱۷)
إنہ علیہ السلام حج سنۃ عشر وفریضۃ الحج کانت سنۃ تسع۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۴)
(۳) ابوالبرکات، اصح السیر: ص: ۵۲۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص210
حدیث و سنت
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرات صحابۂ کرامؓ نے غزوات کے مواقع پر جہاد میں نظم وضبط قائم رکھنے کے لیے جھنڈا استعمال فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفید رنگ پسند تھا۔ ترمذی شریف میں ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ کا جھنڈا سفید رنگ کا تھا البتہ ابن قیم کے بیان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے میں کبھی کبھی سیاہ رنگ کو بھی اختیار کیا گیا اور خاص خاص قبائل اور لشکروں کے جھنڈوں کا رنگ کبھی سفید کبھی سرخ کبھی زرد کبھی سیاہ وسفید کا مجموعہ منقول ہے۔ احادیث پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہؓ کے جھنڈے استعمال کرنے کا مقصد اور اس کی حکمت جہاد میں نظم وضبط کو قائم کرنا اور اس کو باقی رکھنا تھا۔ اور ان میں کسی خاص کپڑے کا اہتمام مقصود وملحوظ نہ تھا، جو کپڑا میسر آگیا اسی کو استعمال کرلیا گیا حتی کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چادر ہی کا جھنڈا بنالیا گیا تھا؛ لہٰذا جہاد کے موقع پر مذکورہ مقصد کے لیے جھنڈے کا استعمال نہ صرف جائز ہے؛ بلکہ مسنون ہے۔ لیکن دیگر مقاصد کے لئے جھنڈوں یا خاص رنگوں کو مسنون سمجھنا درست نہیں۔(۱)
(۱) عن براء بن عازب اسألہ عن رایۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: کانت سوداء مربعۃ من نمرۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجہاد، باب ما جاء في الرایات‘‘: ج ۲، ص: ۶ ۲۹، رقم: ۱۶۸۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص211
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:{وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ ط}(۱) قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے جو نبی اور رسول بھیجا ہے اس کو اس کی قوم کی زبان دے کر بھیجا، تاکہ وہ اپنی قوم کو تبلیغ کرسکے اور اسی زبان میں اس کو وحی دے کر بھیجا گیا جس زبان کو وہ جانتے تھے، چنانچہ بعض رسولوں اور نبیوں کو عربی زبان میں اور بعض کو سریانی زبان میں وحی بھیجی گئی؛ کیونکہ وہ اس کو جاننے والے تھے اور وہی زبان ان کی قوم کی زبان تھی ورنہ نبی اور رسول کا تخاطب بے کار ہو جاتا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف عربی زبان میں وحی بھیجی جو قرآن پاک کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔(۲)
(۱) سورۃ الإبراہیم: ۴۔
(۲) {نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْأَمِیْنُہلا ۱۹۳عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ہلا ۱۹۴ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِیْنٍ ہط۱۹۵} (سورۃ الشعراء: ۱۹۵)
{فَإِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّاہ۹۷} (سورۃ المریم: ۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص213
حدیث و سنت
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث درست اور معجم کبیر وغیرہ میں مذکور ہے۔(۲)
(۲) عن عبد اللّٰہ: عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من وسع علی عیالہ یوم عاشوراء لم یزل في سعۃ سائر سنتہ۔ (أخرجہ سلیمان بن أحمد، المعجم الکبیر: ج ۱۰، ص: ۷۷، رقم: ۱۰۰۰۷) حدیث: من وسع علی عیالہ في یوم عاشوراء وسع اللّٰہ علیہ السنۃ کلہا، الطبراني في الشعب وفضائل الأوقات، وأبو الشیخ عن ابن مسعود، والأولان فقط عن أبي سعید، والثاني فقط في الشعب عن جابر وأبي ہریرۃ، وقال: إن أسانیدہ کلہا ضعیفۃ، ولکن إذا ضم بعضہا إلی بعض أفاد قوۃ، بل قال العراقي في أمالیہ: لحدیث أبي ہریرۃ طرق، صحح بعضہا ابن ناصر الحافظ، وأوردہ ابن الجوزي في الموضوعات من طریق سلیمان ابن أبي عبد اللّٰہ عنہ، وقال: سلیمان مجہول، وسلیمان ذکرہ ابن حبان في الثقات، فالحدیث حسن علی رأیہ، قال: ولہ طریق عن جابر علی شرط مسلم، أخرجہا ابن عبد البر في الاستذکار من روایۃ أبي الزبیر عنہ، وہي أصح طرقہ، ورواہ ہو والدارقطني في الأفراد بسند جید، عن عمر موقوفا علیہ، والبیہقي في الشعب من جہۃ محمد بن المنتشر، قال: کان یقال، فذکرہ، قال: وقد جمعت طرقہ في جزء، قلت: واستدرک علیہ شیخنا رحمہ اللّٰہ کثیرا لم یذکرہ، وتعقب اعتماد ابن الجوزي في الموضوعات، قول العقیلي في ہیصم بن شداخ راوي حدیث ابن مسعود: إنہ مجہول بقولہ بل ذکرہ ابن حبان في الثقات والضعفاء۔ (شمس الدین، المقاصد الحسنۃ: ج ۱، ص: ۶۷۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص115
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱،۲) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’من کذب علي متعمداً فلیتبوأ مقعدہ في النار أو قال من النار أو کما قال علیہ الصلوۃ والسلام‘‘۔(۱)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسے کلام کا منسوب کرنا، جو آپ سے صادر نہ ہوا ہو۔ بہت بڑا گناہ ہے، اکثر صحابہؓ حدیث کی روایت کرنے سے؛ اس لیے احتراز کرتے تھے کہ جو بات آپ نے نہ کہی ہو، ہمارے سہو یا غلطی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہوجائے۔ مقرر نے جو کچھ بھی حدیث کے نام سے بیان کیا صحیح نہیں؛ اس لیے صحیح روایت اور سند میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔
(۱) عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کذب علي متعمداً فلیتبوأ مقعدہ في النار۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب التحذیر من الکذب علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۱۰، رقم: ۳)؛ وعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص117
حدیث و سنت
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ واقعہ من گھڑت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط واقعہ کا منسوب کرنا گناہ عظیم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’من تعمد علي کذبا فلیتبوأ مقعدہ من النار ‘‘ (۱)مجھ پر جو شخص جھوٹ بولے اس کو چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کرے۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: إثم من کذب علي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۱۰۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص118