طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلے اصل مسئلہ سمجھیں کہ غیرسبیلین سے اگر کوئی چیز نکلے  اور نکل کر اپنی جگہ سے بہہ جائے، تو وضو ٹوٹ جاتاہے اور اگر اتنی معمولی مقدار میں ہے کہ وہ اپنی جگہ سے نہ بہے، تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ ’’لیس في القطرۃ والقطرتین من الدم وضوء إلا أن یکون سائلا‘‘(۱)اس مسئلہ کی روشنی میں اگر غورفرمائیں، تو پہلی عبارت درست ہے کہ زخم سے نجاست نکلی اور اتنی مقدار میں ہے کہ نچوڑنے کی صورت میں سیلان پایا جائے، تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؛ اگرچہ اس کی کیفیت یہ ہے کہ اگر نہ نچوڑا جاتا تو نہ بہتا۔
 جہاں تک ہدایہ کی عبارت کا تعلق ہے ’’أما إذا عصرھا فخرج بعصرہ ولو لم یعصرھا لم یخرج لم ینقض لأنہ مخرج ولیس بخارج‘‘ (۲)یہ درست نہیں ہے؛ اس لیے اس صورت میں بھی وضو ٹوٹ جائے گا؛ کیوںکہ وضو کے ٹوٹنے کا مدار خارج پر ہے اور مخرج سے بھی خارج کا وجود ہوجاتا ہے؛ چنانچہ علامہ لکھنویؒ صاحب نے ہدایہ کی اس عبارت پر نقد کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ: ’’في الکافي الأصح أن المخرج ناقض انتہی۔ و کیف وجمیع الأدلۃ الموردۃ من السنۃ والقیاس تفید تعلیق النقض بالخارج النجس وھو الثابت في المخرج‘‘(۳)

(۱) فتح القدیر، ’’فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۴۶
(۲)محمد بن محمود، العنایۃ شرح الہدایۃ ، ’’فصل في نواقض الوضوء‘‘، ج۱، ص:۵۴
(۳)کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن الہمام، شرح فتح القدیر ، ’’فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۵۶

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص220

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:استنجا کرتے وقت پہلے مقعد کو دھونا ضروری ہے یا مقام پیشاب کو اس سلسلے میں احناف کے درمیان اختلاف ہے: حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مقعد کو پہلے دھویا جائے اور پیشاب کے مقام کو بعد میں، حضرات صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک پیشاب کے مقام کو اولاً دھویا جائے اور مقعد کو بعد میں، یہی مختار قول بھی ہے۔

’’ثم عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ یغسل دبرہ أولا ثم یغسل قبلہ بعدہ وعندہما یغسل قبلہ أولا، کذا في التتارخانیۃ وعلی قولہما مشی الغزنوی وہو الأشبہ، کذا في شرح منیۃ المصلی لابن أمیر الحاج‘‘(۱)
اور موضع استنجا کے پاک ہونے کے ساتھ ہی ہاتھ بھی پاک ہو جاتا ہے اور استنجا کے بعد ہاتھ بھی کلائیوں تک دھولے تو بہتر ہے جیسا کہ ابتدا میں دھویا جاتا ہے، ہاتھ کو مٹی، صابن، یا ہینڈ واش وغیرہ سے اچھی طرح صاف کر لینا مزید صفائی ستھرائی کا سبب ہے جیسا کہ امام نسائیؒ نے اپنی سنن میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم توضأ، فلما استنجی دلک یدہ بالأرض‘‘(۲)
’’وتطہر الید مع طہارۃ موضع الاستنجاء، کذا في السراجیۃ ویغسل یدہ بعد الاستنجاء کما یکون یغسلہا قبلہ لیکون أنقی وأنظف، وقد روي أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم غسل یدہ بعد الاستنجاء ودلک یدہ علی الحائط، کذا في التجنیس‘‘(۳)
 

(۱) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب دلک الید بالأرض بعد الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب دلک الید بالأرض بعد الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۴۵، رقم: ۵۰۔
(۳) أیضاً:

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص109

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کسی شخص کو اس کثرت سے ریاح خارج ہوتی ہو کہ اس کو بغیر ریاح خارج کیے چار رکعت نماز پڑھنے کا وقت نہ ملے اور یہ پورے وقت ایسا ہی رہے، تو وہ شخص معذور ہے، اس کو چاہیے کہ نماز کے وقت میں وضو کرے اور اس وضو سے جتنی چاہے نمازیں پڑھے؛ تا ہم خیال رہے کہ وقت نکلتے ہی اس کا وضو ٹوٹ جائے گا(۱) ’’وصاحب عذر من بہ سلس) بول لا یمکنہ إمساکہ (أو استطلاق بطن أو انفلات ریح أو استحاضۃ) أو بعینہ رمد أو عمش أو غرب، وکذا کل ما یخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرۃ (إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ) بأن لا یجد في جمیع وقتہا زمنا یتوضأ ویصلي فیہ خالیا عن الحدث‘‘(۲)

(۱) و منھا أن من بہ سلس البول إذا توضأ للبول ثم اؤدی حالۃ بقاء الوقت تنتقض طھارتہ الخ۔ (محمد بن محمد، العنایہ شرح الہدایہ، ج۱، ص:۸۸ بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)؛  ومن بہ سلس البول والرعاف الدائم و الجرح الذي لا یرقأ یتوضئون بوقت کل صلٰوۃ فیصلون بذلک الوضوء في الوقت ما شاء وا من الفرائض والنوافل الخ۔ (محمد بن محمد، العنایہ شرح ہدایہ،فصل في المستحاضۃ، ج۱، ص:۲۸۹)؛ و أما أصحاب الأعذار کالمستحاضۃ و صاحب الجرح المسائل والمبطون، ومن بہ سلس البول، ومن بہ رعاف دائم أو ریح و نحو ذلک ممن لا یمضي علیہ وقت صلوۃ إلا و یوجد ما ابتلي بہ من الحدث فیہ، فخروج النجس من ھؤلاء لا یکون حدثا في الحال ما دام وقت الصلوۃ قائما حتی أن المستحاضۃ لو توضأت في أول الوقت فلھا أن تصلي ما شاء ت من الفرائض والنوافل مالم یخرج الوقت، و إن دام السیلان، و ھذا عندنا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل و أما بیان ما ینقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۲۶)
(۲)ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ،باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور،‘‘ ج۱، ص:۵۰۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص222

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:استنجا میں صرف پانی پر اکتفاء کرنا یا صرف پتھر سے پوچھنا (جب کہ نجاست درہم کی مقدار سے زائد نہ ہو) تو دونوں صورتیں جائز ہیں؛ البتہ بہتر ہے کہ پانی سے استنجا کیا جائے، نیز فقہاء نے افضل طریقہ لکھا ہے کہ پہلے پتھر یا اس جیسی چیزوں سے نجاست کو پوچھنا چاہئے، پھر پانی سے دھو نا چاہئے، مذکورہ صورت صفائی ستھرائی اور پاکی میں اضافہ کا ذریعہ ہے، ایسے ہی کشف ستر کا خطرہ نہ ہو تو استنجا بالماء افضل ہے اور اگر کشف ستر کا خطرہ ہو تو استنجا بالاحجار کرنا چاہئے۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’والاستنجاء بالماء أفضل إن أمکنہ ذلک من غیرکشف العورۃ و إن احتاج إلی کشف العورۃ یستنجی بالحجر ولا یستنجی بالماء کذا فی فتاویٰ قاضیخان‘‘(۱)
’’ثم إعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل ویلیہ في الفضل الاقتصار علی الماء‘‘(۲)
’’عن أبي سعید عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہما  عن النبي  صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من اکتحل فلیوتر من فعل فقد أحسن ومن لا فلا حرج ومن استجمر فلیوتر، من فعل فقد أحسن، ومن لا فلا حرج، ومن أکل فما تخلل فلیلفظ وما لاک بلسانہ فلیبتلع من فعل فقد أحسن ومن لا فلا حرج، ومن أتی الغائط فلیستتر فإن لم یجد إلا أن یجمع کثیبا من رمل فلیستدبرہ فإن الشیطان یلعب بمقاعد بني آدم، من فعل فقد أحسن ومن لا فلا حرج‘‘(۱)
’’عن عطاء بن أبي میمونۃ قال سمعت أنسا یقول:کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یأتي الخلاء فأتبعہ أنا وغلام من الأنصار بإداوۃ من ماء، فیستنجي بہا‘‘(۲)
’’عن أبي أیوب وجابر بن عبد اللّٰہ وأنس بن مالک الأنصاریین عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في ہذہ الآیۃ {فیہ رجال یحبون أن یتطہروا واللّٰہ یحب المتطہرین} فقال: یا معشر الأنصار إن اللّٰہ تعالی قد أثنی علیکم خیرا في الطہور فما طہورکم ہذا۔ قالوا یا رسول اللّٰہ نتوضأ للصلاۃ ونغتسل من الجنابۃ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فہل مع ذلک من غیرہ۔ قالوا لا غیر أن أحدنا إذا خرج من الغائط أحب أن یستنجي بالماء۔ فقال: ہو ذاک فعلیکموہ‘‘(۳)

 

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب التاسع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث: في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۴۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۸۔
(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستتار في الخلاء‘‘: ج ۱، ص: ۹، رقم: ۳۵۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستنجاء بالماء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۵۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۳) أخرجہ دار قطني، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص111

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  اگر آپ کان میںروئی رکھ دیتے ہیںاور روئی میں تری محسوس ہوتی ہے، تو روئی میں لگے اس پانی کا اندازہ کیا جائے اگر وہ اتنا ہو کہ روئی نہ رکھی جائے، تو بہہ پڑے؛ اس قدر پانی کا نکلنا ناقض وضو ہے اور اگر تری کی مقدار اس سے کم ہے، یعنی: اگر روئی نہ رکھیں،تو بھی سیلان نہ پایا جائے؛ اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے کہ بظاہر اس میں سیلان نہیں ہے، اگر آپ ہاتھ نہ لے جاتے، تو وہ خود بخو د نہ بہتا۔ ’’ثم المراد بالخروج من السبیلین مجرد الظہور، وفي غیرہما عین السیلان ولو بالقوۃ، لما قالوا: لو مسح الدم کلما خرج ولو ترکہ لسال نقض وإلا لا، کما لو سال في باطن عین أو جرح أو ذکر ولم یخرج، وکدمع وعرق إلا عرق مدمن الخمر فناقض -تحتہ في الشامی- وکذا إذا وضع علیہ قطنا أو شیئا آخر حتی ینشف ثم وضعہ ثانیا وثالثا فإنہ یجمع جمیع ما نشف، فإن کان بحیث لو ترکہ سال نقض وإنما یعرف ہذا بالاجتہاد وغالب الظن، وکذا لو ألقی علیہ رمادا أو ترابا ثم ظہر ثانیا فتربہ ثم وثم فإنہ یجمع۔ قالوا: وإنما یجمع إذا کان في مجلس واحد مرۃ بعد أخری، فلو في مجالس فلا، تاتارخانیۃ، ومثلہ في البحر‘‘۔
أقول: وعلیہ فما یخرج من الجرح الذي ینز دائما ولیس فیہ قوۃ السیلان ولکنہ إذا ترک یتقوی باجتماعہ ویسیل عن محلہ، فإذا نشفہ أو ربطہ بخرقۃ وصار کلما خرج منہ شيء تشربتہ الخرقۃ ینظر، إن کان ما تشربتہ الخرقۃ في ذلک المجلس شیئا فشیئا بحیث لو ترک واجتمع أسال بنفسہ نقض، وإلا لا، ولا یجمع ما في مجلس إلی ما في مجلس آخر، وفي ذلک توسعۃ عظیمۃ لأصحاب القروح ولصاحب کي الحمصۃ‘‘(۱)

(۱)ابن عابدین ، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۲۶۲-۲۶۳
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص223

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہ کی مختلف کتابوں میں لکھا ہے کہ درج ذیل اشیاء سے استنجا کرنا درست نہیں ہے، مثلاً: ہڈی کھانے کی چیزیں، لید اور تمام ناپاک چیزیں اور وہ ڈھیلا یاپتھر جس سے ایک مرتبہ استنجا ہو چکا ہو یعنی ناپاک ہو، پختہ اینٹ، شیشہ، کوئلہ، چونا، لوہا، چاندی، سونا وغیرہ اور ایسی چیزوں سے استنجا کرنا جو نجاست کو صاف نہ کریں، جیسے: سرکہ وغیرہ یا ایسی چیزیں جن کو جانور وغیرہ کھاتے ہوں، جیسے: بھوسہ اور گھاس وغیرہ،یا ایسی چیزیں جو قیمت والی ہوں، چاہے قیمت تھوڑی ہو یا زیادہ، جیسے: کپڑا،یعنی ایسا کپڑا جس کو اگر استنجا کے بعد دھویا جائے، تو اس کی قیمت میں کمی آجائے، جیسے: ریشم وغیرہ کا کپڑا، ان سے استنجا کر نا درست نہیں ہے۔ مزید تفصیلات فتاویٰ ہندیہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔(۱)
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا تسنجو بالروث ولا بالعظام فإنہ زاد اخوانکم من الجن‘‘(۲)
اسی طرح آدمی کے اجزاء، جیسے: بال، ہڈی، گوشت، مسجد کی چٹائی یا کوڑا یا جھاڑو ،درختوں کے پتے، کاغذ چاہے لکھا ہو یا سادہ، زمزم کا پانی، بغیر اجازت دوسرے کے مال سے چاہے وہ پانی ہو یا کپڑا یا کوئی اور چیز، روئی اور تمام ایسی چیزیں جن سے انسان یا جانور نفع اٹھائیں،ایسی تمام چیزوں سے استنجا کرنا مکروہ ہے۔
’’یجوز في الاستنجاء استعمال الحجر: (وما قام مقامہ) أي ویجوز أیضاً بما قام مقام الحجر کالمدر والتراب والعود والخرقۃ والقطن والجلد ونحو ذلک‘‘(۳)
’’عن عائشۃ  رضي اللّٰہ عنہا ، قالت:  قدم سراقۃ بن مالک علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسألہ عن التغوط، فأمرہ أن یستعلی الریح وأن یتنکب القبلۃ، ولا یستقبلہا ولا یستدبرہا، وأن یستنجی بثلاثۃ أحجار ولیس فیہا رجیع، أو ثلاثۃ أعواد، أو ثلاث حثیات من تراب‘‘(۴) ’’إن لماء زمزم حرمۃ فإن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مج في دلو زمزم ثم أمر بإفراغہ في بئر زمزم، فعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما  قال: جاء النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلیٰ زمزم فنزعنا لہ دلواً، فشرب ثم مج فیہا، ثم أفرغناہازمزم، ثم قال: لولا أن تغلبوا علیہالنزعت بیدي‘‘(۱)
’’عن أنس بن مالک، قال: کان أبو ذر یحدث أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم  قال: فرج عن سقف بیتي وأنا بمکۃ، فنزل جبریل علیہ السلام ففرج صدري، ثم غسلہ بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذہب ممتلئ حکمۃ وإیمانا، فأفرغہ في صدري، ثم أطبقہ، ثم أخذ بیدي، فعرج بي إلی السماء الدنیا، فلما جئت إلی السماء الدنیا، قال جبریل: لخازن السماء افتح، قال: من ہذا؟ قال ہذا جبریل۔۔۔۔۔۔الخ‘‘(۲)

 

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب التاسع: في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء، صفۃ الاستنجاء بالماء‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ وسننہا، باب کراہیۃ الاستنجاء بالیمین‘‘: ج ۱، ص: ۱۰، رقم: ۱۸۔
(۳) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’ما یجوز بہ الاستنجاء و ما لا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۷۴۹۔
(۴) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما ورد في الاستنجاء بالتراب‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۵۳۹۔
(۱) أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’الجزء الخامس ‘‘: ج ۵، ص: ۴۶۷۔(القاھرۃ، مؤسسۃ الرسالۃ، مصر)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف فرضت الصلاۃ في الإسراء‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۳۴۹۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص113

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خون نکلنے اور بہنے سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ لیکن احناف کے نزدیک اگر اتنا خون بدن سے نکلے کہ وہ بہہ جائے یا بہہ سکے  تو وہ ناقض وضو ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل حدیث شریف ہے: ’’أنہ علیہ الصلاۃ قاء فلم یتوضأ‘‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قے آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو نہیں کیا، اس سے معلوم ہوا کہ سبیلین کے علاوہ سے اگر کوئی چیز نکلے، تو وہ ناقض وضو نہیں ہے۔ احناف کی دلیل دوسری حدیث ہے: ’’الوضوء من کل دم سائل‘‘ (۲)  کہ بہنے والا خون ناقض وضو ہے، احناف کہتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے جو حدیث دلیل کے طور پر پیش کی ہے، وہ غیر معروف ہے(۳)

 اور اگر اسے تسلیم بھی کر لیا جائے، تو اس کا مفہوم دوسری روایات کے سامنے رکھتے ہوئے یہ ہے کہ ’’من قاء أو رعف في صلاتہ فلینصرف ولیتوضأ ولیبن علی صلاتہ ما لم یتکلم‘‘ (۱)  کہ اگر نماز میں کسی کو قے یا نکسیر آجائے، تو وہ وضو کر کے آئے اور بنا کر لے شرط یہ ہے کہ اس نے کلام؛ یعنی: نماز کے منافی کوئی دیگر کام نہ کیا ہو؛ اس حدیث میں واضح ہو گیا کہ اگر نکسیر، یعنی: غیر سبیلین سے خون نکلنا ناقض وضو نہ ہوتا، تو نماز چھوڑ کر وضو کرنے کے لیے جانے کا حکم نہ دیا جاتا۔ احناف کی تیسری دلیل یہ ہے کہ بدن سے نجاست کا نکلنا زوال طہارت کے لیے مؤثر ہے اور خون نجاست ہے: ’’وأما الفرع فیہ فہو الخارج من غیر السبیلین وذلک، لأن علمائنا اعتبروا فاستنبطوا أن الخارج من السبیلین کان حدثا لکونہ نجساً خارجاً من بدن الإنسان من قولہ تعالیٰ: {أو جاء أحد منکم من الغائط} (الآیۃ) وہونص معلوم بذلک الوصف لظہور أثرہ في جنس الحکم المعلل بہ وہو إنتقاض الطہارۃ بخروج دم الحیض والنفاس، و وجدوا مثل ذلک في الخارج من غیر السبیلین فعدوا الحکم الأول إلیہ۔

(۲) و أما حدیث ’’الوضوء من کل دم سائل‘‘ فرواہ الدار قطنی من طرق ضعیفۃ، و رواہ ابن عدي في الکامل من أخری، و قال: لا نعرفہ إلا من حدیث أحمد بن فروخ، وھو ممن لا یحتج بحدیثہ؛ ولکنہ یکتب؛ فإن الناس مع ضعفہ قد احتملوا حدیثہ اھـ لکن قال ابن أي حاتم في کتاب العلل، قد کتبنا عنہ، و محلہ عندنا الصدق۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج ۱، ص:۴۰-۴۱)؛ و قال ابن حجر في الدرایۃ: حدیث ’’الوضوء من کل دم سائل‘‘ الدار قطنی من حدیث تمیم الداري و فیہ ضعف و انقطاع، ومن حدیث زید بن ثابت أخرجہ ابن عدي في ترجمۃ أحمد بن الفرج۔ (المرغیناني، الہدایۃ، کتاب الطھارۃ ج ۱، ص:۲۲)
(۳)قال ابن الھمامؒ: أما حدیث ’’أنہ علیہ السلام قاء، فلم یتوضأ‘‘ فلم یعرف (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات‘‘، ج ۱، ص:۴۰)؛ وقال ابن حجرؒ في الدرایۃ في تخریج احادیث الہدایہ: حدیث کتاب الطہارات ’’أن النبي ﷺ قاء، فلم یتوضأ‘‘ لم أجدہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ ’’کتاب الطہارۃ‘‘ج ۱، ص:۲۲)

(۱)حدیث ’’من قاء أو رعف في صلاتہ الخ رواہ ابن ماجہ من حدیث عائشۃؓ بلفظ: ’’من أصابہ قئ أو رعاف أو قلس أو مذي، فلینصرف، فلیتوضأ ثم لیبن علی صلاتہ، وھو في ذلک مالا یتکلم۔ و أخرجہ الدار قطني نحوہ، و في إسنادہ اسماعیل بن عیاش، و روایتہ من غیر الشامیین ضعیفۃ، و ھذا منھا۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ج ۱، ص:۲۲)؛ و أما حدیث ’’من قاء أو رعف الخ فرواہ ابن ماجہ عن اسماعیل بن عیاش عن إبن جریح عن ابن أبي ملیکۃ عن عائشۃ قالت: قال ﷺ: من أصابہ قيء أو رعاف أو قلس أو مذي، فلینصرف فلیتوضأ، ثم لیبن علی صلاتہ وھو في ذلک لایتکلم۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۴۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص224

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر تعویذ کو اچھی طرح کپڑے میں سی دیا جائے، تو اس کوپہن کر بیت الخلا میں جانا درست ہے۔ لہٰذا اگر والٹ میں بند ہو، تو اس کو جیب میں رکھ کر لےجانے میں حرج نہیں ہے؛ البتہ اس کو ساتھ نہ لے جانا بہتر ہے اگر ممکن ہو۔(۱)

(۱) تکرہ إذا بۃ درہم علیہ آیۃ إلا إذا کسرہ، رقیۃ في غلاف متجاف لم یکرہ دخول الخلاء بہ والاحتراز أفضل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’سنن الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸؛ وفتح القدیر لإبن الہمام، ’’باب الحیض والاستحاضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۹؛ وابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب ما یمنع الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص114

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طرح بیٹھنے میں ، مقعد، یعنی :سرین بھی ایک طرف سے اٹھی رہتی ہے اور ہیئت نماز کے خلاف بھی ہے، اس لیے اس صورت میں سونے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تھا؛ لیکن آپ کا سونا عام انسانوں کی طرح نہ تھا؛ اس لیے یہ قیاس غلط ہے؛ لہٰذا استرخاء مفاصل (جو غلبہ نوم کی وجہ سے ہوتا ہے، سبب ہے مقعد کے زمین سے اٹھنے کا اور یہ سبب ہے خروج ریح کا؛ اس لیے نوم ناقض وضو ہوئی، لہٰذا اگر آلتی پالتی مار کر بیٹھنے میں سو گیا اوراس حالت میں غلبہ نوم کی وجہ سے استرخاء مفاصل ہو گیا؛ اس کی وجہ سے مقعد زمین سے اٹھ گئی، تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اس نوم کے بعد اگر نماز پڑھائی تو نماز نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) و ینقضہ حکماً نوم یزیل مسکتہ أي قوتہ الماسکۃ بحیث تزول مقعدتہ من الأرض، وھو النوم علی أحد جنبیہ أو ورکیہ أو قفاہ أو وجھہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نوم من بہ انفلات ریح غیر ناقض،‘‘ ج ۱، ص:۲۷۰)؛ و سئل أبونصر رحمہ اللّٰہ عمن نام قاعداً نوماً ثقیلاً؟ فقال: لا وضوء علیہ، لکن یشترط أن یکون مقعدہ علی الأرض وھو الصحیح۔ (الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني ما یوجب الوضوء،‘‘ ج ۱، ص:۲۵۴)؛ والعتہ لا ینقض کنوم الأنبیاء علیھم الصلاۃ والسلام۔ قولہ:کنوم الأنبیاء قال في البحر: صرح في القینۃ بأنہ من خصوصیاتہ ﷺ، ولذا ورد في الصحیحین ’’أن النبي ﷺ نام حتی نفخ، ثم قام إلی الصلاۃ، ولم یتوضا‘‘ لما ورد في حدیث آخر: إن عیني تنامان، ولا ینام قلبي۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: نوم الأنبیاء غیر ناقض،‘‘ ج ۱، ص:۲۷۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص226

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر جن نے خواب میں صحبت کی ہے، تو اس کا حکم احتلام کا ہے، اگر عورت کو لذت محسوس ہوئی اور انزال ہوا، تو غسل واجب ہو جائے گا ورنہ نہیں۔اور اگر جن نے انسانی شکل میں آکر جاگنے کی حالت میں عورت سے صحبت کی تو اس کا حکم انسان جیسا ہے، اگر حشفہ غائب ہو گیا، تو غسل واجب ہے ورنہ نہیں، اس صورت میں انزال پر وجوب غسل موقوف نہیں ہوگا۔(۲)

(۲) یوجب الاغتسال الإیلاج أي إدخال ذکر من یجامع مثلہ في أحد السبیلین القبل والدبر من الرجل أي من الذکر المشتھي والمرأۃ أي المشتہاۃ۔ (ابراہیم الحلبي، حلبي کبیري،’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۳۶، دارالکتاب دیوبند)  عند إیلاج حشفۃ ھي ما فوق الختان آدمي احتراز عن الجني…یعنی إذا لم تنزل و إذا لم یظھر لھا في صورۃ الآدمي۔ قولہ احتراز عن الجني۔ ففي المحیط: لو قالت معي جني یاتینی مرارا، و أجد ما أجد إذا جامعني زوجي لا غسل علیھا لانعدام سببہ وھو الإیلاج أوالاحتلام، و وقع في البحر: یاتیني في النوم مرار أو ظاھرہ أنہ رؤیۃ منام۔۔۔ ھذا إذا کان واقعا في الیقظۃ فلو في المنام فلا شک أن لہ من التفصیل ما للاحتلام (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ج:۱، ص:۲۹۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص298