طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:پیشاب کی جگہ ناپاک ہے، اگر اس سیٹ پر بیٹھا اور کپڑا پسینہ سے اس قدر تر ہوگیا کہ پسینہ سے سیٹ گیلی ہوگئی تو اس سے کپڑا ناپاک ہوجائے گا اور اگر کپڑا گیلا نہیں ہوا، تو ناپاکی کا حکم نہیں ہوگا۔(۲)

(۲) کما لا ینجس ثوب جاف طاھر في ثوب نجس رطب لا ینعصر الرطب لو عصر۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ص:۴۱)؛ و إذا لف الثوب النجس في الثوب الطاھر والنجس رطب، فظھرت نداوتہ في الثوب الطاھر، لکن لم یصر رطبا بحیث لو عصر یسیل منہ شيء ولا یتعاطر، فالأصح أنہ لا یصیر نجساً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع، في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، والنوع الثاني المخففۃ، ومما یتصل بذلک مسائل، ج۱، ص:۱۰۲)؛ و لف طاھر في نجس مبتل بماء إن بحیث لو عصر تنجس و إلا فلا ۔۔۔ و اختار الحلواني أنہ لا ینجس إن کان الطاھر بحیث لا یسیل فیہ شيء ولا یتقاطر لو عصر، وھو الأصح کما في الخلاصۃ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء، ج۱، ص:۵۶۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص450

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سے وضو پر کوئی فرق نہیں پڑتا، دونوںقسم کے وضو اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں اور باقی ہیں، دونوں سے نماز ادا کرنا صحیح ہے۔(۱)

(۱) (مفتی رشید احمد لدھیانویؒ، احسن الفتاویٰ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ج۲، ص:۲۴، زکریا بک ڈپو دیوبند) منھا ما یخرج من السبیلین من البول والغائط والریح الخارجۃ من الدبر والودي والمذي والمني الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء‘‘ ج۱،ص:۶۰ مکتبۃ فیصل دیوبند) ، و منھا مایخرج من غیر السبیلین: و یسیل إلی ما یظھر من الدم والقیح الخ۔ ( جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الفصل الخامس في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۶۱)؛ وضو خروج نجاست سے ٹوٹتا ہے اور ستر کھلنا یہ نجاست کا خروج نہیں ہے۔ بحرمیں ہے:و ینقضہ خروج نجس۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘،ج۱، ص:۶۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص212

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:پیشاب اور خون نجس و ناپاک ہیں، ان کو جیب میں رکھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ جو نمازیں اس حالت میں پڑھی گئیں، وہ واجب الاعادہ ہیں۔(۱)

(۱) رجل صلی وما في کمہ قارورۃ فیھا بول، لا تجوز الصلاۃ، سواء کانت ممتلئۃ أو لم تکن۔ لأن ھذا لیس في مظانہ و معدنہ، بخلاف البیضۃ المذرۃ، لأنہ في معدنہ و مظانہ و علیہ الفتوی (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث: في شروط الصلاۃ، الفصل الثاني، في طہارۃ ما یستر بہ العورۃ وغیرہ، ج۱، ص:۱۲۰)؛  و نجاسۃ باطنۃ في معدنھا فلا یظھر حکمھا کنجاسۃ باطن المصلي کما لو صلی حاملا بیضۃ مذرۃ صار محھا دما جاز لأنہ في معدنہ والشيء مادام في معدنہ لا یعطی لہ حکم النجاسۃ بخلاف مالو حمل قارورۃ مضمومۃ فیھا بول فلا تجوز صلاتہ لأنہ في غیر معدنہ کما في البحر المحیط۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص:۷۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص451

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:زخم کے دبنے یا دبانے سے جو رطوبت نکلتی ہے، اگر وہ زخم کے منہ سے باہر بہہ جائے، تو ناقض وضو ہے اور باہر نہ بہے؛ بلکہ زخم کے اندر ہی اندر رہے، تو ناقض وضو نہیں ہے۔(۲)

(۲) إن قشرت نفطۃ و سال منھا ماء أو صدیدا وغیرہ إن سال عن رأس الجرح نقض و إن لم یسل لا ینقض۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، في نواقض الوضوء،الفصل الخامس‘‘ ج۱،ص:۶۲)، قولہ علیہ السلام: الوضوء من کل دم سائل۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، فصل في نواقض الوضوء، ج۱،ص:۲۶۲)؛ ولأن خروج النجاسۃ مؤثر في زوال الطہارۃ (المرغینانی، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱،ص:۲۳، مکتبہ الاتحاد، دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص213

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:کھٹمل اور مچھر کا خون کپڑے پر لگنے سے کپڑا ناپاک نہیں ہوتا، اس لیے اس کپڑے سے نماز پڑھنا بلاکراہت درست ہے۔و یجوز رفع الحدث بما ذکر و إن مات فیہ أي الماء ولو قلیلاً غیر دموي کزنبور و عقرب و بق: أي بعوض۔ (۱) و دم البق والبراغیث والقمل والکتان طاھر و إن کثر کذا في السراج الوھاج۔ (۲)

(۱) علاؤ الدین الحصکفي، الدر المختار،  کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، ج۱، ص:۳۲۹
(۲)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع، في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الثاني: في الأعیان النجسۃ، والنوع الثاني، المخففۃ، و مما یتصل بذلک، ج۱، ص:
۱۰۱

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص452

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب تک روئی کا ظاہری حصہ تر نہ ہوگا، اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔(۱)

(۱)قال الشامي : فلو نزل البول إلی قصبۃ الذکر، لا ینقض لعدم ظھورہ، بخلاف القلفۃ، فإنہ بنزولہ إلیھا ینقض الوضوء۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب : نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۲۶۲، زکریا بک ڈپو دیوبند)؛  ولو نزل البول إلی قصبۃ الذکر، لم ینقض الوضوء، ولو خرج إلی القلفۃ، نقض الوضوء (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء‘‘، ج۱، ص:۶۰)؛  و لوحشا الرجل إحلیلہ بقطنۃ، فابتلّ الجانب الداخل منھا، لم ینتقض وضوء ہ، لعدم الخروج، و إن تعدت البلّۃ إلی الجانب الخارج، ینظر إن کانت القطنۃ عالیۃ أو محاذیۃ لرأس الإحلیل، ینتقض وضوء ہ لتحقق الخروج، و إن کانت متسفلۃً، لم ینتقض؛ لأن الخروج لم یتحقق۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الطہارۃ، نواقض الوضوء، ج ۱، ص:۱۲۴، زکریا بک ڈپو دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص214

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: بستر اگر خشک ہے اور بدن کو پسینہ بھی نہیںآیا، تو کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے اور نہ بدن ناپاک ہوگا، لیکن اگر پسینہ آنے کی وجہ سے پیشاب کا اثر کپڑوں یا بدن میں آگیا، تواب ناپاکی کا حکم ہوگا۔
نام أو مشی علی نجاسۃ، إن ظھر عینھا تنجّس و إلا لا۔ (۳)إذا نام الرجل علی فراش، فأصابہ مني و یبس، فعرق الرجل وابتلّ الفراش من عرقہ۔ إن لم یظھر أثر البلل في بدنہ لا یتنجّس، و إن کان العرق کثیرا حتی ابتلّ الفراش ثم أصاب بلل الفراش جسدہ، فظھر أثرہ في جسدہ، یتنجس بدنہ۔(۴)
إن نام علی فراش نجس، فعرق وابتلّ الفراش مع عرقہ، فإنہ إن لم یصب بلل الفراش بعد ابتلالہ بالعرق جسدہ، لا یتنجس جسدہ۔(۱)

(۳)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار ، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۶۰
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الفصل الثاني، في الأعیان النجسۃ، النوع الثاني: المخففۃ، و مما یتصل بذلک، ج۱، ص:۱۰۲
(۱)إبراھیم بن محمد الحلبي، حلبي کبیري، فصل في الآسار، ص:۱۵۳


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص453

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت کا اصول ہے ’’الیقین لا یزول بالشک‘‘ کہ یقین شک سے ختم نہیں ہوگا؛ لہٰذا مذکورہ صورت میں جب تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو جائے، وضو نہیں ٹوٹے گا، اس لیے اس کا وضو باقی رہا اور نماز مغرب اس کی درست ہو گئی۔(۱)

(۱)الیقین لایزول بالشک۔ و دلیلھا ما رواہ مسلم عن أبي ھریرۃؓ مرفوعاً ’’إذا وجد أحدکم في بطنہ شیئا، فأشکل علیہ أخرج منہ شيء أم لا، فلا یخرجن من المسجد حتی یسمع صوتاً أو یجد ریحاً۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الثالثہ،ص:۱۸۳، دارالکتاب دیوبند)، من تیقن الطھارۃ، و شک في الحدث، فھو متطھر (ایضاً، ص:۱۸۷)، من أیقن بالطھارۃ، و شک في الحدث، فھو علی طھارۃ۔(علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ، کتاب الطہارۃ، باب ما ینقض الوضوء، ج۱، ص:۳۶، زکریا بک ڈپو دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص214

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: اگر اتفاقاً لیکوریا کپڑے پر لگ جائے اور اس کی مقدار درہم سے زیادہ ہو، تو اس حالت میں نماز ادا نہیں ہوگی، لیکن اگر کسی عورت کو یہ بیماری اتنی بڑھ گئی ہو، کہ معذور کے درجہ میںآجائے، تو اس کے حق میں لیکوریا ناپاک نہیں سمجھا جائے گا اور وہ انہیں کپڑوں میں نماز ادا کر سکتی ہے۔
و إن کانت أکثر من قدر الدرھم منعت جواز الصلاۃ۔(۲)و عفا الشارع عن قدر درھم و إن کرہ تحریماً، فیجب غسلہ، وما دونہ تنزیھاً، فیسنّ و فوقہ مبطل فیفرض۔ (۳)
مریض تحتہ ثیاب نجسۃ، و کلما بسط شیئا، تنجس من ساعتہ صلّی علی حالہ، و کذا لولم یتنجس إلا أنہ یلحقہ مشقۃ بتحریکہ۔(۱)
۲) عالم بن علاء الدین الحنفي، تاتارخانیہ ، کتاب الطہارۃ، الفصل السابع، في النجاسات و أحکامھا، النوع الثاني في مقدار النجاسۃ التي یمنع جواز الصلوٰۃ، ج۱، ص:۴۴۰
(۳)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۲۰
(۱) ابن عابدین، الدر المختار  مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، متصل: باب سجود التلاوۃ، ج۲، ص:۵۷۵


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص453

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز میں قہقہہ لگانے سے وضو اور نماز دونوں فاسد ہو جاتی ہیں۔(۲)

(۲)قولہ ﷺ :الا من ضحک منکم قھقھۃ فلیعد الوضوء والصلٰوۃ جمیعاً۔ (أحمد بن محمد، قدوری، ’’کتاب الطہارۃ، حاشیہ۸‘‘، ص۱۷، مکتبہ بلال دیوبند)، والمذھب أن الکلام مفسد للصلاۃ کما صرح بہ في النوازل بأنہ المختار، فحینئذ تکون القھقھۃ من النائم مفسدۃ للصلاۃ لا الوضوء۔(ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘، ج۱، ص:۷۸)؛ و یترک القیاس والأثر و رد في صلٰوۃ مطلقۃ فیقتصر علیھا، والقھقھۃ: ما یکون مسموعا لہ ولجیرانہ، والضحک: ما یکون مسموعا لہ دون جیرانہ الخ۔ (المرغیناني، ہدایہ أول، ’’کتاب الطہارات، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص۲۷)؛  و إنما وجب الوضوء بھا عقوبۃ و زجراً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض،‘‘ ج۱، ص:۲۷۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص215