Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:زخم کے دبنے یا دبانے سے جو رطوبت نکلتی ہے، اگر وہ زخم کے منہ سے باہر بہہ جائے، تو ناقض وضو ہے اور باہر نہ بہے؛ بلکہ زخم کے اندر ہی اندر رہے، تو ناقض وضو نہیں ہے۔(۲)
(۲) إن قشرت نفطۃ و سال منھا ماء أو صدیدا وغیرہ إن سال عن رأس الجرح نقض و إن لم یسل لا ینقض۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، في نواقض الوضوء،الفصل الخامس‘‘ ج۱،ص:۶۲)، قولہ علیہ السلام: الوضوء من کل دم سائل۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، فصل في نواقض الوضوء، ج۱،ص:۲۶۲)؛ ولأن خروج النجاسۃ مؤثر في زوال الطہارۃ (المرغینانی، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱،ص:۲۳، مکتبہ الاتحاد، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص213
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:کھٹمل اور مچھر کا خون کپڑے پر لگنے سے کپڑا ناپاک نہیں ہوتا، اس لیے اس کپڑے سے نماز پڑھنا بلاکراہت درست ہے۔و یجوز رفع الحدث بما ذکر و إن مات فیہ أي الماء ولو قلیلاً غیر دموي کزنبور و عقرب و بق: أي بعوض۔ (۱) و دم البق والبراغیث والقمل والکتان طاھر و إن کثر کذا في السراج الوھاج۔ (۲)
(۱) علاؤ الدین الحصکفي، الدر المختار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، ج۱، ص:۳۲۹
(۲)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع، في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الثاني: في الأعیان النجسۃ، والنوع الثاني، المخففۃ، و مما یتصل بذلک، ج۱، ص: ۱۰۱
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص452
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب تک روئی کا ظاہری حصہ تر نہ ہوگا، اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔(۱)
(۱)قال الشامي : فلو نزل البول إلی قصبۃ الذکر، لا ینقض لعدم ظھورہ، بخلاف القلفۃ، فإنہ بنزولہ إلیھا ینقض الوضوء۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب : نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۲۶۲، زکریا بک ڈپو دیوبند)؛ ولو نزل البول إلی قصبۃ الذکر، لم ینقض الوضوء، ولو خرج إلی القلفۃ، نقض الوضوء (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء‘‘، ج۱، ص:۶۰)؛ و لوحشا الرجل إحلیلہ بقطنۃ، فابتلّ الجانب الداخل منھا، لم ینتقض وضوء ہ، لعدم الخروج، و إن تعدت البلّۃ إلی الجانب الخارج، ینظر إن کانت القطنۃ عالیۃ أو محاذیۃ لرأس الإحلیل، ینتقض وضوء ہ لتحقق الخروج، و إن کانت متسفلۃً، لم ینتقض؛ لأن الخروج لم یتحقق۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الطہارۃ، نواقض الوضوء، ج ۱، ص:۱۲۴، زکریا بک ڈپو دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص214
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: بستر اگر خشک ہے اور بدن کو پسینہ بھی نہیںآیا، تو کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے اور نہ بدن ناپاک ہوگا، لیکن اگر پسینہ آنے کی وجہ سے پیشاب کا اثر کپڑوں یا بدن میں آگیا، تواب ناپاکی کا حکم ہوگا۔
نام أو مشی علی نجاسۃ، إن ظھر عینھا تنجّس و إلا لا۔ (۳)إذا نام الرجل علی فراش، فأصابہ مني و یبس، فعرق الرجل وابتلّ الفراش من عرقہ۔ إن لم یظھر أثر البلل في بدنہ لا یتنجّس، و إن کان العرق کثیرا حتی ابتلّ الفراش ثم أصاب بلل الفراش جسدہ، فظھر أثرہ في جسدہ، یتنجس بدنہ۔(۴)
إن نام علی فراش نجس، فعرق وابتلّ الفراش مع عرقہ، فإنہ إن لم یصب بلل الفراش بعد ابتلالہ بالعرق جسدہ، لا یتنجس جسدہ۔(۱)
(۳)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار ، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۶۰
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الفصل الثاني، في الأعیان النجسۃ، النوع الثاني: المخففۃ، و مما یتصل بذلک، ج۱، ص:۱۰۲
(۱)إبراھیم بن محمد الحلبي، حلبي کبیري، فصل في الآسار، ص:۱۵۳
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص453
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت کا اصول ہے ’’الیقین لا یزول بالشک‘‘ کہ یقین شک سے ختم نہیں ہوگا؛ لہٰذا مذکورہ صورت میں جب تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو جائے، وضو نہیں ٹوٹے گا، اس لیے اس کا وضو باقی رہا اور نماز مغرب اس کی درست ہو گئی۔(۱)
(۱)الیقین لایزول بالشک۔ و دلیلھا ما رواہ مسلم عن أبي ھریرۃؓ مرفوعاً ’’إذا وجد أحدکم في بطنہ شیئا، فأشکل علیہ أخرج منہ شيء أم لا، فلا یخرجن من المسجد حتی یسمع صوتاً أو یجد ریحاً۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الثالثہ،ص:۱۸۳، دارالکتاب دیوبند)، من تیقن الطھارۃ، و شک في الحدث، فھو متطھر (ایضاً، ص:۱۸۷)، من أیقن بالطھارۃ، و شک في الحدث، فھو علی طھارۃ۔(علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ، کتاب الطہارۃ، باب ما ینقض الوضوء، ج۱، ص:۳۶، زکریا بک ڈپو دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص214
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: اگر اتفاقاً لیکوریا کپڑے پر لگ جائے اور اس کی مقدار درہم سے زیادہ ہو، تو اس حالت میں نماز ادا نہیں ہوگی، لیکن اگر کسی عورت کو یہ بیماری اتنی بڑھ گئی ہو، کہ معذور کے درجہ میںآجائے، تو اس کے حق میں لیکوریا ناپاک نہیں سمجھا جائے گا اور وہ انہیں کپڑوں میں نماز ادا کر سکتی ہے۔
و إن کانت أکثر من قدر الدرھم منعت جواز الصلاۃ۔(۲)و عفا الشارع عن قدر درھم و إن کرہ تحریماً، فیجب غسلہ، وما دونہ تنزیھاً، فیسنّ و فوقہ مبطل فیفرض۔ (۳)
مریض تحتہ ثیاب نجسۃ، و کلما بسط شیئا، تنجس من ساعتہ صلّی علی حالہ، و کذا لولم یتنجس إلا أنہ یلحقہ مشقۃ بتحریکہ۔(۱)
۲) عالم بن علاء الدین الحنفي، تاتارخانیہ ، کتاب الطہارۃ، الفصل السابع، في النجاسات و أحکامھا، النوع الثاني في مقدار النجاسۃ التي یمنع جواز الصلوٰۃ، ج۱، ص:۴۴۰
(۳)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۲۰
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، متصل: باب سجود التلاوۃ، ج۲، ص:۵۷۵
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص453
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز میں قہقہہ لگانے سے وضو اور نماز دونوں فاسد ہو جاتی ہیں۔(۲)
(۲)قولہ ﷺ :الا من ضحک منکم قھقھۃ فلیعد الوضوء والصلٰوۃ جمیعاً۔ (أحمد بن محمد، قدوری، ’’کتاب الطہارۃ، حاشیہ۸‘‘، ص۱۷، مکتبہ بلال دیوبند)، والمذھب أن الکلام مفسد للصلاۃ کما صرح بہ في النوازل بأنہ المختار، فحینئذ تکون القھقھۃ من النائم مفسدۃ للصلاۃ لا الوضوء۔(ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘، ج۱، ص:۷۸)؛ و یترک القیاس والأثر و رد في صلٰوۃ مطلقۃ فیقتصر علیھا، والقھقھۃ: ما یکون مسموعا لہ ولجیرانہ، والضحک: ما یکون مسموعا لہ دون جیرانہ الخ۔ (المرغیناني، ہدایہ أول، ’’کتاب الطہارات، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص۲۷)؛ و إنما وجب الوضوء بھا عقوبۃ و زجراً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض،‘‘ ج۱، ص:۲۷۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص215
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: آپ کے سوالات کا جواب اس اصول کے سمجھنے پر موقوف ہے کہ انقلابِ حقیقت و ماہیت سے کیا مرادہے؟ اس بارے میں عرض ہے کہ انقلابِ حقیقت سے مراد یہ ہے کہ وہ چیز فی نفسہٖ اپنی حقیقت کو چھوڑ کر کسی دوسری حقیقت میں تبدیل ہوجائے، مثلاً شراب سرکہ بن جائے یا خون مشک بن جائے یا نطفہ گوشت کا لوتھڑا بن جائے کہ ان تمام صورتوں میں شراب، خون اور نطفے نے اپنی اصل حقیقت چھوڑ دی اور دوسری حقیقتوں میں تبدیل ہوگئے۔ واضح رہے کہ ماہیت و حقیقت بدل جانے کا حکم اسی وقت لگایا جائے گا جب پہلی حقیقت کے مخصوص آثار اس میں باقی نہ رہیں، جیسے خون کے مشک میں تبدیل ہوجانے سے خون کے مخصوص آثار بالکل زائل ہوجاتے ہیں۔ بعض آثار کا زائل ہوجانا یا قلیل ہونے کی وجہ سے محسوس نہ ہونا تبدیلِ حقیقت کو ثابت نہیں کرتا، جیسا کہ آپ نے سوالِ مذکور میںفقہاء کی یہ تصریح ذکر کی ہے کہ اگر آٹے میں کچھ شراب ملا کر گوندھ لیا جائے اور روٹی پکالی جائے تو روٹی ناپاک ہے۔ رد المحتار، ج۱، ص:۵۱۹، ۵۲۰ میں ہے ’’قلت: لکن قد یقال: إن الدّبس لیس فیہ انقلاب حقیقۃ؛ لأنہ عصیر جمد بالطبخ و کذا السمسم إذا درس واختلط دھنہ بأجزاء، ففیہ تغیّر وصف فقط، کلبن صار جبناً و برّ صار طحیناً، و طحین صار خبزاً بخلاف نحو خمر صار خلاًّ‘‘ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ شراب نے اس صورت میں فی نفسہ اپنی حقیقت نہیں چھوڑی ہے بلکہ اجزاء کے قلیل ہونے کی وجہ سے وہ محسوس نہیں ہورہی ؛ کیوںکہ آٹے کے مقابلے میں شراب کے اجزاء کم تھے، پس یہ انقلابِ حقیقت نہیں ہے؛ بلکہ اختلاط ہے۔ اسی طرح حقیقتِ منقلبہ کے بعض غیرمخصوص آثار کا باقی رہ جانا، انقلابِ ماہیت سے مانع نہیں، جیسا کہ شراب کے سرکہ بن جانے کے وقت بھی اس کی رقت باقی رہتی ہے۔تو چوںکہ رقت، شراب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، اس لیے اس کا باقی رہ جانا انقلابِ حقیقت سے مانع نہیں خلاصہ یہ ہے کہ انقلابِ ماہیت سے مراد یہ ہے کہ ایک شیٔ دوسری شیٔ میں اس طرح تبدیل ہوجائے کہ پہلی چیز کے مخصوص آثار و کیفیات میں سے کچھ باقی نہ رہے، بعض کیفیاتِ غیرمخصوصہ کا باقی رہ جانا تبدیلیٔ ماہیت سے مانع نہیں۔رہا صابون میں خنزیر کی چربی کا مسئلہ تو عرض ہے کہ صابون بن جانے کے بعد تبدیلی ماہیت کی وجہ سے وہ پاک ہوجاتی ہے اور اس کا استعمال جائز ہوگا:’’و یطھر زیت تنجس بجعلہ صابوناً، بہ یفتی للبلوی کتنور رش بماء نجس لا بأس بالخبز فیہ۔(۱)
جُعل الدھن النجس فی صابون، یفتی بطھارتہ؛ لأنہ تغیر، والتغیر یطھر عند محمد رحمہ اللہ و یفتی بہ للبلوی۔ (۲)
(۱) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۱۹
(۲)ایضاً:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص454
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو خروج نجاست سے ٹوٹتا ہے اور وضو کی حالت میں موذی جانور کو مار نے سے وضو پر اثر نہیں پڑے گا(۱) نیز خون نجاستِ غلیظہ ہے اگر ہاتھوں یاجسم کے کسی حصے پر لگ جائے، تو اس کو دھو لیا جائے۔(۲)
(۱) قولہ لا ینقض الوضوء أي لعدم الخروج (ابن عابدین، ردالمحتار،’’کتاب الطھارۃ‘‘ ج۱، ص:۱۴۹)
(۲) في رقیق من مغلظۃ کعذرۃ، و دم مسفوح من سائر الحیوانات۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، قبیل: مطلب في طہارۃ بولہ،‘‘ ج۱، ص:۲۲-۲۴)،… و وزناً بقدر مثقال في الکثیف من نجس مغلظ کالدم‘‘ (ابراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنہر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،‘‘ ج۱، ص:۹۳، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)، النوع الأول: المغلظۃ ۔۔۔ و کذلک الخمر والدم المسفوح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع الأول: المغلظۃ،‘‘ ج۱،ص:۱۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص216