طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قضاء حاجت کی جگہ شیاطین کا بسیرا ہوتا ہے اور دعا پڑھ کر بیت الخلا جانے سے آدمی شیطان کے وساوس سے محفوظ رہتا ہے اس لیے اگرگھر میں اٹیچ بیت الخلا ہو، تو بیت الخلاء میں شیطان کا بسیرا ہوسکتا ہے؛ لیکن اس کا اثر گھر پر نہیں پڑتا ہے اور جولوگ بیت ا لخلا دعا پڑھ کر جاتے ہیں وہ بھی شیطانی وساوس سے محفوظ رہتے ہیں۔

’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ قال: (إن ہذہ الحشوش محتضرۃ، فإذا دخلہا أحدکم فلیقل: اللہم إني أعوذ بک من  الخبث والخبائث)، فأخبر في ہذا الحدیث أن الحشوش مواطن للشیاطین، فلذلک أمر بالاستعاذۃ عند دخولہا،(۱) ومن ہذا قول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن ہذہ الحشوش محتضرۃ أي یصاب الناس فیہا وقد قیل إن ہذا أیضا قول اللّٰہ -عز وجل- {کل شرب محتضر} (سورۃ القمر: ۲۸) أي یصیب منہ صاحبہ۔ مالک عن یحیی بن سعید أنہ قال أسری برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرأی عفریتا من الجن یطلبہ بشعلۃ من نار کلما التفت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رآہ فقال لہ جبریل أفلا أعلمک کلمات تقولہن إذا قلتہن طفئت شعلتہ وخر لفیہ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلی فقال جبریل فقل أعوذ بوجہ اللّٰہ الکریم وبکلمات اللّٰہ التامات اللاتی لا یجاوزہن بر ولا فاجر من شر ما ینزل من السماء وشر ما یعرج فیہا وشر ما ذرأ في الأرض وشر ما یخرج منہا ومن فتن اللیل والنہار ومن طوارق اللیل والنہار إلا طارقا یطرق بخیر یا رحمن‘‘(۲)
(۲) روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان گھر میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھ لیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کے ضمان میں آجاتا ہے اور شیطان کہتا ہے کہ اب میں تمہارے ساتھ رات نہیں گزار سکتا لیکن جب آدمی بغیر دعا کے گھر میں داخل ہوتا ہے، تو شیطان کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ رات گزاروں گا؛ اس لیے گھر میں داخل ہوتے وقت دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔
’’وروینا عن أبي أمامۃ الباہلی، واسمہ صدي بن عجلان عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ثلاثۃ کلہم ضامن علی اللّٰہ عز وجل: رجل خرج غازیا في سبیل اللّٰہ عز وجل فہو ضامن علی اللّٰہ عز وجل حتی یتوفاہ فیدخلہ الجنۃ أو یردہ بما نال من أجر وغنیمۃ، ورجل راح إلی المسجد فہو ضامن علی اللّٰہ تعالی حتی یتوفاہ فیدخلہ الجنۃ أو یردہ بما نال من أجر وغنیمۃ، ورجل دخل بیتہ بسلام فہو ضامن علی اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ حدیث حسن، رواہ أبو داود بإسناد حسن، ورواہ آخرون۔ ومعنی ضامن علی اللّٰہ تعالیٰ: أي صاحب ضمان، والضمان: الرعایۃ للشيء، کما یقال: تامر، ولابن: أي صاحب تمر ولبن۔ فمعناہ: أنہ في رعایۃ اللّٰہ تعالٰی، وما أجزل ہذہ العطیۃ، اللہمَّ ارزقناہا‘‘۔
’’وروینا عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا دخل الرجل بیتہ فذکر اللّٰہ تعالٰی عند دخولہ وعند طعامہ قال الشیطان: لا مبیت لکم ولا عشاء، وإذا دخل فلم یذکر اللّٰہ تعالٰی عند دخولہ، قال الشیطان: أدرکتم المبیت، وإذا لم یذکر اللّٰہ تعالٰی عند طعامہ قال: أدرکتم المبیت والعشاء‘‘(۱)
(۳) بیت الخلا کے لٹکے کپڑے یا وہاں گرے خواتین کے با لوں پرشیطان کا جادو کرنا کوئی ضروری نہیں ہے؛ بلکہ جو لوگ اس طرح کا عمل کراتے ہیں وہ اس طرح کی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں؛ اس لیے بہتر ہے کہ بال وغیرہ کو محفوظ مقام پر دفن کردیا جائے؛ لیکن شیطان کا ان بالوں پر تصرف کرنا کوئی ضروری نہیں ہے؛ اس لیے کہ شیطان، جنات اس کے بغیر بھی تصرف پر قادر ہو جاتے ہیں۔
(۴) میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی اگر رہتی ہے، تو ضروری نہیں کہ یہ جادو ہی کا اثر ہو، گھر میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب ؒ کی منزل، اسی طرح معوذتین اور سورہ بقرہ کا اہتمام کریں، اگر جادو وغیرہ کا کوئی اثر ہوگا، تو زائل ہوجائے گااور اگر اس کے بعد بھی نااتفاقی ختم نہ، تو بہتر  ہوگا کہ دونوں خاندانوں کے بزرگوں کے سامنے مسئلہ کو پیش کیا جائے وہ حضرات طرفین کی بات کو سن کر جو فیصلہ کریں اس پر دونوں حضرات عمل کریں ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ نااتفاقی ختم ہوجائے گی۔
 

(۱) شرح صحیح البخاري لابن بطال: ج ۱۰، ص: ۹۰۔
(۲)  ابن عبدالبر، الاستذکار: ج ۸، ص: ۴۴۳۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب ا لأذکار للنووي:ج ، ص: ۲۴، رقم: ۶۰۔(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص119

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر یقینی طور سے معلوم ہے کہ منی ہے، تو غسل ہی کرے پسینہ کی وجہ سے منی سمجھنے لگے تو اس کا علاج نہیں ہے، ویسے اگر شبہ ہو اور معاملہ مشتبہ بھی ہو جائے، تو احتیاطاً غسل کرلے۔(۲)

(۲) و فرض لإنزال مني … ولرؤیۃ مستیقظ لم یتذکر الاحتلام بللاً ولو مذیاً خلافاً لہ(خلافاً لہ) أي لأبي یوسف۔ لہ أن الأصل براء ۃ الذمۃ، فلا یجب إلا بیقین، وھو القیاس، ولھما أن النائم غافل، والمني قد یرق بالھواء، فیصیر مثل المذي، فیجب علیہ احتیاطاً۔ (الحصکفی، مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج ۱، ص:۳۹بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان) و إن شک أنہ مني أو مذي،…قال أبویوسف رحمہ اللّٰہ: لا یوجب الغسل حتی تیقن بالاحتلام، و قالارحمھما اللّٰہ: یجب الغسل۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، و مما یتصل بخروج المنی مسائل الاحتلام‘‘ ج۱، ص:۲۸۵مکتبۃ زکریا دیوبند) ؛ وقولہ : (خرج رؤیۃ السکران والمغمی علیہ المذي) … والفرق أن النوم مظنۃ الاحتلام، فیحال علیہ، ثم یحتمل أنہ مني رق بالھواء أو للغذاء، فاعتبرناہ منیاً، احتیاطاً۔(ابن عابدین، رد المحتار مع الدر، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ ج۱۱، ص:۳۰۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص300

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قضاء حاجت کے وقت بیت الخلا یا کھلے میدانوں میں یا جنگلوں میں آپس میں باتیں کرنا انسانی شرافت سے بہت دور اور بڑی بد تہذیبی کی بات ہے کہ دو افراد برہنہ ہو کر ایک دوسرے کے سامنے اپنی حاجت سے فارغ ہوں اور اس سے بھی بڑی بے حیائی یہ ہے کہ اس دوران وہ دونوں آپس میں بات چیت بھی کرتے رہیں، یہ امر شرعاً جائز نہیں ہے۔ امام ابن ماجہؒ نے ایک روایت نقل کی ہے:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’دو آدمی قضاء حاجت کرتے ہوئے آپس میں باتیں نہ کریں کہ دونوں ایک دوسرے کے ستر کو دیکھ رہے ہوں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر ناراض ہوتے ہیں‘‘۔

’’عن أبي سعید الخدري أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یتناجی إثنان علی غائطہما، ینظر واحد منہما إلی عورۃ صاحبہ، فإن اللّٰہ عز وجل یمقت علی ذلک‘‘(۱)
لہٰذا بیت الخلا میں بات چیت کرنے سے احتراز کرنا چاہیے؛ کیوں کہ بیت الخلا میں باتیں کرنا شرعاً مکروہ ہے؛ البتہ اگر انتہائی ناگزیر ہو تو مختصر کلام کیا جا سکتا ہے، نیز آج کل بیت الخلا اور غسل خانہ ایک ساتھ اٹیچ ہوتا ہے جہاں رفع حاجت کے علاوہ غسل، وضو، کپڑے دھونا وغیرہ جیسے کام ہوتے ہیں ایسے اٹیچ باتھ روم میں صرف رفع حاجت اور ننگے ہونے کے وقت گفتگو ممنوع ہے دیگر کاموں کے دوران گفتگو کرنا ممنوع نہیں ہے، جیسا کہ الموسوعۃ الفقہیہ میں مذکورہ ہے:
’’الکلام حال قضاء الحاجۃ وفي الخلاء‘‘ ’’ذہب جمہور الفقہاء من الحنفیۃ والمالکیۃ والشافعیۃ والحنابلۃ إلی کراہۃ الکلام أثناء قضاء الحاجۃ وفي الخلاء، ولا یتکلم إلا لضرورۃ بأن رأی ضریراً یقع في بئر، أو حیۃ أو غیرہا تقصد إنساناً أو غیرہ من المحترمات فلا کراہۃ في الکلام في ہذہ المواضع‘‘(۲)

(۱) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ وسننہا: باب النہي عن الاجتماع علی الخلاء‘‘: ج ۱، ص: ۲۹، رقم: ۲۴۲۔
(۲) الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ’’الکلام حال قضاء الحاجۃ وفي الخلاء‘‘: ج ۳۵، ص: ۱۱۳۔وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ، کویت

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص122

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں (جب کہ اس کو ظلماً قتل کردیا گیا) مرنے والا شہید ہے، اسے غسل نہ دیا جائے؛ بلکہ غسل کے بغیر نمازِ جناز پڑھ کر دفنا دیا جائے۔(۱)

(۱) ’’الشھید‘‘ اسم لکل مسلم طاھر مکلّف عند أبي حنیفۃؒ قُتل ظلماً، إما مع أھل الحرب أو مع أھل البغي أو مع قطاع الطریق (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’فصل في الأسباب المسقطۃ لغسل المیت‘‘ ۳؍۱۷ مکتبۃ زکریا دیوبند) ؛ و أو قتلہ مسلم ظلماً، ولم یجب بقتلہ دیۃ، فیکفن و یصلی علیہ، ولایغسل و یدفن بدمہ و ثیابہ۔ (الحصکفي، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنہر، ’’باب الشہید‘‘ ج۱، ص:۲۷۸) ؛ و کذا یکون شھیداً لو قتلہ باغ أو حربي أو قاطع طریق … و یصلی علیہ بلا غسل، و یدفن بدمہ و ثیابہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد،’’ باب الشہید‘‘ج ۳، ص:۱۶۰-۱۶۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص301

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگربدن خشک کر کے وہی کپڑے پہن لیے اور کپڑوں کی ناپاکی بدن پر نہیں لگی ہے، تو بدن ناپاک نہیں ہوا اور اگر گیلے بدن پر وہ ناپاک کپڑے پہن لیے، تو  ظاہر ہے کہ بدن پر ناپاکی لگ ہی گئی ہوگی، اس لیے بدن کے اس حصہ کو دھولے۔(۱)

(۱) نام أو مشی علی نجاسۃ، إن ظھر عینھا تنجس، و إلا لا۔ (ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ،باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستسقاء والاستنجاء‘‘ج ۱، ص:۵۶۰) ؛ وإذا نام الرجل علی فراش فأصابہ مني و یبس، فعرق الرجل وابتل الفراش من عرقہ۔ إن لم یظھر أثر البلل في بدنہ لا ینجس، و إن کان العرق کثیراً حتی ابتل الفراش ثم أصاب بلل الفراش جسدہ، فظھر أثرہ في جسدہ، یتنجس بدنہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، و مما یتصل بذلک مسائل‘‘ ج۱، ص:۱۰۲) ؛ ولو ابتلّ فراش أو تراب نجسان من عرق نائم أو بلل قدم، و ظھر أثر النجاسۃ في البدن والقدم تنجسا، و إلا فلا۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘ ج۱،ص:۵۳، مکتبۃ عکاظ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص301

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 940

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: گردن پر مسح کے سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث نہیں ملی، اس باب میں جو احادیث ملتی ہیں ان کو علماء نے ضعیف قرار دیا ہے، اس لئے احناف کے نزدیک گردن پر مسح کرنا سنت نہیں ہے، ہاں البتہ  مستحب ہے؛ کبھی  کرلے اور کبھی چھوڑدے، اس کی گنجائش ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2208/44-2327

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر عضو کے سرے پر قطرہ نہ ہو، تو نالی میں تری موجود ہونے سے وضو پر کوئی فرق نہیں پڑتاہے، اس لئے اگر عضو کے سرے پر پیشاب نہ ہو تونالی کو دباکر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ آپ نے استبراء ایک بار کرلیا ہے۔ تاہم اگر دباکر دیکھا اور اندر کی رطوبت نالی کے سرے پر باہر آگئی تو وضو جاتارہا۔ اس لئے آپ معذور شمار نہیں ہوں گے اور امامت کرنے کی اجازت ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 135):

"ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة.

 (قوله: مجرد الظهور) من إضافة الصفة إلى الموصوف: أي الظهور المجرد عن السيلان، فلو نزل البول إلى قصبة الذكر لاينقض لعدم ظهوره، بخلاف القلفة فإنه بنزوله إليها ينقض الوضوء، وعدم وجوب غسلها للحرج، لا لأنها في حكم الباطن كما قاله الكمال ط".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 148):

"(كما) ينقض (لو حشا إحليله بقطنة وابتل الطرف الظاهر) هذا لو القطنة عالية أو محاذية لرأس الإحليل وإن متسفلة عنه لاينقض، وكذا الحكم في الدبر والفرج الداخل (وإن ابتل) الطرف (الداخل لا) ينقض ولو سقطت؛ فإن رطبه انتقض، وإلا لا.

 (قوله: إحليله) بكسر الهمزة مجرى البول من الذكر بحر (قوله: هذا) أي النقض بما ذكر، ومراده بيان المراد من الطرف الظاهر بأنه ما كان عالياً عن رأس الإحليل أو مساوياً له: أي ما كان خارجاً من رأسه زائداً عليه أو محاذياً لرأسه لتحقق خروج النجس بابتلاله؛ بخلاف ما إذا ابتل الطرف وكان متسفلاً عن رأس الإحليل أي غائباً فيه لم يحاذه ولم يعل فوقه، فإن ابتلاله غير ناقض إذا لم يوجد خروج فهو كابتلال الطرف الآخر.الذي في داخل القصبة (قوله: والفرج الداخل) أما لو احتشت في الفرج الخارج فابتل داخل الحشو انتقض، سواء نفذ البلل إلى خارج الحشو أو لا للتيقن بالخروج من الفرج الداخل وهو المعتبر في الانتقاض لأن الفرج الخارج بمنزلة القلفة، فكما ينتقض بما يخرج من قصبة الذكر إليها وإن لم يخرج منها كذلك بما يخرج من الفرج الداخل إلى الفرج الخارج وإن لم يخرج من الخارج اهـ شرح المنية (قوله: لاينقض) لعدم الخروج (قوله: ولو سقطت إلخ) أي لو خرجت القطنة من الإحليل رطبة انتقض لخروج النجاسة وإن قلت، وإن لم تكن رطبة أي ليس بها أثر للنجاسة أصلاً فلا نقض"

 واللہ اعلم بالصواب

کتبہ:محمد اسعد

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کپڑا اتنا باریک ہے کہ وہ جماع کی لذت سے مانع نہیں ہے، تو غسل واجب ہے اور اگر کپڑا موٹا ہو جو جماع کی لذت سے مانع ہو اور منی نہ نکلے، تو غسل واجب نہیں ہے؛ لیکن احتیاطاً غسل کرنا بہتر ہے اور اگر منی نکل جائے تو بہرصورت غسل واجب ہوگا۔(۲)

(۲) أولج حشفتہ أو قدرھا ملفوفۃ بخرقۃ، إن وجد لذۃ الجماع وجب الغسل، و إلا لا علی الأصح، والأحوط الوجوب (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ ج۱، ص:۳۰۳) ؛ وقولہ: إلا لا أي مالم ینزل۔ (ایضاً) ولو لفّ علی ذکرہ خرقۃ، …و أولج ولم ینزل، قال بعضھم یجب الغسل، و قال بعضھم: لا یجب، والأصح: إن کانت الخرقۃ رقیقۃ بحیث یجد حرارۃ الفرج واللذۃ، وجب الغسل، و إلا فلا، والأحوط وجوب الغسل في الوجھین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الثاني: في الغسل، الفصل الثالث: فی المعانی الموجبۃ للغسل، السبب الثاني: الإیلاج‘‘ج۱، ص:۶۷) ؛ و عشرۃ أشیاء لا یغتسل منھا … و إیلاج بخرقۃ مانعۃ من وجود اللذۃ۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’فصل عشرۃ أشیاء لا یغتسل منھا‘‘ج۱،ص:۳۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص302

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل کے شروع میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا سنت ہے ’’بسم اللہ‘‘ پڑھنی چاہیے۔(۱) کپڑا اتارنے اور غسل خانہ میں داخل ہونے سے پہلے نجاست دور کرنے کے بعد، ورنہ صرف دل میں پڑھے اور زبان کو حرکت نہ دے، اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت کی خاطر۔(۲)

(۱) و سننہ کسنن الوضوء سوی الترتیب، و آدابہ کآدابہ قولہ: کسنن الوضوء أي من البدائۃ بالنیۃ والتسمیۃ والسواک الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: سنن الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۹۱)  ؛ و في رد المحتار و قیل الأفضل بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم بعد التعوذ۔(ابن عابدین، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب ’’سائر‘‘ بمعنی ’’باقي‘‘ لا بمعنی ’’جمیع‘‘‘‘ ج۱، ص:۲۲۷،؛ وابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، سنن الوضوء‘‘ ج۱،ص:۱۸مکتبۃ زکریا دیوبند)
(۲ ) إلاحال انکشاف الخ۔ الظاھر أن المراد أنہ یسمی قبل رفع ثیابہ، إن کان في غیر المکان المعد لقضاء الحاجۃ۔ و إلا فقبل دخولہ۔ فلو نسي فیھا سمی بغلبہ، ولا یحرک لسانہ تعظیما لاسم اللّٰہ تعالیٰ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار’’کتاب الطہارۃ، مطلب ’’سائر‘‘ بمعنی ’’باقي‘‘ لا بمعنی ’’جمیع‘‘‘‘ ج۱، ص:۲۲۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص303

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق : مذکورہ افعال اس حالت میں مکروہ تنزیہی ہیں (۱) فتاویٰ عالمگیری میں ہے ’’حلق الشعر حالۃ الجنابۃ مکروہ وکذا قص الأظافیر‘‘

(۱)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع عشر: في الختان والخضاء، و قلم الأظفار، و قص الشارب الخ‘‘ ج۵،ص:۴۱۴
 حضرت مفتی عزیز الرحمن دیوبندیؒ تحریر فرماتے ہیں: بال کترے اور مونڈنے اور ناخن کترنے کو بحالت جنابت بعض فقہاء نے مکروہ لکھا ہے۔ بظاہر مراد مکروہ سے مکروہ تنزیہی ہے۔ جن کا مآل خلاف اولیٰ ہے۔ ما أعلم علی کراھیۃ إزالۃ شعر الجنب و ظفرہ دلیلا شرعیاً (اشرف علی تھانوی، حاشیہ امداد الفتاویٰ، ج۱،ص:۲۵۵)؛ و یکرہ بالأسنان لأنہ یورث البرص والجنون و في حالۃ الجنابۃ و کذا إزالۃ الشعر۔(طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ‘‘ ج۱،ص:۵۲۵، دارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص304