طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر بچہ نے دودھ پینے کے فوراً بعد قئی کردی ہے اور وہ دودھ ابھی حلق سے نیچے نہیں اترا تھا، بلکہ منہ میں ہی تھا اور بچہ نے قئی کردی تو وہ ناپاک نہیں ہے۔ اگر وہ بدن میں یا کپڑے میں لگ جائے تو اس کو دھونا ضروری نہیں ہے، ہاں اگر وہ دودھ حلق سے نیچے اتر گیا تھا پھر بچے نے دودھ کی قئی کی تو وہ ناپاک ہے، اس کے بدن یا کپڑے پر لگنے کی صورت میں دھونا ضروری ہے اس لیے کہ حلق میں جانے کی وجہ سے اس کا اتصال نجاست سے ہوگیا ہے۔
و کذا الصبي إذا ارتضع و قاء من ساعتہ قیل ھو المختار والصحیح ظاھر الروایۃ، أنہ نجس لمخالطتہ النجاسۃ و تداخلھا فیہ بخلاف البلغم۔(۱)
قال الحسن ’’إذا تناول طعاما أو ماء ثم قاء من ساعتہ لا ینقض، لأنہ طاھر حیث لم یستحل و إنما اتصل بہ قلیل القئي فلا یکون حدثا فلا یکون نجسا، و کذا الصبي إذا ارتضع و قاء من ساعتہ و صححہ في المعراج و غیرہ، و محل الاختلاف ما إذا وصل إلی معدتہ ولم یستقر، أما لو قاء قبل الوصول إلیھا وھو في المرئي فإنہ لا ینقض اتفاقا۔۔۔ لأن ما یتصلہ بہ قلیل وھو غیر ناقض۔(۲)

(۱)ابراہیم، حلبي کبیري،ج۱، ص:۱۲۹
(۲)ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱،ص:۶۷


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص456

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:محض ستر وغیرہ دیکھنے اور ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہاں دوبارہ وضو کر لینا بہتر ہے ۔(۱)

(۱)عن قیس بن طلق بن علي عن أبیہ عن النبي ﷺ قال: وھل ھو إلا مضغۃ منہ أو بضعۃ منہ، (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب الطہارۃ، باب ترک الوضو من مس الذکر،‘‘ ج۱، ص:۲۵)؛ و أنہ سئل عن الرجل یمس ذکرہ في الصلوٰۃ فقال: ھل ھو إلا بضعۃ منک۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج۱، ص:۸۳، دارالکتاب دیوبند)؛ و لا ینقض الوضوء مس الذکر و کذا مس الدبر والفرج مطلقا۔ (ابن نجیم، البحرالرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص۸۲)؛ و ’’ولا ینقضہ (مس ذکر) لکن یغسل یدہ ندباً، ولکن یندب للخروج من الخلاف لا سیما للإمام‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض،‘‘ ج۱، ص۲۷۸-۲۷۹، زکریا بک ڈپو دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص216

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جو پانی آنکھوں سے نکلتا ہے، وہ ناقض وضو نہیں ہے۔(۲)

(۲) قال رسول اللّٰہ ﷺ : الوضوء من کل دم سائل۔ (شمس الأئمۃ السرخسي، المبسوط، ’’باب الوضوء والغسل،‘‘ ج۱، ص:۷۶، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)، والمخرج بعصر والخارج بنفسہ سیان في حکم النقض علی المختار کما في البزازیۃ، قال: لأن في الإخراج خروجا فصار کالفصد، وفي الفتح عن الکافي: أنہ الأصح و اعتمدہ القھستاني، و في القنیۃ و جامع الفتاویٰ :أنہ الأشبہ و معناہ أنہ الأشبہ بالمنصوص روایۃ، والراجح درایۃ فیکون الفتوی علیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۶۴-۲۶۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص217

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جو ہوا قبل (آگے کی شرم گاہ) سے نکلتی ہے، وہ ناقض وضو نہیں ہے۔(۱)

(۱)ولنا فیہ کلام و خروج غیر نجس مثل ریح أو دودۃ أو حصاۃ من دبرہ خروج ذلک من جرح ولا خروج ریح من قبل غیر مفضاۃ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الضوء‘‘ ج۱، ص:۲۶۳)؛ ولا یرد علی المنصف الریح الخارجۃ من الذکر و فرج المرأۃ فإنھا لا تنقض الوضوء علی الصحیح ۔(ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب مسح علی خفیہ‘‘، ج۱، ص:۵۹)؛ و ینقض الوضوء إثنا عشر شیئا ما خرج من السبیلین إلا ریح القبل في الأصح۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ،  فصل ینقض الوضوء،‘‘ ص۳۵، مکتبۃ عکاظ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص218

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:پیشاب سے غسل واجب نہیں ہوتا، صرف وضو ٹوٹ جاتا ہے۔(۲)

(۲) و ینقضہ خروج کل خارج نجس منہ أي من المتوضي الحي معتاداً أو لا، من السبیلین أولا إلی ما یطہر الخ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء، ج۱، ص:۲۶۰، ۲۶۱)؛ و قال أصحابنا الثلاثۃ : ھو خروج النجس من الآدمي الحي، سواء کان من السبیلین:…بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر…
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص218

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر نجاست مخرج سے متجاوز نہیں ہوئی ہے، تو پانی سے استنجا سنت ہے نماز کا اعادہ ضروری نہیں ہے اور اگر نجاست مخرج سے متجاوز ہوگئی، تو اگر نجاست قدر درہم سے کم ہے، تو دھونا واجب ہے، نماز پوری کر کے اعادہ کر لے اور اگر نجاست قدر درہم سے زائد ہو گئی، تو دھونا فرض ہے، نماز باطل ہونے کی وجہ سے توڑدے اور از سر نو پڑھے۔
’’والغسل سنۃ ویجب إن جاوز المخرج نجس‘‘(۱)
’’وعفا عن قدر درہم وإن کرہ تحریماً فیجب غسلہ وما دونہ تنزیہاً فیسن وفوقہ مبطل فیفرض‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۰۔
(۲)أیضًا، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص107

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ٹیک لگا کر سویا، گرا نہیں اور سرین زمین پر ٹکی رہی، تو اس کا وضو نہیں ٹوٹا۔(۱)

(۱) إذا استند ظھرہ إلی ساریۃ، أو نحوھا بحیث لولا استند، لما استمسک، فنام کذلک، فإن کانت إلیتاہ مستویتین مستوثقتین علی الأرض، لا وضوء علیہ في أصح القولین۔ (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب ما ینقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۳۵)؛ و عن أبی یوسف أنہ قال: سألت أبا حنیفۃ عمن استند إلی ساریۃ أو رجل فنام۔ ولو لا الساریۃ والرجل لم یستمسک۔ قال: إذا کانت إلیتہ مستوثقۃ من الأرض فلا وضوء علیہ، و بہ أخذ عامۃ مشائخنا؛ وھو الأصح۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الطہارۃ، نواقض الوضوء‘‘، ج۱، ص:۱۳۵)؛ ولو نام مستنداً إلی مالوأزیل عنہ لسقط، إن کانت مقعدتہ زائلۃً عن الأرض۔ نقض بالإجماع، و إن کانت غیر زائلۃ، فالصحیح أن لا ینقض۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ،  الفصل الخامس، في نواقض الوضوء، ومنھا: النوم‘‘ ج۱، ص:۶۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص219

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بغیر حکمت جانے حکم کو تسلیم کرنے کا نام اطاعت ہے احکامِ شریعت کی حکمت تلاش کرنا شان عبدیت کے خلاف ہے، بس یہ سمجھنا چاہئے کہ جب حکم کرنے والا حکیم ہے، تو اس کے حکم میں ضرور کوئی حکمت ہوگی اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا، بندہ کا کام حکم بجا لانا ہے، نہ کہ وجہیں تلاش کرنا، ہاں ایسی حکمتیں تلاش کرنا جو حکم خداوندی کی عظمت میں اضافہ کرتی ہوں ممنوع نہیں ہے؛ اس لیے بعض علماء نے احکام خداوندی کی کچھ حکمتیں بیان کی ہیں، کہ ریح خارج ہونے سے ملائکہ سے دوری ہو جاتی ہے اور طبیعت میں سستی آ جاتی ہے، وضو کرنے سے طبیعت میں فرحت ونشاط پیدا ہو جاتا ہے اور فرشتوں کا قرب نصیب ہو جاتا ہے، شیاطین سے دوری ہو جاتی ہے، وضو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی عظمت اور اس کی توقیر کا اظہار بھی ہے، اس جگہ کا دھونا جہاں سے ریح خارج ہوئی ہے؛ اس لئے ضروری نہیں کہا گیا کیونکہ وہاں سے کوئی نجاست کا خروج تو ہوا نہیں کہ اسے دھویا جائے۔
’’وقیل إن العبد إذا شرع في الخدمۃ یجب أن یجدد نظافتہ وأیسرہا تنقیۃ الأعضاء التي تنکشف کثیراً لتحصل بہا نظافۃ القلب إذ تنظیف الظاہر یوجب تنظیف الباطن‘‘(۱)
’’فلا یسن من ریح لأن عینہاطاہرۃ وإنما نقضت لانبعاثہا عن موضع النجاسۃ‘‘(۲)

(۱) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص107

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سلفہ پی کر نشہ ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتا؛ لیکن اگر نشہ اتنا ہو کہ نیند کی طرح غفلت ہو جائے، تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔(۱)

(۱) و منھا: الإغماء والجنون، والغشي والسکر … و حد السکر في ھذا الباب: أن لا یعرف الرجل من المرأۃ عند بعض المشائخ، وھو اختیار الصدر الشھید۔ والصحیح، ما نقل عن شمس الأئمۃ الحلواني: أنہ إذا دخل في بعض مشیتہ تحرک، کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۶۳)؛  و ینقضہ إغماء و منہ الغشي و جنون و سکر بأن یدخل في مشیہ تمایل۔(الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: نوم الأنبیاء غیر ناقض‘‘ ج۱، ص:۲۷۴)؛  وفي الخلاصۃ : السکر حدث إذا لم یعرف بہ الرجل من المرأۃ۔ و في المجتبیٰ: إذا دخل في مشیتہ تمایل، وھو الأصح۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، في نواقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۵۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص220

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بریڈ میں جذب کرنے کی صلاحیت ہے، اس سے پیشاب تو جذب ہو جائے گا اور استنجا معتبر مانا جائے گا؛ البتہ کھانے پینے کی اشیاء سے استنجا کرنا مکروہ ہے حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔

’’عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تستنجوا بالروث ولا بالعظام فإنہ زاد إخوانکم من الجن‘‘(۱)
’’ولا یستنجی بعظم ولا بروث لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن ذلک ولو فعل یجزیہ لحصول المقصود ومعنی النہي في الروث للنجاسۃ وفي العظم کونہ زاد الجن، ولا یستنجی بطعام لأنہ إضاعۃ وإسراف‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ: باب ما جاء في کراہیۃ ما یستنجی بہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱، رقم:۱۸۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ: فصل الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص108