Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: آپ کے سوالات کا جواب اس اصول کے سمجھنے پر موقوف ہے کہ انقلابِ حقیقت و ماہیت سے کیا مرادہے؟ اس بارے میں عرض ہے کہ انقلابِ حقیقت سے مراد یہ ہے کہ وہ چیز فی نفسہٖ اپنی حقیقت کو چھوڑ کر کسی دوسری حقیقت میں تبدیل ہوجائے، مثلاً شراب سرکہ بن جائے یا خون مشک بن جائے یا نطفہ گوشت کا لوتھڑا بن جائے کہ ان تمام صورتوں میں شراب، خون اور نطفے نے اپنی اصل حقیقت چھوڑ دی اور دوسری حقیقتوں میں تبدیل ہوگئے۔ واضح رہے کہ ماہیت و حقیقت بدل جانے کا حکم اسی وقت لگایا جائے گا جب پہلی حقیقت کے مخصوص آثار اس میں باقی نہ رہیں، جیسے خون کے مشک میں تبدیل ہوجانے سے خون کے مخصوص آثار بالکل زائل ہوجاتے ہیں۔ بعض آثار کا زائل ہوجانا یا قلیل ہونے کی وجہ سے محسوس نہ ہونا تبدیلِ حقیقت کو ثابت نہیں کرتا، جیسا کہ آپ نے سوالِ مذکور میںفقہاء کی یہ تصریح ذکر کی ہے کہ اگر آٹے میں کچھ شراب ملا کر گوندھ لیا جائے اور روٹی پکالی جائے تو روٹی ناپاک ہے۔ رد المحتار، ج۱، ص:۵۱۹، ۵۲۰ میں ہے ’’قلت: لکن قد یقال: إن الدّبس لیس فیہ انقلاب حقیقۃ؛ لأنہ عصیر جمد بالطبخ و کذا السمسم إذا درس واختلط دھنہ بأجزاء، ففیہ تغیّر وصف فقط، کلبن صار جبناً و برّ صار طحیناً، و طحین صار خبزاً بخلاف نحو خمر صار خلاًّ‘‘ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ شراب نے اس صورت میں فی نفسہ اپنی حقیقت نہیں چھوڑی ہے بلکہ اجزاء کے قلیل ہونے کی وجہ سے وہ محسوس نہیں ہورہی ؛ کیوںکہ آٹے کے مقابلے میں شراب کے اجزاء کم تھے، پس یہ انقلابِ حقیقت نہیں ہے؛ بلکہ اختلاط ہے۔ اسی طرح حقیقتِ منقلبہ کے بعض غیرمخصوص آثار کا باقی رہ جانا، انقلابِ ماہیت سے مانع نہیں، جیسا کہ شراب کے سرکہ بن جانے کے وقت بھی اس کی رقت باقی رہتی ہے۔تو چوںکہ رقت، شراب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، اس لیے اس کا باقی رہ جانا انقلابِ حقیقت سے مانع نہیں خلاصہ یہ ہے کہ انقلابِ ماہیت سے مراد یہ ہے کہ ایک شیٔ دوسری شیٔ میں اس طرح تبدیل ہوجائے کہ پہلی چیز کے مخصوص آثار و کیفیات میں سے کچھ باقی نہ رہے، بعض کیفیاتِ غیرمخصوصہ کا باقی رہ جانا تبدیلیٔ ماہیت سے مانع نہیں۔رہا صابون میں خنزیر کی چربی کا مسئلہ تو عرض ہے کہ صابون بن جانے کے بعد تبدیلی ماہیت کی وجہ سے وہ پاک ہوجاتی ہے اور اس کا استعمال جائز ہوگا:’’و یطھر زیت تنجس بجعلہ صابوناً، بہ یفتی للبلوی کتنور رش بماء نجس لا بأس بالخبز فیہ۔(۱)
جُعل الدھن النجس فی صابون، یفتی بطھارتہ؛ لأنہ تغیر، والتغیر یطھر عند محمد رحمہ اللہ و یفتی بہ للبلوی۔ (۲)
(۱) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۱۹
(۲)ایضاً:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص454
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو خروج نجاست سے ٹوٹتا ہے اور وضو کی حالت میں موذی جانور کو مار نے سے وضو پر اثر نہیں پڑے گا(۱) نیز خون نجاستِ غلیظہ ہے اگر ہاتھوں یاجسم کے کسی حصے پر لگ جائے، تو اس کو دھو لیا جائے۔(۲)
(۱) قولہ لا ینقض الوضوء أي لعدم الخروج (ابن عابدین، ردالمحتار،’’کتاب الطھارۃ‘‘ ج۱، ص:۱۴۹)
(۲) في رقیق من مغلظۃ کعذرۃ، و دم مسفوح من سائر الحیوانات۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، قبیل: مطلب في طہارۃ بولہ،‘‘ ج۱، ص:۲۲-۲۴)،… و وزناً بقدر مثقال في الکثیف من نجس مغلظ کالدم‘‘ (ابراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنہر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،‘‘ ج۱، ص:۹۳، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)، النوع الأول: المغلظۃ ۔۔۔ و کذلک الخمر والدم المسفوح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع الأول: المغلظۃ،‘‘ ج۱،ص:۱۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص216
طہارت / وضو و غسل
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:اگر بچہ نے دودھ پینے کے فوراً بعد قئی کردی ہے اور وہ دودھ ابھی حلق سے نیچے نہیں اترا تھا، بلکہ منہ میں ہی تھا اور بچہ نے قئی کردی تو وہ ناپاک نہیں ہے۔ اگر وہ بدن میں یا کپڑے میں لگ جائے تو اس کو دھونا ضروری نہیں ہے، ہاں اگر وہ دودھ حلق سے نیچے اتر گیا تھا پھر بچے نے دودھ کی قئی کی تو وہ ناپاک ہے، اس کے بدن یا کپڑے پر لگنے کی صورت میں دھونا ضروری ہے اس لیے کہ حلق میں جانے کی وجہ سے اس کا اتصال نجاست سے ہوگیا ہے۔
و کذا الصبي إذا ارتضع و قاء من ساعتہ قیل ھو المختار والصحیح ظاھر الروایۃ، أنہ نجس لمخالطتہ النجاسۃ و تداخلھا فیہ بخلاف البلغم۔(۱)
قال الحسن ’’إذا تناول طعاما أو ماء ثم قاء من ساعتہ لا ینقض، لأنہ طاھر حیث لم یستحل و إنما اتصل بہ قلیل القئي فلا یکون حدثا فلا یکون نجسا، و کذا الصبي إذا ارتضع و قاء من ساعتہ و صححہ في المعراج و غیرہ، و محل الاختلاف ما إذا وصل إلی معدتہ ولم یستقر، أما لو قاء قبل الوصول إلیھا وھو في المرئي فإنہ لا ینقض اتفاقا۔۔۔ لأن ما یتصلہ بہ قلیل وھو غیر ناقض۔(۲)
(۱)ابراہیم، حلبي کبیري،ج۱، ص:۱۲۹
(۲)ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱،ص:۶۷
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص456
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:محض ستر وغیرہ دیکھنے اور ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہاں دوبارہ وضو کر لینا بہتر ہے ۔(۱)
(۱)عن قیس بن طلق بن علي عن أبیہ عن النبي ﷺ قال: وھل ھو إلا مضغۃ منہ أو بضعۃ منہ، (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب الطہارۃ، باب ترک الوضو من مس الذکر،‘‘ ج۱، ص:۲۵)؛ و أنہ سئل عن الرجل یمس ذکرہ في الصلوٰۃ فقال: ھل ھو إلا بضعۃ منک۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج۱، ص:۸۳، دارالکتاب دیوبند)؛ و لا ینقض الوضوء مس الذکر و کذا مس الدبر والفرج مطلقا۔ (ابن نجیم، البحرالرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص۸۲)؛ و ’’ولا ینقضہ (مس ذکر) لکن یغسل یدہ ندباً، ولکن یندب للخروج من الخلاف لا سیما للإمام‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض،‘‘ ج۱، ص۲۷۸-۲۷۹، زکریا بک ڈپو دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص216
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جو پانی آنکھوں سے نکلتا ہے، وہ ناقض وضو نہیں ہے۔(۲)
(۲) قال رسول اللّٰہ ﷺ : الوضوء من کل دم سائل۔ (شمس الأئمۃ السرخسي، المبسوط، ’’باب الوضوء والغسل،‘‘ ج۱، ص:۷۶، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)، والمخرج بعصر والخارج بنفسہ سیان في حکم النقض علی المختار کما في البزازیۃ، قال: لأن في الإخراج خروجا فصار کالفصد، وفي الفتح عن الکافي: أنہ الأصح و اعتمدہ القھستاني، و في القنیۃ و جامع الفتاویٰ :أنہ الأشبہ و معناہ أنہ الأشبہ بالمنصوص روایۃ، والراجح درایۃ فیکون الفتوی علیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۶۴-۲۶۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص217
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جو ہوا قبل (آگے کی شرم گاہ) سے نکلتی ہے، وہ ناقض وضو نہیں ہے۔(۱)
(۱)ولنا فیہ کلام و خروج غیر نجس مثل ریح أو دودۃ أو حصاۃ من دبرہ خروج ذلک من جرح ولا خروج ریح من قبل غیر مفضاۃ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الضوء‘‘ ج۱، ص:۲۶۳)؛ ولا یرد علی المنصف الریح الخارجۃ من الذکر و فرج المرأۃ فإنھا لا تنقض الوضوء علی الصحیح ۔(ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب مسح علی خفیہ‘‘، ج۱، ص:۵۹)؛ و ینقض الوضوء إثنا عشر شیئا ما خرج من السبیلین إلا ریح القبل في الأصح۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل ینقض الوضوء،‘‘ ص۳۵، مکتبۃ عکاظ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص218
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:پیشاب سے غسل واجب نہیں ہوتا، صرف وضو ٹوٹ جاتا ہے۔(۲)
(۲) و ینقضہ خروج کل خارج نجس منہ أي من المتوضي الحي معتاداً أو لا، من السبیلین أولا إلی ما یطہر الخ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء، ج۱، ص:۲۶۰، ۲۶۱)؛ و قال أصحابنا الثلاثۃ : ھو خروج النجس من الآدمي الحي، سواء کان من السبیلین:…بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر…
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص218
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر نجاست مخرج سے متجاوز نہیں ہوئی ہے، تو پانی سے استنجا سنت ہے نماز کا اعادہ ضروری نہیں ہے اور اگر نجاست مخرج سے متجاوز ہوگئی، تو اگر نجاست قدر درہم سے کم ہے، تو دھونا واجب ہے، نماز پوری کر کے اعادہ کر لے اور اگر نجاست قدر درہم سے زائد ہو گئی، تو دھونا فرض ہے، نماز باطل ہونے کی وجہ سے توڑدے اور از سر نو پڑھے۔
’’والغسل سنۃ ویجب إن جاوز المخرج نجس‘‘(۱)
’’وعفا عن قدر درہم وإن کرہ تحریماً فیجب غسلہ وما دونہ تنزیہاً فیسن وفوقہ مبطل فیفرض‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۰۔
(۲)أیضًا، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص107
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ٹیک لگا کر سویا، گرا نہیں اور سرین زمین پر ٹکی رہی، تو اس کا وضو نہیں ٹوٹا۔(۱)
(۱) إذا استند ظھرہ إلی ساریۃ، أو نحوھا بحیث لولا استند، لما استمسک، فنام کذلک، فإن کانت إلیتاہ مستویتین مستوثقتین علی الأرض، لا وضوء علیہ في أصح القولین۔ (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب ما ینقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۳۵)؛ و عن أبی یوسف أنہ قال: سألت أبا حنیفۃ عمن استند إلی ساریۃ أو رجل فنام۔ ولو لا الساریۃ والرجل لم یستمسک۔ قال: إذا کانت إلیتہ مستوثقۃ من الأرض فلا وضوء علیہ، و بہ أخذ عامۃ مشائخنا؛ وھو الأصح۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الطہارۃ، نواقض الوضوء‘‘، ج۱، ص:۱۳۵)؛ ولو نام مستنداً إلی مالوأزیل عنہ لسقط، إن کانت مقعدتہ زائلۃً عن الأرض۔ نقض بالإجماع، و إن کانت غیر زائلۃ، فالصحیح أن لا ینقض۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس، في نواقض الوضوء، ومنھا: النوم‘‘ ج۱، ص:۶۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص219