Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر تعویذ کو اچھی طرح کپڑے میں سی دیا جائے، تو اس کوپہن کر بیت الخلا میں جانا درست ہے۔ لہٰذا اگر والٹ میں بند ہو، تو اس کو جیب میں رکھ کر لےجانے میں حرج نہیں ہے؛ البتہ اس کو ساتھ نہ لے جانا بہتر ہے اگر ممکن ہو۔(۱)
(۱) تکرہ إذا بۃ درہم علیہ آیۃ إلا إذا کسرہ، رقیۃ في غلاف متجاف لم یکرہ دخول الخلاء بہ والاحتراز أفضل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’سنن الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸؛ وفتح القدیر لإبن الہمام، ’’باب الحیض والاستحاضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۹؛ وابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب ما یمنع الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص114
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طرح بیٹھنے میں ، مقعد، یعنی :سرین بھی ایک طرف سے اٹھی رہتی ہے اور ہیئت نماز کے خلاف بھی ہے، اس لیے اس صورت میں سونے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تھا؛ لیکن آپ کا سونا عام انسانوں کی طرح نہ تھا؛ اس لیے یہ قیاس غلط ہے؛ لہٰذا استرخاء مفاصل (جو غلبہ نوم کی وجہ سے ہوتا ہے، سبب ہے مقعد کے زمین سے اٹھنے کا اور یہ سبب ہے خروج ریح کا؛ اس لیے نوم ناقض وضو ہوئی، لہٰذا اگر آلتی پالتی مار کر بیٹھنے میں سو گیا اوراس حالت میں غلبہ نوم کی وجہ سے استرخاء مفاصل ہو گیا؛ اس کی وجہ سے مقعد زمین سے اٹھ گئی، تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اس نوم کے بعد اگر نماز پڑھائی تو نماز نہیں ہوگی۔(۱)
(۱) و ینقضہ حکماً نوم یزیل مسکتہ أي قوتہ الماسکۃ بحیث تزول مقعدتہ من الأرض، وھو النوم علی أحد جنبیہ أو ورکیہ أو قفاہ أو وجھہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نوم من بہ انفلات ریح غیر ناقض،‘‘ ج ۱، ص:۲۷۰)؛ و سئل أبونصر رحمہ اللّٰہ عمن نام قاعداً نوماً ثقیلاً؟ فقال: لا وضوء علیہ، لکن یشترط أن یکون مقعدہ علی الأرض وھو الصحیح۔ (الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني ما یوجب الوضوء،‘‘ ج ۱، ص:۲۵۴)؛ والعتہ لا ینقض کنوم الأنبیاء علیھم الصلاۃ والسلام۔ قولہ:کنوم الأنبیاء قال في البحر: صرح في القینۃ بأنہ من خصوصیاتہ ﷺ، ولذا ورد في الصحیحین ’’أن النبي ﷺ نام حتی نفخ، ثم قام إلی الصلاۃ، ولم یتوضا‘‘ لما ورد في حدیث آخر: إن عیني تنامان، ولا ینام قلبي۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: نوم الأنبیاء غیر ناقض،‘‘ ج ۱، ص:۲۷۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص226
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر جن نے خواب میں صحبت کی ہے، تو اس کا حکم احتلام کا ہے، اگر عورت کو لذت محسوس ہوئی اور انزال ہوا، تو غسل واجب ہو جائے گا ورنہ نہیں۔اور اگر جن نے انسانی شکل میں آکر جاگنے کی حالت میں عورت سے صحبت کی تو اس کا حکم انسان جیسا ہے، اگر حشفہ غائب ہو گیا، تو غسل واجب ہے ورنہ نہیں، اس صورت میں انزال پر وجوب غسل موقوف نہیں ہوگا۔(۲)
(۲) یوجب الاغتسال الإیلاج أي إدخال ذکر من یجامع مثلہ في أحد السبیلین القبل والدبر من الرجل أي من الذکر المشتھي والمرأۃ أي المشتہاۃ۔ (ابراہیم الحلبي، حلبي کبیري،’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۳۶، دارالکتاب دیوبند) عند إیلاج حشفۃ ھي ما فوق الختان آدمي احتراز عن الجني…یعنی إذا لم تنزل و إذا لم یظھر لھا في صورۃ الآدمي۔ قولہ احتراز عن الجني۔ ففي المحیط: لو قالت معي جني یاتینی مرارا، و أجد ما أجد إذا جامعني زوجي لا غسل علیھا لانعدام سببہ وھو الإیلاج أوالاحتلام، و وقع في البحر: یاتیني في النوم مرار أو ظاھرہ أنہ رؤیۃ منام۔۔۔ ھذا إذا کان واقعا في الیقظۃ فلو في المنام فلا شک أن لہ من التفصیل ما للاحتلام (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ج:۱، ص:۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص298
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 971 الف
الجواب
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ جب تک ہوا نکلنے کا یقین نہ ہو صرف شک اور وہم ہوتے رہنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، اسکی پرواہ نہ کریں۔ جب یقین ہو تو وضو کرلیا کریں اور بادی کا علاج کرائیں اور ریاح پیدا کرنے والی چیزوں سے پرہیز کریں ۔ ہاں اگر واقعی ریاح خارج ہوتی ہے اور نماز کا کوئی وقت کامل ایسا گذرگیا جس میں باوضو فرض نماز پڑھنا ممکن نہیں ہوا تو پھر آپ معذور ہیں، وقت ہوجانے پر وضو کرلیں، اور جتنی نمازیں چاہیں اس وقت میں پڑھیں، اور آپ معذور اس وقت تک رہیں گے جب تک کہ ایک نماز کا کامل وقت اس عذر سے خالی نہ گذر جائے۔ ولایصیر معذورا حتی یستوعبہ العذر وقتا کاملا لیس فیہ انقطاع بقدر الوضوء والصلوۃ۔ نور الایضاح ص51
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب و باللہ التوفیق : مذکورہ حلال جانوروں کا جھوٹا پاک ہے، اس سے وضوء جائز اور درست ہے اور اس کو پینا درست ہے۔(۱)
(۱) و أما سؤر ما یؤکل لحمہ فلأنہ متولد من لحم طاھر فأخذ حکمہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۲۲۳)، و سؤر الآدمي وما یؤکل لحمہ طاھر لأن المختلط بہ اللعاب و قد تولد من لحم طاھر فیکون طاھرا۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، فصل في الآسار وغیرہا،ج۱، ص:۱۱۲)؛ إن السؤر یعتبر بلحم مسئرہ فإن کان لحم مسئرہ طاھرا فسؤرہ طاھر، أو نجسا فنجس، أو مکروھا فمکروہ، أو مشکوکا فمشکوک۔(ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في السؤر، ج۱، ص:۳۸۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص409
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ٹوائلٹ پیپر کا استعمال جائز ہے، اگر نجاست اپنے مخرج سے تجاوز نہ کرے اور پانی نہ بھی استعمال کیا جائے تو بھی ٹوائلٹ پیپر سے استنجا کے بعد نماز صحیح ہوجائے گی؛ البتہ اگر نجاست اپنے مخرج سے ایک درہم سے زائد تجاوز کر گئی ہو، تو پانی کا استعمال ضروری ہوگا، صرف پیپر کا استعمال کافی نہ ہوگا۔
’’یجوز الاستنجاء بنحو حجر منق کالمدر والتراب والعود والخرقۃ والجلد وما أشبہہا … ثم الاستنجاء بالأحجار إنما یجوز إذا اقتصرت النجاسۃ علی موضع الحدث فأما إذا تعدت موضعہا بأن جاوزت الشرج اجمعوا علی أن ما جاوز موضع الشرج من النجاسۃ إذا کانت أکثر من قدر الدرہم یفترض غسلہا بالماء‘‘(۱)
’’کان عمر رضي اللّٰہ عنہ إذا بال قال: ناولني شیئا أستنجی بہ قال: فأناولہ العود والحجر أو یأتي حائطا یتمسح بہ أو یمسہ الأرض ولم یکن یغسلہ۔ وہذا أصح‘‘(۲)
’’(ویجب) أي یفرض غسلہ (إن جاوز المخرج نجس)‘‘ (۳)
نیز جاذب کاغذ اور سگریٹ کی ڈبی وغیرہ سے استنجا کرنے کے سلسلے میں ایک ضابطہ یاد رکھیں کہ: استنجا کرنا ہر ایسی چیز سے درست ہے جس میں نجاست کو دور کرنے کی صلاحیت ہو اور وہ قابل احترام بھی نہ ہو، پھر عام طور پر نجاست کو دور کرنے کے لئے دو طریقے اپنائے جاتے ہیں یا استعمال کئے جاتے ہیں، پہلا: یہ کہ نجاست کو بہا دے اور دوسرا نجاست کو جذب کرلے اگر مارکیٹ میں موجود جاذب کاغذ اور سگریٹ کی ڈبی میں نجاست کو جذب کرنے کی صلاحیت ہے، تو شریعت مطہرہ نے ان سے اور ان جیسی چیزوں سے استنجا کرنے کی اجازت دی ہے اور استعمال کرنے کو جائز لکھا ہے، جیسا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’وإذا کانت العلۃ في الأبیض کونہ آلۃ الکتابۃ کما ذکرناہ یؤخذ منہا عدم الکراہۃ فیما لا یصلح لہا إذا کان قالعا للنجاسۃ غیر متقوم‘‘(۴)
’یجوز في الاستنجاء استعمال الحجر (وما قام مقامہ) أي ویجوز أیضاً بما قام مقام الحجر کالمدر والتراب والعود والخرقۃ والقطن والجلد ونحو ذلک‘‘(۱)
’’فعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا ، قالت: قدم سراقۃ بن مالک علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسألہ عن التغوط، فأمرہ أن یستعلی الریح وأن یتنکب القبلۃ، ولا یستقبلہا ولا یستدبرہا، وأن یستنجی بثلاثۃ أحجار ولیس فیہا رجیع، أو ثلاثۃ أعواد، أو ثلاث حثیات من تراب‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ماورد في الاستنجاء بالتراب‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۵۴۰۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔
(۴) نجم الحسن أمروہوي، نجم الفتاوی: ج ۲، ص:۱۴۹، ۱۵۰۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵۔
(۲) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: ما یجوز بہ الاستنجاء بہ ومالا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۷۴۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص115
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان مذکورہ صورتوں میں آنکھوں میں پانی نکل آئے یا بغیر درد اور تکلیف کے کسی طرح سے آنکھوں سے پانی نکل آئے، تو ان صورتوں میں وضو نہیں ٹوٹتا؛ بلکہ وضو باقی رہتا ہے، البتہ آنکھ دکھنی آئی ہو یا کوئی درد یا تکلیف ہو، جس کی وجہ سے چکنا پانی یا پیپ نکلے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے:
’’کما لا ینقض لو خرج من أذنہ ونحوہا کعینہ وثدیہ قیح ونحوہ کصدید وماء سرۃ وعین لا بوجع، و إن خرج بہ أي بوجع نقض؛ لأنہ دلیل الجرح فدمع من بعینہ رمد أو عمش ناقض الخ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذھبہ،‘‘ ج۱، ص:۲۷۹)، و في المنیۃ عن محمدؒ إذا کان في عینہ رمد و تسیل الدموع منھا آمرہ بالوضوء لوقت کل صلوۃ؛ لأني أخاف أن یکون ما یسیل منھا صدیدا فیکون صاحب عذر الخ۔ (أحمد بن محمد الطحاوي، حاشیۃ الطحاوي علی مراقی الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل نواقض الوضوء،‘‘ ص:۸۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص227
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل میں کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا اور پورے بدن پر پانی بہانا فرض ہے، وضو کے فرائض اس میں خود بخود ادا ہو جاتے ہیں اور غسل سے پہلے وضو کرنا مسنون ہے، فرض نہیں ہے۔ لہٰذا اس غسل سے نماز اور تلاوت وغیرہ کرنا درست ہے۔(۱)
(۱)عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا أن النبي ﷺ کان لا یتوضأ بعد الغسل (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ، باب في الوضو بعد الغسل‘‘ ج۱، ص:۳۰) ؛ و یقول القاضي و في العارضۃ: لم یختلف أحد من العلماء في أن الوضوء داخل في الغسل۔ (محمد یوسف بن محمد، معارف السنن، ’’باب ما جاء إذا التقی الختانان وجب الغسل‘‘ ج ۱، ص:۳۶۸مکتبۃ اشرفیہ، دیوبند) أخرج الطبراني في الأوسط: عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من توضأ بعد الغسل فلیس منا: والظاھر أن عدم استحبابہ لو بقی فتوضأ إلی فراغ الغسل۔ فلو أحدث قبلہ ینبغي إعادتہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: سنن الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۹۴ )
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص299
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: جس طرح بڑے آدمی کا پیشاب ناپاک ہے، اسی طرح چھوٹے بچے کا پیشاب بھی ناپاک ہے، خواہ وہ بچہ دودھ ہی کیوں نہ پیتا ہو؛ کپڑے یا برتن وغیرہ پر لگ جائے، تو اس کو پاک کرنا ضروری ہے ،اس میں لاپر واہی نہ کی جائے۔(۱)
(۱)عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت: أتی رسول اللّٰہ ﷺ بصبي یرضع، فبال في حجرہ، فدعا بماء، فصبہ علیہ و في روایۃ فدعا بماء فرشہ علیہ۔(أخرجہ مسلم، في صحیحہ، باب حکم بول الطفل الرضیع و کیفیۃ غسلہ، ج۱، ص:۱۳۹)؛ ولو من صغیر لم یطعم، أي لم یأکل فلا بد من غسلہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في طھارۃ بولہ صلی اللہ علیہ وسلم، ج۱، ص:۵۲۳)، وکذلک بول الصغیر والصغیرۃ أکلا أولا۔ (وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ۔ الکویت، الموسوعۃ الفقھیہ، ما یعتبر نجساً وما لا یعتبر، ج۴۰، ص:۷۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص409
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:آج کل عام طور پر بڑے شہروں میں نیوز پیپر وغیرہ کا استنجا کے لیے استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ ان چیزوں کو استنجا کے لیے استعمال کرنا نہایت ہی تکلیف دہ عمل ہے۔ صاحب البحر الرائق نے لکھا ہے: لکھے ہوئے کاغذ سے استنجا کرنا مکروہ ہے۔
’’والورق قیل: إنہ ورق الکتابۃ وقیل إنہ ورق الشجر وأي ذلک کان فإنہ مکروہ‘‘(۱)
اس لیے کہ کاغذ ایک گراں قدر چیز ہے جو علوم وفنون کی امین اور خود اسلام اور اس کی تعلیمات کے لئے بلند پایہ محافظ ہے، اس کی اس عظمت اور اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایسے معمولی اور کمتر کاموں کے لیے اس کا استعمال نہ ہو اور اس کو نجاستوں میں ملوث ہونے سے بچایا جائے؛ البتہ مجبوری کی حالت اس سے مستثنیٰ ہے۔ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کراہت کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’لصقالتہ وتقومہ ولہ احترام أیضا لکونہ آلۃ لکتابۃ العلم‘‘(۲)
اس لیے کہ وہ چکنا ہوتا ہے (جس سے نجاست کے پھیل جانے کا اندیشہ ہے) اور قیمتی ہوتا ہے، نیز آلۂ علم ہونے کی وجہ سے قابلِ احترام بھی ہے۔
اس کی تائید ان فقہاء کے اقوال سے بھی ہوتی ہے جو مطلق کاغذ کے اس مقصد کے لئے استعمال کو مکروہ نہیں کہتے، بلکہ ایسے کاغذ کے استعمال سے منع کرتے ہیں جس میں حدیث وفقہ سے متعلق کچھ لکھا ہوا ہو، مشہور فقیہ ابن قدامہ نے اپنی کتاب المغنی میں لکھا ہے:
’’ولا یجوز الاستنجاء بمالہ حرمۃ کشيء کتب فیہ فقہ أو حدیث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘(۳)
قابل احترام چیزیں مثلاً ایسی چیز کہ جس میں فقہ اور حدیث کی عبارتیں درج ہوں، ان سے استنجا کرنا جائز نہیں۔
علامہ ابن عابدین لکھتے ہیں:
’’لا یجوز بما کتب علیہ شيء من العلم کالحدیث والفقہ‘‘ (۴)
البتہ ایسے کاغذ جو خاص استنجا کے مقصد کے لیے ہی تیار کئے جاتے ہیں اور وہ کاغذ اس قابل نہیں ہوتے ہیں کہ ان پر کچھ لکھا جائے، تو ان جیسے کاغذوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)
(۳) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما ورد في الاستنجاء بالتراب‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۵۳۹۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔
(۳) ابن قدامۃ، المغني، ’’فصل استجمر بحجر ثم غسلہ أو کسر‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۷۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۴) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۳۔
(۱)خالد سیف اللہ رحمانی، جدیدفقہی مسائل: ج ۱، ص: ۸۵۔(کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص117