Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 971 الف
الجواب
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ جب تک ہوا نکلنے کا یقین نہ ہو صرف شک اور وہم ہوتے رہنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، اسکی پرواہ نہ کریں۔ جب یقین ہو تو وضو کرلیا کریں اور بادی کا علاج کرائیں اور ریاح پیدا کرنے والی چیزوں سے پرہیز کریں ۔ ہاں اگر واقعی ریاح خارج ہوتی ہے اور نماز کا کوئی وقت کامل ایسا گذرگیا جس میں باوضو فرض نماز پڑھنا ممکن نہیں ہوا تو پھر آپ معذور ہیں، وقت ہوجانے پر وضو کرلیں، اور جتنی نمازیں چاہیں اس وقت میں پڑھیں، اور آپ معذور اس وقت تک رہیں گے جب تک کہ ایک نماز کا کامل وقت اس عذر سے خالی نہ گذر جائے۔ ولایصیر معذورا حتی یستوعبہ العذر وقتا کاملا لیس فیہ انقطاع بقدر الوضوء والصلوۃ۔ نور الایضاح ص51
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب و باللہ التوفیق : مذکورہ حلال جانوروں کا جھوٹا پاک ہے، اس سے وضوء جائز اور درست ہے اور اس کو پینا درست ہے۔(۱)
(۱) و أما سؤر ما یؤکل لحمہ فلأنہ متولد من لحم طاھر فأخذ حکمہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۲۲۳)، و سؤر الآدمي وما یؤکل لحمہ طاھر لأن المختلط بہ اللعاب و قد تولد من لحم طاھر فیکون طاھرا۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، فصل في الآسار وغیرہا،ج۱، ص:۱۱۲)؛ إن السؤر یعتبر بلحم مسئرہ فإن کان لحم مسئرہ طاھرا فسؤرہ طاھر، أو نجسا فنجس، أو مکروھا فمکروہ، أو مشکوکا فمشکوک۔(ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في السؤر، ج۱، ص:۳۸۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص409
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ٹوائلٹ پیپر کا استعمال جائز ہے، اگر نجاست اپنے مخرج سے تجاوز نہ کرے اور پانی نہ بھی استعمال کیا جائے تو بھی ٹوائلٹ پیپر سے استنجا کے بعد نماز صحیح ہوجائے گی؛ البتہ اگر نجاست اپنے مخرج سے ایک درہم سے زائد تجاوز کر گئی ہو، تو پانی کا استعمال ضروری ہوگا، صرف پیپر کا استعمال کافی نہ ہوگا۔
’’یجوز الاستنجاء بنحو حجر منق کالمدر والتراب والعود والخرقۃ والجلد وما أشبہہا … ثم الاستنجاء بالأحجار إنما یجوز إذا اقتصرت النجاسۃ علی موضع الحدث فأما إذا تعدت موضعہا بأن جاوزت الشرج اجمعوا علی أن ما جاوز موضع الشرج من النجاسۃ إذا کانت أکثر من قدر الدرہم یفترض غسلہا بالماء‘‘(۱)
’’کان عمر رضي اللّٰہ عنہ إذا بال قال: ناولني شیئا أستنجی بہ قال: فأناولہ العود والحجر أو یأتي حائطا یتمسح بہ أو یمسہ الأرض ولم یکن یغسلہ۔ وہذا أصح‘‘(۲)
’’(ویجب) أي یفرض غسلہ (إن جاوز المخرج نجس)‘‘ (۳)
نیز جاذب کاغذ اور سگریٹ کی ڈبی وغیرہ سے استنجا کرنے کے سلسلے میں ایک ضابطہ یاد رکھیں کہ: استنجا کرنا ہر ایسی چیز سے درست ہے جس میں نجاست کو دور کرنے کی صلاحیت ہو اور وہ قابل احترام بھی نہ ہو، پھر عام طور پر نجاست کو دور کرنے کے لئے دو طریقے اپنائے جاتے ہیں یا استعمال کئے جاتے ہیں، پہلا: یہ کہ نجاست کو بہا دے اور دوسرا نجاست کو جذب کرلے اگر مارکیٹ میں موجود جاذب کاغذ اور سگریٹ کی ڈبی میں نجاست کو جذب کرنے کی صلاحیت ہے، تو شریعت مطہرہ نے ان سے اور ان جیسی چیزوں سے استنجا کرنے کی اجازت دی ہے اور استعمال کرنے کو جائز لکھا ہے، جیسا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’وإذا کانت العلۃ في الأبیض کونہ آلۃ الکتابۃ کما ذکرناہ یؤخذ منہا عدم الکراہۃ فیما لا یصلح لہا إذا کان قالعا للنجاسۃ غیر متقوم‘‘(۴)
’یجوز في الاستنجاء استعمال الحجر (وما قام مقامہ) أي ویجوز أیضاً بما قام مقام الحجر کالمدر والتراب والعود والخرقۃ والقطن والجلد ونحو ذلک‘‘(۱)
’’فعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا ، قالت: قدم سراقۃ بن مالک علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسألہ عن التغوط، فأمرہ أن یستعلی الریح وأن یتنکب القبلۃ، ولا یستقبلہا ولا یستدبرہا، وأن یستنجی بثلاثۃ أحجار ولیس فیہا رجیع، أو ثلاثۃ أعواد، أو ثلاث حثیات من تراب‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ماورد في الاستنجاء بالتراب‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۵۴۰۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔
(۴) نجم الحسن أمروہوي، نجم الفتاوی: ج ۲، ص:۱۴۹، ۱۵۰۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵۔
(۲) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: ما یجوز بہ الاستنجاء بہ ومالا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۷۴۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص115
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان مذکورہ صورتوں میں آنکھوں میں پانی نکل آئے یا بغیر درد اور تکلیف کے کسی طرح سے آنکھوں سے پانی نکل آئے، تو ان صورتوں میں وضو نہیں ٹوٹتا؛ بلکہ وضو باقی رہتا ہے، البتہ آنکھ دکھنی آئی ہو یا کوئی درد یا تکلیف ہو، جس کی وجہ سے چکنا پانی یا پیپ نکلے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے:
’’کما لا ینقض لو خرج من أذنہ ونحوہا کعینہ وثدیہ قیح ونحوہ کصدید وماء سرۃ وعین لا بوجع، و إن خرج بہ أي بوجع نقض؛ لأنہ دلیل الجرح فدمع من بعینہ رمد أو عمش ناقض الخ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذھبہ،‘‘ ج۱، ص:۲۷۹)، و في المنیۃ عن محمدؒ إذا کان في عینہ رمد و تسیل الدموع منھا آمرہ بالوضوء لوقت کل صلوۃ؛ لأني أخاف أن یکون ما یسیل منھا صدیدا فیکون صاحب عذر الخ۔ (أحمد بن محمد الطحاوي، حاشیۃ الطحاوي علی مراقی الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل نواقض الوضوء،‘‘ ص:۸۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص227
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل میں کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا اور پورے بدن پر پانی بہانا فرض ہے، وضو کے فرائض اس میں خود بخود ادا ہو جاتے ہیں اور غسل سے پہلے وضو کرنا مسنون ہے، فرض نہیں ہے۔ لہٰذا اس غسل سے نماز اور تلاوت وغیرہ کرنا درست ہے۔(۱)
(۱)عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا أن النبي ﷺ کان لا یتوضأ بعد الغسل (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ، باب في الوضو بعد الغسل‘‘ ج۱، ص:۳۰) ؛ و یقول القاضي و في العارضۃ: لم یختلف أحد من العلماء في أن الوضوء داخل في الغسل۔ (محمد یوسف بن محمد، معارف السنن، ’’باب ما جاء إذا التقی الختانان وجب الغسل‘‘ ج ۱، ص:۳۶۸مکتبۃ اشرفیہ، دیوبند) أخرج الطبراني في الأوسط: عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من توضأ بعد الغسل فلیس منا: والظاھر أن عدم استحبابہ لو بقی فتوضأ إلی فراغ الغسل۔ فلو أحدث قبلہ ینبغي إعادتہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: سنن الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۹۴ )
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص299
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: جس طرح بڑے آدمی کا پیشاب ناپاک ہے، اسی طرح چھوٹے بچے کا پیشاب بھی ناپاک ہے، خواہ وہ بچہ دودھ ہی کیوں نہ پیتا ہو؛ کپڑے یا برتن وغیرہ پر لگ جائے، تو اس کو پاک کرنا ضروری ہے ،اس میں لاپر واہی نہ کی جائے۔(۱)
(۱)عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت: أتی رسول اللّٰہ ﷺ بصبي یرضع، فبال في حجرہ، فدعا بماء، فصبہ علیہ و في روایۃ فدعا بماء فرشہ علیہ۔(أخرجہ مسلم، في صحیحہ، باب حکم بول الطفل الرضیع و کیفیۃ غسلہ، ج۱، ص:۱۳۹)؛ ولو من صغیر لم یطعم، أي لم یأکل فلا بد من غسلہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في طھارۃ بولہ صلی اللہ علیہ وسلم، ج۱، ص:۵۲۳)، وکذلک بول الصغیر والصغیرۃ أکلا أولا۔ (وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ۔ الکویت، الموسوعۃ الفقھیہ، ما یعتبر نجساً وما لا یعتبر، ج۴۰، ص:۷۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص409
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:آج کل عام طور پر بڑے شہروں میں نیوز پیپر وغیرہ کا استنجا کے لیے استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ ان چیزوں کو استنجا کے لیے استعمال کرنا نہایت ہی تکلیف دہ عمل ہے۔ صاحب البحر الرائق نے لکھا ہے: لکھے ہوئے کاغذ سے استنجا کرنا مکروہ ہے۔
’’والورق قیل: إنہ ورق الکتابۃ وقیل إنہ ورق الشجر وأي ذلک کان فإنہ مکروہ‘‘(۱)
اس لیے کہ کاغذ ایک گراں قدر چیز ہے جو علوم وفنون کی امین اور خود اسلام اور اس کی تعلیمات کے لئے بلند پایہ محافظ ہے، اس کی اس عظمت اور اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایسے معمولی اور کمتر کاموں کے لیے اس کا استعمال نہ ہو اور اس کو نجاستوں میں ملوث ہونے سے بچایا جائے؛ البتہ مجبوری کی حالت اس سے مستثنیٰ ہے۔ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کراہت کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’لصقالتہ وتقومہ ولہ احترام أیضا لکونہ آلۃ لکتابۃ العلم‘‘(۲)
اس لیے کہ وہ چکنا ہوتا ہے (جس سے نجاست کے پھیل جانے کا اندیشہ ہے) اور قیمتی ہوتا ہے، نیز آلۂ علم ہونے کی وجہ سے قابلِ احترام بھی ہے۔
اس کی تائید ان فقہاء کے اقوال سے بھی ہوتی ہے جو مطلق کاغذ کے اس مقصد کے لئے استعمال کو مکروہ نہیں کہتے، بلکہ ایسے کاغذ کے استعمال سے منع کرتے ہیں جس میں حدیث وفقہ سے متعلق کچھ لکھا ہوا ہو، مشہور فقیہ ابن قدامہ نے اپنی کتاب المغنی میں لکھا ہے:
’’ولا یجوز الاستنجاء بمالہ حرمۃ کشيء کتب فیہ فقہ أو حدیث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘(۳)
قابل احترام چیزیں مثلاً ایسی چیز کہ جس میں فقہ اور حدیث کی عبارتیں درج ہوں، ان سے استنجا کرنا جائز نہیں۔
علامہ ابن عابدین لکھتے ہیں:
’’لا یجوز بما کتب علیہ شيء من العلم کالحدیث والفقہ‘‘ (۴)
البتہ ایسے کاغذ جو خاص استنجا کے مقصد کے لیے ہی تیار کئے جاتے ہیں اور وہ کاغذ اس قابل نہیں ہوتے ہیں کہ ان پر کچھ لکھا جائے، تو ان جیسے کاغذوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)
(۳) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما ورد في الاستنجاء بالتراب‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۵۳۹۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔
(۳) ابن قدامۃ، المغني، ’’فصل استجمر بحجر ثم غسلہ أو کسر‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۷۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۴) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۳۔
(۱)خالد سیف اللہ رحمانی، جدیدفقہی مسائل: ج ۱، ص: ۸۵۔(کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص117
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز کی حالت میںگرمی کے دانے کو کھجلایا اس سے اگر پانی نکل کر بہہ جائے، تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور نمازبھی فاسد ہو جائے گی دوبارہ وضو کرنا لازم ہوگا۔ کما قال ابن نجیم في البحر: و أما الخارج من غیر السبیلین فناقض بشرط أن یصل إلی موضع یلحقہ حکم التطہیر- کذا قالوا و مرادہم أن یتجاوز إلی موضع تجب طہارتہ۔(۲)و إن قشرت نفطۃ و سال منہا ماء أو صدید أو غیرہ۔ إن سال عن رأس الجرح نقض۔ و إن لم یسل لا ینقض۔ (۳)
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۳۳
(۳)جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ،’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس في نواقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۶۱
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص228
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب کپڑے سے نجاست کو دھو دیا، تو کپڑا پاک ہو گیا اور بدن سے بھی نجاست کو دھو دیا، تو بدن کی جگہ بھی پاک ہوگئی۔ اب اگر وہی کپڑا پہن کر غسل شرعی طریقہ پر پورا کر لیا، تو اس کا غسل ہو گیا، اور پاکی بھی حاصل ہو گئی۔(۱)
(۱) امداد الاحکام میں ہے: احتلام ہونے پر تمام کپڑے ناپاک نہیں ہوتے؛ بلکہ جس کپڑے پر جتنی دور تک منی کا اثرمعلوم ہو وہ کپڑا اسی قدر ناپاک ہوتا ہے، باقی سب پاک ہیں۔ (امداد الاحکام) ’’فصل في النجاسۃ و أحکام التطھیر‘‘ ج۱، ص:۳۹۲) ؛ وأن عائشۃ قالت: کنت أفرک المني من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ فیصلی فیہ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، کتاب الطہارۃ، باب المنی یصیب الثوب، ج۱، ص:۵۳،رقم:۳۷۲، مکتبۃ نعیمیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص300
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق :کتا نجس ہے، اگر اس کے اوپر کوئی ظاہری نجاست نہ لگی ہو تو وہ اوپر سے پاک ہے، اس لیے اگر کپڑے اس سے لگ جائیں تو پاک ہی رہیں گے ناپاک نہیں ہوں گے۔(۲)
(۲)وقع الکلب في بئر تنجس أصاب فمہ الماء أو لم یصب، ولو ابتل فانتفض فأصاب ثوبا أکثر من الدرھم أفسدہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر،کتاب الطہارات، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء و مالا یجوز، ج۱، ص:۹۸)؛ و أما شعر الحیوان غیر مأکول اللحم المتصل بہ فاتفق الفقھاء علی طھارتہ واستثنیٰ الحنفیۃ الخنزیر۔ (وزارۃ الأوقاف- الکویت، الموسوعۃ الفقہیہ، حکم شعر الحیوان الحي،ج،۲۶، ص:۱۱۱)؛ وإذا نام الکلب علی حصیر المسجد، إن کان یابسا لا یتنجس، و إن کان رطبا ولم یظھر أثر النجاسۃ فکذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ،کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، ج۱، ص:۱۰۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص410