طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: ایسی صورت میں مسئلہ تویہی ہے کہ کنویں کا کل پانی نکال دیا جائے؛ لیکن اگر کنواں بڑا ہو کہ جس کی وجہ سے تمام پانی کا نکالنا دشوار ہو، تو پھر اس میں سے دو سو سے تین سو کے درمیان ڈول نکال دیئے جائیں،تو کنواں پاک ہو جاتا ہے، تو صورت مسئولہ عنہا میں اگر مذکورہ کنویں کا سوت بھی بڑا ہے اور تین سو ڈول بھی نکال دیے، تو کنواں پاک ہو گیا، شبہ نہ کیا جائے۔(۱)

(۱)و إن تعذّر نزح کلھا لکونھا معینا فبقدر ما فیھا وقت إبتداء النزح، قالہ الحلبي یؤخذ ذلک بقول رجلین عدلین لھما بصارۃ بالماء بہ یفتی، و قیل یفتی بمائۃ إلی ثلاث مائۃ، و ھذا أیسر۔، قولہ (وقیل الخ) جزم بہ في الکنز والملتقی وھو مروي عن محمد، و علیہ الفتویٰ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، ج ۱، ص:۳۷۰؍۳۷۱)؛ و ثم في کل موضع وجب نزح جمیع الماء، ینزح حتی یغلبھم الماء، وفي الینابیع : ھو الصحیح، وفي الفتاوی العتابیۃ : و عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ إذا نزح مائتان أو ثلاث مائۃ، فقد غلبھم الماء، وھو المختار۔ (الفتاویٰ التاتارخانیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع، في المیاہ التي یجوز الوضوء بھا، ج۱، ص:۳۲۶)، و إذا وجب نزح جمیع الماء، ولم یکن فراغھا لکونھا معیناً، یُنزح مائتا دلو، ھکذا في التبیین، و ھذا أیسر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، النوع الثالث: ماء الآبار، ج۱، ص:۷۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص470

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر ڈکار میں منہ بھر کر قے ہوجائے، تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
اگر منہ بھر کر نہ ہو، تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ منہ بھر کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کو منہ میں روکنا چاہے، تو روکنا مشکل ہو۔ ’’و ینقضہ (الوضوء) قئ ملأ فاہ بأن یضبط بتکلف من مرۃ أي صفراء أو علق أي سوداء؛ و أما العلق النازل من الرأس فغیر ناقض أو طعام أو ماء إذا أوصل إلی معدتہ و إن لم یستقر، وھو نجس مغلظ لو من صبي ساعۃ ارتضاعہ ھو الصحیح لمخالطۃ النجاسۃ، ذکرہ الحلبي۔ (۱) قال الحسن اذا تناول طعاماً أو ماء ثم قاء من ساعتہ لا ینتقض وضوء ہ لأنہ طاھر حیث لم یستحل والذي اتصل بہ قلیل شيء فلا یکون نجسا۔(۲)

(۱) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: نواقض الوضوء،‘‘ ج۱،ص:۲۶۵-۲۶۶
(۲)طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’فصل نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۸۸

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص239

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1526/43-1030

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بہتر ہے کہ کوئی اور دوا لے لی جائے، تاہم اگر چھپکلی کو مار کر اس سے علاج کیا تو اس کی گنجائش ہے البتہ اس کا خیال رکھے کہ زندہ اس کو تیل میں نہ ڈالے۔ چھپکلی کا تیل لگانے سے متاثرہ جگہ ناپاک نہیں ہوگی، اس لئے اس کو دھونے کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر موضع طہارت میں ہو تو اس کو صابن سے صاف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قتل وزغةً في أول ضربة فله كذا وكذا حسنة، ومن قتلها في الضربة الثانية فله كذا وكذا حسنة، لدون الأولى، وإن قتلها في الضربة الثالثة فله كذا وكذا حسنة، لدون الثانية»". (صحیح مسلم 4/ 1758، باب استحباب قتل الوزغ،  برقم: 2240، ط: داراحیاء التراث العربی)

"من قتل عصفوراً فما فوقه بغير حقه سأله الله عز وجل عن قتله، قيل: يا رسول الله وما حقه؟ قال: أن يذبحه فيأكله ولايقطع رأسه فيرمى به". أقول: ههنا شيآن متشابهان لابد من التمييز بينهما: أحدهما الذبح للحاجة واتباع داعية إقامة مصلحة نوع الإنسان. والثاني السعي في الأرض بفساد نوع الحيوان واتباع داعية قسوة القلب". (حجة الله البالغة 2/284)

ثم هذه المسألة قد فرعوها على قول محمد بالطهارة بانقلاب العين الذي عليه الفتوى واختاره أكثر المشايخ خلافا لأبي يوسف كما في شرح المنية والفتح وغيرهما. وعبارة المجتبى: جعل الدهن النجس في صابون يفتى بطهارته؛ لأنه تغير والتغير يطهر عند محمد ويفتى به للبلوى. اهـ. وظاهره أن دهن الميتة كذلك لتعبيره بالنجس دون المتنجس إلا أن يقال هو خاص بالنجس؛ لأن العادة في الصابون وضع الزيت دون بقية الأدهان تأمل، ثم رأيت في شرح المنية ما يؤيد الأول حيث قال: وعليه يتفرع ما لو وقع إنسان أو كلب في قدر الصابون فصار صابونا يكون طاهرا لتبدل الحقيقة. اهـ. ثم اعلم أن العلة عند محمد هي التغير وانقلاب الحقيقة وأنه يفتى به للبلوى كما علم مما مر، ومقتضاه عدم اختصاص ذلك الحكم بالصابون، فيدخل فيه كل ما كان فيه تغير وانقلاب حقيقة وكان فيه بلوى عامة (شامی، باب الانجاس 1/315) وأما الطهارة لو غسل يده من دهن نجس مع بقاء أثره فإنما علله في التجنيس بأن الدهن يطهر، قال: فبقي على يده طاهرا، كما روي عن أبي يوسف في الدهن ينجس يجعل في إناء ثم يصب عليه الماء فيعلو الدهن فيرفع بشيء هكذا يفعل ثلاثا فيطهر انتهى. (فتح القدیر ، باب الانجاس وتطھیرھا 1/209)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں جس مقام سے ہوا خارج ہوئی اس مقام کا دھونا نہ فرض ہے، نہ واجب اور نہ ہی سنت؛ اس لیے اس سے نہ تو مقام ناپاک ہوتا ہے اور نہ ہی کپڑا؛ بلکہ وضو کرنا کافی ہے۔(۱)

(۱) (فلا یسن من ریح) ولأن بخروج الریح لا یکون علی السبیل شيء فلا یسن منہ؛ بل ھو بدعۃ کما في المجتبیٰ: (ابن عابدین، رد المختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، فصل في الاستنجاء، ج۱، ص:۵۴۵)
إن الاستنجاء لا یسن إلا من حدث خارج من أحد السبیلین غیر الریح، لأن بخروج الریح لایکون علی السبیل شيء، فلا یسن منہ بل ھو بدعۃ؛ کما في المجتبیٰ۔ (۱بن نجیم، البحرالرائق، کتاب الطہارۃ،باب الأنجاس، ج۱، ص:۴۱۶)
الاستنجاء من کل حدث أي خارج من أحد السبیلین غیر النوم والریح ۔ (عبد اللّٰہ ابن مسعود، شرح وقایہ، کتاب الطہارۃ، فصل الاستنجاء من کل حدث، ج۱، ص:۲۵-۱۲۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص423

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: اگر ایسے کیڑے دو چار (یعنی کم) ہوں، تو نجاست قلیلہ ہے؛ اس لیے بالٹی کا پانی وکپڑے وغیرہ ناپاک نہیں ہوں گے اور اگر اس سے زیادہ ہوں، تو ناپاک ہو جائیں گے(۱) اسی طرح اگر زمین پر اتنے کیڑے ہوں کہ گندگی نظر آنے لگے اور پیروں پر لگ جائے، تو پیر ناپاک ہوں گے، ورنہ نہیں(۲) اگر خشک زمین پر خشک کیڑے گزر جائیں، تو زمین پاک ہے(۳) اور اگر کیڑے تر ہوں اور زمین پر ان کا اثر آجائے، تو اس وقت زمین ناپاک ہوجائے گی زمین کے خشک ہونے اور نجاست کے زائل ہونے کے بعد زمین پاک ہو جائے گی؛ بشرطیکہ نجاست زائد نہ ہو۔ گھر کی نالیوں میں پانی ڈال کر ان کو صاف رکھنا چاہیے اس قدر گندگی کہ کیڑے پیدا ہو جائیں، نظافت ونفاست کے خلاف بھی ہے اور مضر بھی۔(۱)

(۱)و قدر الدرھم قولہ معہ أي مع قدر الدرھم ومادونہ، و إن زاد لم تجز یعنی: و إن زاد النجس المغلظ علی قدر الدرھم لم تجز صلاتہ۔ (العینی، البنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب الطہارات، فصل في النفاس، باب الأنجاس و تطہیرھا ما یعنی عنہ من النجاسات، ج۱، ص:۷۲۴)؛ و نام أو مشیٰ علی نجاسۃ إن ظھر عینھا تنجس و إلا لا، ولو وقعت في نھر فأصاب ثوبہ إن ظھرھا أثرھا فنجس و إلا لا۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء، ج۱،ص:۵۶۰)؛ والفرق أن الدودۃ الخارجۃ من السبیل نجسۃ في نفسھا لتولدھا من الأنجاس لأنھا (الدودۃ) تتولد من اللحم واللحم طاھر، و إنما النجس ما علیھا من الرطوبات، و تلک الرطوبات خرجت بالدابۃ… لا بنفسھا فلم یوجد خروج الجنس فلا یکون حدثا (الکاسانی، بدائع الصنائع،فصل بیان ما ینقض الوضو، ج۱، ص:۱۲۵)؛و إن أصابت الأرض النجاسۃ فجفت بالشمس و ذھب أثرھا ش: قید الجفاف بالشمس وقع اتفاقاً لأن الغالب جفاف الأرض بالشمس ولیس باحتراز علی الجفاف بأمر آخر: لأن الأرض إذا جفت بالنار أو بالریح جازت الصلوٰۃ علی مکانھا۔ (العینی، البنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب الطھارۃ، باب الأنجاس و تطھیرھا، ج۱، ص:۷۱۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص471

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب و باللّٰہ التوفیق : مذکورہ چیزوں سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ چوںکہ یہ چیزیں بدبودار اور مکروہ ہیں اور احادیث سے ثابت ہے کہ بدبودار چیزوں کے استعمال کے بعد اللہ کا ذکر نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پاک علیہ السلام نے غزوہ خیبر میں فرمایا، جو اس درخت، یعنی :لہسن سے کھائے، وہ مسجد میں نہ آئے اور نہ ہمارے ساتھ نماز پڑھے۔(۳)

(۳) عن ابن عمر رضی اللہ عنہما أن رسول اللّٰہ ﷺ قال في غزوۃ خیبر: من أکل من ھذہ الشجرۃ: یعني الثوم، فلا یأتین المساجد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب نھي من أکل ثوما،‘‘ ج۱،ص:۲۰۹)؛ و  عن عبدالعزیز وھو ابن صہیب، قال سئل أنس رضي اللہ عنہ عن الثوم، فقال: قال رسول اللہ ﷺ: من أکل من ھذہ الشجرۃ فلا یقربنا ولا یصلي معنا۔  (ایضاً):
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص240

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے نزدیک منی ناپاک ہے۔ امام شافعیؒ اور بعض ائمہ کے نزدیک منی کا حکم مختلف (الگ) ہے۔ یہ علمی اختلاف ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی مجتہد یا عالم کی قدر و منزلت کم نہیں ہونی چاہیے۔ تفصیل درج ذیل ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور حنابلہ کے نزدیک منی پاک ہے، ان کے دلائل یہ ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے: ’’لقد رأیتني أفرکہ من ثوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرکاً فیصلی فیہ‘‘ (۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو کھرچ دیتی تھیں۔
 کپڑے پر اگر نجاست لگی ہو، تو اس کو دھویا جاتا ہے اور اگر نجاست کے علاوہ کوئی دوسری چیز کپڑے پر لگ جائے، تو نظافت کے طور پر اسے کپڑے سے ہٹا دیا جاتا ہے؛ اس سے معلوم ہوا کہ منی پاک ہے، اگر ناپاک ہوتی، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے کھرچنے پر خاموش نہ رہتے؛ بلکہ دھونے کا حکم فرماتے۔
دوسری دلیل: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے: ’’سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المني یصیب الثوب فقال: إنما ہو بمنزلۃ البصاق أو المخاط إنما کان یکفیک أن تمسحہ بخرقۃ أو إذخر‘‘ (۲)رسول اللہ علیہ وسلم سے کپڑے پر لگی منی کے بارے میں معلوم کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: وہ منہ کے لعاب یا ناک کی ریزش کے درجے میں ہے، یہ کافی ہے کہ اسے کسی کپڑے یا اذخر گھاس سے پونچھ دیں۔
اس حدیث میں منی کو لعاب وغیرہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور صرف صاف کر دینے کے بارے میں فرمایا گیا ہے؛ اس لحاظ سے منی پاک ہے اور صاف کرنا صرف نظافت کے طور پر ہے کہ اس کا کپڑے پر لگے رہنا اچھا نہیں لگتا۔
شوافع کی تیسری دلیل: جس طرح انسان مٹی اور پانی سے بنا ہے، اسی طرح منی سے بھی اس  کی تخلیق ہوئی ہے؛ تو جس طرح مٹی وپانی پاک ہیں، اسی طرح منی بھی پاک ہے ’’ولأنہ مبدأ  خلق الإنسان فکان طاہراً کالطین‘‘ (۱)
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’دلیل القائلین بالطہارۃ روایۃ الفرک فلو کان نجسا لم یکف فرکہ کالدم وغیرہ قالوا وروایۃ الغسل محمولۃ علی الإستحباب والتنزہ و إختیار النظافۃ واللہ أعلم۔ ھذا حکم مني الآدمي۔‘‘ (۲)
احناف ومالکیہ منی کے ناپاک ہونے کے قائل ہیں ان کے بھی مستدلات ہیں:
 پہلی دلیل مسلم شریف کی روایت ہے: ’’قال إبن بشر: إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یغسل المني و أما ابن المبارک و عبد الواحد  ففي حدیثھما قالت کنت أغسلہ من ثوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (۳)
اس روایت میں ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کپڑے پر لگی ہوئی منی کو دھودیا کرتے تھے ، جو کوئی ناپاک چیز کپڑے پر لگ جائے، تو اس کا دھونا ضروری ہے۔
دوسری دلیل: یہ ہے کہ سبیلین سے جو چیز نکلے وہ ناپاک ہوتی ہے: و ینقضہ خروج کل خارج نجس منہ أي من المتوضي الحي معتادا أو لا، من السبیلین أولا(۴) اور منی بھی اسی قسم کی چیز ہے ؛لہٰذا دیگر نجاستوں کی طرح اسے بھی ناپاک ہی قرار دیا جائے گا۔
تیسری دلیل: یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ: اگر کپڑے کے کسی حصے پر منی نظر آئے، تو اس حصے کو دھو دیا جائے اور اگر نظر نہ آئے، تو پورا کپڑا دھویا جائے۔ نیز تابعین میں سے حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: منی پیشاب کی طرح ہے۔
 ’’واستدلوا بآثار عن بعض الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم، منھا ما روي عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ في المني یصیب الثوب ’’إن رأیتہ فاغسلہ وإلا فاغسل الثوب کلہ‘‘ ومن التابعین ما روي عن الحسن: أن المني بمنزلۃ البول‘‘ (۵)

حضراتِ شوافع کے دلائل کا جواب:
حضرات شوافع کی پہلی دلیل: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایتِ فرک غسل والی روایات سے پہلے کی ہے، اس کے بعد غسل کا حکم آ گیا، یا پھر یہ کہا جائے کہ اگر منی گاڑھی اور خشک ہو اور رگڑنے وپونچھنے سے نجاست کا اثر زائل ہو جائے، تو واقعۃً کپڑا پاک ہو جائے گا اور امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اس کے قائل ہیں ’’قال التمرتاشی: والصحیح أنہ یطہر بالفرک لأنہ من أجزاء المني وقال الفضلي مني المرأۃ لا یطہر بالفرک لأنہ رقیق‘‘۔(۱)
دوسری دلیل: ابن عباس رضی اللہ عنہما والی روایت ہے، جس میں منی کو بصاق ومخاط کے مانند قرار دیا گیا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت مرفوع ہے یاموقوف ہے۔ یہ مختلف فیہ ہے، اس لیے اس سے استدلال قوی نہیں ہے؛ لیکن لائق استدلال تسلیم کرنے کے بعد بھی ضابطہ یہ ہے: محرم ومبیح جمع ہوں ؛تو محرم کو ترجیح دی جاتی ہے؛ اس لحاظ سے بھی غسل والی روایت اس روایت پر راجح ہے۔ نیز یہ کہ بصاق ومخاط کے ساتھ تشبیہ ضروری نہیں کہ پاک ہونے میں ہی ہو۔ یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ لزوجت ولیس پن، کپڑے کے اندر ذرات باقی نہ رہنے میں اور فرک سے پاک کیے جانے میں منی مخاط کے مانند ہے، ’’لأن قولہ کالمخاط لا یقتضي أن یکون طاہراً لجواز أن یکون التشبیہ في اللزوجۃ وقلۃ التداخل وطہارتہ بالفرک‘‘ ۔(۲)
شوافع کی تیسری دلیل: یہ ہے کہ منی سے انسانی تخلیق ہوتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق ہونے سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ چیز پاک بھی ہو اور اس کا ناپاک ہونا تکریم انسانی کے خلاف ہو؛ چنانچہ قرآن کریم میں وضاحت ہے کہ انسان کی تخلیق میں متعدد مراحل آتے ہیں:کبھی وہ مضغہ اور کبھی علقہ ہوتا ہے اور علقہ خود ناپاک ہے۔ نیز منی خون سے بنتی ہے اور خون ناپاک ہے  لہٰذا منی کا ناپاک ہونا تکریم انسانی کے منافی نہیں ہے، ’’لأنہ مبدأ خلق الإنسان وہو مکرم فلایکون أصلہ نجساً وہذا ممنوع فإن تکریمہ یحصل بعد تطویرہ الأطوار المعلومۃ  من المائیۃ والمضغۃ والعلقیۃ ألا یری أن العلقۃ نجسۃ وأن نفس المني أصلہ دم فیصدق أن أصل الإنسان دم وہو نجس والحدیث بعد تسلیم حجیتہ رفعہ معارض بماقد منا ویترجح ذلک بأن المحرم مقدم علی المبیح‘‘ ۔(۱)
حاصل بحث یہ ہے کہ شوافع کے نزدیک منی پاک ہے اور ان کے اپنے دلائل ہیں۔ احناف کے نزدیک منی ناپاک ہے اور ان کے دلائل اقویٰ ہیں احناف نے تمام روایات پر عمل کی صورت اور تطبیق کی راہ اختیار کی ہے، غسل والی روایات کو عموم احوال پرمحمول کیا ہے اور فرک والی روایت کو اس صورت پر محمول کیا ہے، جب منی خشک ہو اور کھرچنے سے اس کے ذرات کپڑے سے نکل جاتے ہوں۔
مزید دلائل کے لیے کتب فقہ واحادیث کا تفصیلی مطالعہ مفید ہوگا۔
(۱)  أخرجہ مسلم، في صحیحہ،باب حکم المني ج۱، ص:۱۴۰، رقم:۳۵۱
(۲)  أخرجہ البیہقي، في سننہ، باب المني یصیب الثوب، ج۲، ص:۵۸۶، رقم: ۴۱۷۶
(۱ )وزارۃ الأوقاف الکویت، الموسوعۃ الفقہیہ، طہارۃ المني و نجاستہ، ج۳۹،ص:۱۴۲
(۲)الامام النووي، شرح النووی علی المسلم، باب حکم المني،ج۱، ص:۱۴۰
(۳)أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ج۱،ص:۱۴۰

(۱)ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، باب الأنجاس و تطہیرھا،ج۱،ص:۲۰۰
(۲)ایضاً، ص:۱۹۹

(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، باب الأنجاس و تطہیرھا، ج۱، ص:۲۰۰
(۲)ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، باب الأنجاس و تطہیرہا، ج۱، ص:۲۰۲

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص424

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: اگر زیادہ گرے، تو وضوء و غسل وغیرہ درست نہیں اور اگر بہت کم ہو، تو درست ہے؛ لیکن نظافت کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے پانی سے وضوء وغیرہ نہ کرے۔(۱)

(۱)خرء الفارۃ لا یفسد الدھن، والماء، والحنطۃ للضرورۃ مالم یظھر أثرہ و عزاہ في البحر إلی الظھیریۃ۔ (احمد بن محمد الطحطاوی، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، باب الأنجاس والطھارۃ عنھا، ج۱، ص۱۵۴)؛ و خبز وجد في خلالہ خرء فارۃ فإن کان الخرء صلبا رمی بہ و أکل الخبز ولا یفسد خرأ الفارۃ الدھن والماء والحنطۃ للضرورۃ إلا إذا ظھر طعمہ أو لونہ۔  (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الخنثیٰ، مسائل شتی، ج۱۰، ص:۴۵۴)؛  و قال محمد بن مقاتل الرازي: لا یفسد الدھن ولا الحنطۃ مالم یتغیر طعمہ۔ وفي المرغیناني۔ یرمي خرء الفارۃ من الخبز و یؤکل إذا کان صلبا۔ ولو وقع في الدھن أو الماء لا یفسدہ، و کذا في الحنطۃ إذا کان قلیلا۔ (العینی، البنایۃ شرح ہدایۃ، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس و تطھیرھا، ج۱، ص:۷۴۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص472

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:انجکشن سے اگر اتنی مقدار میں خون نکالا جائے، جو بدن پر نکلنے کی صورت میں بہہ پڑتا ہے، تو وضو ٹوٹ جاتا ہے، جن لوگوں نے ٹیسٹ کے لیے خون دے کر وضو نہیں کیا اور نماز پڑھ لی، وہ اپنی نمازوں کا اعادہ کریں۔
القراد إذا مص عضو انسان فامتلأ دما(۱)(و ینقضہ) خروج منہ کل خارج (نجس) بالفتح و یکسر (منہ) أي من المتوضئ الحي معتاداً أو لا، من السبیلین أو لا، (إلی ما یطھر) بالبناء للمفعول۔ أي یلحقہ حکم التطھیر۔ ثم المراد بالخروج من السبیلین مجرد الظھور و في غیرھا عین السیلان ولو بالقوۃ، لما قالوا: لو مسح الدم کلما خرج، ولو ترکہ لسال نقض، و إلا لا‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء، و منھا ما یخرج من غیر السبیلین،‘‘ ج۱، ص:۶۳،  رد المحتار ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: نواقض الوضوء،‘‘ ج ۱، ص:۲۶۸
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء،‘‘ ج ۱،ص:۲۶۰-۲۶۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص241

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اس مجبوری کی صورت میں گوبر ملایا جا سکتا ہے: إذا نزح الماء النجس من البئر یکرہ أن یبل بہ الطین و یطین بہ المسجد أو أرضہ۔۔۔ لنجاسۃ۔۔۔ بخلاف السرقین؛ إذا جعلہ في الطین لأن فیہ ضرورۃ إلی إسقاط اعتبارہ إذ ذلک النوع لا یتھیأ إلا بذلک۔(۲)

(۲)ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، باب الأنجاس و تطہیرہا، ج۱، ص:۲۰۲

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص427