طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر سیٹ پر سرین اس طرح جمی ہوئی ہے کہ ریح کے خارج ہونے کا امکان نہیں ہے، تو وضو نہیں ٹوٹے گا؛ لیکن اگر سوتے ہوئے دائیں بائیں حرکت ہوئی اور سرین جمی نہیں رہی ،تو وضو ٹوٹ جائے گا گر چہ ریح کا نکلنا یاد نہ ہو۔ ولو نام مستندا إلی ما لو أزیل عنہ لسقط إن کانت مقعدتہ زائلہ عن الأرض نقض بالإجماع  و إن کانت غیرزائلۃ فالصحیح أنہ لا ینقض ھکذا في التبیین (۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء: الفصل الخامس في نواقض الوضوء منھا النوم،‘‘ ج۱، ص:۶۳)؛ و المروي عن أبي حنیفۃ أنہ لا ینقض وضوء ہ علی کل حال لأن مقعدہ مستقر علی الأرض فیأمن من خروج شيء (أکمل الدین البابرتي، العنایۃ علی ھامش فتح القدیر، کتاب الطہارۃ،ج۱، ص:۴۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص242

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2765/45-7307

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ اگر دستی نل سے پانی لگاتار بہہ رہا ہو یا موٹر کے ذریعہ بہہ رہا ہو تو یہ پانی ماء جاری کے حکم میں ہے، اس پانی میں جب تک نجاست کا اثر (رنگ، بو، مزہ) ظاہر نہ ہو یہ پانی پاک ہوگا، لیکن اگر پانی بہنے کی جگہ نجاست مرئیہ موجود ہے اور اس پر سے گزر رہا ہے تو اس کی چھینٹ سے بدن یا کپڑا ناپاک ہوگا۔

والعرف الآن أنه متي كان الماء داخلا من جانب وخارجا من جانب آخر يسمي جاريا وان قل الداخل‘‘ (الدر المختار: ج 1، ص: 187)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 38 / 1215

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اس طرح کے سرکاری امداد میں عموماکسی مفسدہ کا اندیشہ نہیں ہوتا ہے ، اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1795/43-1563

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مرغی کا بیٹ نجاست غلیظہ ہے۔ اگر انڈے پر نجاست تھی تو اس کو دھونے میں جو پانی استعمال ہوا وہ بھی نجاست غلیظہ ہوگیا اس لئے جہاں بھی وہ لگے گا ناپاک ہوگا۔ اور جو بھی پانی اس پر گرے گا اس کی ناپاکی کا حکم ہوگا۔ نجاست غلیظہ ماء قلیل کو فوری ناپاک کردیتاہے۔ اس لئے نجاست غلیظہ کی چھینٹیں ناپاک ہیں اور ناپاک کرنے والی ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند


 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر کتے نے گھی میں منہ ڈال دیا، تو اس کے پاک ہونے کی صورت یہ ہے کہ جہاں تک کتے کا لعاب پہونچنے کا غالب گمان ہو، تو وہاں تک اس گھی کو نکال دیں؛ اس طرح باقی ماندہ گھی پاک ہو جائے گا۔
اور اگر گھی پگھلا ہواتھا، تو اس گھی کے برابر اس میں پانی ڈال دیا جائے اور پانی ملا کر خوب حرکت دی جائے کہ پانی گھی میں خوب مل جائے، پھر اس کو چھوڑ دیا جائے؛ جب گھی اوپر اور پانی نیچے ہو جائے؛ تو اوپر سے گھی اتار لیا جائے اس طرح تین بار کرنے سے گھی پاک ہو جائے گا۔
بلی کا جھوٹا مکروہ تنزیہی ہے، اگر مجبوری ہو تو استعمال کیا جا سکتا ہے اور اگر اس بات کا یقین ہے کہ بلی نے چوہا کھایا ہے یا اس کے منھ میں نجاست لگی ہے ، پھر منھ ڈالا ہے، تواسے بھی مذکورہ طریقہ پر ہی پاک کیا جائے گا۔(۱)

(۱)الدھن النجس یغسل ثلاثا، بأن یلقی في الخابیۃ ثم یصب فیہ مثلہ ماء، و یحرک ثم یترک حتی یعلو الدھن، فیؤخذ أو یثقب أسفل الخابیۃ حتی یخرج الماء، ھکذا ثلاثا فیطھر کذا في الزاھدی (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع فيالنجاسۃ و أحکامہا، الفصل الأول في تطہیر الأنجاس، ج۱، ص:۹۷)؛ والدھن یصب علیہ الماء فیغلی فیعلو الدھن الماء فیرفع بشيء ھکذا ثلاث مرات (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطھارۃ، باب الأنجاس، مطلب في تطھیر الدھن والعسل، ج۱،ص۵۴۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص428

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کان سے جو گندہ پانی یعنی پیپ نکلتا ہے اور درد بھی رہتا ہے وہ ناقض وضو ہے، درد ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اندر زخم ہے اور یہ پانی زخم کا ہے، اگروضو کے بعد ان کو اتنا وقت ملتا ہے کہ با وضو نماز شروع کر یں اور بغیر پانی نکلے نماز ادا کرلیں، تو نماز درست ہو جائے گی اور اگر اتنا بھی وقت نہیں ملتا کہ وہ وضو کے بعد فرض نماز ادا کر سکے تو پھر اسے معذور قرار دیا جائے گا اور اس کا حکم معذور والا ہوگا کہ فتاویٰ شامی وغیرہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
’’وإذا خرج من أذنہ قیح أو صدید ینظر إن خرج بدون الوجع لا ینتقض وضوئہ وإن خرج مع الوجع ینتقض وضوئہ لأنہ إذا خرج مع الوجع فالظاہر أنہ خرج من الجرح‘‘(۱)
’’ولا طاہر بمعذور ہذا إن قارن الوضوء الحدث أو طرأ علیہ بعدہ وصح لو توضأ علی الانقطاع وصلی کذلک‘‘(۲)


(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الخامس: في نواقض الوضوء، ومنہا ما یخرج من غیر السبیلین‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص243

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2766/45-4308

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ اگر مذکورہ زمین کچی ہے جو پانی کو جذب کر لیتی ہے تو خشک ہو جانے کے بعد اگر نجاست کا اثر زائل ہو جائے تو زمین پاک شمار کی جائے گی، لیکن اگر زمین میں تری ہو جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو زمین ناپاک ہے۔

ومنہا الجفاف وزوال الأثر الأرض تطہر بالیس وذہاب الاثر للصلوۃ لا لتیمم، ہکذا في الکافی، ولافرق بین الجفاف بالشمس والنار والریح والظل‘‘ (الفتاوی الہندیۃ: ج ٢، ص: ١٣٠)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 40/

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بستر میں جو ناپاکی جذب ہوگئی ہے اس کو پاک کرنے کے لئے دھونا ہی لازم ہے ۔خشک ہونے سے پاکی حاصل نہیں ہوگی۔  اس پر نماز پڑھنے  کےلئے کوئی کپڑا بچھالیا جائے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:چمگادڑ کی بیٹ پاک ہے۔ کپڑے یا بدن پر لگی ہو،تو نماز درست ہے۔ شامی وغیرہ میں اس کی وضاحت ہے؛ لیکن نظافت کے طور پر دھو لینا چاہیے۔(۱)

(۱)بول الخفافیش و خرئھا لیس بنجس لتعذر صیانۃ الثوب والأواني عنھا؛ لأنھا تبول من الھواء وھي فارۃ طیارۃ فلھذا تبول۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ ﷺ،ج۱، ص:۵۲۳)؛ و بول الخفاش و خرؤہ لا یفسد لتعذر الإحتراز عنہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس و تطہیرہا، ج۱،ص:۲۰۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص429

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تمباکووالا پان نہ مسکر ہے اور نہ ہی مفتر ہے، لہٰذا اس کے استعمال سے وضو نہیں ٹوٹے گا اگر آپ پہلے سے باوضو ہیں تو بلا وضو تمباکو والا پان کھانے کے بعد نماز پڑھنا جائز ہے۔
’’ فإنہ لم یثبت اسکارہ ولا تفتیرہ ولا اضرارہ بل ثبت لہ منافع فہو داخل تحت الأصل في الأشیاء الإباحۃ وأن فرض إضرارہ للبعض لا یلزم منہ تحریمہ علی کل أحد‘‘(۱)
’’وینقضہ اغماء و منہ الغشي و جنون و سکر بأن یدخل فيمشیہ تمایل ولو یأکل الحشیشۃ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الأشربۃ‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۶۔

(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۴۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص244