Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:محض شراب پینے سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک کہ نشہ نہ ہو ہاں اگر شراب پینے کی وجہ سے نشہ پیدا ہو جائے اور اس کی چال اور زبان اپنی حالت پر بر قرار نہ رہے تو وضو ٹوٹ جائے گا، جیسا کہ علامہ شامی نے لکھا ہے:
’’وینقضہ إغماء ومنہ الغشي وجنون وسکر قولہ وسکر ہو حالۃ تعرض للإنسان من امتلاء دماغہ من الأبخرۃ المتصاعدۃ من الخمر ونحوہ‘‘(۱)
البتہ شراب پینے سے منہ ناپاک ہو جاتا ہے، شراب نجس ہے اور اس کا پینا حرام ہے اور شراب پینے والے پر حدیث شریف میں لعنت آئی ہے اور اس کے علاوہ بھی مختلف وعیدیں مذکور ہیں؛ اس لئے شراب سے بہر صورت دور رہنا لازم ہے۔
’’وحرم قلیلہا وکثیرہا بالإجماع وہي نجسۃ نجاسۃ مغلظۃ کالبول‘‘(۲)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الخمر عشرۃ عاصرہا ومعتصرہا وشاربہا الخ‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۴۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ کتاب الأشربہ‘‘: ج ۶، ص: ۴۴۹۔
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب البیوع، باب ما جاء في بیع الخمر والنہي عن ذلک‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۲، رقم: ۱۲۹۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص245
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنابت، حیض ونفاس نجاست حکمی ہیں، جس کی وجہ سے جنبی، حائضہ وغیرہ کا ظاہری جسم ناپاک نہیں ہوتا اور نہ ہی جسم سے نکلنے والا پسینہ اور اس کا جھوٹا ناپاک ہوتا ہے؛ لہٰذا اگر جسم پر کوئی ظاہری نجاست نہ لگی ہو، تو حائضہ عورت کا پسینہ اور اس کا جھوٹا خواہ پانی ہو یا کھانا سب پاک ہے اور اگر حائضہ کے شوہر کو حائضہ کا پسینہ لگ جائے، تو اس کا شوہر بھی ناپاک نہیں ہوگا۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: لقینی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و أنا جنب، فأخذ بیدی، فمشیت معہ حتی قعد، فانسللت فأتیت الرحل فاغتسلت ثم جئت و ہو قاعد، فقال: أین کنت یا أبا ہریرۃ؟ فقلت لہ، فقال: سبحان اللّٰہ! یا أبا ہریرۃ! إن المؤمن لاینجس‘‘(۱)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اس حال میں کہ میں جنبی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے، میں چپکے سے وہاں سے نکلا اور اپنی رہائش پر آکر غسل کیا، پھر میں آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کہاں تھے؟ میں نے وجہ بتادی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سبحان اللّٰہ‘‘ مومن کا (ظاہری) جسم ناپاک نہیں ہوتا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس میں اس کا جواز پایا جاتا ہے کہ غسل جنابت کو اس کے واجب ہونے کے اول وقت سے تاخیر کی جاسکتی ہے اوراس کا بھی جواز ہے کہ جنبی شخص (غسل سے پہلے بھی) اپنی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔(۱) لیکن افضل یہی ہے کہ جنبی کو غسلِ جنابت میں جلدی کرنی چاہئے۔
زمانہ جاہلیت اور خاص کر یہودیوں کے معاشرے میں عورت، ایامِ مخصوصہ میں بہت نجس چیز سمجھی جاتی تھی، اور ایامِ مخصوصہ میں اسے ایک کمرے میں بند کردیا جاتا تھا۔ نہ وہ کسی چیز کو ہاتھ لگا سکتی تھی، نہ کھانا پکاسکتی تھی اور نہ کسی سے مل سکتی تھی؛ لیکن اسلام کے معتدل نظام نے ایسی کوئی چیز باقی نہیں رکھی۔ شریعتِ اسلامیہ میں حیض ونفاس کی وجہ سے صادر ہونے والی ناپاکی میں عورت نماز روزہ، طوافِ کعبہ، مسجد میں جانے، مباشرت کرنے اور تلاوتِ کلامِ پاک کے علاوہ تمام امور انجام دے سکتی ہے۔ اس کے لیے باقی تمام امور جائز ہیں، یہاں تک کہ ذکراللہ اور دُرود شریف اور دیگر دُعائیں پڑھ سکتی ہے؛ لہٰذا حیض ونفاس کے دنوں میں عورت کے لیے کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور دیگر گھریلو خدمات بجا لانا جائز ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ:
’’قال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ناولیني الخمرۃ من المسجد قالت: فقلت إني حائض، فقال إن حیضتک لیست في یدک‘‘(۲)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں سے مجھے فرمایا: مصلیٰ (جائے نماز) اٹھا کر مجھے دے دو، میں نے عرض کیا کہ میں حائضہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے بعض لوگوں کو مغالطہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حالت حیض میں مسجد سے جائے نماز اٹھا کر لانے کا حکم فرمایا جب کہ ایسا نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں ہی تشریف فرما تھے اور جائے نماز گھر میں رکھی ہوئی تھی، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حجرہ مبارک سے جائے نماز اٹھا کر دینے کو فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ میں تو حائضہ ہوں۔ اگلی حدیث مبارکہ سے اس بات کی وضاحت ہو رہی ہے:
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال بینما رسول: في المسجد، فقال: یا عائشۃ (رضياللّٰہ عنہا) ناولیني الثوب، فقالت: إني حائض، فقال: إن حیضتک لیست فی یدک فناولتہ‘‘(۱)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! مجھے ایک کپڑا اٹھا کر دو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں حائضہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔
ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ایامِ مخصوصہ میں عورت کا جھوٹاکھانا اور اس کا بچا ہوا پانی اور اس کا پسینہ پاک ہے۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الغسل: باب الجنب یخرج و یمشي في السوق و غیرہ‘‘: ج۱، ص: ۴۱، رقم: ۲۸۵۔
(۱) ابنِ حجر عسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۱۔(مکتبۃ شیخ الہند، دیوبند)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الحیض: باب جواز غسل الحائض رأس زوجہا وترجیلہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳، رقم: ۲۹۸۔
(۱) أیضاً: ج ۱، ص: ۲۴۵، رقم: ۲۹۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص397
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مخصوص ایام میں بیوی کی ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے حصہ سے بغیر حائل کے نفع اٹھانا شوہر کے لیے شرعاً ممنوع قرار دیاگیاہے؛ البتہ اس حصہ کے علاوہ باقی تمام بدن سے فائدہ اٹھانے کی شرعاً اجازت ہے، جیساکہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے:
’’(وقربان ما تحت إزار) یعنی ما بین سرۃ ورکبۃ ولو بلا شہوۃ، وحل ما عداہ مطلقًا۔ وہل یحل النظر ومباشرتہا لہ؟ فیہ تردد‘‘
’’(قولہ: وقربان ما تحت إزار) من إضافۃ المصدر إلی مفعولہ، والتقدیر: ویمنع الحیض قربان زوجہا ما تحت إزارہا، کما في البحر‘‘
’’(قولہ: یعني ما بین سرۃ ورکبۃ) فیجوز الاستمتاع بالسرۃ وما فوقہا والرکبۃ وما تحتہا ولو بلا حائل، وکذا بما بینہما بحائل بغیر الوطء ولو تلطخ دماً‘‘(۱)
نیز حالت حیض میں ہمبستری کرنا قطعاً ناجائز اور حرام ہے، قرآن کریم میں صراحۃً اس سے منع کیا گیا ہے {وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْمَحِیضِ قُلْ ہُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَائَ فِی الْمَحِیضِ}(۲) اگر کبھی بے احتیاطی یا غلطی سے ایسا ہوجائے، تو سچے پکے دل سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنا واجب ہے، نیز اس کے ساتھ ساتھ بہتر ہے کہ اگر ابتدائے حیض میں ہمبستری کی ہو، تو ایک دینار اور اخیر ایام میں کی ہو، تو نصف دینار خیرات کرے۔ در مختار میں ہے:
’’…… فتلزمہ التوبۃ ویندب تصدقہ بدینا أو نصفہ …… ثم قیل إن کان الوطء في أول الحیض فبدینار أو آخرہ فبنصفہ، وقیل: بدینار لو الدم أسود وبنصفہ لو أصفر۔ قال في البحر: ویدل لہ ما رواہ أبو داود والحاکم وصححہ ’’إذا واقع الرجل أہلہ وہی حائض، إن کان دما أحمر فلیتصدق بدینار، وإن کان أصفر فلیتصدق بنصف دینار اہـ‘‘۔(۳)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۲۔
(۲) سورۃ البقرۃ: ۲۲۲۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص399
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:خواتین کے لیے مخصوص ایام میں مستحب یہ ہے کہ نماز کے اوقات میں وضو کرکے مصلی پر بیٹھ کر تھوڑی دیر تسبیح وغیرہ پڑھ لیا کریں؛ تاکہ عبادت کا اہتمام برقرار رہے اور پاکی کے بعد نماز پڑھنے میں سستی نہ آئے۔ حیض کے ایام میں نماز اور قرآن پڑھنا منع ہے لیکن تسبیح پڑھنا منع نہیں ہے، ایسی عورت نماز تو نہیں پڑھے گی؛ لیکن تشبہ بالمصلین ہوجائے گا۔فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے کہ حائضہ عورت کے لیے مستحب ہے کہ نماز کے وقت وضو کرکے جتنی دیر نماز پڑھنے میں لگتی ہے، اتنی دیر مصلیٰ بچھا کر بیٹھ کر ذکر ودعا کرتی رہے، تاکہ عام اوقات میں جو وقت عبادت میں لگتا تھا وہ ضائع بھی نہ ہو اور عبادت کی عادت بھی باقی رہے۔
’’وقال: ویجوز للجنب والحائض الدعوات وجواب الأذان ونحو ذلک کذا في السراجیۃ‘‘(۱)
’’و یستحب للمرأۃ الحائض إذا دخل علیہا وقت الصلاۃ أن تتوضأ و تجلس عند مسجد بیتہا، و في السراجیۃ: مقدار ما یمکن أداء الصلاۃ لو کانت طاہرۃ و تسبح و تہلل کي لا تزول عنہا عادۃ العبادۃ‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: …الباب السادس، في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع: في أحکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ومنہا: حرمۃ قرأۃ القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۹۳۔
(۲) عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: بیان حکم الحیض والاستحاضۃ والنفاس، نوع آخر في الأحکام التي بالحیض‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص401
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسقاط حمل کے نتیجہ میں اگر اجزائے انسانی میں سے کوئی جز مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ ظاہر ہو گئے، تو وہ شرعاً بچہ ہے اور اس کے بعد آنے والا خون نفاس ہے، مذکورہ صورت میں عورت سے نماز ساقط ہو جائے گی اور روزہ دوسرے دنوں میں قضا کرے گی اور اس جزو انسانی کو غسل دیا جائے گا۔
اور اگر کوئی چیز ظاہر نہیں ہوئی، تو وہ بچہ نہیں ہے نہ اس کے لیے غسل ہے اور نہ کفن ودفن؛ البتہ جزو انسانی ہونے کی وجہ سے دفن کرنا چاہئے اور اس صورت میں آنے والا خون نفاس نہیں ہے، اب دیکھنا چاہئے کہ اس سے قبل حیض آئے ہوئے کتنا زمانہ ہوا اور یہ خون کتنے دن آیا، اگر حیض آئے ہوئے پندرہ دن یا اس سے زیادہ ہو گئے اور یہ خون کم از کم تین دن آئے، تو حیض ہے ورنہ استحاضہ ہے جس میں نماز روزہ سب درست ہے۔
’’وسقط ظہر بعض خلقہ کید أو رجل أو إصبع أو ظفر أو شعر ولا یستبین خلقہ إلا بعد مائۃ وعشرین یوماً ولد حکماً فتصیر المرأۃ بہ نفساء … فإن لم یظہر لہ شيء فلیس بشيء والمرئي حیض إن دام ثلاثاً وتقدمہ طہر تام وإلا استحاضۃ‘‘(۱)
’’وإلا أي وإن لم یستہل غسل وسمیٰ عند الثاني وہو الأصح فیفتی بہ علی خلاف ظاہر الروایۃ إکراماً لبني آدم کما في ملتقی البحار وفي النہر عن الظہیریۃ: وإذا استبان بعض خلقہ غسل وحشر ہو المختار وأدرج في خرقۃ ودفن ولم یصل علیہ‘‘(۲)
’’ولا خلاف في غسلہ ومالم یتم وفیہ خلاف والمختار أنہ یغسل ویلف في خرقۃ ولا یصلی علیہ‘‘ (۳)
’’وأما السقط الذي لا یتم أعضاؤہ ففي غسلہ اختلاف المشایخ والمختار أنہ یغسل ویلف في خرقۃ، ولم یصل علیہ باتفاق الروایات ومذہب علمائنا رحمہم اللّٰہ في السقط الذي استبان بعض خلقہ أنہ یحشر وہو قول الشعبي وابن سیرین‘‘ (۴)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۰، ۵۰۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۱۔
(۳) أیضاً۔
(۴) عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ : ج ۳، ص: ۱۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص402
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 40/802
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن کریم میں سورہ مائدہ آیت نمبر چھ میں وضو کے فرائض بیان کئے گئے ہیں۔وضو میں چار چیزیں فرض ہیں (1) چہرہ دھونا یعنی پیشانی کے بالوں سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کے لَو سے دوسرے کان کے لَو تک پورا چہرہ دھونا۔ (2) دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا۔(3) سرکا مسح یعنی چوتھائی سر کا مسح کرنا۔ (4) دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھونا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وقت ضرورت حیض بند کرنے والی گولیوں (Tablets) کے استعمال کی گنجائش ہے؛ البتہ بسا اوقات ان دواؤں کا استعمال طبی لحاظ سے عورت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے، اس سے ماہواری کے ایام میں بے قاعدگی بھی ہو جاتی ہے جس سے بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ان ایام میں معذور رکھا ہے، ان دنوں میں نماز روزہ ادا نہ کرنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے؛ لہٰذا ایسی مشقت اٹھانے اور تکلیف کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔
’’في حدیث عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: فلما کنا بسرف حضت فدخل علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وإنا أبکی فقال: انفست قلت: نعم! قال: إن ہذا أمر کتبہ اللّٰہ علی بنات آدم فاقضی ما یقضی الحاج غیر أن لا تطو فی بالبیت‘‘(۱)
نیز اگر کسی عورت نے حیض آنے سے پہلے دوا کھائی جس سے حیض کا خون نہیں آیا تو جب تک خون جاری نہ ہو وہ عورت پاک ہی شمار ہوگی ان ایام میں نماز پڑھے گی اور روزے رکھے گی۔
’’لا یجوز للمرأۃ أن تمنع حیضہا أو تستعجل إنزالہ إذا کان ذلک یضر صحتہا لأن المحافظۃ علی الصحۃ واجبۃ‘‘(۲)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الحیض، باب کیف کان بدأ الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۔
(۲) عبد الرحمن الجزیري، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: تعریف الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص404
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1702/43-1342
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حیض کی مدت کم از کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے۔ پاکی کی اقل مدت پندرہ دن ہے۔ حیض دس دن سے زیادہ نہیں آتاہے۔ عورت کی عادت کے مطابق اگرخون بندہوگیا اور حیض کے دس دن پورے ہونے سے پہلے واپس نہیں آیا تو عادت کے مطابق دن حیض کے اور باقی پاکی کے ایام شمارہوں گےاگر یہ پاکی کی مدت پندرہ دن ہوگئے اور پھر خون آیا اور مسلسل تین دن یا زیادہ جاری رہا تو یہ حیض کا شمار ہوگا، ورنہ نہیں۔ اس لئے صورت مسئولہ میں عادت کے مطابق خون بندہونے کے نو 9 دن بعد آنے والا خون بیماری کا ہوگا اور اس دوران کی نمازیں پڑھنی ہوں گی۔ اس کے دس دن کے بعد آنے والا خون اگر تین دن سے زیادہ جاری رہتاہے تو یہ حیض کا شمار ہوگا، کیونکہ اس سے پہلے والے حیض اور اس موجودہ حیض کے درمیان پندرہ دن کا وقفہ ہے۔
(ومنها) النصاب أقل الحيض ثلاثة أيام وثلاث ليال في ظاهر الرواية. هكذا في التبيين وأكثره عشرة أيام ولياليها. كذا في الخلاصة الی قولہ ولو خرج أحد الدمين عن مدة الحيض بأن رأت يوما دما وتسعة طهرا ويوما دما مثلا لا يكون حيضا؛ لأن الدم الأخير لم يوجد في مدة الحيض. (الھندیۃ ، الفصل الاول فی الحیض 1/36)
فإن لم يجاوز العشرة فالطهر والدم كلاهما حيض سواء كانت مبتدأة أو معتادة وإن جاوز العشرة ففي المبتدأة حيضها عشرة أيام وفي المعتادة معروفتها في الحيض حيض والطهر طهر. هكذا في السراج الوهاج ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ إذا كان الطهر خمسة عشر يوما أو أكثر يعتبر فاصلا فيجعل كل واحد من الدمين أو أحدهما بانفراده حيضا حسب ما أمكن من ذلك هكذا في المحيط (الھندیۃ، الفصل الرابع فی الحیض 1/36)
لو رأت الدم بعد أكثر الحيض والنفاس في أقل مدة الطهر فما رأت بعد الأكثر إن كانت مبتدأة وبعد العادة إن كانت معتادة استحاضة وكذا ما نقص عن أقل الحيض وكذا ما رأته الكبيرة جدا والصغيرة جدا. هكذا في المحيط. (الھندیۃ، الفصل الرابع فی الحیض 1/38)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2614/45-4050
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کتابوں میں سن ایاس پچپن سال ہی کو شمار کیاگیا ہے اور لکھا ہے کہ پچپن سال کی عمر کے بعد عورت کو اگر خون نظر آئے تو وہ حیض کا نہیں بلکہ استحاضہ کا خون ہوگا، ایہ عام عورتوں کے احوال ہیں، تاہم کچھ احوال شاذ و نادر پیش آتے ہیں، لہذا اگر کسی عورت کو پچپن سال کی عمر کے بعد خون آئے اور اس کی علامتیں ، اس کے سابقہ ایام حیض کے مشابہ ہوں تو ان کو حیض کے ایام ہی شمار کرنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2683/45-4142
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بچی کے پیشاب اور پاخانہ کو صاف کیا اور ہاتھ میں نجاست لگی تو ہاتھ کو دھونا ضروری ہے، اگر بچی کا بدن خشک ہوگیا تھا اور اس کا بدن پکڑنے سے کوئی نجاست ہاتھ میں نہیں لگی تو ہاتھ ناپاک نہیں ہوگا، اور بلا ہاتھ دھوئے نماز درست ہوجائے گی۔ اگر بچی کے ناپاک کپڑے یا بدن دھوتے وقت ناپاک پانی کی چھینٹیں آپ کے کپڑے یا بدن کو لگ جائیں تو ان کو دھونا ضروری ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند