طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا شخص جس کو قطرہ آنے کے مرض میں اتنا بھی موقع نہ ملتا ہو کہ وضو کر کے ایک وقت کی نماز ادا کرے، (جیسا کہ مذکورہ شخص ہے) اسے شریعت اسلامی نے معذور قرار دیاہے، اور ایسے آدمی کے لیے نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وضو کر کے ایک وقت کی نماز ادا کرے، پھر دوسرے وقت وضو کرکے پوری نماز ادا کرے، ایک مرتبہ وضو کر کے جس قدر چاہے قرآن پاک پڑھے اور قرآن پاک کو مس کرے، یعنی چھوئے، رہا صرف قرآن پاک پڑھنے کا مسئلہ سو وضو کے بغیر بھی قرآن پاک کی تلاوت کرنا شرعاً درست ہے، صرف مس قرآن کے لیے وضو شرط ہے، اور حج کرنا بھی بغیر وضو کے شرعاً درست ہے، صرف طواف کے لیے باوضو رہنا ہے، حاصل یہ ہے کہ ایک مرتبہ کیا ہوا وضو نماز کے پورے وقت تک باقی سمجھا جائے گا، بس اسی روشنی میں آپ پر بھی عمل کرنا واجب ہے، کوئی عمل مذکورہ مرض کی وجہ سے ترک نہ کریں۔(۱)

(۱) استیقظ یمسح النوم عن وجھہ ثم قرأ عشر آیات من آل عمران ثم قام رسول اللّٰہ ﷺ إلی شن معلقۃ فتوضأ فأحسن الوضوء ثم قام یصلی۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ ،باب ما جاء في الوتر، ج۱، ص:۱۳۵، رقم:۹۹۲)؛و لا یکلف اللّٰہُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَھَا۔ (بقرہ:۲۸۶)؛ و کذا سائر المعذورین ابتداء…  باستیعابہ وقت صلٰوۃ کامل، و في الکافي: إنما یصیر صاحب عذر إذا لم یجد في وقت الصلاۃ زمنا یتوضأ و یصلي فیہ خالیاعن الحدث۔(ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في الاستحاضۃ‘‘ج۱،ص:۱۸۵)؛ و صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ الخ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار’’ کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج۱،ص:۵۰۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص405

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1803/43-1543

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نجس چپل یا نجس کپڑا دھونے کے بعد جو پانی جمع رہتاہے وہ ناپاک ہے، اگر اس کی چھینٹیں کپڑے پر لگ جائیں اور کپڑا گیلا ہوجائے تو کپڑا ناپاک ہوجائے گا۔ اسی طرح ناپاک پانی جمع تھا اور آپ نے ٹونٹی کھولی  جس سے ناپاک پانی کی چھینٹیں آپ کے کپڑے پر لگ گئیں تو کپڑا ناپاک ہوجائے گا۔ نجاست غلیظہ ایک درھم سے کم معاف ہے، ایک درھم اور اس سے زیادہ  مقدارکپڑا ناپاک ہوگا تو اس میں نماز درست نہیں ہوگی۔ نجاست خفیفہ کپڑے کی ایک چوتھائی سے کم معاف ہے، اس سے زیادہ ہو تو کپڑا ناپاک سمجھاجائے گا۔ ناپاک کپڑے میں نماز درست نہیں ہوتی ہے۔ کپڑے کا پاک ہونا نماز کے شرائط میں سے ہے۔

 (وقدر الدرهم وما دونه من النجس المغلظ كالدم والبول والخمر وخرء الدجاج وبول الحمار جازت الصلاة معه وإن زاد لم تجز) وقال زفر والشافعي: قليل النجاسة وكثيرها سواء لأن النص الموجب للتطهير لم يفصل. ولنا أن القليل لا يمكن التحرز عنه فيجعل عفوا، وقدرناه بقدر الدرهم أخذا عن موضع الاستنجاء. (فتح القدیر، باب الانجاس وتطھیرھا 1/202)

يجب أن يعلم بأن القليل من النجاسة عفو عندنا، لما روي أن عمر رضي الله عنه سئل عن قليل النجاسة في الثوب، فقال: «إذا كان مقدار ظفري هذا لا يمنع جواز الصلاة» ، ولأن التحرز عن قليل النجاسة غير ممكن، فإن الذباب يغفو على النجاسة ثم يغفو على ثياب المصلي، لا بد وأن يكون (في) أجنحتهن وأرجلهن نجاسة، فجعل القليل عفواً لمكان البلوى، وقد صح أن أكثر الصحابة كانوا يكتفون بالاستنجاء بالأحجار، وإنه لا يزيل أصل النجاسة لولا أن القليل من النجاسة عفو، وإلا لما اكتفوا به.

ثم النجاسة نوعان: غليظة، وخفيفة، فالغليظة إذا كانت قدر الدرهم أو أقل فهي قليلة لا تمنع جواز الصلاة، وإن كانت أكثر من قدر الدرهم منعت جواز الصلاة، ويعتبر الدرهم الكبير دون الصغير (المحیط البرھانی، الفصل السابع فی النجاسات واحکامھا 1/192)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر آپ کواتنا وقت بھی نہیں ملتا کہ وضو کر کے نماز ادا کریں بلکہ ہر وقت یہ پیشاب یا منی کے قطروں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، ایک نماز ادا کرنے کا وقت بھی نہیں خالی ملتا تو مذکورہ شخص معذور کے حکم میں ہے، اس کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ وہ وضو کر کے ایک وقت کی نماز ادا کرے پھر دوسرے وقت کے لئے دوبارہ وضو کرے اور معذور کی امامت درست نہیں ہے۔(۱)

(۱)صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض مطلب في أحکام المعذور‘‘ج۱، ص:۵۰۴) ؛ و إنما یصیر صاحب عذر إذا لم یجد في وقت الصلاۃ زمنا یتوضأ و یصلي فیہ خالیا عن الحدث۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في الاستحاضۃ‘‘ج۱، ص:۱۸۵) ؛ (وطاھر بمعذور) أي و فسد اقتداء طاھر بصاحب العذر المفوت للطھارۃ لأن الصحیح أقوی حالا من المعذور۔ (ابن نجیم، البحرالرائق،’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘ج۱،ص۶۳۰)؛  ولا یصلي الطاھر خلف من بہ سلس البول ولا الطاھرۃ خلف المستحاضۃ، و ھذا إذا قارن الوضوء الحدث أو طرأ علیہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثالث: في بیان ما یصلح إمام لغیرہ‘‘ج۱،ص:۱۴۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص406

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱)اگر عورت اپنی شرم گاہ میں انگلی داخل کرے، نہ شہوت ہو اور نہ ہی انزال ہو، تو غسل واجب نہیں ہوگا، ہاں اگر اس عمل کی وجہ سے شہوت پیدا ہوجائے تو محتاط قول کے مطابق غسل واجب ہے (و)لا عند (إدخال إصبع و نحوہ) کذکر غیر آدمي و ذکر خنثی و میت و صبي لا یشتہي وما یصنع من نحو خشب (في الدبر أو القبل) علی المختار… (بلا إنزال) لقصور الشہوۃ أما بہ فیحال علیہ… (قولہ: علی المختار) قال في التجنیس : رجل أدخل إصبعہ في دبرہ وھو صائم اختلف في وجوب الغسل والقضاء۔ والمختار أنہ لا یجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ ذکرہ في الصوم، و قید بالدبر، لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع: لأن الشہوۃ فیھن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمہا نوح افندی… (قولہ: أما بہ) أي أما فعل ہذہ الأشیاء المصاحب للإنزال فیحال وجوب الغسل علی الإنزال۔ (۱)
(۲) اگر کسی دوسری عورت نے یا ڈاکٹر نے شرم گاہ میں انگلی داخل کی اور انزال نہیں ہوا، تو غسل واجب نہیں ہوگا۔
(۳) اگر شوہر نے بیوی کی شرم گاہ (فرج) میں انگلی داخل کی اور عورت کو اس سے شہوت نہیں ہوئی، تو اس صورت میں غسل واجب نہیں ہوگا؛ البتہ اگرمیاں بیوی شہوت کی بنا پر یہ عمل کریں اور شوہر اپنی انگلی عورت کی شرم گاہ میں داخل کرے، تو بعض فقہاء کے قول کے مطابق غسل لازم ہوجاتا ہے، احتیاط اسی قول میں ہے۔ لہٰذا شہوت ہونے کی صورت میں عورت غسل کرے اور اگر مرد کے انگلی داخل کرنے کی وجہ سے عورت کی منی خارج ہوگئی، تو عورت پر بالاتفاق غسل واجب ہوجائے گا۔ (قولہ وفي فتح القدیر أن في إدخال الإصبع الدبر خلافاً الخ) ذکر العلامۃ الحلبی ھنا تفصیلاً، فقال: والأولی أن یجب في القبل إذا قصد الاستمتاع لغلبۃ الشہوۃ: لأن الشہوۃ فیھن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب وھو الإنزال دون الدبر بعدمھا۔(۱)

(۱)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار ’’کتاب الطہارۃ، قبیل مطلب في رطوبۃ الفرج‘‘ ج۱، ص: ۳۰۵
(۱) ابن نجیم البحر الرائق، ج۱، ص:۱۱۱

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص319

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:طہارت کرنے کے بعد جو پانی رانوں پر لگا رہتا ہے، وہ پاک ہے، اس کے قطرات ٹپک کر اگر کپڑے پر یا بدن کے دوسرے حصے پر لگ جائیں، تو اس پانی سے بدن یا کپڑے ناپاک نہیں ہوںگے اس میں کوئی شبہ نہ کیا جائے۔(۱)

(۱) قد قال في المجتبیٰ: صحت الروایۃ عن الکل أنہ طاھر غیر طھور فالاشتغال بتوجیہ التغلیظ والتخفیف مما لا جدوی لہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب المیاہ مطلب في تفسیر القربۃ والثواب‘‘ ج۱،ص:۳۵۲) قال مشائخ العراق: إنہ طاھر عند أصحابنا۔ واختار المحققون من مشائخ ماوراء النھر طہارتہ و علیہ الفتویٰ(ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء ومالایجوز‘‘  ج۱، ص۹۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص407

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب کہ اس عورت کو ہر وقت پیشاب کے قطرے ٹپکتے رہتے ہیں، تو وہ عورت معذور ہے، اس لیے کہ اگر نماز کا کوئی وقت ایسا گزر جائے کہ پورے وقت میں وضو کرکے فرض نماز پڑھنے کا موقع اس عذر سے خالی نہ مل سکے، تو ایسے شخص کو شرعاً معذور کہتے ہیں، پھر ہر وقت میں ایک مرتبہ بھی یہ عذر پیش آئے تو وہ معذور ہی رہتا ہے، مگر نماز معاف نہیں، بلکہ فرض ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر نماز کا وقت ہونے پر وضو کرے اور کپڑے پاک کرکے فرض واجب، سنت اور نفل نمازیں جتنی چاہے پڑھے، خواہ پیشاب کے قطرے ٹپکتے رہیں تب بھی اس کا وضو پورے وقت تک باقی رہے گا اور جب وقت ختم ہو جائے، تو اس کا وضو بھی ختم ہو جائے گا، پھر جب دوسری نماز کا وقت آئے پھر وضو کرکے پورے وقت میں جتنی چاہے نمازیں پڑھے(۱) ’’وتتوضأ المستحاضۃ ومن بہ عذر کسلس بول أو استطلاق بطن لوقت کل فرض، ویصلون بہ ماشاؤا من الفرائض والنوافل‘‘(۲)

(۱) و صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض ،مطلب في أحکام المعذور‘‘ج۱، ص:۵۰۴) ؛و في الکافي: إنما یصیر صاحب عذر إذا لم یجد في وقت الصلوٰۃ زمنا یتوضأ و یصلي فیہ خالیا عن الحدث۔ (ابن الہمام، فتح القدیر’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستحاضۃ‘‘ج۱، ص۱۸۵)
(۲)الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضہ مع مراقي الفلاح‘‘ ج۱، ص: ۶۰(مکتبہ عکاظ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص407

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر اتنے وقت کے لیے پانی بند نہیں ہوتا کہ فرض نماز ادا کر سکیں، تو آپ معذور کے حکم میں ہوںگے، وضو کر کے نماز پڑھیں، وہ وضو اس نماز کے وقت تک قائم رہے گا۔(۳)  

(۳)تتوضأ المستحاضۃ ومن بہ عذر کسلس بول أو استطلاق بطن لوقت کل فرض … و یصلون بہ ما شاؤا من الفرائض والنوافل۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح مع مراقي الفلاح، کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضہ، ج۱، ص:۶۰) وفي المجتبیٰ: الدم والقیح والصدید وماء الجرح والنفطۃ وماء البثرۃ والثدي والعین والأذن لعلۃ سواء علی الأصح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج۱، ص:۵۰۴) ؛ومن بہ سلس البول والرعاف الدائم والجرح الذی لا یرقأ۔ (بدرالدین العینی، البنایہ شرح الہدایۃ، ’’فصل فيوضوء المستحاضۃ ومن بہ سلس البول‘‘ج۱، ص:۶۸۵، مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص408

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:چیٹنگ (میسیج کے ذریعہ بات) کرتے ہوئے شہوت کی وجہ سے جو پانی نکلتا ہے اس کو مذی کہتے ہیں، اور اس سے صرف وضو واجب ہوتا ہے، اس میں غسل کی ضرورت نہیں۔ (۱)
(ولیس في المذي والودي غسل وفیہما الوضوء)(۲)ولیس في المذي والودي غسل وفیہما الوضوء ’’لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام:‘‘ ’’کل فحل یمذي وفیہ الوضوء‘‘ (۳)

(۱)و إذا علم أنہ مذي أو شک أنہ مذي أو ودي أو کان ذکرہ منتشرا قبیل النوم فلا غسل علیہ اتفاقاً۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ج۱، ص:۳۰۱-۳۰۲)؛ ولا یجب الغسل بإنزال المذي والودي والبول بالإجماع۔ (زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق،’’ کتاب الطہارۃ‘‘ج۱، ص:۱۰۲)
(۲)کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن ھمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الغسل‘‘ ج۱، ص:۷۱
(۳) المرغیناني، الہدایہ ،’’کتاب الطہارۃ، فصل في الغسل‘‘ج۱، ص:۳۳)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص322

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسے شخص کو چاہئے کہ بادی کا علاج کرائے اور ریاح پیدا کرنے والی چیزوں سے پرہیز کرے، یہ شخص جب کہ اتنا وقت نہیں پاتا کہ وضو کر کے فرض نماز پڑھ سکے تو یہ معذور ہے، اس شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ وقت ہو جانے پر وضو کر لیا کرے، اور جتنی نمازیں چاہے وقت میں پڑھے یہ شخص اس وقت تک معذور ہی سمجھا جائے گا، جب تک کہ ایک کامل نماز کا وقت اس عذر سے خالی نہ گزرے۔(۱)

(۱)المستحاضۃ ومن بہ عذر کسلس بول أو استطلاق بطن لوقت کل فرض و یصلون بہ ما شاؤا من الفرائض والنوافل۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح ،کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ص:۵۰-۵۱)؛  و کذا کل من ھو في معناھا وھو من ذکرناہ ومن بہ استطلاق بطن وانفلات ریح لأن الضرورۃ بھذا تحقق۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستحاضہ‘‘ج۱،ص:۱۸۶) ؛ وصاحب عذر من بہ سلس بول أو استطلاق بطن أو انفلات ریح ھو من لا یملک جمع مقعدتہ لاسترخاء فیھا و حکمہ الوضوء لکل فرض الخ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج۱، ص:۵۰۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص409

طہارت / وضو و غسل

Ref No. 40/792

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جائز اور درست ہے، ذکراللہ ، تسبیح اور درود شریف کے لئے وضو  کی ضرورت نہیں البتہ  حالت جنابت  میں احتیاط یہ ہے کہ جلد غسل کرلے اور پاکی کی حالت میں ذکر کرے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند