طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں علاج کی غرض سے اگر دائی، نرس یا ڈاکٹرنی انگلی یا ہاتھ داخل کرے، تو صرف انگلی یا دوا وغیرہ کے دخول سے غسل فرض نہیں ہوگا؛ لیکن اگر انگلی کے دخول کے ساتھ ساتھ شہوت کے ساتھ انزال ہوجائے تو غسل فرض ہوجائے گا۔ جیساکہ صاحب درمختار نے لکھا ہے:

’’ولاعند إدخال أصبع ونحوہ في الدبر أو القبل علی المختار ونقل الشامي من کلام نوح آفندي علی التجنیس: أن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع؛ لأن الشہوۃ فیہنّ غالبۃ، فیقام السبب مقام المسبب، قال: وقولہ: لأن المختار وجوب الغسل … الخ بحث منہ سبقہ إلیہ شارح المنیۃ حیث قال: والأولی أن یجب في القبل … الخ وقد نبہ في الإمداد أیضاً علی أنہ بحث من شارح المنیۃ، فافہم‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۴۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص323

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا شخص وسوسہ کا شکار ہے، جب تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو، یا غالب گمان نہ ہو آپ کا وضو باقی ہے، شک وشبہ کی وجہ سے وضو پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔(۱)

(۱)الیقین لا یزول بالشک۔ (ابن نجیم،الأشباہ والنظائر، ج۱، ص:۱۸۳، دارالکتاب دیوبند)؛ و في الأصل من شک في بعض وضوئہ وھو أول ما شک غسل الموضع الذي شک فیہ، فإن وقع ذلک کثیراً لم یلتفت إلیہ، ھذا إذا کان الشک في خلال الوضوء، فإن کان بعد الفراغ من الوضوء لم یلتفت إلی ذلک، ومن شک في الحدث فھو علی وضوئہ ولو کان محدثاً فشک في الطھارۃ فھو علی وضوئہ ولا یعمل بالتحری کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول : في الوضوء،الفصل الخامس في نواقض الوضوء، و مما یتصل بذلک مسائل الشک‘‘ ج۱، ص:۶۴)؛ و شک في بعض وضوئہ أعاد ما شک فیہ لو في خلالہ ولم یکن الشک عادۃ لہ و إلا لا، قولہ و إلا لا أي و إن لم یکن في خلالہ بل کان بعد الفراغ منہ، و إن کان أول ما عرض لہ الشک أو کان الشک عادۃ لہ، و إن کان في خلالہ فلا یعید شیئًا قطعاً للوسوسۃ عنہ کما في التاترخانیۃ وغیرھا۔ ( ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف، الخ‘‘ ج۱، ص :۲۸۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص410

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1687/43-1332

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذی کم ہو یا زیادہ اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے، اگر شرمگاہ پر نجاست پھیلی ہے تو اس کا دھونا ضروری ہے، اور اگر شرمگاہ پر نہیں پھیلی، اس کو کپڑے سے پونچھ لیا تو شرمگاہ کا دھونا یعنی استنجا کرناضروری نہیں ہے۔ وضو کرکے نماز پڑھ سکتاہے۔ اگر کپڑے میں نجاست لگی ہے تو ایک درہم کی مقدار سے کم ہو تو اس میں نماز ہوجائے گی ، اس کا دھونا ضروری نہیں ہے، گرچہ جان بوجھ کر ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہے۔   پیشاب کا قطرہ ایک درہم  سے کم   کپڑے پر لگاہو تو وہ کپڑا پاک شمار ہوگا اور ا س میں نماز درست ہوجائے گی، اور اگر ایک درہم سے زیادہ پھیلاہوا ہے تو کپڑا ناپاک ہے اس کو پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔

(الفصل الخامس في نواقض الوضوء) منها ما يخرج من السبيلين من البول والغائط والريح الخارجة من الدبر والودي والمذي والمني والدودة والحصاة، الغائط يوجب الوضوء قل أو كثر وكذلك البول والريح الخارجة من الدبر. كذا في المحيط. (الھندیۃ، الفصل الخامس في نواقض الوضوء 1/9) ، أن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قال في المذي: "يغسل ذكره، ويتوضأ" وفي رواية: "يتوضأ وضوء الصلاة» رواه البخاري ومسلم. وعن ابن مسعود، وابن عباس - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - قالا. في الودي الوضوء، رواه البيهقي، والمذي والودي غير معتادين، وقد وجب فيهما الوضوء ولأنه خارج من السبيل فينقض كالريح والغائط ولأنه إذا وجب الوضوء بالمعتادة، والذي تعم به البلوى بغيره أولى.  (البنایۃ، ماخرج من السبیلین من نواقض الوضوء 1/258)

المانع في الغليظة ما زاد على الدرهم قياسا على النجاسة المغلظة، كذا في البحر (شامی، مطلب فی ستر العورۃ 1/409) النجاسة إن كانت غليظة وهي أكثر من قدر الدرهم فغسلها فريضة والصلاة بها باطلة وإن كانت مقدار درهم فغسلها واجب والصلاة معها جائزة وإن كانت أقل من الدرهم فغسلها سنة وإن كانت خفيفة فإنها لا تمنع جواز الصلاة حتى تفحش. كذا في المضمرات. (الھندیۃ، الفصل الاول فی الطھارۃ وسترالعورۃ 1/58)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں غسل ہو جائے گا؛ کیونکہ موالات یعنی اعضاء کو لگاتار دھونا صرف سنت ہے فرض نہیں۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بہشتی زیور میں لکھا ہے:
اگر غسل کے بعد یاد آوے کہ فلاں جگہ سوکھی رہ گئی تھی، تو پھر سے نہانا واجب نہیں ہے؛ بلکہ جہاں سوکھا رہ گیا تھا اسی کو دھو لیوے؛ البتہ صرف ہاتھ پھیرنا کافی نہیں ہوگا؛ بلکہ تھوڑا سا پانی لے کر اس جگہ بہانا چاہئے اور اگر کلی بھول گئی (گیا) ہو، تو اب کلی کرلے اور اگر ناک میں پانی نہ ڈالا ہو، تو اب ڈال لے، خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز رہ گئی ہو اب اس کو کر لینے سے از سرِ نو غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)
’’قال في الدر المختار: وسننہ (الغسل) کسنن الوضوء، قال الشامي: قولہ‘‘وسننہ ’’أفاد أنہ لا واجب للوضوء ولا للغسل۔ ثم قال: وقولہ:‘‘کسنن الوضوء’’أي من البداء ۃ بالنیۃ والتسمیۃ والسواک والتخلیل والدلک والولاء الخ‘‘(۲)  
’’ولو ترکہا أي ترک المضمضۃ أو الاستنشاق أو لمعۃ من أي موضع کان من البدن ناسیا فصلی ثم تذکر ذلک یتمضمض أو یستنشق أو یغسل اللمعۃ الخ‘‘ (۳)
’’وإنما یکرہ التفریق في الوضوء إذا کان بغیر عذر أما إذا کان بعذر بأن فرغ ماء الوضوء فیذہب لطلب الماء أو ما أشبہ ذلک فلا بأس بالتفریق علی
الصحیح، وہکذا إذا فرق في الغسل والتیمم، السراج الوہاج‘‘ (۴)

(۱) اشرف علي تھانوي، بہشتي زیور: ج ۱، ص: ۵۷۔(البشریٰ ویلفیئراینڈ ایجوکیشنل ٹرسٹ، کراچی، پاکستان)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب سنن الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۰۔
(۳) إبراہیم حلبي، غنیۃ المستملي في شرح منیۃ المصلي المعروف بالحلبي الکبیري، ’’کتاب الطہارۃ: فرائض الغسل‘‘: ص: ۴۴۔
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الثاني، في سنن الوضوء، ومنہا الموالات‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص324

 

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں اگر پیشاب کے قطرات اتنی دیر تک واقعی طور پر بند رہتے ہیں، جتنی دیر میں وہ شخص اس وقت کی نماز فرض ادا کر سکے، تو وہ شخص معذور نہیں ہے اس کو وضو ٹوٹنے پر (خواہ نماز فرض ہو، سنت ہو، یا نفل ہو) مستقلاً وضو بنانا فرض ہوگا، پیشاب کرنا ضروری نہیں۔(۱)

(۱) والمعذور من لا یمضي علیہ وقت صلاۃ إلا والعذر الذي ابتلی بہ، یوجد فیہ۔ (ابراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض فصل في المستحاضۃ‘‘ ج۱، ص:۸۵بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)  ولا یصیر معذوراً حتی یستوعبہ العذر وقتا کاملا لیس فیہ انقطاع بقدر الوضو والصلاۃ إذ لو وجد لا یکون معذوراً (الشرنبلالي، نورالإیضاح مع مراقی الفلاح، و حاشیہ الطحطاوی، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ‘‘ ج۱، ص:۱۵۰) ؛ و صاحب عذر من بہ سلس … إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ بأن لا یجد فی جمیع وقتھا زمناً یتوضأ و یصلي فیہ خالیا عن الحدث۔ (ابن عابدین،رد المختار علی الدر المختار’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج۱، ص:۵۰۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص411

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1293/42-650

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے، اور پاکی کی کم سے کم مدت  پندرہ دن ہے اور زیادہ کی کوئی مدت نہیں۔ اس لئے جب حیض 28 دسمبر سے شروع ہوا اور چار دن کے بعد بند ہوگیا اور پھر دس دن حیض کے پورے ہونے سے پہلے جاری ہوگیا تو یہ دس دن تک حیض ہی شمار ہوگا یعنی 6 جنوری تک کے تمام ایام  حیض کے شمار ہوں گے اور اس کے بعد استحاضہ کے ایام شمار ہوں گے۔  6 جنوری سے 26 تک پاکی کا زمانہ ہوگا، پھر 26 جنوری سے جو خون جاری ہوا وہ دس دن تک حیض شمار ہوگا اور دس دن سے جو زیادہ ہوگا وہ استحاضہ  شمار ہوگا۔    

وأقل الحيض ثلاثة أيام" بلياليها "وأوسطه خمسة" أيام "وأكثره عشرة" بلياليها وليس الشرط دوامه فانقطاعه في مدته كنزوله، والاستحاضة دم نقص عن ثلاثة أيام أو زاد على عشرة في الحيض وأقل الطهر الفاصل بين الحيضتين خمسة عشر يوما ولا حد لأكثره إلا لمن بلغت مستحاضة (مراقی الفلاح 1/60) باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس عمل سے غسل واجب نہیں ہو تا۔
’’(و) لا عند (إدخال إصبع ونحوہ) کذکر غیر آدمي وذکر خنثی ومیت وصبي لا یشتہي وما یصنع من نحو خشب (في الدبر أو القبل) علی المختار۔ (الدر المختار) وفي رد المحتار: (قولہ: علی المختار) قال في التجنیس: رجل أدخل إصبعہ في دبرہ وہو صائم اختلف في وجوب الغسل والقضاء۔ والمختار أنہ لا یجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ ذکرہ في الصوم، وقید بالدبر؛ لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع؛ لأن الشہوۃ فیہن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمہا نوح آفندي‘‘(۱)
’’منہا إدخال أصبع ونحوہ کشبہ ذکر مصنوع من نحو جلد في أحد السبیلین علی المختار لقصور الشہوۃ‘‘(۲)
’’(ولا) عند (إدخال أصبع ونحوہ في الدبر ووطء بہیمۃ بلا إنزال) لقلۃ الرغبۃ کما مر‘‘(۳)
’’رجل أدخل اصبعہ في دبرہ وہو صائم الختلفوا في وجوب الغسل والقضاء والمختار إنہ لا یجب الغسل ولا القضاء لأن الأصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘: ج ۱، ۳۰۴۔
(۲) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: عشرۃ أشیاء لا یغتسل منہا‘‘: ص: ۱۰۱۔
(۳)علي حیدر، درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام، ’’موجبات الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۔(مکتبہ شاملہ)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص326

 

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ناسور اگر ہر وقت بہتا ہے، تو وہ معذور ہے۔(۲)

(۲)تتوضأ المستحاضۃ ومن بہ عذر کسلس بول أو استطلاق بطن و انفلات ریح و رعاف دائم و جرح لا یرقأ … یتوضؤن لوقت کل فرض۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح مع المراقي والطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ‘‘ ج۱، ص:۱۴۹) ؛ ولا یصیر معذوراً حتی یستوعبہ العذر وقتا کاملاً لیس فیہ انقطاع بقدر الوضوء والصلاۃ، إذ لو وجد، لا یکون معذوراً۔ (أیضاً، ص:۱۵۰)؛ و صاحب عذر من بہ سلس … إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتھا زمنا یتوضأ و یصلّي فیہ خالیا عن الحدث۔ (ردالمحتار علی الدر المختار،’’ کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج۱،ص:۵۰۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص411

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2009/44-1965

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

الجواب وباللہ التوفیق: جو پرندے ہوا میں بیٹ نہیں کرتے جیسے مرغی، بطخ وغیرہ ان کی بیٹ نجاست غلیظہ ہے، لہٰذا مرغی اور بطخ کے علاوہ تمام حلال پرندوں کی بیٹ پاک ہے باقی تمام حرام پرندوں کی بیٹ ناپاک ہے، جو صرف ایک درہم کے بقدر معاف ہوگی۔

(ومنها) خرء بعض الطيور من الدجاج والبط وجملة الكلام فيه ان الطيور نوعان نوع لا يذرق في الهواء ونوع يذرق في الهواء (اما) ما لا يذرق في الهواء كالدجاج والبط فخرؤهما نجس  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (وما) يذرق في الهواء نوعان أيضا ما يؤكل لحمه كالحمام والعصفور والعقعق ونحوها وخرؤها طاهر عندنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وما لا يؤكل لحمه كالصقر والبازي والحدأة وأشباه ذلك خرؤها طاهر عند أبي حنيفة وأبى يوسف وعند محمد نجس نجاسة غليظة  (بدائع الصنائع 1/62، کتاب الطہارۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: اگر چوہا یا کتا کنویں میں گر کر پھول پھٹ گیا اور لوگوں کو بعد میں علم ہوا، تو ایسی صورت میںامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک تین دن تین رات پہلے تک نمازوں کا اعادہ کیا جائے گا اور صاحبینؒ کے نزدیک نہیں لوٹایا جائے گا۔ عبادت کا معاملہ ہے، احوط یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک پر عمل کیا جائے اور صاحبین رحمہما اللہ کے مسلک پر عمل نہیں ہوگا ’’وصرح في البدائع بأن قولہما قیاس، وقولہ استحسان وہو الأحوط في العبادات (وقیل بہ یفتی) قال العلامۃ قاسم في تصحیح القدوري، قال في فتاویٰ العتّابی قولہما ہو المختار، قلت لم یوافق علی ذلک فقد اعتمد قول الإمام البرھاني والسنفي والموصلي و صدر الشریعۃ و رجح دلیلہ في جمیع المصنفات۔ (۱)

(۱)ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ج۱، ص:۳۱۹ ، عبدالرزاق عن عمر قال: سألت الزھری عن فارۃ وقعت في البئر، فقال: إن أخرجت مکانھا فلا بأس، و إن ماتت فیھا نزحت، (أخرجہ ابوبکر عبدالرزاق، في مصنفہ، باب البئر تقع فیہ الدابۃ، ج۱، ص:۸۱، رقم: ۲۷۰)؛  و یحکم نجاستھا مغلظۃ من وقت الوقوع إن علم و إلا فمذ یوم و لیلۃ إن لم ینتفخ ولم یتنفح۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ،فصل في البئر، ج۱، ص:۳۷۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص473