Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو حصہ پیر کا وضو میں دھویا جاتا ہے، وہ اگر مکمل کٹا ہوا ہے تو اسے دھونا ساقط ہو جاتا ہے۔(۱)
(۱)ولو قطعت رجلہ من الکعب و بقی النصف من الکعب یفترض علیہ غسل ما بقي من الکعب أو موضع القطع، و إن کان القطع فوق الکعب أو فوق المرفق لم یجب غسل موضع القطع۔ (الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الأول فيالوضوء،‘‘ ج۱،ص:۲۰۵)؛ ولو قطعت یدہ أو رجلہ فلم یبق من المرفق والکعب شيء سقط الغسل، ولو بقي وجب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفرض الثالث، غسل الرجلین،‘‘ ج۱، ص:۵۴)؛ و لو قطعت رجلیہ و بقي بعض الکعبۃ یجب غسل البقیۃ و موضع القطع و کذا في المرفق۔ (حسام الدین بن علي، البنایۃ،’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۶۶مکتبۃ زکریا، دیوبند)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص139
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر عاقل بالغ مسلمان جس کو جنابت لاحق ہو جائے اسے
چاہئے کہ سب سے پہلے اپنے بدن پر اگر ظاہری نجاست لگی ہو، تو اسے صاف کرے، ابتداء میں غسلِ جنابت کرتے ہوئے اچھی طرح کلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے اور اگر روزہ نہ ہو تو کلی کرتے ہوئے غرغرہ بھی کرے اور ناک میں پانی ڈالتے ہوئے ناک کے بانسے (ناک کی نرم ہڈی) تک پانی کو پہونچائے اس کے بعد پورے جسم پر اس طرح پانی بہائے کہ جسم میں بال کے بقدر بھی کوئی حصہ خشک نہ رہ جائے، امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے۔
’’عن ابن عباس، عن میمونۃ زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قالت: توضأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وضوئہ للصلاۃ، غیر رجلیہ، وغسل فرجہ وما أصابہ من الأذی، ثم أفاض علیہ الماء، ثم نحی رجلیہ، فغسلہما، ہذہ غسلہ من الجنابۃ‘‘(۱)
اسلام صفائی، ستھرائی، طہارت اور پاکیزگی کو پسند کرتا ہے اور یہی انسانی فطرت بھی ہے اور اس فطرت کا اسلام نے بھر پور لحاظ رکھا ہے اسی لیے اگر کوئی شخص غسلِ جنابت میں صابن اور شیمپوکا استعمال کرتا ہے تو یہ چیزیں نظافت کے لیے اچھی ہیں؛ لیکن غسلِ جنابت کے صحیح ہونے کے لیے صابن اور شیمپوکا استعمال کرنا ضروری نہیں ہے اور اگر کوئی کپڑے سمیت ہی ان فرائض کو پورا کرلے مثلاً: کپڑے پہنے ہوئے کسی نہر وغیرہ میں چلا جائے اور اچھی طرح نجاست کو زائل کردے، تو نجاست زائل ہونے، کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے بعد ایسے شخص کا غسل ہوجائے گا، کپڑے اتار کر غسل کرنا ضروری نہیں ہے۔
جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے:
’’وہي ثلاثۃ: المضمضۃ، والاستنشاق، وغسل جمیع البدن علی ما في المتون‘‘(۲)
’’وجبت المضمضۃ والاستنشاق في الغسل‘‘(۳)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الغسل: باب الوضوء قبل الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹، رقم: ۲۴۹۔(مکتبہ نعیمیہ، دیوبند)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثاني في الغسل، الفصل الأول: في فرائضہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۔
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: فصل الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص327
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب وہ معذور ہو گیا،تو اب خواہ قطرہ وقفہ سے آئے یا جلدی جلدی آئے، ایک وضو سے ایک وقت میں جتنی چاہے فرض، سنت اور نفل وغیرہ نمازیں پڑھ سکتا ہے۔(۱)
(۱)والمستحاضۃ ومن بہ سلس البول والرعاف الدائم والجرح الذی لا یرقاء یتوضؤن لوقت کل صلوٰۃ فیصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاء وا من الفرائض والنوافل۔ (المرغینانی، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل والمستحاضہ‘‘ ج۱، ص:۶۷) ؛ وفیصلون بذلک الوضوء في الوقت ما شاء وا من الفرائض والنوافل۔ و بہ قال الأوزاعي واللیث و أحمد۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل والمستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۶۷۱) ؛ و من بہ سلس البول أو استطلاق بطن وانفلات ریح و رعاف و دائم و جرح لا یرقاء و یمکن حبسہ بحشو من غیر مشفۃ ولا بجلوس ولا بالایماء في الصلوۃ، فبھذا یتوضؤن لوقت کل فرض، لا لکل فرض ولا نفل۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۱۴۹، دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص412
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1172/42-423
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر وضو وفرض نماز کے بقدر وقت مل جاتا ہے اور وضو کرکے نماز باوضو پڑھ لیتے ہیں تو بار بار وضو کرکے نماز پڑھتے رہیں۔ البتہ اگر وضو کی حالت میں نماز پڑھنا ممکن ہی نہ ہو اور برابر وضو ٹوٹ جاتا ہو، تو پھر آپ معذور ہیں، لہذا نماز کے وقت میں وضو کرکے جب تک وقت باقی ہے جتنی چاہیں نماز پڑھ سکتے ہیں۔وقت ختم ہوگا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:حوض میں دہ در دہ ہونا اوپر سے ضروری ہے، اگر اوپر سے کم ہے، تو وہ شرعی حوض نہ ہوگا۔(۱)
(۱) و إن کان أعلی الحوض أقل من عشر في عشر و أسفلہ عشر في عشر أو أکثر، فوقعت نجاسۃ في أعلی الحوض حکم بنجاسۃ الأعلی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، ج۱،ص:۷۱)؛ ولو أعلاہ عشراً و أسفلہ أقل جاز حتی یبلغ الأقل، ولو بعکسہ فوقع فیہ نجس لم یجز حتی یبلغ العشر۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، قبیل مطلب: یطھر الحوض بمجرد الجریان، ج۱،ص:۳۴۳)، اگر کھلا ہوا پانی مقدارِ شرعی سے کم ہے، تو اس سے وضو اس وقت تک کیا جاسکتا ہے، جب تک کوئی نجاست اس میں نہ پڑے، نجاست پڑنے سے وہ حوض ناپاک ہوجائے گا (کفایت المفتی، باب ما یتعلق بأحکام الحوض،ج۳، ص:۳۹۸)؛ فإذا کان أعلی الحوض أقل من عشر في عشر و أسفلہ عشر في عشر أو أکثر ووقعت نجاسۃ في أعلی الحوض حکم بنجاسۃ الأعلی ثم انتقض الماء و انتھی إلی موضع ھو عشر في عشر۔ (المحیط البرھاني، کتاب الطہارات، الفصل الرابع في المیاہ، ج۱، ص:۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص473
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو میں مشغول آدمی کو سلام نہ کیا جائے، وضو بھی ایک عبادت اور کار ثواب ہے، جس میں مصروفیت اور خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ بعض اعضاء ایسے ہیں کہ اگر خاص توجہ نہ دی جائے، تو خشک ہی رہ جائیں گے اور وضو نہ ہوگا۔
وضو میں بعض فرائض، بعض سنن اور بعض مستحبات ہیں، اس کے آداب میں سے یہ ہے کہ عضو کو دھوتے ہوئے بسم اللہ اور کلمہ شہادت پڑھا جائے(۱) اور دوسری دعائیں بھی کتابوں میں منقول ہیں(۲)، جو ہر عضو کے لیے الگ الگ مخصوص ہیں، سلام سے ان سب چیزوں میں خلل ہونے کا قوی اندیشہ ہے؛ لہٰذا اس موقعہ پر سلام نہ کیا جائے اور اگر کوئی سلام کرے، تو اس کا جواب دینا اولیٰ اور بہتر ہے؛ لازم نہیں ہے۔(۳)
(۱)عن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من توضأ فأحسن الوضوء ثم قال : أشھد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہٗ لاشریک لہ و أشھد أن محمدا عبدہٗ و رسولہ۔ أللھم اجعلني من التوابین واجعلني من المتطھرین، فتحت لہ ثمانیۃ أبواب الجنۃ یدخل من أیھا شاء۔ (أخرجہ الترمذي، فی سننہ، ’’أبواب الطہارۃ، باب ما یقال بعد الوضوء،‘‘ ج۱،ص:۱۸، کتب خانہ نعیمیۃ دیوبند)
(۲)والدعاء بالوارد عندہ أي عند کل عضو۔ والصلاۃ والسلام علی النبي بعدہ أي بعد الوضوء۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في مباحث الاستعانۃ في الوضوء بالغیر،‘‘ ج۱،ص:۵۲-۲۵۳)
(۳) فیکرہ السلام علی مشتغل بذکر اللّٰہ تعالی بأي وجہ کان۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب: المواضع التي یکرہ فیھا السلام،‘‘ ج۲، ص:۳۷۴)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص140
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل کرتے وقت اگر زیورات کے ہلانے سے پانی اندر تک پہنچ جاتا ہے، تو انہیں ہلا لینا ہی کافی ہے، اتارنا ضروری نہیں، اسی طرح کان میں بندے ڈالنے کے لیے جو سوراخ کیا جاتا ہے جنابت کے غسل کے دوران اس میں بھی پانی پہنچانا ضروری ہے، اگر کان میں بندے؍ بالی پہنی ہوئی ہو اور پانی بہاتے ہوئے ان سوراخوں میں خود بخود پانی پہنچ جائے، تو کافی ہے، ورنہ زیور کو ہلاکر پانی پہنچانا ضروری ہوگا۔
’’وسئل نجم الدین النسفی رحمہ اللّٰہ عن امرأۃ تغتسل من الجنابۃ، ہل تتکلف لإیصال الماء إلی ثقب القرط؟ قال: إن کان القرط فیہ، وتعلم أنہ لایصل الماء إلیہ من غیر تحریک فلا بد من التحریک، کما في الخاتم، وإن لم یکن القرط فیہ، إن کان لایصل الماء إلیہ لاتکلف، وکذلک إن انضم ذلک بعد نزع القرط وصار بحیث لایدخل القرط فیہ إلا بتکلف لاتتکلف أیضاً، وإن کان بحیث لو أمرَّت الماء علیہ دخلہ، ولو عدلت لم یدخلہ أمرت الماء علیہ حتی یدخلہ، ولاتتکلف إدخال شيء فیہ سوی الماء من خشب أو نحوہ لإیصال الماء إلیہ‘‘(۱)
’’ویجب تحریک القرط والخاتم الضیقین، ولو لم یکن قرط فدخل الماء الثقب عند مرورہ أجزأہ کالسرۃ، وإلا أدخلہ کذا في فتح القدیر ولا یتکلف في إدخال شيء سوی الماء من خشب ونحوہ‘‘(۲)
’’وکان خاتمۃ ضیقاً نزعہ أو حر کہ وجوبا کقرط ولو لم یکن بثقب أذنہ قرط فلا خلا الحماء فیہ عند مرورہ علی أذنہ أجراہ کسرۃ وأذن دخلہما الماء وإلا یدخل أدخلہ ولو باصبعہ‘‘(۱)
(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارات: الفصل الثالث في تعلیم الاغتسال، نوع منہ‘‘: ج ۱، ص: ۸۰ (مکتبہ شاملہ)
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ: فرض الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص329
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً قطرہ آتا ہو، تو اس طرح قطرہ آنے سے وضو ٹوٹ جائے گا، نماز کے دوران آیا تو نماز بھی نہ ہوگی اور اتنی کم نجاست کو کپڑے پر لگائے رکھنا درست نہیں ہے، البتہ اتنی کم مقدار میں ہو تو نماز ادا ہو جائے گی، اگر یہ مرض کے درجہ میں ہو، تو وضاحت کریں کہ یہ بات کتنی کتنی دیر میں پیش آتی ہے، بہتر ہے کہ کسی عالم سے بالمشافہ صورتِ حال بتلا کر مسئلہ معلوم کرلیں۔ (۱)
(۱)روي مالک بن أنس عن نافع عن ابن عمر رضي اللہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: لا ینقض الوضوء إلا ما خرج من قبل أو دبر۔ أخرجہ الدار قطني في غرائب مالک۔ (العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء‘‘ج۱،ص:۲۵۷) ؛و قیل لرسول اللّیہ ﷺ وما الحدث؟ قال ما یخرج من السبیلین۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء‘‘ ج۱،ص:۲۲) ؛ ومنھا ما خرج من السبیلین و إن قل، سمی القبل والدبر سبیلا لکونہ طریقا للخارج، و سواء المعتاد و غیرہ کالدودۃ والحصارۃ۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل‘‘ج۱، ص:۸۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص412
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1692/43-1335
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیت الخلاء سے فراغت کے بعد مٹی سے رگڑ کر ہاتھ دھونا چاہئے تاکہ بدبو باقی نہ رہے، اور صابن وغیرہ کا بھی استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم اگر کسی نے اچھی طرح ہاتھ دھولیا کہ کوئی گندگی اور نجاست ہاتھ میں باقی نہیں رہی تومحض بدبو کا باقی رہ جانا مضر نہیں ہے۔ وضو کرکے نماز درست ہوجائے گی۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺳﻮﺩ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺷﺮﻳﻚ - ﻭﻫﺬا ﻟﻔﻈﻪ - ﺣ ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻳﻌﻨﻲ اﻟﻤﺨﺮﻣﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻭﻛﻴﻊ، ﻋﻦ ﺷﺮﻳﻚ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺟﺮﻳﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺯﺭﻋﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: «ﻛﺎﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺇﺫا ﺃﺗﻰ اﻟﺨﻼء، ﺃﺗﻴﺘﻪ ﺑﻤﺎء ﻓﻲ ﺗﻮﺭ ﺃﻭ ﺭﻛﻮﺓ ﻓﺎﺳﺘﻨﺠﻰ»، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ: ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ ﻭﻛﻴﻊ: «ﺛﻢ ﻣﺴﺢ ﻳﺪﻩ ﻋﻠﻰ اﻷﺭﺽ، ﺛﻢ ﺃﺗﻴﺘﻪ ﺑﺈﻧﺎء ﺁﺧﺮ ﻓﺘﻮﺿﺄ»، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ: ﻭﺣﺪﻳﺚ اﻷﺳﻮﺩ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺃﺗﻢ۔(سنن ابی داؤد :ﺑﺎﺏ اﻟﺮﺟﻞ ﻳﺪﻟﻚ ﻳﺪﻩ ﺑﺎﻷﺭﺽ ﺇﺫا اﺳﺘﻨﺠﻰ، رقم الحدیث : 45، ط : المکتبة العصریة)
(«ﺛﻢ ﻣﺴﺢ ﻳﺪﻩ ﻋﻠﻰ اﻷﺭﺽ» ) : ﻋﻨﺪ ﻏﺴﻠﻬﺎ ﻹﺯاﻟﺔ اﻟﺮاﺋﺤﺔ ﻭﻫﻮ ﺳﻨﺔ، ﻗﺎﻟﻪ اﺑﻦ اﻟﻤﻠﻚ، ﻭﻛﺬا اﺑﻦ ﺣﺠﺮ ( «ﺛﻢ ﺃﺗﻴﺘﻪ ﺑﺈﻧﺎء ﺁﺧﺮ، ﻓﺘﻮﺿﺄ» ) : ﺇﺗﻴﺎﻧﻪ ﺑﺈﻧﺎء ﺁﺧﺮ ﻟﻴﺲ ﻟﻌﺪﻡ ﺟﻮاﺯ اﻟﺘﻮﺿﺆ ﺑﺎﻟﻤﺎء اﻟﺒﺎﻗﻲ ﻣﻦ اﻻﺳﺘﻨﺠﺎء، ﺑﻞ ﻟﻌﺪﻡ ﺑﻘﺎء اﻟﻤﺎء اﻟﻜﺎﻓﻲ، ﻭﻓﻴﻪ ﺇﺷﺎﺭﺓ ﺇﻟﻰ اﻻﺳﺘﻘﺼﺎء ﻓﻲ اﻻﺳﺘﻨﺠﺎء ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﻔﺾ ﺇﻟﻰ اﻟﻮﺳﻮاﺱ ﻓﻲ ﺃﻣﺮ اﻟﻤﺎء (مرقاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح ج : 1، ص : 388، ط : دارالفکر)
ويطهر متنجس بنجاسة مرئية بزوال عينها ولو بمرة على الصحيح ولا يضر بقاء أثر شق زواله (نورالایضاح، فصل فی باب الانجاس والطھارۃ عنھا 1/42) ولا یضر بقاء أثر کلون وریح الخ (الدر مع الرد: 1/537، ط: زکریا، الطہارة / الأنجاس )
و) البداءة (بغسل اليدين) الطاهرتين ثلاثًا قبل الاستنجاء وبعده، وقيد الاستيقاظ اتفاقي؛ ولذا لم يقل: قبل إدخالهما الإناء؛ لئلايتوهم اختصاص السنة بوقت الحاجة؛ لأن مفاهيم الكتب حجة۔
(قوله: قبل الاستنجاء وبعده) قال في النهر: ولا خفاء أن الابتداء كما يطلق على الحقيقي يطلق على الإضافي أيضًا، وهما سنتان لا واحدة. اهـ.
وفي النهر: الأصح الذي عليه الأكثر أنه سنة مطلقًا، لكنه عند توهم النجاسة سنة مؤكدة، كما إذا نام لا عن استنجاء أو كان على بدنه نجاسة، وغير مؤكدة عند عدم توهمها، كما إذا نام إلا عن شيء من ذلك أو لم يكن مستيقظًا عن نوم اهـ ونحوه في البحر. (شامی، ج: 1، ص: 110،ط: دارالفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:کنویں میں عورت گر کر مر گئی تو کنواں بلاشبہ ناپاک ہوگیا، عورت کے گرنے کے وقت جس قدر پانی تھا، اس کے نکالنے سے کنواں پاک ہو جائے گا، یکبارگی پانی نکالنا ضروری نہیں ہے، تھوڑا تھوڑا پانی نکالنے سے کنواں پاک ہو جاتا ہے۔(۲)
(۲) و إن ماتت فیھا شاۃ أو آدمي أو کلب نزح جمیع مافیھا من الماء؛ لأن إبن عباسؓ و إبن الزبیرؓ أفتیا بنزح الماء حین مات زنجي في بئر زمزم۔ (ہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۴۳)؛ أو موت شاۃ أو موت آدمي فیھا لنزح ماء زمزم بموت زنجي۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الطہارۃ، فصل في مسائل الآبار، ص:۳۶) ؛ و إن ماتت فیھا شاۃ أو آدمی أو کلب نزح جمیع مافیھا من الماء۔ ش أي ھذا حکمھا في الموت۔ (العینی، البنایۃ شرح الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱، ص:۴۵۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص474