طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اعضاء وضو کو تین بار دھونا مسنون ہے، ایک مرتبہ دھونے سے بھی وضو درست ہوگا، اس سے نماز ادا ہو جائے گی؛ لیکن اس کو عادت نہیں بنانا چاہیے، وضو سنت طریقے پر کرنا چاہیے۔(۱)

(۱) و تثلیث الغسل المستوعب ولا عبرۃ للغرفات ولو اکتفی بمرۃ، إن اعتادہ أثم و إلا لا۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في منافع السواک،‘‘ ج۱، ص۳۹) ؛ و تکرار الغسل إلی الثلاث؛ لأن النبي علیہ الصلاۃ والسلام توضأ مرۃ، مرۃ، و قال: ھذا وضوء لا یقبل اللہ تعالیٰ الصلاۃ إلا بہ، و توضأ مرتین مرتین، و قال: ھذا وضوء من یضاعف اللّٰہ لہ الأجر مرتین، و توضأ ثلاثا ثلاثا، و قال: ھذا وضوئي و وضوء الأنبیاء من قبلي۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات،‘‘ ج۱،ص:۳۱-۳۲)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص141

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر عورت کو جنابت کے بعد غسل سے پہلے حیض آنا شروع ہوگیا تو فوری طور پر غسل کرنا اس عورت پر ضروری نہیں ہے، بلکہ جب حیض کا خون بند ہوجائے تب غسل کرے گی؛ اس لیے کہ غسل جنابت تو پاکی کے لیے ہوا کرتا ہے اور جب تک وہ عورت ایامِ حیض میں ہے پاکی کا تصور ہی نہیں ہو سکتا؛ لہٰذا عورت حیض سے پاک ہونے کے بعد دونوں کا ایک ہی غسل کرے گی، غسلِ جنابت اور حیض دونوں کا الگ الگ غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ اگر کوئی عورت حالت حیض میں ویسے ہی غسل کرنا چاہے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے؛ لیکن یہ غسل غسلِ طہارت نہیں کہلائے گا۔ فتاویٰ شامی میں ہے:
’’(و) عند (انقطاع حیض ونفاس) ہذا وما قبلہ من اضافۃ الحکم إلی الشرط: أي یجب عندہ لا بہ، بل بوجوب الصلاۃ أو إرادۃ ما لا یحل کما مر‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص330

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کبھی ایسا ہو کہ پانچ اوقات میں سے کسی ایک وقت میں مذکورہ عذر سے خالی اتنا وقت بھی نہ مل سکے کہ وضو کر کے اس وقت کے فرائض ادا کر لیے جائیں، تو مریض شرعاً معذور کہلاتا ہے، اور اگر ایسا نہ ہو، تو شرعاً وہ معذور ہی نہیں کہلاتا۔ اس اعتبار سے اگر معذور شرعی ہو، تو نماز کا وقت آجانے پر وضو کرے اور اس وقت کی نماز پڑھے، اور اسوقت میں جتنی چاہے نمازیں پڑھے، اور دوسرے وقت دوسرا وضو کرے، اور اگر معذور نہیں تو عام آدمی کی طرح وضو کر کے نماز ادا کرے عذر لاحق ہونے پر وضو ٹوٹ جائے گا۔(۲)

(۲) و حاصلہ أن طہارۃ المعذور تنتقض بخروج الوقت بالحدث السابق۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ فصل والمستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۶۸) ؛ وفسائر ذوي الأعذار في حکم المستحاضۃ، فالدلیل یشملھم و یصلون بہ أي بوضوئھم في الوقت ما شاء وا من الفرائض الخ۔ (طحطاوي،حاشیہ الطحطاوي، علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ‘‘ج۱،ص:۱۴۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص413

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اس کنویں کے پاک کرنے کی صورت یہ ہے کہ اول اس میں جو مردار جانور وغیرہ پڑے ہیں، وہ سب نکالے جائیں اور اس کا تمام پانی نکال دیا جائے، بہتر ہو اگر اس کا سارا کیچڑ بھی نکال دیا جائے، جس قدر بھی نکل سکے، پھر جو پانی اس میں آئے گا وہ پاک ہوگا، گارا نکالنا طہارت کے لیے ضروری نہیں ہے، البتہ صفائی کے لیے بہتر ہے۔(۱)

(۱) و إذا وقعت في البئر نجاسۃ نزحت، و کان نزح ما فیھا من الماء طہارۃ لھا بإجماع السلف۔ (المرغینانی، الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۴۱)؛  و مقتضاہ ما قلنا، و کان نزح ما فیھا من الماء طھارۃ لھا، إشارۃ بھذا إلی أن البئر تطھر بمجرد النزح من غیر توقف علی غسل الحیطان و نقل الأحوال (العیني، البنایۃ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱، ص:۴۳۲،۴۳۳)؛ والواقع فیھا روث أو حیوان أو قطرۃ من دم و نحوہ، و حکمھا أن تنزح البئر أي ماؤھا۔ (الطحطاوي،حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الطہارۃ، فصل في مسائل الآبار، ص۳۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص475

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:جی ہاں! از سر نووضو کرنا ضروری ہے۔(۲)

(۲)و خروج غیر نجس مثل ریح۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء، ج۱، ص:۲۶۳)؛ و المعاني الناقضۃ للوضوء کل ما یخرج من السبیلین لقولہ تعالیٰ: أو جاء أحد منکم من الغائط الخ۔ (المرغیناني، ہدایہ،’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۲۲)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص141

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:چوںکہ آپ کا نکاح ہوچکا ہے؛ اس لیے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میسیج کے ذریعہ یا فون کے ذریعہ وہ تمام باتیں کرنے کی گنجائش ہے جو شوہر وبیوی ساتھ رہ کر کرتے ہیں؛ لیکن اگر بات کرنے کی وجہ سے کپڑے پر گیلا پن محسوس ہو، اور وہ شہوت کی زیادتی کے بعد نہ ہو، تو وہ مذی ہے جس سے غسل واجب نہیں ہوتا؛ بلکہ صرف وضو واجب ہوتاہے اور اگر شہوت وجوش کے ساتھ نکلنے والی منی ہو، تو غسل واجب ہوجائے گا اور دونوں صورت میں کپڑے اور بدن کے جس حصے میں لگا ہے وہ ناپاک ہے اسے پاک کرنا ضروری ہے۔
’’المني والمذي والودي فأما المذي والودي فإنہ یغسل ذکرہ ویتوضأ وأما المني ففیہ الغسل‘‘(۱)
’’اعلم أنہ مذي أو شک أنہ مذي أو ودي أو کان ذکرہ منتشرا قبیل النوم فلا غسل وفي رد المحتار لأن برؤیۃ المني یجب الغسل کما صرح بہ في المنیۃ وغیرہا‘‘(۲)
’’عن عبد ربہ بن موسیٰ عن أمہ أنہا سالت عائشۃ عن المذي، فقالت: إن کل فحل یمذي، وإنہ المذي والودي والمني، فأما المذي فالرجل یلاعب امرأتہ فیظہر علی ذکرہ الشيء فیغسل ذکرہ وأنثییہ ویتوضأ ولا یغتسل وأما الودي فإنہ یکون بعد البول یغسل ذکرہ وأنثییہ ویتوضأ ولا یغتسل، وأما المني فإنہ الماء
الأعظم الذي منہ الشہوۃ وفیہ الغسل‘‘(۳)
(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: باب الرجل یخرج من ذکرہ المذي کیف یفعل‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۱۔
(۳) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۶۵۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص331

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر نماز کے پورے وقت میں فرض نماز پڑھنے کی مقدار پاکی باقی رہتی ہے، تو شرعاً آپ معذور نہیں ہیں۔ اس لیے وضو کے بعد اگر پیشاب کا قطرہ نکلا، تو وضو ٹوٹ جائے گا اور نیپکن بدل کر وضو کرکے نماز پڑھنا ضروری ہوگا۔ اگر نماز کے بعد پیشاب کا قطرہ دیکھا، تو نماز اور وضو دونوں لوٹانے ضروری ہوں گے۔ پہلی نیپکن ہو یا تیسری بہرحال آپ کو وضو کرکے نماز پڑھنی ہوگی۔ کیوںکہ آپ شرعاً معذور کے حکم میں نہیں ہیں؛ البتہ اگر وضو کے بعد فرض نماز پڑھنے کی مقدار بھی وضو نہیں رکتا اور قطرات مسلسل ٹپکتے رہتے ہیں، توآپ معذور شمار ہوں گے۔
نوٹ: شرعاً معذور وہ شخص ہے جس کوکوئی ایساعذر لاحق ہو کہ جس سے وہ باوضو نہ رہ سکتاہو۔ اگر ایک نماز کا کامل وقت ایساگذرگیا کہ وہ وضو کرکے نماز پڑھنے پر قادر نہیں ہوا،تو وہ شرعاً معذور ہے۔ اس کے بعد ہر نماز کے وقت میں ایک یا دو بار اس عذر کا پایا جانا ضروری ہے۔ جب ایسا وقت گذرجائے جس میں ایک یا دو بار بھی وہ عذر پیش نہ آئے تو معذور نہیں رہے گا۔
معذور کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے وقت ایک بار وضو کرے اور پورے وقت میں جتنی چاہے نمازیں پڑھے اگرچہ عذر مسلسل جاری رہے۔ اس عذر سے اس کے وضو میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔(۱)

(۱) و صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ أو استطلاق بطن أوانفلات ریح أو استحاضۃ إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ ولو حکماً۔  و ھذا شرط العذر في حق الابتداء و في حق البقاء کفی وجودہ في جزء من الوقت ولو مرۃ و في حق الزوال یشترط استیعاب الانقطاع تمام الوقت حقیقۃً۔ و حکمہ الوضوء لکل فرض، ثم یصلي فیہ فرضا و نفلاً۔(ابن عابدین، ردالمحتار مع الدر المختار، ’’باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج۱، ص:۵۰۴) ؛ والمستحاضۃ ومن بہ سلس بول أو استطلاق بطن، أو انفلات ریح أو رعاف دائم أو جرح لا یرقأ، یتوضئون لوقت کل صلاۃ، و یصلون بہ في الوقت ما شاؤوا من فرض و نفل۔ والمعذور من لا یمضي علیہ وقت صلاۃ إلا والعذر الذي ابتُلي بہ، یوجد فیہ۔ (ابراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ، فصل: المستحاضۃ‘‘ ج۱، ص:۸۴-۸۵) ؛ و حکمہ الوضوء لکل فرض، ثم یصلی فیہ فرضاً و نفلاً، فإذا خرج الوقت، بطل۔ (ابن عابدین، ردالمحتار مع الدر المختار ، ’’باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج ۱، ص:۵۰۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص414

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اس حوض کے پانی سے وضو درست ہے، اگر وہ حوض دہ در دہ ہے تو نجاست گرنے سے پانی ناپاک نہ ہوگا، وضو اس سے جائز ہوگا۔(۱)

(۱) و إن کان أعلی الحوض أقل من عشر في عشر و أسفلہ في عشر أو أکثر، فوقعت نجاست في أعلی الحوض حکم بنجاسۃ الأعلی۔ (جماعۃ من علماء الھند، الفتاویٰ الھندی، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، ج۱، ص:۷۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص476

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص نے اگر اس کے بعد مکمل وضو کر لیا، تو وضو درست ہو گیا۔(۱)

(۱)یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ(مائدہ، آیت:۶)؛  و  فرض الطہارۃ غسل الأعضاء الثلاثۃ و مسح الرأس، (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘، ج۱،ص:۱۶، مکتبۃ الاتحاد دیوبند)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص142

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دانتوں کے بیچ گوشت کے ریشے اگر پھنس جائیں، تو یہ غسل کی صحت کے لیے مانع نہیں ہے، اس حالت میں غسل درست ہو جائے گا؛ اس لیے کہ گوشت یا روٹی کے ٹکڑے سخت نہیں ہوتے۔ علامہ شامی نے دانتوں کے درمیان پھنسے ہوئے کھانے کو مانع غسل نہیں قرار دیا ہے۔
’’ولا یمنع طعام بین أسنانہ أو في سنہ المجوف: بہ یفتی۔ قال ابن عابدین: صرح بہ في الخلاصۃ وقال لأن الماء شيء لطیف یصل تحتہ غالبًا‘‘(۱)
’’ولو کان سنہ مجوفا أو بین أسنانہ طعام أو درن رطب یجزیہ لأن الماء لطیف یصل إلی کل موضع غالباً‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل، فرض الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۹۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق: ’’کتاب الطہارۃ: فرائض الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص333