Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1692/43-1335
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیت الخلاء سے فراغت کے بعد مٹی سے رگڑ کر ہاتھ دھونا چاہئے تاکہ بدبو باقی نہ رہے، اور صابن وغیرہ کا بھی استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم اگر کسی نے اچھی طرح ہاتھ دھولیا کہ کوئی گندگی اور نجاست ہاتھ میں باقی نہیں رہی تومحض بدبو کا باقی رہ جانا مضر نہیں ہے۔ وضو کرکے نماز درست ہوجائے گی۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺳﻮﺩ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺷﺮﻳﻚ - ﻭﻫﺬا ﻟﻔﻈﻪ - ﺣ ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻳﻌﻨﻲ اﻟﻤﺨﺮﻣﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻭﻛﻴﻊ، ﻋﻦ ﺷﺮﻳﻚ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺟﺮﻳﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺯﺭﻋﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: «ﻛﺎﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺇﺫا ﺃﺗﻰ اﻟﺨﻼء، ﺃﺗﻴﺘﻪ ﺑﻤﺎء ﻓﻲ ﺗﻮﺭ ﺃﻭ ﺭﻛﻮﺓ ﻓﺎﺳﺘﻨﺠﻰ»، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ: ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ ﻭﻛﻴﻊ: «ﺛﻢ ﻣﺴﺢ ﻳﺪﻩ ﻋﻠﻰ اﻷﺭﺽ، ﺛﻢ ﺃﺗﻴﺘﻪ ﺑﺈﻧﺎء ﺁﺧﺮ ﻓﺘﻮﺿﺄ»، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ: ﻭﺣﺪﻳﺚ اﻷﺳﻮﺩ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺃﺗﻢ۔(سنن ابی داؤد :ﺑﺎﺏ اﻟﺮﺟﻞ ﻳﺪﻟﻚ ﻳﺪﻩ ﺑﺎﻷﺭﺽ ﺇﺫا اﺳﺘﻨﺠﻰ، رقم الحدیث : 45، ط : المکتبة العصریة)
(«ﺛﻢ ﻣﺴﺢ ﻳﺪﻩ ﻋﻠﻰ اﻷﺭﺽ» ) : ﻋﻨﺪ ﻏﺴﻠﻬﺎ ﻹﺯاﻟﺔ اﻟﺮاﺋﺤﺔ ﻭﻫﻮ ﺳﻨﺔ، ﻗﺎﻟﻪ اﺑﻦ اﻟﻤﻠﻚ، ﻭﻛﺬا اﺑﻦ ﺣﺠﺮ ( «ﺛﻢ ﺃﺗﻴﺘﻪ ﺑﺈﻧﺎء ﺁﺧﺮ، ﻓﺘﻮﺿﺄ» ) : ﺇﺗﻴﺎﻧﻪ ﺑﺈﻧﺎء ﺁﺧﺮ ﻟﻴﺲ ﻟﻌﺪﻡ ﺟﻮاﺯ اﻟﺘﻮﺿﺆ ﺑﺎﻟﻤﺎء اﻟﺒﺎﻗﻲ ﻣﻦ اﻻﺳﺘﻨﺠﺎء، ﺑﻞ ﻟﻌﺪﻡ ﺑﻘﺎء اﻟﻤﺎء اﻟﻜﺎﻓﻲ، ﻭﻓﻴﻪ ﺇﺷﺎﺭﺓ ﺇﻟﻰ اﻻﺳﺘﻘﺼﺎء ﻓﻲ اﻻﺳﺘﻨﺠﺎء ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﻔﺾ ﺇﻟﻰ اﻟﻮﺳﻮاﺱ ﻓﻲ ﺃﻣﺮ اﻟﻤﺎء (مرقاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح ج : 1، ص : 388، ط : دارالفکر)
ويطهر متنجس بنجاسة مرئية بزوال عينها ولو بمرة على الصحيح ولا يضر بقاء أثر شق زواله (نورالایضاح، فصل فی باب الانجاس والطھارۃ عنھا 1/42) ولا یضر بقاء أثر کلون وریح الخ (الدر مع الرد: 1/537، ط: زکریا، الطہارة / الأنجاس )
و) البداءة (بغسل اليدين) الطاهرتين ثلاثًا قبل الاستنجاء وبعده، وقيد الاستيقاظ اتفاقي؛ ولذا لم يقل: قبل إدخالهما الإناء؛ لئلايتوهم اختصاص السنة بوقت الحاجة؛ لأن مفاهيم الكتب حجة۔
(قوله: قبل الاستنجاء وبعده) قال في النهر: ولا خفاء أن الابتداء كما يطلق على الحقيقي يطلق على الإضافي أيضًا، وهما سنتان لا واحدة. اهـ.
وفي النهر: الأصح الذي عليه الأكثر أنه سنة مطلقًا، لكنه عند توهم النجاسة سنة مؤكدة، كما إذا نام لا عن استنجاء أو كان على بدنه نجاسة، وغير مؤكدة عند عدم توهمها، كما إذا نام إلا عن شيء من ذلك أو لم يكن مستيقظًا عن نوم اهـ ونحوه في البحر. (شامی، ج: 1، ص: 110،ط: دارالفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:کنویں میں عورت گر کر مر گئی تو کنواں بلاشبہ ناپاک ہوگیا، عورت کے گرنے کے وقت جس قدر پانی تھا، اس کے نکالنے سے کنواں پاک ہو جائے گا، یکبارگی پانی نکالنا ضروری نہیں ہے، تھوڑا تھوڑا پانی نکالنے سے کنواں پاک ہو جاتا ہے۔(۲)
(۲) و إن ماتت فیھا شاۃ أو آدمي أو کلب نزح جمیع مافیھا من الماء؛ لأن إبن عباسؓ و إبن الزبیرؓ أفتیا بنزح الماء حین مات زنجي في بئر زمزم۔ (ہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۴۳)؛ أو موت شاۃ أو موت آدمي فیھا لنزح ماء زمزم بموت زنجي۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الطہارۃ، فصل في مسائل الآبار، ص:۳۶) ؛ و إن ماتت فیھا شاۃ أو آدمی أو کلب نزح جمیع مافیھا من الماء۔ ش أي ھذا حکمھا في الموت۔ (العینی، البنایۃ شرح الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱، ص:۴۵۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص474
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اعضاء وضو کو تین بار دھونا مسنون ہے، ایک مرتبہ دھونے سے بھی وضو درست ہوگا، اس سے نماز ادا ہو جائے گی؛ لیکن اس کو عادت نہیں بنانا چاہیے، وضو سنت طریقے پر کرنا چاہیے۔(۱)
(۱) و تثلیث الغسل المستوعب ولا عبرۃ للغرفات ولو اکتفی بمرۃ، إن اعتادہ أثم و إلا لا۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في منافع السواک،‘‘ ج۱، ص۳۹) ؛ و تکرار الغسل إلی الثلاث؛ لأن النبي علیہ الصلاۃ والسلام توضأ مرۃ، مرۃ، و قال: ھذا وضوء لا یقبل اللہ تعالیٰ الصلاۃ إلا بہ، و توضأ مرتین مرتین، و قال: ھذا وضوء من یضاعف اللّٰہ لہ الأجر مرتین، و توضأ ثلاثا ثلاثا، و قال: ھذا وضوئي و وضوء الأنبیاء من قبلي۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات،‘‘ ج۱،ص:۳۱-۳۲)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص141
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر عورت کو جنابت کے بعد غسل سے پہلے حیض آنا شروع ہوگیا تو فوری طور پر غسل کرنا اس عورت پر ضروری نہیں ہے، بلکہ جب حیض کا خون بند ہوجائے تب غسل کرے گی؛ اس لیے کہ غسل جنابت تو پاکی کے لیے ہوا کرتا ہے اور جب تک وہ عورت ایامِ حیض میں ہے پاکی کا تصور ہی نہیں ہو سکتا؛ لہٰذا عورت حیض سے پاک ہونے کے بعد دونوں کا ایک ہی غسل کرے گی، غسلِ جنابت اور حیض دونوں کا الگ الگ غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ اگر کوئی عورت حالت حیض میں ویسے ہی غسل کرنا چاہے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے؛ لیکن یہ غسل غسلِ طہارت نہیں کہلائے گا۔ فتاویٰ شامی میں ہے:
’’(و) عند (انقطاع حیض ونفاس) ہذا وما قبلہ من اضافۃ الحکم إلی الشرط: أي یجب عندہ لا بہ، بل بوجوب الصلاۃ أو إرادۃ ما لا یحل کما مر‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص330
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کبھی ایسا ہو کہ پانچ اوقات میں سے کسی ایک وقت میں مذکورہ عذر سے خالی اتنا وقت بھی نہ مل سکے کہ وضو کر کے اس وقت کے فرائض ادا کر لیے جائیں، تو مریض شرعاً معذور کہلاتا ہے، اور اگر ایسا نہ ہو، تو شرعاً وہ معذور ہی نہیں کہلاتا۔ اس اعتبار سے اگر معذور شرعی ہو، تو نماز کا وقت آجانے پر وضو کرے اور اس وقت کی نماز پڑھے، اور اسوقت میں جتنی چاہے نمازیں پڑھے، اور دوسرے وقت دوسرا وضو کرے، اور اگر معذور نہیں تو عام آدمی کی طرح وضو کر کے نماز ادا کرے عذر لاحق ہونے پر وضو ٹوٹ جائے گا۔(۲)
(۲) و حاصلہ أن طہارۃ المعذور تنتقض بخروج الوقت بالحدث السابق۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ فصل والمستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۶۸) ؛ وفسائر ذوي الأعذار في حکم المستحاضۃ، فالدلیل یشملھم و یصلون بہ أي بوضوئھم في الوقت ما شاء وا من الفرائض الخ۔ (طحطاوي،حاشیہ الطحطاوي، علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ‘‘ج۱،ص:۱۴۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص413
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:اس کنویں کے پاک کرنے کی صورت یہ ہے کہ اول اس میں جو مردار جانور وغیرہ پڑے ہیں، وہ سب نکالے جائیں اور اس کا تمام پانی نکال دیا جائے، بہتر ہو اگر اس کا سارا کیچڑ بھی نکال دیا جائے، جس قدر بھی نکل سکے، پھر جو پانی اس میں آئے گا وہ پاک ہوگا، گارا نکالنا طہارت کے لیے ضروری نہیں ہے، البتہ صفائی کے لیے بہتر ہے۔(۱)
(۱) و إذا وقعت في البئر نجاسۃ نزحت، و کان نزح ما فیھا من الماء طہارۃ لھا بإجماع السلف۔ (المرغینانی، الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۴۱)؛ و مقتضاہ ما قلنا، و کان نزح ما فیھا من الماء طھارۃ لھا، إشارۃ بھذا إلی أن البئر تطھر بمجرد النزح من غیر توقف علی غسل الحیطان و نقل الأحوال (العیني، البنایۃ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱، ص:۴۳۲،۴۳۳)؛ والواقع فیھا روث أو حیوان أو قطرۃ من دم و نحوہ، و حکمھا أن تنزح البئر أي ماؤھا۔ (الطحطاوي،حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الطہارۃ، فصل في مسائل الآبار، ص۳۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص475
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:جی ہاں! از سر نووضو کرنا ضروری ہے۔(۲)
(۲)و خروج غیر نجس مثل ریح۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء، ج۱، ص:۲۶۳)؛ و المعاني الناقضۃ للوضوء کل ما یخرج من السبیلین لقولہ تعالیٰ: أو جاء أحد منکم من الغائط الخ۔ (المرغیناني، ہدایہ،’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۲۲)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص141
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:چوںکہ آپ کا نکاح ہوچکا ہے؛ اس لیے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میسیج کے ذریعہ یا فون کے ذریعہ وہ تمام باتیں کرنے کی گنجائش ہے جو شوہر وبیوی ساتھ رہ کر کرتے ہیں؛ لیکن اگر بات کرنے کی وجہ سے کپڑے پر گیلا پن محسوس ہو، اور وہ شہوت کی زیادتی کے بعد نہ ہو، تو وہ مذی ہے جس سے غسل واجب نہیں ہوتا؛ بلکہ صرف وضو واجب ہوتاہے اور اگر شہوت وجوش کے ساتھ نکلنے والی منی ہو، تو غسل واجب ہوجائے گا اور دونوں صورت میں کپڑے اور بدن کے جس حصے میں لگا ہے وہ ناپاک ہے اسے پاک کرنا ضروری ہے۔
’’المني والمذي والودي فأما المذي والودي فإنہ یغسل ذکرہ ویتوضأ وأما المني ففیہ الغسل‘‘(۱)
’’اعلم أنہ مذي أو شک أنہ مذي أو ودي أو کان ذکرہ منتشرا قبیل النوم فلا غسل وفي رد المحتار لأن برؤیۃ المني یجب الغسل کما صرح بہ في المنیۃ وغیرہا‘‘(۲)
’’عن عبد ربہ بن موسیٰ عن أمہ أنہا سالت عائشۃ عن المذي، فقالت: إن کل فحل یمذي، وإنہ المذي والودي والمني، فأما المذي فالرجل یلاعب امرأتہ فیظہر علی ذکرہ الشيء فیغسل ذکرہ وأنثییہ ویتوضأ ولا یغتسل وأما الودي فإنہ یکون بعد البول یغسل ذکرہ وأنثییہ ویتوضأ ولا یغتسل، وأما المني فإنہ الماء
الأعظم الذي منہ الشہوۃ وفیہ الغسل‘‘(۳)
(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: باب الرجل یخرج من ذکرہ المذي کیف یفعل‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۱۔
(۳) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۶۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص331
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر نماز کے پورے وقت میں فرض نماز پڑھنے کی مقدار پاکی باقی رہتی ہے، تو شرعاً آپ معذور نہیں ہیں۔ اس لیے وضو کے بعد اگر پیشاب کا قطرہ نکلا، تو وضو ٹوٹ جائے گا اور نیپکن بدل کر وضو کرکے نماز پڑھنا ضروری ہوگا۔ اگر نماز کے بعد پیشاب کا قطرہ دیکھا، تو نماز اور وضو دونوں لوٹانے ضروری ہوں گے۔ پہلی نیپکن ہو یا تیسری بہرحال آپ کو وضو کرکے نماز پڑھنی ہوگی۔ کیوںکہ آپ شرعاً معذور کے حکم میں نہیں ہیں؛ البتہ اگر وضو کے بعد فرض نماز پڑھنے کی مقدار بھی وضو نہیں رکتا اور قطرات مسلسل ٹپکتے رہتے ہیں، توآپ معذور شمار ہوں گے۔
نوٹ: شرعاً معذور وہ شخص ہے جس کوکوئی ایساعذر لاحق ہو کہ جس سے وہ باوضو نہ رہ سکتاہو۔ اگر ایک نماز کا کامل وقت ایساگذرگیا کہ وہ وضو کرکے نماز پڑھنے پر قادر نہیں ہوا،تو وہ شرعاً معذور ہے۔ اس کے بعد ہر نماز کے وقت میں ایک یا دو بار اس عذر کا پایا جانا ضروری ہے۔ جب ایسا وقت گذرجائے جس میں ایک یا دو بار بھی وہ عذر پیش نہ آئے تو معذور نہیں رہے گا۔
معذور کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے وقت ایک بار وضو کرے اور پورے وقت میں جتنی چاہے نمازیں پڑھے اگرچہ عذر مسلسل جاری رہے۔ اس عذر سے اس کے وضو میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔(۱)
(۱) و صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ أو استطلاق بطن أوانفلات ریح أو استحاضۃ إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ ولو حکماً۔ و ھذا شرط العذر في حق الابتداء و في حق البقاء کفی وجودہ في جزء من الوقت ولو مرۃ و في حق الزوال یشترط استیعاب الانقطاع تمام الوقت حقیقۃً۔ و حکمہ الوضوء لکل فرض، ثم یصلي فیہ فرضا و نفلاً۔(ابن عابدین، ردالمحتار مع الدر المختار، ’’باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج۱، ص:۵۰۴) ؛ والمستحاضۃ ومن بہ سلس بول أو استطلاق بطن، أو انفلات ریح أو رعاف دائم أو جرح لا یرقأ، یتوضئون لوقت کل صلاۃ، و یصلون بہ في الوقت ما شاؤوا من فرض و نفل۔ والمعذور من لا یمضي علیہ وقت صلاۃ إلا والعذر الذي ابتُلي بہ، یوجد فیہ۔ (ابراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ، فصل: المستحاضۃ‘‘ ج۱، ص:۸۴-۸۵) ؛ و حکمہ الوضوء لکل فرض، ثم یصلی فیہ فرضاً و نفلاً، فإذا خرج الوقت، بطل۔ (ابن عابدین، ردالمحتار مع الدر المختار ، ’’باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج ۱، ص:۵۰۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص414
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:اس حوض کے پانی سے وضو درست ہے، اگر وہ حوض دہ در دہ ہے تو نجاست گرنے سے پانی ناپاک نہ ہوگا، وضو اس سے جائز ہوگا۔(۱)
(۱) و إن کان أعلی الحوض أقل من عشر في عشر و أسفلہ في عشر أو أکثر، فوقعت نجاست في أعلی الحوض حکم بنجاسۃ الأعلی۔ (جماعۃ من علماء الھند، الفتاویٰ الھندی، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، ج۱، ص:۷۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص476