طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پیشاب کے قطرے کااگر مرض ہو، تواس کے لیے کچھ تدابیر اختیار کرنی چاہیے (۱) ماہر ڈاکٹر یا حکیم سے رجوع کریں(۲) آپ پیشاب کے لیے ڈھیلے یا ٹیشو پیپر استعمال کریں (۳) ٹیشو پیپر کچھ دیر کے لیے سوراخ میں رکھ لیںتاکہ وہ قطرات اس میںجذب ہوجائیں پھر اسے نکال کر وضو کرکے نماز پڑھ لیں (۴) آپ نیکر استعمال کریںاور نماز کے وقت اسے نکال دیں (۵) اگر آپ چاہیںتو کوئی روئی وغیر ہ پیشاب کے سوراخ میں رکھ لیںتاکہ قطرہ اس کے اندورنی حصہ سے نکل کر باہر نہ آئے، اس لیے کہ جب تک پیشاب کا قطرہ باہر نہ آئے گا نقض وضو کا حکم نہ ہوگا۔ان تدابیر کو اختیار کریں عام حالت میںبھی اورخاص کر سفر میں تاکہ آپ بروقت نماز پڑھ سکیں؛لیکن بدن اور کپڑے پر پیشاب لگے ہونے کی حالات میں بغیر دھوئے نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں اور اگر بالکل ہی مجبوری ہو اور پیشاب ایک ہتھیلی کے پھیلائو سے کم کپڑے پر لگا ہوا ہو اور نماز پڑھ لی، تو نماز ادا ہوجائے گی تاہم اس سے بھی بچنا ہی چاہئے(۱) ’’ینقض لو حشا إحلیلہ بقطنۃ وابتل الطرف الظاہر وإن ابتل الطرف الداخل لا ینقض(۲) قلت: ومن کان بطیء الاستبراء فلیفتل نحو ورقۃ مثل الشعیرۃ ویحتشی بہا في الإحلیل فإنہا تتشرب ما بقي من أثر الرطوبۃ التي یخاف خروجہا ۔۔۔ إلی قولہ۔۔۔ وقد جرب ذلک فوجد أنفع من ربط المحل لکن الربط أولی إذا کان صائما لئلا یفسد صومہ علی قول الإمام الشافعي۔(۳)

(۱) و عفا عن قدر درھم وھو مثقال في کثیف و عرض مقعر الکف في رقیق في مغلظۃ کعذرۃ و بول غیر مأکول و لو من صغیر لم یطعم۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، قبیل في طہارۃ بولہ علیہ السلام‘‘ج۱،ص:۵۲۰)؛ وتطھیر النجاسۃ واجب من بدن المصلي و ثوبہ والمکان الذي یصلي علیہ لقولہ تعالیٰ: و ثیابک فطھر۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس و تطہیرہا‘‘ ج۱، ص:۱۹۲)
(۲) ابن عابدین، الدرالمختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب الخ‘‘ ج۱، ص:۷۸-۲۷۹
(۳)ابن عابدین،رد المحتار،’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،مطلب في الفرق بین الاستبراء الخ‘‘ ج ۱، ص:۵۵۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص415

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:پانی میں اگر پاک چیز مل کر پانی مغلوب ہو جائے اور نام پانی کا باقی نہ رہے، یا رنگ ومزا باقی نہ رہے، تو اس سے وضو کرنا جائز نہیں ہے(۲)؛ اس کی تفصیل در مختار میں ہے۔

(۲) ولا بماء مغلوب بشيء طاھر، الغلبۃ إما بکمال الإمتزاج بتشرب نبات أو بطبخ بمالا یقصد بہ التنظیف کالمرق و ماء الباقلا أی الفول فإنہ یصیر مقیدا سواء تغیر شیء من أوصافہ أولا سواء بقیت فیہ رقۃ الماء أولا في المختار کما في البحر۔،  قولہ: مالم یزل الاسم أي فإذا زال الاسم۔۔۔ قولہ: کنبیذ تمر و مثلہ الزعفران إذا خالط الماء و صار بحیث یصنع بہ فلیس بماء مطلق۔ (ابن عابدین، رد المختار علی الدر المختار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ مطلب في حدیث ’’لا تسموا الجنب الکرم‘‘، ج۱، ص۳۲۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص476

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنابت کی حالت میں بہتر یہ ہے کہ غسل کر کے سوئے اگر غسل پر طبیعت آمادہ نہ ہو، تو شرمگاہ سے نجاست صاف کرے اور وضو کر کے سو جائے، اس کی حکمت واضح ہے غسل کے ذریعہ پاکی ہو جائے گی؛ لیکن بسا اوقات رات میں غسل کرنا حرج کا باعث ہوتا ہے؛ اس لیے شریعت نے رخصت دی ہے کہ مقام نجاست کو صاف کر کے وضو کر لیا جائے، اس سے نجاست میں تخفیف ہو جائے گی، آپ Bکبھی کبھی ایسا کرتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ اگرآدمی جنابت کی حالت میں بلا وضو کے سو جائے، اور اسی حالت میں انتقال ہو جائے  تو فرشتے اس کے جنازے میں حاضر نہیں ہوتے، اس لیے ایک اہم فائدہ ہے کہ صرف وضو سے ہی فرشتوں کے دخول کے حق میں پاکی ہوگئی ’’أما غسل الفرج فلإزالۃ الأذی وأما الوضوء فلتخفیف الحدث(۱) في معجم الطبراني في جنب ینام ویموت إن الملائکۃ لا تحضر جنازتہ، وبالوضوء تندفع ہذہ المضرۃ، فہذا المعنی أوجب القول باستحبابہ (۲) عن میمونۃ بنت سعد ہل یرقد جنب؟ قال لا: أحب أن یتوضأ فإني أخشی أن یموت فلا یحضرہ جبرئیل(۳) عن عائشۃ قال: أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا أراد أن ینام وہو جنب توضأ وضوئہ للصلاۃ‘‘۔(۴)

(۱)ابن جوزی، کشف المشکل من حدیث الصحیحین: ج۴۔ ص:۳۷۳؛ و کشف المشکل من مسند أم المؤمنین، رقم:۲۵۸۳(شاملۃ)
(۲)انور شاہ الکشمیري، فیض الباري، کتاب الوضوء، باب من لم یتوضأ من لحم، الشاۃ والسویق،ج۱، ص:۴۰۵ (مکتبۃ شیخ الھند دیوبند)
(۳) أیضًا، ج۱ ، ص: ۴۵۱
(۴)ابن قتیبہ، تاویل مختلف الحدیث، قالوا: أحکام قد أجمع علیہا،ج۱، ص: ۳۵۰ (شاملۃ)

 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص142

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنبی اگر کسی عذر کی وجہ سے غسل نہ کر سکے، تو اس کے لیے اجازت ہے کہ وضو کر کے کھائے پیئے اور اگر صرف ہاتھ، منہ دھو کر کھائے، پیئے تو یہ بھی درست ہے۔
’’قال في الخلاصۃ إذا أراد الجنب أن یأکل فالمستحب لہ أن یغسل یدیہ ویتمضمض … وذکر في الحلیۃ عن أبي داؤد وغیرہ أنہ علیہ الصلوٰۃ والسلام إذا أراد أن یأکل وہو جنب غسل کفیہ، وفي روایۃ مسلم یتوضأ وضوئہ للصلوٰۃ‘‘(۱)
’’الجنب إذا أراد أن یأکل أو یشرب فالمستحب لہ أن یغسل یدیہ وفاہ‘‘(۲)
’’وإذا أراد الجنب الأکل والشرب ینبغي لہ أن یغسل یدہ وفمہ ثم یأکل ویشرب‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہار: باب الحیض، مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ہذہ الأقوال في مواضع الضرورۃ طلباً للتیسیرکان حسناً‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۹۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۹۔
(۳) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’فروع‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص334

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص چیچک کی وجہ سے وضو یا غسل پر قدرت نہیں رکھتا، تو شریعت میں وضو وغسل کا بدل موجود ہے، اس شخص کے لیے یہ درست ہے کہ وہ پاک مٹی سے تیمم کرے اور اس تیمم سے نمازیں ادا کرتا رہے۔
’’قلت: أرأیت رجلاً مریضاً أجنب وہو لا یستطیع أن یغتسل لما بہ من الجدري؟ قال: یتیمم بالصعید‘‘(۱)
’’ولنا قولہ تعالیٰ: {وَإِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی أَوْ عَلٰی سَفَرٍ أَوْجَآئَ أَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ أَوْلٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا} أباح التیمم للمریض مطلقاً من غیر فصل بین مرض ومرض إلا أن المرض الذي لا یضر معہ استعمال الماء لیس بمراد فبقي المرض الذي یضر معہ استعمال الماء مراداً بالنص‘‘(۲)

(۱) محمد بن الحسن الشیباني، الأصل، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم بالصعید‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۴۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: باب شرائط التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۱
۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص416

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: چھینٹوں کے احتمالات سے کنواں ناپاک نہیں ہوتا؛ لیکن کنویں کی بائونڈری کو اونچا کردینا چاہیے، نیز لوگوں کو کنویں کے بالکل قریب کھڑے ہوکر نہانے سے بھی احتیاط لازم ہے۔(۱)

(۱)وھو (أي الماء المستعمل) طاھر ولو من جنب وھو الظاھر (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مبحث الماء المستعمل، مطلب في تفسیر القربۃ والثواب، ج۱، ص:۳۵۲؛ و جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ج۱، ص۲۰۵)؛  وھو (أي الماء المستعمل) والجاري ھو ما یعد جار یاعرفا، و قیل ما یذھب بتبنۃ والأول أظھر والثاني أشھر۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في أن التوضي من الحوض أفضل رغماً الخ، ج۱، ص:۳۳۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص477

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگروقت میں گنجائش ہو، تو اذان ہوتے ہوئے وضو نہ بنائے؛ بعد میں بنالے اور اذان کا جواب دے۔ اگر اذان کے بعد فوراً جماعت ہونے والی ہے اور گنجائش نہیں ہے، تو اذان ہوتے ہوئے وضو بنانا درست ہے۔
قرآن پاک کی تلاوت اگر مکان میں ہو رہی ہو، تو اذان کے وقت بند کر کے اذان کا جواب دیا جائے اور اگر مسجد میں ہو تو اختیار ہے کہ تلاوت جاری رکھے یا بند کردی جائے۔(۱)
(۱)ولا ینبغي أن یتکلم السامع في خلال الأذان والإقامۃ، ولا یشغل بقراء ۃ القرآن، ولا بشيء من الأعمال سوی الإجابۃ ولو کان في القراء ۃ ینبغي أن یقطع و یشتغل بالإستماع والإجابۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلوٰۃ، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ،‘‘ ج ۱، ص:۱۱۴)؛  ولا یقرأ السامع ولا یسلم ولا یرد السلام ولا یشتغل بشيء سوی الإجابۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب الأذان،‘‘ ج ۱، ص:۴۵۰)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص143

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مقعد میں تھرما میٹر (Therma Meter) لگانے سے غسل واجب نہیں ہوتا؛ غسل کا وجوب انزال منی یا التقاء ختانین وغیرہ کی وجہ سے ہوتا ہے نہ کہ مقعد میں تھرما میٹر لگانے سے؛ البتہ ڈاکٹر کا یہ عمل ناقض وضو ہے۔ اس لیے مریض اس عمل کے بعد وضو کر کے یا وضو پر عدم قدرت کی صورت میں تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے۔
’’کذا لو أدخل أصبعہ في دبرہ ولم یغیبہا فإن غیبہا أو أد خلہا عند الاستنجاء بطل وضوئہ‘‘(۱)
’’وکل شيء غیبہ في دبرہ ثم أخرجہ أو خرج بنفسہ ینقض‘‘(۲)
’’رجل أدخل عودا في دبرہ أو قطنۃ في إحلیلہ وغیبہا ثم أخرجہا أو خرجت فعلیہ الوضوء‘‘(۳)
’’والمعاني الموجبۃ للغسل إنزال المني علیٰ وجہ الدفق والشہوۃ من الرجل والمرأۃ والتقاء الختانین من غیر إنزال والحیض والنفاس‘‘(۴)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في نواقض الوضوء، مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذہبہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۱۔
(۲) المرجع السابق:
(۳) الشیخ فرید الدین، فتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الثاني، في بیان ما یوجب الوضوء‘‘: ج۱، ص: ۲۴۰۔
(۴) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص335

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 973/41-115

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دھوبی عموما اتنا پانی استعمال کرتے ہیں کہ  جس سے کپڑے پاک ہوجاتے ہیں۔ اس لئے شبہ  کی کوئی بات نہیں۔  تاہم اگر  کوئی تردد ہو تو دھوبی کو کہہ دیا جائے   کہ پاکی کا خیال رکھے اور آخر میں بالکل صاف  پانی سے کپڑے کو نکالے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2335/44-3496

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ گیا اس لئے  ہوا خارج ہونے سے پہلے جو اعضاء دھوچکا تھا ان کو دوبارہ دھوئے یعنی از سر نو وضو کرے۔

الفقه على المذاهب الأربعة (1/ 49):

’’ومنها: أن لا يوجد من المتوضئ ما ينافي الوضوء مثل أن يصدر منه ناقض للوضوء في أثناء الوضوء. فلو غسل وجهه ويديه مثلاً ثم أحدث فإنه يجب عليه أن يبدأ الوضوء من أوله. إلا إذا كان من أصحاب الأعذار‘‘. 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند