طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:دونوں قسم کے نلوں کا پانی استعمال کرنا اور اس سے وضو وغسل کرنا شرعاً جائز ہے(۱) اور پانی کا جب تک ناپاک ہونے کا یقین نہ ہو اس کو پاک سمجھا جائے گا۔(۲)

(۱) عن أبي سعید الخدريؓ قال: قیل یارسول اللّٰہ ﷺ أنتوضأ من بئر بضاعۃ؟ فقال رسول اللّٰہ ﷺ: إن الماء طھور لا ینجسہ شيء۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، کتاب الطہارۃ، باب ما جاء أن الماء لاینجسہ شيء، ج۱، ص:۲۱، رقم :۶۶)
(۲) الیقین لا یرفع بالشک (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ج۱، ص۱۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص477

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر وہ اس طرح پیوست کر دیا گیا ہے کہ نکالا اور ہلایا ہی نہیں جا سکتا، تو وضو اور غسل صحیح ہو جاتا ہے۔ نیز اس کی امامت بھی درست ہے۔(۲)

(۲)ولا یجب غسل ما فیہ حرج کعین و ثقب انضم و داخل قلفۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل،‘‘ ج۱،ص:۲۸۶)؛ ولو کان سنہ مجوفاً فبقي فیہ أو بین أسنانہ طعام أو درن رطب في أنفہ، ثم غسلہ علی الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الثانی في الغسل،‘‘ج۱، ص:۶۴)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص144

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس صورت میں محض ہاتھ لگنے سے یا چھونے سے چاہے چھونا شہوت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، وضو نہیں ٹوٹتا ہے؛ اس لیے کہ خروج نجاست ناقض وضو ہے جب کہ یہاں پر کسی چیز کا خروج نہیں ہوا ہے، ہاں اگر چھونے کی وجہ سے مذی وغیرہ کا خروج ہوجائے، تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
’’المعاني الناقضۃ للوضوء کل ما یخرج من السبیلین‘‘(۱)
’’ینقضہ خروج نجس منہ أي ینقض الوضوء خروج نجس من  المتوضي‘‘(۲)
’’لا ینقض الوضوء مس الذکر وکذا مس الدبر والفرج مطلقاً وکذا مس بشرۃ المرأۃ لا ینقض الوضوء مطلقاً سواء کان بشہوۃ أو لا‘‘(۳)

(۱) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۔
(۳) أیضًا:  ج ۱، ص: ۸۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص246

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اصولی طور پر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ منی کے نکلنے سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور منی کا خروج شہوت کے ساتھ اچھل کر ہوتا ہے عام طورپر پیشاب کے بعد جو لیس دار مادہ نکلتا ہے، اس کی کیفیت منی کی طرح نہیں ہوتی، اسے وَدِی کہتے ہیں، اس کے نکلنے سے صرف وضو ٹوٹتا ہے، غسل واجب نہیں ہوتا۔ اسی طرح بیوی سے ملاعبت کرنے یا شہوت انگیز چیز دیکھنے سے جو مادہ لیس دار نکلتا ہے اسے مذی کہتے ہیں، اس کے نکلنے سے بھی غسل واجب نہیں ہوتا صرف وضو ٹوٹتا ہے۔اور اگر وہ واقعتا منی کا ہی قطرہ ہے، تو جو منی بلا شہوت اور بلا دفق کے نکلے اس کے نکلنے سے بھی غسل واجب نہیںہوتاہے؛ اس لیے کہ وہ منی موجب غسل ہے جو شہوت کے ساتھ اچھل کر نکلے جو یہاں پر مفقود ہے۔
’’المني والمذي والودي فأما المذي والودي فإنہ یغسل ذکرہ ویتوضأ وأما
المني ففیہ الغسل‘‘(۱)
’’اعلم أنہ مذي أو شک أنہ مذي أو ودي أو کان ذکرہ منتشرا قبیل النوم فلا غسل وفي رد المحتار لأن برؤیۃ المني یجب الغسل کما صرح بہ في المنیۃ وغیرہا‘‘(۲)
’’عن عبد ربہ بن موسیٰ عن أمہ أنہا سالت عائشۃ عن المذي، فقالت: إن کل فحل یمذي، وإنہ المذي والودي والمني، فأما المذي فالرجل یلاعب امرأتہ فیظہر علی ذکرہ الشيء فیغسل ذکرہ وأنثییہ ویتوضأ ولا یغتسل وأما الودي فإنہ یکون بعد البول یغسل ذکرہ وأنثییہ ویتوضأ ولا یغتسل، وأما المني فإنہ الماء الأعظم الذي منہ الشہوۃ وفیہ الغسل‘‘(۳)
’’المجامع إذا اغتسل قبل أن یبول أو ینام ثم سال منہ بقیۃ المني من غیر شہوۃ یعید الاغتسال عندہما خلافا لہ فلو خرج بقیۃ المنی بعد البول أو النوم أو المشي لا یجب الغسل إجماعا؛ لأنہ مذي ولیس بمني؛ لأن البول والنوم والمشي یقطع مادۃ الشہوۃ‘‘(۱)
’’رجل بال فخرج من ذکرہ مني إن کان منتشرا فعلیہ الغسل وإن کان منکسرا علیہ الوضوء‘‘(۲)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: باب الرجل یخرج من ذکرہ المذي کیف یغسل‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۱۔
(۳) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۶۵۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: موجبات الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث في المعاني الموجبۃ للغسل، السبب الأول خروج المني‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص336

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2334/44-3497

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوا خارج ہونے کے بعد اگر اعضاء وضو پر پانی بہایا تو وضو ہوگیا،  اور پورے بدن پر پانی بہایا تھا تو غسل  بھی ہوگیا۔ ہوا خارج ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتاہے، اس لئے غسل یا وضو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔

الفقه على المذاهب الأربعة (1/ 49):

’’ومنها: أن لا يوجد من المتوضئ ما ينافي الوضوء مثل أن يصدر منه ناقض للوضوء في أثناء الوضوء. فلو غسل وجهه ويديه مثلاً ثم أحدث فإنه يجب عليه أن يبدأ الوضوء من أوله. إلا إذا كان من أصحاب الأعذار

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ کنویں کا پورا پانی نکال کر کنواں پاک کیا جائے۔(۳)

(۳)فإن انتفخ الحیوان فیھا أو تفسخ نزح جمیع مافیھا صغر الحیوان أو کبر (العینی، البنایہ، فصل في البئر، ج۱، ص:۴۵۷)؛ و تنزح (البئر) و بانتفاخ حیوان ولو کان صغیرا لانتشار النجاسۃ۔(الطحطاوی، حاشیۃ الطحطاوی، فصل في مسائل الآبار، ج۱، ص:۳۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص478

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک وضو سے متعدد نمازیں پڑھنا درست ہے، ہر نماز کے لیے علاحدہ وضو ضروری نہیں۔ ’’رویٰ أحمد بإسناد حسن مرفوعاً لو لا أن أشق علی أمتي لأمر تہم عند کل صلوۃ بوضوء، یعني ولو کانوا غیر محدثین‘‘(۱)۔ صورت مسئولہ میں نماز جنازہ کے لیے جو وضو بنایا گیا ہے، وہ بھی مکمل وضو ہے اور وہ ایسی عبادت کے لیے ہے، جو وضو کے بغیر درست نہیں۔ نیز نماز جنازہ سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ اس لیے ایسے وضو سے دوسری نمازیں پڑھنا درست ہے۔(۲)

(۱)ابن عابدین، رد المحتار،  ’’کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء أربعۃ،‘‘ج۱، ص:۲۰۳
(۲) وعن بریدۃ أن النبي ﷺ صلی الصلوات یوم الفتح بوضوء واحد، و مسح علی خفیہ، فقال لہ عمر: لقد صنعت الیوم لم تکن تصنعہ، فقال عمدا صنعتہ یا عمر! (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب ما یوجب الوضوء،‘‘ ج۲، ص:۳۱، مکتبۃ فیصل دیوبند)

 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص145

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بیوی کو برہنہ دیکھنے کی شرعا گنجائش ہے؛ لیکن بیوی کے علاوہ کسی مرد یا اجنبی عورت کو قصدا برہنہ دیکھنا باعث گناہ ہے۔ تاہم بیوی یاکسی کو بھی برہنہ دیکھنے یا چھونے سے اگر مذی خارج نہ ہو، تو وضو نہیں ٹوٹتااور اگر دیکھنے کی وجہ سے مذی کا خروج ہو، تو وضو ٹوٹ جائے گا؛ اس لیے کہ وضو کے ٹوٹنے کا مدار نجاست کے خروج پر ہے۔ کشف عورت یعنی ستر کھلنا یا دیکھنا نواقض وضو میں سے نہیں ہے، اس مسئلہ میں بیوی یا اجنبی عورت کے برہنہ جسم کو دیکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے؛ بلکہ وضو کے ٹوٹنے نہ ٹوٹنے کا تعلق خروج مذی کے ساتھ ہے۔
’’فصل في نواقض الوضوء: المعاني الناقضۃ للوضوء کل کا یخرج من السبیلین‘‘(۱)
’’ینقضہ خروج نجس منہ أي ینقض الوضوء خروج نجس من  المتوضي‘‘(۲)

(۱)  المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
(۲)   ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص247

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں ایسے شخص پر غسل واجب ہے؛ کیونکہ وجوب غسل کے لیے دفق شرط نہیں ہے؛ بلکہ منی کا اپنے مقام سے شہوت کے ساتھ جدا ہونا کافی ہے؛ اس لیے بغیر غسل کئے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔

’’وفرض الغسل عند خروج مني منفصل عن مقرہ بشہوۃ أي لذۃ ولو حکماً کمحتلم ولم یذکر الدفق لیشمل منی المرأۃ ولأنہ لیس بشرط عند ہما خلافاً للثاني‘‘(۱)
’’أما عندہما لا یستقیم لأنہما لم یجعلا الدفق شرطاً بل تکفی الشہوۃ حتی قالا بوجوبہ إذا زایل المني من مکانہ بشہوۃ وإن خرج بلا دفق‘‘(۲)
’’ومتی کانت مفارقتہ عن مکانہ عن شہوۃ وخروجہ لا عن شہوۃ فعلی قول أبي حنیفۃ ومحمد: یجب الغسل وعلی قول أبي یوسف: لا یجب فالعبرۃ عند أبي
 حنیفۃ ومحمد لانفصال المني عن مکانہ علی وجہ الدفق والشہوۃ لا لظہورہ علیٰ وجہ الشہوۃ وعند أبي یوسف العبرۃ لخروجہ ولظہورہ علیٰ وجہ الشہوۃ‘‘(۳)
’’إنزال المني علیٰ وجہ الدفق والشہوۃ قیل ہذا اللفظ بإطلاقہ یستقیم علی قول أبي یوسف لاشتراطہ الدفق والشہوۃ حال الخروج ولا یستقیم علی قولہما لأنہما ما اشترطا الدفق عند الخروج حتی قالا یجب الغسل إذا زایل المني عن مکانہ بشہوۃ وإن خرج بغیر دفق‘‘(۴)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۵، ۲۹۷۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱۔
(۳) عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الثالث في الغسل، بیان أسباب الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۲۔
(۴) ابن الہمام، کفایۃ مع فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۶۵۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص337

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 40/1062

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیرمعتاد ہ  کے لئےحیض کی اکثر مدت دس دن ہے۔  لہذا صورت مسئولہ میں دس دن مکمل ہونے سے پہلے جب بھی خون دیکھے گی وہ حیض میں شمار ہوگا۔  نویں دن غسل کرنے کے بعدجو خون دیکھا وہ  حیض ہے ابھی نماز نہ پڑھے۔ 

۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند