طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 975/41-113

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے جو پڑھا وہ ٹھیک پڑھا، جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ  انزال ہو یا نہ ہو۔ ناپاکی کی حالت میں اب تک جو نمازیں پڑھی گئیں سب واجب الاعادہ ہیں۔ اندازہ کرکے تمام نمازیں لوٹانی لازم ہیں۔  فرائض و واجبات  کو کسی عالم سے سمجھ لینا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ علوم دینیہ سے اس قدر بیزاری افسوسناک ہے۔ اللہ صحیح فہم عطاکرے۔

  وخرجه الإمام أحمد، عَن عفان، عَن همام وأبان، عَن قتادة، ولفظ حديثه: ((إذا جلس بين شعبها الأربع، فأجهد نفسه، فَقد وجب الغسل، أنزل أو لم ينزل)) . (فتح الباری لابن رجب 1/367)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: اگر تحریر سوال صحیح ہے، تو مذکورہ کنویں کا پانی اور کنواں بھی ناپاک ہے۔(۱)

(۱) و عن أبي أمامۃ الباھلي قال : قال رسول اللّٰہ ﷺ :إن الماء (طہور) لا ینجسہ شيء إلا ما غلب علی ریحہ و طعمہ و لونہ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، أبواب الطہارۃ و سننہا، باب الحیض، ج۱، ص:۳۹،رقم: ۵۲۱؛ و العینی، البنایہ ، کتاب الطہارۃ،باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز بہ، ج۱، ص۳۵۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص479

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو عبادت غیر مقصودہ ہے اور عبادات غیر مقصودہ میں نیت شرط نہیں؛ لہٰذا وضو بغیر نیت کے بھی درست ہے، اس سے نماز پڑھنا صحیح ہے؛ البتہ اس پر ثواب مرتب نہیں ہوتا، حصول ثواب کے لیے وضو میں نیت کا پایا جانا ضروری ہے۔(۱)

(۱)و بیانہ أن الصلوٰۃ تصح عندنا بالوضوء، ولو لم یکن منویا بخلاف التیمم۔ و إنما تسن النیۃ في الوضوء لیکون عبادۃ فإنہ بدونھا لا یسمی عبادۃ ماموراً بھا: کما یأتي و إن صحت بہ الصلوٰۃ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ مطلب الفرق بین الطاعۃ والقربۃ،‘‘ج۱، ص:۲۲۳)، فالنیۃ في الوضوء سنۃ۔(ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۳۳)؛ و یستحب للمتوضی أن ینوي الطھارۃ فالنیۃ في الوضوء سنۃ عندنا و عند الشافعي فرض (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۲۰)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص146

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کھجلی کے دانوں سے نکلنے والے پانی سے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر وہ پانی اتنا ہو کہ اپنی جگہ سے نکل کر بہہ جائے، تو ناقض وضو ہے ورنہ نہیں، جیسا کہ شامی میں ہے:
’’بخلاف نحو الدم والقیح ولذا أطلقوا في الخارج من غیر السبیلین کالدم والقیح والصدید أنہ ینقض الوضوء ولم یشترطوا سوی التجاوز إلی موضع یحلقہ حکم التطہیر‘‘(۱)
البحر الرائق میں ہے:
’’والمعاني الناقضۃ للوضوء کل ما خرج من السبیلین والدم والقیح إذا خرجا من بدن فتجاوز إلی موضع یلحقہ حکم التطہیر‘‘(۲)

(۱)  ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذہبہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۹۔
(۲)   المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص248

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کان پر پانی کی دھار ڈال لینا کافی ہے اور احتیاطا کانوں کے سوراخ والے حصہ کو مَل لیا جائے، تو بہتر ہے۔
’’ولو لم یکن لہ بثقب أذنہ قرط فدخل الماء فیہ أي الثقب عند مرورہ علی أذنہ أجزأہ کسرۃ وأذن دخلہما الماء وإلا یدخل أدخلہ ولو باصبعہ ولا یتکلف بخشب ونحوہ والمعتبر غلبۃ ظنہ بالوصول … ولا یتکلف أي بعد الإمرار‘‘(۱)
’’ویجب تحریک القرط والخاتم الضیقین ولو لم یکن قرط فدخل الماء الثقب عند مرورہ أجزأہ کالسرۃ وإلا أدخلہ کذا في فتح القدیر ولا یتکلف في إدخال شيء سوی الماء من خشب ونحوہ کذا في شرح الوقایۃ‘‘(۲)


(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب: في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۹۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص320

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2423/44-3656

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جس جگہ سے پیشاب خانہ کی نالی شروع ہوتی ہے وہاں سے اس نالی کا پانی ناپاک شمار ہوگا، اس کی چھینٹیں ناپاک ہوں گی۔ لیکن جو وضوخانہ کی نالی ہے اس میں پاک پانی ہونا غالب گمان ہے اس وجہ سے اس کی چھینٹیں پاک شمار ہوں گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر بچہ مر گیا پھر اس کو نکالا گیا،تو دو سو ڈول پانی نکالا جائے اور اگر زندہ نکل آیا، تو کنواں پاک ہے۔ اگر اس کے بدن کو کوئی نجاست نہ لگی ہو۔(۲)

(۲) ولا ینجس الماء بوقوع آدمي، ولا بوقوع مایؤکل لحمہ کالإبل والبقر والغنم إذا خرج حیا ولم یکن علی بدنہ نجاسۃ۔ (الطحطاوی، حاشیۃ الطحطاوی، کتاب الطہارۃ، فصل في مسائل الآبار،ج۱،ص:۴۱)؛ و کل حیوان سوی الخنزیر والکلب علی ما ذکرہ۔ إذا خرج حیا، من البئر بعد الوقوع والحال أنہ قد أصاب الماء فمہ فأنہ ینظر إن کان سؤرہ طاھراً ولم یعلم أن علیہ نجاسۃ لا ینجس الماء۔ (إبراھیم بن محمد الحلبي، الحلبي الکبیر، فصل في البئر، ص۱۳۹)؛ و إن کان آدمیا و خرج حیا ولم یکن ببدنہ نجاسۃ حقیقیۃ أو حکمیۃ لا ینزح في ظاھر الروایۃ۔ (العینی، البنایۃ۔ کتاب الطہارۃ، فصل في البئر،ج۱، ص۴۵۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص479

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ غسل خانہ یا واش بیسن پر وضو کرتے وقت دعائیہ کلمات پڑھنا درست ہیں؛ لیکن لیٹرین صاف رکھنے کا اہتمام ضرور ی ہے۔(۲)

(۲) و یستحب أن لا یتکلم بکلام مطلقا أما کلام الناس فلکراھتہ حال الکشف، و أما الدعاء فلأنہ في مصب المستعمل و محل الأقذار والأوحال۔ أقول: قد عد التسمیۃ من سنن الغسل فیشکل علی ما ذکرہ تأمل۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب سنن الغسل،‘‘ ج۱،ص:۲۹۱)؛ و في ’’قاضی خان‘‘ : أنہ یکرہ قراء ۃ القرآن عند الجنازۃ قبل الغسل و حوالی النجاسۃ ولیس ھکذا في الحائض، فإن نجاستھا مستورۃ تحت الثیاب۔ (أنور شاہ الکشمیري، فیض الباري، ’’کتاب الحیض، باب قراء ۃ الرجل، في حجر إمرأتہ وھی حائض،‘‘ ج۱،ص:۴۸۸)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص146

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:میوزک سننا یا ٹی وی دیکھنا باعث گناہ ہے؛ لیکن اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس لیے کہ خروج نجاست ناقض وضو ہے، کسی چیز کا دیکھنا یا سننا یہ ناقض وضو نہیں ہے، اسی وضو سے نماز پڑھ لی یا تلاوت کی تو نماز درست ہو جائے گی اور تلاوت کا ثواب بھی ملے گا؛ البتہ علماء نے بعض صورتوں میں وضو کو مستحب قرار دیا ہے مثلاً گالی دینے یا غیبت کرنے کے بعد وضو کرنا مستحب ہے؛ اس لیے اگر میوزک سننے پا ٹی وی دیکھنے کا گناہ سرزد ہو جائے، تو وضو کرنا مستحب ہے۔
’’ومندوب في نیف وثلاثین موضعاً، ذکرتہا في الخزائن: منہا بعد کذب، وغیبۃ، وقہقہۃ، وشعر، وأکل جزور، وبعد کل خطیئۃ، وللخروج من خلاف العلماء‘‘(۱)
’’وعن نافع رحمہ اللّٰہ قال: کنت مع ابن عمر في طریق فسمع مزماراً فوضع أصبعیہ في أذنیہ، وناء عن الطریق إلی الجانب الآخر، ثم قال لي بعد أن بعد: یا نافع ہل تسمع شیئاً؟ قلت: لا، فرفع أصبعیہ عن أذنیہ قال: کنت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسمع صوت یراع، فصنع مثل ما صنعت۔ قال نافع: فکنت إذ ذاک صغیراً، رواہ أحمد وأبو داود‘‘(۲)
’’وبعد کل خطیئۃ وإنشاد شعر قبیح لأن الوضوء یکفر الذنوب الصغائر‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، تنبیہ‘‘: ج ۱، ص: ۸۹۔
(۲) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الأدب: باب کراہیۃ الغناء والزمر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۱، رقم: ۴۹۲۴۔
(۳) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في أوصاف الوضوء‘‘: ج۱ ،ص: ۸۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص249

طہارت / وضو و غسل

الجواب و باللّٰہ التوفیق:حیض کے ایام پورے ہونے کے بعد کپڑے تبدیل کر کے نیم غسل یا تیمم کر کے نمازیں ادا کر لینی چاہئے تھیں، ایسی عورت کو چاہئے کہ پٹی کی جگہ کے علاوہ تمام بدن کو کپڑا تر کر کے اچھی طرح پونچھ لے کہ اعضاء پرپانی بہنے جیسے ہو جائے اور پٹی کی جگہ پر مسح کر لے اور اگر اس طرح پونچھنے پر تکلیف ہو تو تیمم کر لینا چاہئے؛ لیکن نمازوں کو قضا نہیں کرنا چاہئے
تھا اس پر استغفار کریں۔
’’وإذا زادت الجبیرۃ علی نفس الجراحۃ فإن ضرہ الحل والمسح مسح علی الکل تبعاً مع القرحۃ وإن لم یضرہ غسل ما حولہا ومسحہا نفسہا وإن ضرہ المسح لا الحل یمسح علی الخرقۃ التي علی رأس الجرح ویغسل ما حولہا تحت الخرقۃ الزائدۃ إذا الثابت بالضرورۃ یتقدر بقدرہا‘‘(۱)
’’ومن عجز عن استعمال الماء لبعدہ میلاً أو لمرض یشتد أو یمتد بغلبۃ ظن أو قول حاذق مسلم ولو بتحرک‘‘(۲)
(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۱۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۵ - ۳۹۷۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص340