طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:میوزک سننا یا ٹی وی دیکھنا باعث گناہ ہے؛ لیکن اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس لیے کہ خروج نجاست ناقض وضو ہے، کسی چیز کا دیکھنا یا سننا یہ ناقض وضو نہیں ہے، اسی وضو سے نماز پڑھ لی یا تلاوت کی تو نماز درست ہو جائے گی اور تلاوت کا ثواب بھی ملے گا؛ البتہ علماء نے بعض صورتوں میں وضو کو مستحب قرار دیا ہے مثلاً گالی دینے یا غیبت کرنے کے بعد وضو کرنا مستحب ہے؛ اس لیے اگر میوزک سننے پا ٹی وی دیکھنے کا گناہ سرزد ہو جائے، تو وضو کرنا مستحب ہے۔
’’ومندوب في نیف وثلاثین موضعاً، ذکرتہا في الخزائن: منہا بعد کذب، وغیبۃ، وقہقہۃ، وشعر، وأکل جزور، وبعد کل خطیئۃ، وللخروج من خلاف العلماء‘‘(۱)
’’وعن نافع رحمہ اللّٰہ قال: کنت مع ابن عمر في طریق فسمع مزماراً فوضع أصبعیہ في أذنیہ، وناء عن الطریق إلی الجانب الآخر، ثم قال لي بعد أن بعد: یا نافع ہل تسمع شیئاً؟ قلت: لا، فرفع أصبعیہ عن أذنیہ قال: کنت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسمع صوت یراع، فصنع مثل ما صنعت۔ قال نافع: فکنت إذ ذاک صغیراً، رواہ أحمد وأبو داود‘‘(۲)
’’وبعد کل خطیئۃ وإنشاد شعر قبیح لأن الوضوء یکفر الذنوب الصغائر‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، تنبیہ‘‘: ج ۱، ص: ۸۹۔
(۲) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الأدب: باب کراہیۃ الغناء والزمر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۱، رقم: ۴۹۲۴۔
(۳) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في أوصاف الوضوء‘‘: ج۱ ،ص: ۸۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص249

طہارت / وضو و غسل

الجواب و باللّٰہ التوفیق:حیض کے ایام پورے ہونے کے بعد کپڑے تبدیل کر کے نیم غسل یا تیمم کر کے نمازیں ادا کر لینی چاہئے تھیں، ایسی عورت کو چاہئے کہ پٹی کی جگہ کے علاوہ تمام بدن کو کپڑا تر کر کے اچھی طرح پونچھ لے کہ اعضاء پرپانی بہنے جیسے ہو جائے اور پٹی کی جگہ پر مسح کر لے اور اگر اس طرح پونچھنے پر تکلیف ہو تو تیمم کر لینا چاہئے؛ لیکن نمازوں کو قضا نہیں کرنا چاہئے
تھا اس پر استغفار کریں۔
’’وإذا زادت الجبیرۃ علی نفس الجراحۃ فإن ضرہ الحل والمسح مسح علی الکل تبعاً مع القرحۃ وإن لم یضرہ غسل ما حولہا ومسحہا نفسہا وإن ضرہ المسح لا الحل یمسح علی الخرقۃ التي علی رأس الجرح ویغسل ما حولہا تحت الخرقۃ الزائدۃ إذا الثابت بالضرورۃ یتقدر بقدرہا‘‘(۱)
’’ومن عجز عن استعمال الماء لبعدہ میلاً أو لمرض یشتد أو یمتد بغلبۃ ظن أو قول حاذق مسلم ولو بتحرک‘‘(۲)
(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۱۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۵ - ۳۹۷۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص340

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:جب کوئی اور نجاست مرغی کے اوپر ظاہر نہ ہو، تو چالیس سے پچاس ڈول تک نکالنے سے کنواں پاک ہو جائے گا۔(۱)

(۱) و إذا وقعت فیھا دجاجۃ أو سنور نزح منھا أربعون (النتف في الفتاویٰ،مطلب في السؤر۔ص:۱۰)؛ دجاجۃ وقعت في بئر فماتت قال: ینزح منھا قدر أربعین دلواً أو خمسین دلوا ثم یتوضأ منھا۔ (اللباب في الجمع بین السنۃ۔ باب إذا وقع في البئر حیوان،ج۱، ص:۹۲)؛ و قال في الدجاجۃ: إذا ماتت في البئر نزح منھا أربعون دلوا و ھذا لبیان الإیجاب۔ والخمسون بطریق الاستحباب۔(ابن الھمام، فتح القدیر، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۱۰۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص480

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آج کل جو بالوں کو مختلف رنگوں سے رنگا اور خضاب لگایا جاتا ہے، وہ دو طرح کا ہوتا ہے ایک یہ کہ وہ خضاب ذی جرم ہوتا ہے، جس کی پرتیں ہوتی ہیں جو بالوں پر جم جاتی ہیں اور پانی کے بالوں تک پہنچنے میں مانع (رکاوٹ)ہے؛ ایسے خضاب پر نہ تو مسح درست ہوگا اور نہ ہی غسل صحیح ہوگا۔

دوسری قسم کا خضاب جوصرف رنگ ہوتا ہے، اس میں کوئی جرم نہیں ہوتا جیسے کہ مہندی لگانے کے بعد بالوں کا رنگ بدل جاتا ہے؛ لیکن اس کی وجہ سے بالوں پر کوئی پرت نہیں جمتی ہے، اس صورت میں وضو اور غسل درست ہوگا۔(۱)

(۱)إن کان ممضوغاً مضغاً متأکداً، بحیث تداخلت أجزاء ہ و صار لزوجۃ و علاکۃ کالعجین۔ شرح المنیۃ۔  قولہ: وھو الأصح صرح بہ في شرح المنیۃ و قال: لإمتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورۃ والحرج۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ج۱، ص:۲۸۹)؛ والخضاب إذا تجسد و یبس یمنع تمام الوضوء والغسل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء والفرض الثاني، غسل الیدین،‘‘ج۱،ص۵۴)؛ أو کان فیہ یعني المحل المفروض غلسہ ’’ما‘‘ أي شيء ’’یمنع الماء‘‘ أن یصل إلی الجسد کعجین و شمع و رمص بخارج العین بتغمیضھا ’’وجب‘‘ أي افترض ’’غسل ماتحتہ‘‘ بعد إزالۃ المانع۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في تمام أحکام الوضوء،‘‘ ج۱،ص:۶۳)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص147

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مذکورہ میں آپ کا وضو ٹوٹ جائے گا کیوں کہ پائپ نجاست کے مقام میں داخل ہوتا ہے جس سے پائپ پر کچھ نجاست لگ ہی جاتی ہے اور سبیلین سے ذرا سی بھی نجاست کا نکلنا ناقض وضو ہے۔
عالمگیری میں ہے:
’’إذا خرج دبرہ إن عالجہ بیدہ أو بخرقۃ حتی أدخلہ تنتقض طہارتہ لأنہ یلتزق بیدہ شيء من النجاسۃ‘‘(۱)
اسی طرح البحر الرائق میں ہے:
’’وفي التوشیع: باسوري خرج من دبرہ فإن عالجہ بیدہ أو بخرقۃ حتی أدخلہ تنتقض طہارتہ لأنہ یلتزق بیدہ شيء من النجاسۃ‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الخامس في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص250

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپریشن میں جو خون نکلتا ہے اس سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ وضو کر لینا کافی ہے آپریشن کوئی بھی ہو اس سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الوضوء من کل دم سائل‘‘(۱)
’’و (ینقض الوضوء) الدم والقیح إذا خرجا من البدن فتجاوزا إلی موضع یلحقہ حکم التطہیر‘‘(۲)

(۱)  أخرجہ الدار قطني، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب في الوضوء من الخارج‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۷۔(بیروت: دارابن حزم، لبنان)
(۲)  المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص341

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ صورت میں مسجد کے کنویں کا پانی ناپاک نہیں ہوگا، کیونکہ یہ بات بالاتفاق ثابت ہے کہ ایک کنویں کے پانی کے ناپاک ہونے سے دوسرے کنویں کا  پانی ناپاک نہیں ہوتا، جب کہ اس کی کوئی تحدید بھی نہیں ہے، اس لیے اس سے وضو وغیرہ درست ہے، تاہم احتیاط کی جائے اور جو کنواں ہمیشہ ناپاک رہتا ہے اسے پاک رکھنے کی کوشش کی جائے تاکہ طبعی کراہت نہ ہو۔(۱)

(۱) بئر الماء إذا کانت بقرب البئر النجسۃ فھي طاھرۃ مالم یغیر طعمہ أو لونہ أو ریحہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الأول في ما یجوز بہ التوضؤ، النوع الثالث: ماء الآبار، ج۱، ص:۷۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص481

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آدمی جو چادر سردی میں اوڑھ کر مسجد آتا ہے بظاہر وہ پاک ہوتی ہے اور اگر پاک چادر کو وضو کے دوران ممبر پر رکھ دیا جائے، تو اس میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا ہے، اس کو بلا وجہ انتشار کا سبب نہیں بنانا چاہیے۔(۱)

(۱) عن أبي ھریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من حسن إسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ۔(أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الزہد، باب ما جاء من تکلم بالکلمۃ لیضحک الناس، ج۲، ص:۵۸)؛ و أن رسول اللّٰہ ﷺ : نھی عن قیل و قال وکثرۃ السوال۔ (أخرجہ الإمام مالک في الموطا، ’’باب التعفف عن المال الحرام،‘‘   … ج۱، ص:۲۶،رقم:۲۹۹

 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص148


 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں مذکورہ ڈائیلیسس کی تفصیل سے وضو ٹوٹ جائے گا؛ اس لیے کہ جسم کے کسی حصے سے اس قدر خون کا نکلنا کہ وہ خود بخود بہہ پڑے یہ ناقض وضو ہے، خواہ بیماری کی وجہ سے از خود نکلے یا نکالا جائے دونوں صورتوں میں خون کا نکلنا ناقض وضو ہے۔
’’ولذا أطلقوا في الخارج من غیر السبیلین کالدم والقیح والصدید أنہ ینقض الوضوء ولم یشترطوا سوی التجاوز إلی موضع یلحقہ حکم التطہیر، ولم یقیدوہ في المتون ولا في الشروح بالألم ولا بالعلۃ‘‘(۱)
’’(ومنہا) ما یخرج من غیر السبیلین ویسیل إلی ما یظہر من الدم والقیح والصدید والماء لعلۃ وحد السیلان أن یعلو فینحدر عن رأس الجرح۔ کذا في محیط السرخسي وہو الأصح‘‘(۲)
’’واعلم أن الخارج النجس من غیر السبیلین ینقض الوضوء عند علمائنا وہو قول العشرۃ المبشرۃ بالجنۃ، وعبد اللّٰہ بن مسعود، وعبد اللّٰہ بن عمر، وزید بن ثابت، وأبي موسی الأشعری، وأبي الدرداء وثوبان، وصدور التابعین، وقال ابن عبد البر روی ذلک عن علی وابن مسعود، وعلقمۃ والأسود وعامر الشعبي وعروۃ بن الزبیر وإبراہیم‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب …في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذہبہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۹۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الخامس في نواقض الوضوء ومنہا ما یخرج من غیر السبیلین‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۔
(۳) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في نواقض الوضوء، الدم والقیح من نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص251

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کنڈوم کااستعمال کثرتِ اولاد کے خوف اور فقر وفاقہ کی بنا پر کرتے ہیں؛ حالانکہ اسلام نے اولاد کی تعلیم وتربیت اور انہیں انسانی معاشرے کا صالح عنصر بنانے کی بڑی تاکید کی ہے۔ اسلام اولاد کو اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت قرار دیتا ہے اس نعمت کی تمنا اور خواہش صرف عام انسانوں کو ہی نہیں ہوتی؛ بلکہ انبیاء علیہم السلام بھی اس کی تمنا کرتے رہے ہیں (جیسا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کا ذکر سورہ مریم میں مذکورہ ہے) فقر وفاقہ اور مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت رزاقیت پر بالواسطہ یا بلا واسطہ حملہ کی دلیل ہے؛ اس لیے اگر کنڈوم (Condom) کا استعمال بغیر ضرورتِ شرعی فقر وفاقہ اور فکرِ معاش کی وجہ سے ہو تو اس پر سخت وعید آئی ہے۔
جیسا کہ قول باری ہے: {ولا تقتلوا أولادکم خشیۃ إملاق نحن نرزقہم وإیاکم}(۱)
اپنی اولاد کو قتل مت کرو فقر وفاقہ کے ڈر سے ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔
{وما من دابۃ في الأرض إلا علی اللّٰہ رزقہا}(۲)
روئے زمین پر چلنے والے جو بھی جاندار ہیں ان کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے؛ نیز مذکورہ عمل خواہشِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی خلاف ہے حدیث پاک میں آیا ہے:
’’تزوجوا الولود الودود فإني مکاثربکم الأمم یوم القیامۃ‘‘(۳) زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو؛ کیونکہ میں قیامت کے دن تم لوگوں کی زیادتی کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا؛ البتہ اگر عورت کی صحت خراب ہونے کا خطرہ ہو، حمل برداشت  کرنے کی طاقت نہ ہو، یا استقرار حمل میں ایسی تکلیف کا اندیشہ ہو جو ناقابل تحمل ہو، یا گود کے بچے کے لیے مضر ہو، تو ایسی صورت میں کسی مسلمان دین دار ڈاکٹر کے مشورہ سے عارضی طور پر کنڈوم (Condom) کا استعمال عذر کی وجہ سے کر سکتے ہیں اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ ’’أفاد وضع المسألۃ أن العزل جائز بالإذن وھذا ھو الصحیح عند عامۃ العلماء لما في البخاري عن جابر رضي اللّٰہ عنہ،: کنا نعزل والقرآن ینزل، الخ‘‘(۱)
’’فإذا أذن فلا کراھۃ في العزل عند عامۃ العلماء وھو الصحیح وبذلک تضافرت الأخبار، وفي الفتح: وفي بعض أجوبۃ المشایخ: الکراھۃ وفي بعض عدمھا، نھر الخ‘‘(۲)
نیز کسی بھی وجہ سے اگر جماع کے وقت کنڈوم استعمال کیا تو چوں کہ کنڈوم کا غلاف اتنا باریک ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ بھی عورت کی فرج داخل (شرمگاہ کا اندرونی حصہ) کی حرارت محسوس ہوتی
ہے اور دونوں کو لذت کا احساس بھی ہوتی ہے؛ لہٰذا کنڈوم چڑھے عضو مخصوص کا سر عورت کی شرم گاہ میں داخل ہوتے ہی شوہر وبیوی دونوں پر غسل واجب ہو جائے گا چاہے انزال ہو یا نہ ہو، جیسا کہ مراقی الفلاح میں مذکور ہے:
’’ولو لف ذکرہ بخرقۃ وأو لجہ ولم ینزل فالأصح أنہ إن وجد حرارۃ الفرج واللذۃ وجب الغسل وإلا فلا، والأحوط وجوب الغسل في الوجہین لقولہ علیہ السلام: إذا التقی الختانان وغابت الحشفۃ وجب الغسل أنزل أو لم ینزل‘‘(۳)

(۱) سورۃ الإسراء: ۳۱۔
(۲) سورۃ ہود: ۶۔
(۳) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب النکاح: باب کراہیۃ تزویج العقیم‘‘: ج ۲، ص: ۵۹، رقم: ۳۲۲۷۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب النکاح: باب نکاح الرقیق‘‘: ج ۳، ص: ۳۴۸۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب نکاح الرقیق، مطلب في حکم العزل‘‘: ج ۴، ص: ۳۳۵۔

(۳)  الطحطاوي، مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل ما یجب فیہ الاغتسال‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص342