طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کنڈوم کااستعمال کثرتِ اولاد کے خوف اور فقر وفاقہ کی بنا پر کرتے ہیں؛ حالانکہ اسلام نے اولاد کی تعلیم وتربیت اور انہیں انسانی معاشرے کا صالح عنصر بنانے کی بڑی تاکید کی ہے۔ اسلام اولاد کو اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت قرار دیتا ہے اس نعمت کی تمنا اور خواہش صرف عام انسانوں کو ہی نہیں ہوتی؛ بلکہ انبیاء علیہم السلام بھی اس کی تمنا کرتے رہے ہیں (جیسا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کا ذکر سورہ مریم میں مذکورہ ہے) فقر وفاقہ اور مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت رزاقیت پر بالواسطہ یا بلا واسطہ حملہ کی دلیل ہے؛ اس لیے اگر کنڈوم (Condom) کا استعمال بغیر ضرورتِ شرعی فقر وفاقہ اور فکرِ معاش کی وجہ سے ہو تو اس پر سخت وعید آئی ہے۔
جیسا کہ قول باری ہے: {ولا تقتلوا أولادکم خشیۃ إملاق نحن نرزقہم وإیاکم}(۱)
اپنی اولاد کو قتل مت کرو فقر وفاقہ کے ڈر سے ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔
{وما من دابۃ في الأرض إلا علی اللّٰہ رزقہا}(۲)
روئے زمین پر چلنے والے جو بھی جاندار ہیں ان کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے؛ نیز مذکورہ عمل خواہشِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی خلاف ہے حدیث پاک میں آیا ہے:
’’تزوجوا الولود الودود فإني مکاثربکم الأمم یوم القیامۃ‘‘(۳) زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو؛ کیونکہ میں قیامت کے دن تم لوگوں کی زیادتی کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا؛ البتہ اگر عورت کی صحت خراب ہونے کا خطرہ ہو، حمل برداشت  کرنے کی طاقت نہ ہو، یا استقرار حمل میں ایسی تکلیف کا اندیشہ ہو جو ناقابل تحمل ہو، یا گود کے بچے کے لیے مضر ہو، تو ایسی صورت میں کسی مسلمان دین دار ڈاکٹر کے مشورہ سے عارضی طور پر کنڈوم (Condom) کا استعمال عذر کی وجہ سے کر سکتے ہیں اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ ’’أفاد وضع المسألۃ أن العزل جائز بالإذن وھذا ھو الصحیح عند عامۃ العلماء لما في البخاري عن جابر رضي اللّٰہ عنہ،: کنا نعزل والقرآن ینزل، الخ‘‘(۱)
’’فإذا أذن فلا کراھۃ في العزل عند عامۃ العلماء وھو الصحیح وبذلک تضافرت الأخبار، وفي الفتح: وفي بعض أجوبۃ المشایخ: الکراھۃ وفي بعض عدمھا، نھر الخ‘‘(۲)
نیز کسی بھی وجہ سے اگر جماع کے وقت کنڈوم استعمال کیا تو چوں کہ کنڈوم کا غلاف اتنا باریک ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ بھی عورت کی فرج داخل (شرمگاہ کا اندرونی حصہ) کی حرارت محسوس ہوتی
ہے اور دونوں کو لذت کا احساس بھی ہوتی ہے؛ لہٰذا کنڈوم چڑھے عضو مخصوص کا سر عورت کی شرم گاہ میں داخل ہوتے ہی شوہر وبیوی دونوں پر غسل واجب ہو جائے گا چاہے انزال ہو یا نہ ہو، جیسا کہ مراقی الفلاح میں مذکور ہے:
’’ولو لف ذکرہ بخرقۃ وأو لجہ ولم ینزل فالأصح أنہ إن وجد حرارۃ الفرج واللذۃ وجب الغسل وإلا فلا، والأحوط وجوب الغسل في الوجہین لقولہ علیہ السلام: إذا التقی الختانان وغابت الحشفۃ وجب الغسل أنزل أو لم ینزل‘‘(۳)

(۱) سورۃ الإسراء: ۳۱۔
(۲) سورۃ ہود: ۶۔
(۳) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب النکاح: باب کراہیۃ تزویج العقیم‘‘: ج ۲، ص: ۵۹، رقم: ۳۲۲۷۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب النکاح: باب نکاح الرقیق‘‘: ج ۳، ص: ۳۴۸۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب نکاح الرقیق، مطلب في حکم العزل‘‘: ج ۴، ص: ۳۳۵۔

(۳)  الطحطاوي، مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل ما یجب فیہ الاغتسال‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص342

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2422/44-3652

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ صورت میں برش ناپاک ہوگیا، اور اس کے ذریعہ دروازہ کو پینٹ کرنا بھی دروازہ کو ناپاک کردے گا، تاہم اگر نجاست نظر نہ آتی ہو تو بعد میں دروازہ پر تین بار اچھی طرح سے پانی بہاینا کافی ہوگا اور اس طرح دروازہ کا ظاہر پاک ہوجا ئے گا یعنی اب دیوار پر تر ہاتھ لگنے سے ہاتھ ناپاک نہیں ہوگا ۔

ولو موہ الحدید بالماء النجس یموہ بالطاھر ثلاثاً، فیطھر خلافاً لمحمد فعندہ لا یطھر أبداً، وھذا في الحمل في الصلاة، أما لو غسل ثلاثاً ثم قطع بہ نحو بطیخ أو وقع في ماء قلیل لا ینجسہ فالغسل یطھر ظاھرہ إجماعاً، وتمامہ في شرح المنیة (رد المحتار، کتاب الطھارة، باب الأنجاس، ۱: ۵۴۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۲: ۴۰۳، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔ (احسن الفتاوی، ۲: ۹۴، مطبوعہ: ایچ، ایم سعید، کراچی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:کنویں کے بارے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ حرام پرندوں کی بیٹ سے کنواں ناپا ک نہیں ہوتا۔(۲)

(۲) ولا نزح في بول فارۃ فی الأصح: ولا بخرء حمام و عصفور، و کذا سباع طیور في الأصح لتعذر صونھا عنہ۔ قولہ: في الأصح راجع إلی قولہ (وکذا سباع طیر) أي مما لایؤکل لحمہ من الطیور۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب مھم في تعریف الاستحسان، ج۱، ص:۳۷۷)؛ و في الخانیۃ وزرق سباع الطیر یفسد الثوب إذا فحش و یفسد ماء الأواني ولا یفسد ماء البئر، و في الفیض و بول الفارۃ لو وقع في البئر قولان أصحھما عدم التنجس۔ (درر الحکام شرح غرر الأحکام، فصل بئر دون عشر في عشر،ج۱، ص:۲۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص481

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اس میں راز یہ ہے کہ جس طرح انسان ظاہری اعضاء پر پانی ڈالتا ہے اور اس کی وجہ سے ظاہری اعضا کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اسی طرح باقی پانی پی کر اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اے اللہ تونے جس طرح میرے ظاہر کو پاک کر دیا، اسی طرح میرے باطن کو بھی پاک فرما دیں؛ کیوںکہ وضو کے پانی میں ایک خاص تاثیر اور برکت ہوتی ہے۔(۲)

(۲)(ماخوذاز:حضرت تھانویؒ، احکامِ اسلام عقل کی نظر میں ، ص:۳۸)، حاشیہ میں مرقوم ہے ’’اور اس پانی کو کھڑے ہو کر پینا سنت ہے تاکہ اوپر سے نیچے تک پاک ہونے کی دعا ہے۔‘‘، و أن یشرب من فضل الوضوء قائماً، وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پینا از قبیل مستحبات ہے۔ کذا في نورالإیضاح لشرنبلالي، فصل من آداب الوضوء، ص:۳۴… و أن یشرب بعدہ من فضل وضوئہ ۔۔۔ والمراد شرب کلہ أو بعضہ۔ (رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في بیان إرتقاء الحدیث الضعیف إلی مرتبۃ الحسن،‘‘ ج۱،ص:۲۵۳)؛ و عن أبي حیۃ قال رأیت علیا توضأ الخ ثم قام فأخذ فضل طھورہ فشربہ و ھو قائم۔(أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب الطہارۃ، باب في وضوء النبی ﷺ کیف کان،‘‘ ج۱، ص:۱۷، رقم:۲۶)


 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص148

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہاں مردوں کی طرح عورتوں کو بھی مذی وودی آتی ہے۔ مذی پتلی اور سفیدی مائل ہوتی ہے جو منی سے پہلے شہوت کے وقت نکلتی ہے، مگر اس کے نکلنے سے شہوت ختم نہیں ہوتی اور ودی سفید گدلے رنگ کی ہوتی ہے جو پیشاب کے بعد اور کبھی اس سے پہلے اور کبھی جماع یا غسل کے بعد بلا شہوت نکلتی ہے۔
ان دونوں کے نکلنے کی صورت میں وضو ٹوٹ جاتا ہے اور غسل واجب نہیں ہوتا ۔
مراقی الفلاح میں ہے:
’’منہا المذي … وہو ماء أبیض رقیق یخرج عند شہوۃ لا بشہوۃ ولا دفق ولا یعقبہ۔ فتور وربما لا یحس نحو وجہ وہو أغلب في النساء من الرجال ویسمیٰ في جانب النساء قذی بفتح القاف والذال المعجمۃ‘‘
’’ومنہا (وديٌ) … وہو ماء أبیض کدر ثخین لارائحۃ لہ یعقب البول وقد یسبقہ۔ أجمع العلماء علی أنہ لا یجب الغسل بخروج المذي والودي‘‘(۱)
’’منہا ما یخرج من السبیلین من البول والغائط والریح الخارجۃ من الدبر والودي والمذي الخ‘‘(۱)

 

(۱) الطحطاوي، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل عشرۃ أشیاء لا یغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰، ۱۰۱۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول: في الوضوء، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص252

طہارت / وضو و غسل

الجوب وباللّٰہ التوفیق:عورت پر بچہ پیدا ہونے کے بعد جب تک خون جاری ہے اس پرغسل فرض نہیں ہے، جب خون بند ہو جائے گا، تو اس کے بعد غسل واجب ہوگا اور نفاس کی حالت میں عورت حکماً ناپاک ہے، مگر اس کے ہاتھ کا کھانا حرام نہیں ہے، اس کے ہاتھ کا کھانا بھی جائز ہے اور اس کا سب کے ساتھ رہنا بھی درست ہے، اس کے استعمال شدہ برتنوں کا بھی یہی حکم ہے۔
دوسرے لوگ ان برتنوں کو بلا جھجھک استعمال کر سکتے ہیں۔ حالت حیض ونفاس میں عورت کو بالکل الگ تھلگ کر کے ایسا سلوک کرنا اور اچھوت بنا دینا غیر اسلامی عمل ہے اس حالت میں عورت کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک کی مزید ضرورت ہوتی ہے؛ اس لیے ان جاہلانہ باتوں کو جلد از جلد ترک کردینا ضروری ہے۔
’’ولا یکرہ طبخہا ولا استعمال ما مستہ من عجین أو ماء أو نحوہما‘‘ (۱)
’’وفرض الغسل عند خروج منی … وعند انقطاع حیض ونفاس‘‘ (۲)
’’وفي الفتاویٰ الصحیح وجوب الغسل علیہا وأما الوضوء فیجب اجماعاً لأن کل ما خرج من السبیلین ینقض الوضوء وہذا خارج من أحد السبیلین‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب لوافتی مفت بشيء من ہذہ الأقوال‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۲۔  
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تحریر الصاع والمد والر طل‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۴۔
(۳) أبو بکر الحدادی، الجوہرۃ النیرۃ علی مختصر القدوري، ’’کتاب الطہارۃ: دم النفاس‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۔(دارالکتاب دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص344

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2421/44-3653

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دیوار اگر کچی اینٹ یا پکی اینٹ کی ہے اور اس پر پلاسٹر نہیں ہوا ہے تو وہ خشک ہونے سے پاک ہوجائے گی، اور اگر دیوار پر پلاسٹر ہوگیا یا ٹائل لگوادیا اور پھر ناپاکی لگی  تو اب اس کو پاک کرنے کے لئے دھونا ضروری ہوگا، محض نجاست کا خشک ہوجانا دیوار کی طہارت کے لئے کافی نہیں ہوگا۔

 ومنها ) الجفاف وزوال الأثر الأرض تطهر باليبس وذهاب الأثر للصلاة لا للتيمم. هكذا في الكافي. ولا فرق بين الجفاف بالشمس والنار والريح والظل۔ (فتاوی ہندیہ 2/130)

"وإن كان اللبن مفروشاً فجف قبل أن يقلع طهر بمنزلة الحيطان، وفي النهاية: إن كانت الآجرة مفروشةً في الأرض فحكمها حكم الأرض، وإن كانت موضوعةً تنقل وتحول، فإن كانت النجاسة على الجانب الذي يلي الأرض جازت الصلاة عليها، وإن كانت النجاسة على الجانب الذي قام عليه المصلي لاتجوز صلاته".(البحرالرائق، 1/235)

"والمراد بالأرض مايشمله اسم الأرض، كالحجر والحصى والآجر واللبن ونحوها، إذا كانت متداخلةً في الأرض غير منفصلة عنها‘‘. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة عنها". (حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح 1/231)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مینڈھک جس کی انگلیوں کے درمیان سترہ، یعنی: کھال نہ ہو وہ بری ہے، کیوںکہ اس میں دم سائل ہوتا ہے، اس کے مرنے سے پانی نجس ہو جاتا ہے، یعنی: کنواں ناپاک ہو جائے گا اور دریائی مینڈھک کے مرنے سے کنواں ناپاک نہیں ہوگا، سمندری مینڈھک وہ ہے کہ اس کی انگلیوں میں کھال ہوتی ہے، جس سے انگلیاں جڑی رہتی ہیں۔(۱)

(۱) و إن مات فیہ غیر دموي و مائي مولد کسمک و سرطان و ضفدع، فلو تفتت فیہ نحو ضفدع جاز الوضوء بہ لا شربہ، لحرمۃ لحمہ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ،  باب المیاہ مطلب،  مسئلۃ الوضوء في الفساقی، ج۱، ص:۲۹؍۳۳۱)؛  و ضفدع  إلا بریّا لہ دم سائل وھو مالا سترۃ لہ بین أصابعہ۔ أیضاً:

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص481

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کسی طرح بھی وضو یا تیمم کرنے کی کوئی شکل نہ ہو، تو وہ شخص بغیر طہارت کے ہی نماز ادا کرے جب تک طہارت ممکن نہ ہو، طہارت کے بغیر نماز ادا کرے۔(۱)

(۱) مقطوع الیدین والرجلین إذا کان بوجھہ جراحۃ، یصلي بغیر طھارۃ ولا یعید وھو الأصح (الشرنبلالي، نورالإیضاح مع مراقی والطحطاوي، قبیل ’’باب المسح علی الخفین‘‘ ص:۴۴) ؛ وقال في البحر : و لو قُطعت یدہ أو رجلہ، فلم یبق من المرفق والکعب شيء، سقط الغسل۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء أربعۃ،‘‘ج۱، ص:۲۱۷)؛ و قال الشیخ الإمام محمد بن الفضل: رأیت في الجامع الصغیر للکرخي أن مقطوع الیدین والرجلین، إذا کان بوجھہ جراحۃ، یصلی بغیر طھارۃ ولا یتمم، ولا یعید، وھذا ھو الأصح، کذا في الظھیریۃ۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في  التیمم، الفصل الثالث في التفرقات،‘‘ ج۱، ص:۸۴)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص149

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تاش کھیلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ البتہ ایسے شخص کو وضو کر لینا چاہئے یعنی ایسے شخص کے لیے وضو کرنا مستحب ہے۔
طحطاوی میں ہے:
’’والقسم الثالث: وضوء مندوب … بعد کلام غیبۃ وکذب ونمیمۃ وبعد کل خطیئۃ وإنشاد شعر الخ‘‘ (۲)
عالمگیری میں ہے:
’’ومنہا الوضوء بعد الغیبۃ وبعد إنشاد الشعر‘‘(۳)

(۲) الطحطاوي، طحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: …الوضوء علی ثلاثۃ اقسام‘‘: ج۱ ، ص: ۸۴۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الثالث: في المستحبات‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص253