طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اس میں راز یہ ہے کہ جس طرح انسان ظاہری اعضاء پر پانی ڈالتا ہے اور اس کی وجہ سے ظاہری اعضا کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اسی طرح باقی پانی پی کر اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اے اللہ تونے جس طرح میرے ظاہر کو پاک کر دیا، اسی طرح میرے باطن کو بھی پاک فرما دیں؛ کیوںکہ وضو کے پانی میں ایک خاص تاثیر اور برکت ہوتی ہے۔(۲)

(۲)(ماخوذاز:حضرت تھانویؒ، احکامِ اسلام عقل کی نظر میں ، ص:۳۸)، حاشیہ میں مرقوم ہے ’’اور اس پانی کو کھڑے ہو کر پینا سنت ہے تاکہ اوپر سے نیچے تک پاک ہونے کی دعا ہے۔‘‘، و أن یشرب من فضل الوضوء قائماً، وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پینا از قبیل مستحبات ہے۔ کذا في نورالإیضاح لشرنبلالي، فصل من آداب الوضوء، ص:۳۴… و أن یشرب بعدہ من فضل وضوئہ ۔۔۔ والمراد شرب کلہ أو بعضہ۔ (رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في بیان إرتقاء الحدیث الضعیف إلی مرتبۃ الحسن،‘‘ ج۱،ص:۲۵۳)؛ و عن أبي حیۃ قال رأیت علیا توضأ الخ ثم قام فأخذ فضل طھورہ فشربہ و ھو قائم۔(أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب الطہارۃ، باب في وضوء النبی ﷺ کیف کان،‘‘ ج۱، ص:۱۷، رقم:۲۶)


 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص148

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہاں مردوں کی طرح عورتوں کو بھی مذی وودی آتی ہے۔ مذی پتلی اور سفیدی مائل ہوتی ہے جو منی سے پہلے شہوت کے وقت نکلتی ہے، مگر اس کے نکلنے سے شہوت ختم نہیں ہوتی اور ودی سفید گدلے رنگ کی ہوتی ہے جو پیشاب کے بعد اور کبھی اس سے پہلے اور کبھی جماع یا غسل کے بعد بلا شہوت نکلتی ہے۔
ان دونوں کے نکلنے کی صورت میں وضو ٹوٹ جاتا ہے اور غسل واجب نہیں ہوتا ۔
مراقی الفلاح میں ہے:
’’منہا المذي … وہو ماء أبیض رقیق یخرج عند شہوۃ لا بشہوۃ ولا دفق ولا یعقبہ۔ فتور وربما لا یحس نحو وجہ وہو أغلب في النساء من الرجال ویسمیٰ في جانب النساء قذی بفتح القاف والذال المعجمۃ‘‘
’’ومنہا (وديٌ) … وہو ماء أبیض کدر ثخین لارائحۃ لہ یعقب البول وقد یسبقہ۔ أجمع العلماء علی أنہ لا یجب الغسل بخروج المذي والودي‘‘(۱)
’’منہا ما یخرج من السبیلین من البول والغائط والریح الخارجۃ من الدبر والودي والمذي الخ‘‘(۱)

 

(۱) الطحطاوي، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل عشرۃ أشیاء لا یغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰، ۱۰۱۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول: في الوضوء، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص252

طہارت / وضو و غسل

الجوب وباللّٰہ التوفیق:عورت پر بچہ پیدا ہونے کے بعد جب تک خون جاری ہے اس پرغسل فرض نہیں ہے، جب خون بند ہو جائے گا، تو اس کے بعد غسل واجب ہوگا اور نفاس کی حالت میں عورت حکماً ناپاک ہے، مگر اس کے ہاتھ کا کھانا حرام نہیں ہے، اس کے ہاتھ کا کھانا بھی جائز ہے اور اس کا سب کے ساتھ رہنا بھی درست ہے، اس کے استعمال شدہ برتنوں کا بھی یہی حکم ہے۔
دوسرے لوگ ان برتنوں کو بلا جھجھک استعمال کر سکتے ہیں۔ حالت حیض ونفاس میں عورت کو بالکل الگ تھلگ کر کے ایسا سلوک کرنا اور اچھوت بنا دینا غیر اسلامی عمل ہے اس حالت میں عورت کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک کی مزید ضرورت ہوتی ہے؛ اس لیے ان جاہلانہ باتوں کو جلد از جلد ترک کردینا ضروری ہے۔
’’ولا یکرہ طبخہا ولا استعمال ما مستہ من عجین أو ماء أو نحوہما‘‘ (۱)
’’وفرض الغسل عند خروج منی … وعند انقطاع حیض ونفاس‘‘ (۲)
’’وفي الفتاویٰ الصحیح وجوب الغسل علیہا وأما الوضوء فیجب اجماعاً لأن کل ما خرج من السبیلین ینقض الوضوء وہذا خارج من أحد السبیلین‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب لوافتی مفت بشيء من ہذہ الأقوال‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۲۔  
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تحریر الصاع والمد والر طل‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۴۔
(۳) أبو بکر الحدادی، الجوہرۃ النیرۃ علی مختصر القدوري، ’’کتاب الطہارۃ: دم النفاس‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۔(دارالکتاب دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص344

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2421/44-3653

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دیوار اگر کچی اینٹ یا پکی اینٹ کی ہے اور اس پر پلاسٹر نہیں ہوا ہے تو وہ خشک ہونے سے پاک ہوجائے گی، اور اگر دیوار پر پلاسٹر ہوگیا یا ٹائل لگوادیا اور پھر ناپاکی لگی  تو اب اس کو پاک کرنے کے لئے دھونا ضروری ہوگا، محض نجاست کا خشک ہوجانا دیوار کی طہارت کے لئے کافی نہیں ہوگا۔

 ومنها ) الجفاف وزوال الأثر الأرض تطهر باليبس وذهاب الأثر للصلاة لا للتيمم. هكذا في الكافي. ولا فرق بين الجفاف بالشمس والنار والريح والظل۔ (فتاوی ہندیہ 2/130)

"وإن كان اللبن مفروشاً فجف قبل أن يقلع طهر بمنزلة الحيطان، وفي النهاية: إن كانت الآجرة مفروشةً في الأرض فحكمها حكم الأرض، وإن كانت موضوعةً تنقل وتحول، فإن كانت النجاسة على الجانب الذي يلي الأرض جازت الصلاة عليها، وإن كانت النجاسة على الجانب الذي قام عليه المصلي لاتجوز صلاته".(البحرالرائق، 1/235)

"والمراد بالأرض مايشمله اسم الأرض، كالحجر والحصى والآجر واللبن ونحوها، إذا كانت متداخلةً في الأرض غير منفصلة عنها‘‘. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة عنها". (حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح 1/231)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مینڈھک جس کی انگلیوں کے درمیان سترہ، یعنی: کھال نہ ہو وہ بری ہے، کیوںکہ اس میں دم سائل ہوتا ہے، اس کے مرنے سے پانی نجس ہو جاتا ہے، یعنی: کنواں ناپاک ہو جائے گا اور دریائی مینڈھک کے مرنے سے کنواں ناپاک نہیں ہوگا، سمندری مینڈھک وہ ہے کہ اس کی انگلیوں میں کھال ہوتی ہے، جس سے انگلیاں جڑی رہتی ہیں۔(۱)

(۱) و إن مات فیہ غیر دموي و مائي مولد کسمک و سرطان و ضفدع، فلو تفتت فیہ نحو ضفدع جاز الوضوء بہ لا شربہ، لحرمۃ لحمہ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ،  باب المیاہ مطلب،  مسئلۃ الوضوء في الفساقی، ج۱، ص:۲۹؍۳۳۱)؛  و ضفدع  إلا بریّا لہ دم سائل وھو مالا سترۃ لہ بین أصابعہ۔ أیضاً:

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص481

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کسی طرح بھی وضو یا تیمم کرنے کی کوئی شکل نہ ہو، تو وہ شخص بغیر طہارت کے ہی نماز ادا کرے جب تک طہارت ممکن نہ ہو، طہارت کے بغیر نماز ادا کرے۔(۱)

(۱) مقطوع الیدین والرجلین إذا کان بوجھہ جراحۃ، یصلي بغیر طھارۃ ولا یعید وھو الأصح (الشرنبلالي، نورالإیضاح مع مراقی والطحطاوي، قبیل ’’باب المسح علی الخفین‘‘ ص:۴۴) ؛ وقال في البحر : و لو قُطعت یدہ أو رجلہ، فلم یبق من المرفق والکعب شيء، سقط الغسل۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء أربعۃ،‘‘ج۱، ص:۲۱۷)؛ و قال الشیخ الإمام محمد بن الفضل: رأیت في الجامع الصغیر للکرخي أن مقطوع الیدین والرجلین، إذا کان بوجھہ جراحۃ، یصلی بغیر طھارۃ ولا یتمم، ولا یعید، وھذا ھو الأصح، کذا في الظھیریۃ۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في  التیمم، الفصل الثالث في التفرقات،‘‘ ج۱، ص:۸۴)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص149

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تاش کھیلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ البتہ ایسے شخص کو وضو کر لینا چاہئے یعنی ایسے شخص کے لیے وضو کرنا مستحب ہے۔
طحطاوی میں ہے:
’’والقسم الثالث: وضوء مندوب … بعد کلام غیبۃ وکذب ونمیمۃ وبعد کل خطیئۃ وإنشاد شعر الخ‘‘ (۲)
عالمگیری میں ہے:
’’ومنہا الوضوء بعد الغیبۃ وبعد إنشاد الشعر‘‘(۳)

(۲) الطحطاوي، طحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: …الوضوء علی ثلاثۃ اقسام‘‘: ج۱ ، ص: ۸۴۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الثالث: في المستحبات‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص253

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر نابالغ لڑکے نے بالغہ عورت سے جماع کر لیا، تو اس صورت میں بالغہ عورت پر غسل واجب ہوگا اور نابالغ پر غسل واجب نہیں ہوگا؛ لیکن اگر لڑکا اس قابل ہے کہ جماع کرسکتا ہے یا قریب البلوغ ہے اور اس کو شہو ت بھی ہوتی ہے، تو ایسی حالت میں اس پر بھی غسل واجب ہے، علی ہذا القیاس اگر بالغ مرد نابالغہ سے جماع کرے، تو مرد پر غسل واجب ہے اور نابالغہ پر غسل واجب نہیں ہے؛ لیکن اگر لڑکی مرا ہقہ (قریب البلوغ) ہے اور اس کو شہوت ہوتی ہے تو اس پر بھی غسل واجب ہے۔ یہ مسئلہ منیۃ المصلی ، ہدایہاور قدوری وغیرہ میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
نابالغ بچہ یا بچی احکام شرع کے مکلف نہیں ہوتے ہیں؛ اس لیے نابالغ لڑکی یا لڑکے پر صحبت کی وجہ سے غسل واجب نہ ہوگا، امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے: ’’ان القلم رفع عن المجنون حتی یفیق وعن الصبي حتی یدرک وعن النائم حتی یستیقظ‘‘(۱)
’’والمعاني المو جبۃ للغسل إنزال المني علی وجہ الدفق والشھوۃ من الرجل والمرأۃ حالۃ النوم والیقظۃ‘‘(۱)
’’ولا (یجب الغسل) عند إدخال إصبع ونحوہ کذکر غیرآدمي وذکر خنثی ومیت وصبي لا یشتھی وما یصنع من نحو خشب في الدبر أو القبل علی المختار‘‘(۲)
’’صبي ابن عشر جامع امرأتہ البالغۃ علیھا الغسل لوجود مواراۃ الحشفۃ بعد توجہ الخطاب ولا غسل علی الغلام لانعدام الخطاب إلا أنہ یؤمر بہ تخلقا
کما یؤمر بالوضوء والصلوٰۃ ولو کان الزوج بالغا والزوجۃ صغیرۃ تشتھی فالجواب علی العکس‘‘(۳)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب لا یرجم المجنون والمجنونۃ‘‘: ج ۸، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۸۱۵۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘: ج۱، ص: ۳۰۴۔
(۳) إبراہیم الکبیري، غنیۃ المستملي معروف بہ کبیري، ’’کتاب الطہارۃ: في بیان فضیلۃ المسواک، بحث غسل‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص345

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اس صورت میں کنواں ناپاک ہو گیا۔ جن لوگوں نے اس ناپاک پانی سے وضو کی وہ تمام نمازیں لوٹائیں؛ اور تین دن کی نمازیں لوٹائی جائیں۔’’کذا في الفقہ والفتاویٰ‘‘۔(۲)

(۲) و وجود حیوان میت فیھا أي البئر ینجسھا من ثلاثہ أیام و لیالیھا إن لم یعلم   وقت وقوعہ۔ (احمد بن محمد بن اسماعیل الطحطاوی،حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص:۴۱)؛  و قید بالحیوان؛ لأن غیرہ من النجاسات لا یتاتي فیہ التفصیل ولا الخلاف، بل ینجسھا من وقت الوجدان فقط۔(ایضاً)، و إن کانت قد انتفخت أو تفسخت أعادوا صلاۃ ثلاثۃ أیام و لیالیھا۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱، ص:۱۱۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص482



 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو میں بدن کے اعضاء کو دھونا گناہوں کے ترک کی طرف ایماء ہے اور رجوع الی اللہ کی صورت اور صفائی ظاہر وباطن کی استدعاء ہے، زبان قال سے پڑھنا رحمت الٰہی کو جذب کرنے کے لیے بہت ہی مناسب اور مؤکد دعا ہے؛ کیونکہ جب انسان کا ظاہر پاک ہو جاتا ہے، تو یہ اس کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اس کا دل بھی اسی طرح پاک وصاف ہو جائے، مگر وہاں چونکہ قدرت کے علاوہ کسی اور کی رسائی نہیں ہوسکتی ہے؛ اس لیے دل کو پاک صاف کرنے کی استدعااسی سے کی جاتی ہے۔(۱)

(۱) (ماخوذاز: حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہٗ،احکامِ اسلام عقل کی نظر میں، ’’اختتام وضو پر دعائے توبہ پڑھنے کا راز‘‘ ص۳۴)
روح الطھارۃ لا یتم إلا بتوجہ النفس إلی عالم الغیب، واستفراغ الجھد في طلبھا، فضبط لذلک ذکراً، و رتب علیہ ماھو فائدۃ الطھارۃ الداخلۃ في جذر النفس۔ (الشاہ ولی اللّٰہ الدہلوی، حجۃ اللّٰہ البالغہ، آداب الوضوء، ج۱، ص:۵۷۵)؛ و(اللھم اجعلني من التوابین) أي للذنوب والراجعین عن العیوب … و فیہ تعلیم للأمۃ کما ورد: ’’کلکم خطّاؤون، وخیر الخطائین التوابون۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، کتاب الطہارۃ، الفصل الأول، ج۲، ص:۱۵، مکتبۃ فیصل دیوبند)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص150