Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حالت وضو میں اگر کسی نے ویکسین لگوائی اور خون اتنی قلیل مقدار میں نکلا کہ وہ بہنے کے درجہ میں نہ ہو تو وضو نہیں ٹوٹے گا؛ لیکن جسم میں سوئی داخل کرنے یا نکالتے وقت خون اتنی مقدار میں ہو کہ وہ بہنے کے درجے میں ہو یعنی اگر جسم پر اس کو چھوڑ دیا جائے تو وہ از خود بہہ پڑے، تو ایسی صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا، یہی حکم عام انجکشن کا ہے کہ اگر تھوڑا سا خون انجکشن کے ساتھ نکل آئے جو بہنے کے قابل نہ ہو، تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
’’الوضوء من کل دم سائل‘‘(۱)
’’أما العلق إذا مصت العضو حتی امتلأت دما وکانت قلیلا بحیث لوسقطت وشقت لسال منہا الدم انتقض الوضوء وإن مصت قلیلاً بحیث لو شقت لم یسل لا ینتقض‘‘(۲)
’’إذا فصد وخرج منہ دم کثیر ولم یتلطخ رأس الجرح فإنہ ینقض‘‘(۳)
نیز کسی بھی ٹیسٹ کے لئے جسم سے خون نکالا جائے، تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا نماز یا دیگر عبادات کے لئے دو بارہ وضو کرنا ہوگا، جیسا کہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے:
’’(وینقضہ) خروج منہ کل خارج (نجس) بالفتح ویکسر (منہ) أي منالمتوضئ الحي معتاداً أو لا، من السبیلین أو لا، (إلی ما یطہر) بالبناء للمفعول: أي یلحقہ حکم التطہیر۔ ثم المراد بالخروج من السبیلین مجرد الظہور وفي غیرہما عین السیلان ولو بالقوۃ، لما قالوا: لو مسح الدم کلما خرج، ولو ترکہ لسال نقض وإلا لا‘‘(۱)
(۱) حسن بن عمار الشرنبلالي، مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۔
(۲) ابراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۹۔
(۳) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي المعروف الحلبي الکبیري، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص254
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2415/44-3647
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دہ در دہ کے لئے حوض کی لمبائی اور چوڑائی کا برابر دس دس ہاتھ کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ کل پیمائش کا دہ در دہ ہونا کافی ہے۔ اس لئے سوال میں مذکور حوض، حوض کبیر ہے، اگر اس کا مجموعی رقبہ 225 فٹ ہے۔
ولولہ طول لا عرض لکنہ یبلغ عشرا فی عشر جاز تیسیرا (شامی 1/341)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: جب دیکھا گیا کہ اس مردہ جانور کی ہڈی اور پر وغیرہ ٹنکی سے نکلے ہیں شرعاً اسی وقت سے ٹنکی کے ناپاک ہونے کا حکم ہوگا اور اس سے پہلے ناپاک ہونے کا حکم شرعاً نہیں ہوگا، اس سے جو وضو بنا کر نمازیں پڑھی گئی ہیں، سب درست ہوںگی۔ (۱)
(۱) إذا وقعت نجاسۃ في بئر دون القدر الکثیر أو مات فیھا حیوان دموي وانتفخ أوتمعط أو تفسخ أي تفرقت أعضاؤہ عضوا عضوا، ولا فرق بین الصغیر والکبیر کالفأرۃ ۔۔۔ ینزح الماء کلہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، ج۱، ص:۳۶۶)؛ و یحکم بنجاستھا مغلظۃ من وقت الوقوع إن علم و إلا فمذ یوم و لیلۃ إن لم ینتفخ ولم یتفسخ (ایضا، ج۱، ص:۳۷۵)،… و قالا من وقت العلم فلا یلزمھم شيء قبلہ قیل و بہ یفتی۔ (ایضاً، ج۱، ص:۳۷۸)، فإن أخرج الحیوان غیر منتفخ و متفسخ۔۔۔ نزح کلہ ۔۔۔ و إن کان کعصفور و فارۃ فعشرون إلی ثلاثین کما مر و ھذا یعم المعین وغیرھا بخلاف نحو صھریج وحب حیث یھراق الماء کلہ لتخصیص الآبار بالآثار بحر و نھر۔۔۔ و مذ ثلاثۃ أیام بلیالیھا إن انتفخ أو تفسخ استحسانا۔ (ایضاً ،ص:۳۷۲- ۳۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص483
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہاتھ و پیر کے ناخنوں میں جو میل یا مٹی جم جاتی ہے اسے چھڑائے بغیر بھی وضو ہوجائے گا۔(۱)
(۱) ولا یمنع الطھارۃ و نیم و حناء و درن و وسخ و کذا دھن و دسومۃ و تراب و طین ولو في ظفر مطلقا أي قرویا أو مدنیا في الأصح، (ابن عابدین الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل،‘‘ ج ۱،ص:۲۸۸)؛ وفي الجامع الصغیر: سئل أبوالقاسم، عن وافر الظفرالذي یبق في أظفارہ الدرن أو الذي یعمل عمل الطین أو المرأۃ التي صبغت أصبعھا بالحناء أوالصرام أوالصباغ؟ قال: کل ذلک سواء یجزیھم و ضوئھم إذ لا یستطاع الامتناع عنہ إلا بحرج، والفتوی علی الجواز من غیر فصل بین المدني والقروي کذا في الذخیرۃ، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ؛ ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفرض الثاني، غسل الیدین،‘‘ ج۱، ص:۵۴)؛ ولو بقي الدرن أي الوسخ في الأظفار جاز الغسل والوضوء لتولدہ من البدن یستوی فیہ أي في الحکم المذکور المدن أي ساکن المدینۃ والقروي أي ساکن القریۃ لما قلنا۔ (ابراہیم، حلبي کبیري، باب في آداب الوضوء، ص: ۴۲، دارالکتاب دیوبند)، وفي الجامع الصغیر إن کان وافر الأظفار و فیھا درن أو طین أو عجین أو المرأۃ تضع الحناء جاز في القروي والمدني۔ (ابن الہمام، فتح القدیر،’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱،ص:۱۲)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص151
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسی حالت میں کہ کہنی زمین پر ٹکی ہو اور پیٹ بھی رانوں سے مل گیا ہو، تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ اور اگر پیٹ رانوں سے نہ ملا ہو، تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔
شامی میں ہے:
’’والہیئۃ المسنونۃ بأن یکون رافعاً بطنہ عن فخذیہ مجافیاً عضدیہ عن جنبیہ … وظاہرہ أن المراد الہیئۃ المسنونۃ في حق الرجال لا المرأۃ۔ … واختار في شرح المنیۃ النقض في مسألۃ الذخیرۃ لارتفاع المقعدۃ وزوال التمکن۔ وإذا نقض في التربع مع أنہ أشد تمکنا فالوجہ الصحیح النقض ہنا ثم أیدہ بما في الکفایۃ عن المبسوط من أنہ لو نام قاعداً ووضع ألیتیہ علی عقبیہ وصار شبہ
المنکب علی وجہہ قال أبو یوسف رحمہ اللّٰہ علیہ الوضوء‘‘(۱)
عالمگیری میں ہے:
’’إلا في السجود فإنہ یشترط أن یکون علی الہیئۃ المسنونۃ لہ بأن یکون رافعاً بطنہ عن فخذیہ مجافیا عضدیہ عن جنبیہ وإن سجد علی ہذہ الہیئۃ انتقض وضوئہ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: نواقض الوضوء، مطلب: نوم من بہ انفلات ریح غیر ناقض‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۱۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول، الفصل الخامس: منہا النوم‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص255
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2414/44-3655
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی جانور گرکر مرگیا ہو تو جانور کو نکالنے کے بعد بور کا پورا پانی نکالاجائے گا، اور پھر اگر اتنی مدت گزرگئی کہ جانور کے اجزاء پانی میں تحلیل ہوجانے کا غالب گمان ہو تو سارا پانی نکال دینا اس بور کی پاکی کے لئے کافی ہوگا، اسی طرح اگرپیشاب کے قطرے بورنگ کے اندر چلے جائیں توبھی سارا پانی نکالنا ضروری ہوگا۔
نوٹ: بور کے اندر کتنا پانی ہے اس کا اندازہ کرنے کے لئے کوئی رنگ اندر ڈال دیاجائے اور پھر پانی نکالنا شروع کیا جائے، جب رنگ کا اثر ختم ہوجائے تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ سارا پانی نکالاجاچکاہے، اب بور کو پاک سمجھاجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:کنویں میں جوتا گرنے سے کنواں ناپاک نہیں ہوتا، اگر بظن غالب یا یقینی طور پر نجاست ہو، تو کنواں ناپاک ہوگا۔ اگر تمام موجودہ پانی نکال دیا جائے، تو کنواں پاک ہوجائے گا۔(۱)
(۱)سئل یوسف بن محمد لو وقع بعض الجلد من الخف مما یکون في موضع القدم في الجب و کان صاحب الخف یلبسہ قال لا یحکم بنجاسۃ الماء حتی یستیقن أن بہ نجاسۃ، الفتاویٰ التاتارخانیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع في المیاہ التي یجوز العدو بھا، ج ۱،ص:۳۳۰)؛ ولو وقع في البئر خرقۃ أو خشبۃ نجسۃ ینزح کل الماء۔ و في الظھیریۃ، ولو وقعت في البئر خشبۃ أو قطعۃ ثوب نجس۔ و في الفتاویٰ الخلاصۃ: أو عظم تلطخ بالنجاسۃ و تغیبت فیھا ظھرت بالنزح تبعا لطھارۃ ماء البئر؛ ولو وقعت في البئر خشبۃ نجسۃ أو قطعۃ من ثوب نجس و تعذر إخراجھا و تغیبت فیھا طھرت الخشبۃ والقطعۃ من الثوب تبعا لطھارۃ البئر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ،ج۱، ص:۱۹۷)؛ وإذا وقعت في البئر نجاسۃ نزحت و کان نزح ما فیھا من الماء طہارۃ لھا بإجماع السلف کذا في الہدایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الأول: فیما یجوز بہ التوضؤ، النوع الثالث: ماء الآبار الأول ما یجب نزح الماء بوقوعہ، ج ۱، ص:۷۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص483
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دانتوں پر سونے یا چاندی کا خول بلاضرورت چڑھانا مکروہ ہے؛ لیکن ضرورت کی وجہ سے مکروہ نہیں ہے۔ بہرصورت یہ خول وضو اور غسل کے جواز پر اثر انداز نہیں ہوتا۔(۱)
(۱)لو تحرکت سن رجل و خاف سقوطھا فشدھا بالذھب أو بالفضۃ لم یکن بہ بأس۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب العاشر: في استعمال الذھب والفضۃ،‘‘ ج۵، ص:۳۸۹)؛ ولا یشد منہ المتحرک بذھب بل بفضۃ وجوزھما محمد۔ و في التاتارخانیۃ، و علی ھذا الاختلاف إذا جدع أنفہ و أذنہ أو سقط سنہ، فأراد أن یتخذ سنا آخر، فعند الإمام یتخذ ذلک من الفضۃ فقط، وعند الإمام محمد: یتخذ من الذھب (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظروالإباحۃ، فصل في اللبس،‘‘ ج ۹، ص:۵۲۰- ۵۲۱)؛ و شد السن بالفضۃ یعنی یحل شد السن المتحرک بالفضۃ ولا یحل بالذھب، و قال محمد: یحل بالذھب أیضا۔ ( ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الکراہیۃ، فصل في اللبس،‘‘ ج۸، ص:۳۵۰)؛ و الأصل وجوب الغسل إلا أنہ سقط للحرج (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل،‘‘ ج ۱،ص:ـ۲۸۶)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص151
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:عورت کی شرم گاہ میں دوا ڈالنے سے وضو یا غسل نہیں ٹوٹتا ہے؛ اس لئے کہ فقہاء کی تصریح کے مطابق خروج نجاست ناقض وضو ہے یہاں پر عورت کی شرم گاہ میں دوا ڈالی گئی ہے کسی نجاست کا خروج نہیں ہوا ہے، ہاں اگر کسی آلے کے ذریعہ سے دوا ڈالی جائے پھر آلہ کو نکال لیا جائے، تو ایسی صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا؛ اس لئے کہ آلہ کا موضع نجاست سے اتصال ہوا ہے اور غالب یہی ہے کہ اس آلے کے ساتھ نجاست کا بھی خروج ہوا ہوگا۔
’’وأما بیان ما ینقض الوضوء فالذي ینقضہ الحدث۔ والکلام في الحدث في الأصل في موضعین: أحدہما: في بیان ماہیتہ، والثاني: في بیان حکمہ، أما الأول فالحدث ہو نوعان: حقیقی، وحکمی أما الحقیقي فقد اختلف فیہ، قال أصحابنا الثلاثۃ: ہو خروج النجس من الآدمي الحي، سواء کان من السبیلین الدبر والذکر أو فرج المرأۃ، أو من غیر السبیلین الجرح، والقرح، والأنف من الدم، والقیح والرعاف، والقيء وسواء کان الخارج من السبیلین معتاداً کالبول، والغائط والمني، والمذي، والودي، ودم الحیض، والنفاس، أو غیر معتاد کدم الاستحاضۃ … (ولنا) ما روي عن أبي أمامۃ الباہلي رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: دخلت علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فغرفت لہ غرفۃ، فأکلہا، فجاء المؤذن فقلت: الوضوء یا رسول اللّٰہ، فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنما علینا الوضوء مما یخرج لیس مما یدخل وعلق الحکم بکل ما یخرج أو بمطلق الخارج من غیر اعتبار المخرج، إلا أن خروج الطاہر لیس بمراد، فبقی خروج النجس مراداً‘‘(۱)
’’المعاني الناقضۃ للوضوء کل ما یخرج من السبیلین ’’لقولہ تعالی: {أو جاء أحد منکم من الغائط} وقیل لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وما الحدث؟ قال علیہ الصلاۃ والسلام ’’ما یخرج من السبیلین‘‘(۲)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: نواقض الوضوء، فصل ما ینقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸۔
(۲) المرغیناني، الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص256
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آنکھ کے اندرونی حصے میں پانی پہنچانا ضروری نہیں ہے؛بلکہ آنکھ کی پلکوں اور دونوں کناروں پر پانی پہنچانا ضروری ہے۔ اگر مذکورہ لینس اس سے مانع نہیں ہے اور بغیر اتارے پلکوں اور آنکھوں کے کونوں پر پانی پہنچانا ممکن ہو، تو اتارنا ضروری نہ ہوگا۔(۲)
(۲) لا أعلم یجب غسلھا کلھا بقول الأکثر والأعم ممن لقیت و حکي لي عنہ من أھل العلم و بأن الوجہ نفسہ مالا شعر علیہ إلاشعر الحاجب و أشفار العینین والشارب والعنفقۃ۔……
محمد بن ادریس الشافعي، کتاب الأم،’’کتاب الطہارۃ، باب غسل الوجہ،‘‘ ج۱، ص:۸۰؛ و داخل العینین غیر أنہ سقط للحرج۔ (ابن نجیم، النہر الفائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۲۷)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص152