Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:عورت کی شرم گاہ میں دوا ڈالنے سے وضو یا غسل نہیں ٹوٹتا ہے؛ اس لئے کہ فقہاء کی تصریح کے مطابق خروج نجاست ناقض وضو ہے یہاں پر عورت کی شرم گاہ میں دوا ڈالی گئی ہے کسی نجاست کا خروج نہیں ہوا ہے، ہاں اگر کسی آلے کے ذریعہ سے دوا ڈالی جائے پھر آلہ کو نکال لیا جائے، تو ایسی صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا؛ اس لئے کہ آلہ کا موضع نجاست سے اتصال ہوا ہے اور غالب یہی ہے کہ اس آلے کے ساتھ نجاست کا بھی خروج ہوا ہوگا۔
’’وأما بیان ما ینقض الوضوء فالذي ینقضہ الحدث۔ والکلام في الحدث في الأصل في موضعین: أحدہما: في بیان ماہیتہ، والثاني: في بیان حکمہ، أما الأول فالحدث ہو نوعان: حقیقی، وحکمی أما الحقیقي فقد اختلف فیہ، قال أصحابنا الثلاثۃ: ہو خروج النجس من الآدمي الحي، سواء کان من السبیلین الدبر والذکر أو فرج المرأۃ، أو من غیر السبیلین الجرح، والقرح، والأنف من الدم، والقیح والرعاف، والقيء وسواء کان الخارج من السبیلین معتاداً کالبول، والغائط والمني، والمذي، والودي، ودم الحیض، والنفاس، أو غیر معتاد کدم الاستحاضۃ … (ولنا) ما روي عن أبي أمامۃ الباہلي رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: دخلت علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فغرفت لہ غرفۃ، فأکلہا، فجاء المؤذن فقلت: الوضوء یا رسول اللّٰہ، فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنما علینا الوضوء مما یخرج لیس مما یدخل وعلق الحکم بکل ما یخرج أو بمطلق الخارج من غیر اعتبار المخرج، إلا أن خروج الطاہر لیس بمراد، فبقی خروج النجس مراداً‘‘(۱)
’’المعاني الناقضۃ للوضوء کل ما یخرج من السبیلین ’’لقولہ تعالی: {أو جاء أحد منکم من الغائط} وقیل لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وما الحدث؟ قال علیہ الصلاۃ والسلام ’’ما یخرج من السبیلین‘‘(۲)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: نواقض الوضوء، فصل ما ینقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸۔
(۲) المرغیناني، الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص256
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آنکھ کے اندرونی حصے میں پانی پہنچانا ضروری نہیں ہے؛بلکہ آنکھ کی پلکوں اور دونوں کناروں پر پانی پہنچانا ضروری ہے۔ اگر مذکورہ لینس اس سے مانع نہیں ہے اور بغیر اتارے پلکوں اور آنکھوں کے کونوں پر پانی پہنچانا ممکن ہو، تو اتارنا ضروری نہ ہوگا۔(۲)
(۲) لا أعلم یجب غسلھا کلھا بقول الأکثر والأعم ممن لقیت و حکي لي عنہ من أھل العلم و بأن الوجہ نفسہ مالا شعر علیہ إلاشعر الحاجب و أشفار العینین والشارب والعنفقۃ۔……
محمد بن ادریس الشافعي، کتاب الأم،’’کتاب الطہارۃ، باب غسل الوجہ،‘‘ ج۱، ص:۸۰؛ و داخل العینین غیر أنہ سقط للحرج۔ (ابن نجیم، النہر الفائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۲۷)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص152
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) جب ریاح کے خارج ہونے کا یقین ہوجائے گرچہ اس میں آواز یا بدبو نہ ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (۲) ہوا نکلنے کا یقین ہے تو وضو ٹوٹ گیا گرچہ بہت تھوڑی سی نکلی ہو۔ (۳) پیشاب اور پاخانے کے راستے سے کوئی بھی چیز نکلی تو وضو ٹوٹ جائے گا،حتی کہ اگر کوئی کیڑا وغیرہ نکلا، تو بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔ (۴) ایک فی صد بھی اگر ہوا نکلے گی تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ اس میں اصل سبیلین سے نکلنے پر وضو کے ٹوٹنے کا مدار ہے۔ اگر سبیلین سے نکلنا پایا گیا تو وضو کا ٹوٹنا بھی پایا جائے گا۔(۱)
(۱) وغالب الظن عند ہم ملحق بالیقین وہو الذي یبتنی علیہ الأحکام، یعرف ذلک من تصفح کلامہم في الأبواب، صرحوا في نواقض الوضوء بأن الغالب کالمتحقق۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر: ص: ۴۳)
منہا ما یخرج من السبیلین من البول والغائط والریح الخارجۃ من الدبر والودي والمذي والمني والدودۃ والحصاۃ، الغائط یوجب الوضوء قل أو کثر وکذلک البول والریح الخارجۃ من الدبر کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الفصل الخامس في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۹مکتبۃ فیصل، دیوبند)
والمراد بالدابۃ الدودۃ وہذا لأن النجس ما علیہا وذلک قلیل وہو حدث في السبیلین دون غیرہما فأشبہ الجثاء والفساء بخلاف الریح الخارجۃ من قبل المرأۃ وذکر الرجل لأنہا لا تنبعث عن محل النجاسۃ حتی لو کانت مفضاۃ یستحب لہا الوضوء لاحتمال خروجہا من الدبر۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۵۳مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص258
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1818/43-1673
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ نے پھنسی سے نکلنے والے مواد کو پانی سے دھولیا اور چہرہ یا ہاتھ پر اس کےاثرات نہیں ہیں تو پاکی حاصل ہوگئی، اوروضو درست ہوگئی، بلاوجہ کے شک یا وسوسہ میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: بلاوضو کمپیوٹر کے ذریعہ قرآنی آیات کی کتابت کرنا درست ہے؛ اس لیے کہ یہاں پر آیت کو بلاوضو چھونا لازم نہیں آتا ہے؛ بلکہ آیت اور ہاتھ کے درمیان فاصلہ ہوتاہے جو کہ واسطہ منفصلہ کے درجہ میں ہے۔ علامہ ابن الہمام نے جنبی وغیرہ کے لیے اس تختی پر قرآن لکھنے کی گنجائش دی ہے، جو ہاتھ میں نہ لی جائے؛ بلکہ کسی چیز پر رکھ کر لکھا جائے اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ یہاں قلم کے ذریعہ چھونا پایا جارہا ہے اور قلم واسطہ منفصلہ ہے۔ اس بنیاد پر اگر دیکھا جائے، تو کمپیوٹر میں بھی کی بورڈکا واسطہ موجود ہے؛ بلکہ نقش حروف بنانے میں قلم سے بھی زیادہ دور کا واسطہ ہے، اس طور پر کہ قلم سے براہِ راست نقوش حروف بنتے ہیں اور کمپیوٹر میں حروف کی بورڈ پر لکھے ہوتے ہیں صرف ان کا ظہور اسکرینوں پر ہوتا ہے؛ لہٰذا کمپیوٹر کے ذریعہ بے وضو قرآنی عبارت ٹائپ کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ (۱)
(۱) لا تکرہ کتابۃ القرآن والصحیفۃ أو اللوح علی الأرض عند الثاني خلافا لمحمد، حیث قال: أحب إلي أن لا یکتب لأنہ في حکم الماس للقرآن، قال في الفتح: والأول أقیس؛ لأنہ في ھذہ الحالۃ ماس بالقلم وھو واسطۃ منفصلۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب یطلق الدعاء علی ما یشمل الثناء،‘‘ ج۱، ص:۳۱۷)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص153
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1819/43-1588
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پانی کے استعمال میں آج کل بیت زیادہ بے احیتاطی برتی جاتی ہے، جبکہ حدیث میں آیاہے کہ اگر تم چشمہ پر ہو تب بھی اسراف سے بچو اور پانی کم استعمال کرو۔ اس لئے اعضاء وضو پر پانی اتنا ڈالاجائے کہ بہہ پڑے، اور خوب مَل کر دھویا جائے۔ تین بار میں بھی تسلی نہ ہو تو مزید نہ دھوئے، تین بار سے زیادہ دھونا درست نہیں ہے۔ اعضاء وضو کو ایک ایک بار اس طرح دھونا کہ کوئی جگہ خشک نہ رہے فرض ہے، اور تین بار دھونا سنت ہے۔ اس سے زیادہ دھونا بدعت شمار کیاگیا ہے۔ اس لئے اطمینان سنت کے دائرہ میں رہ کر ہونا چاہئے۔
وکُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ (الاعراف:۳۱) وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (الانعام:َ ۱۴۱) شرار أمتي الذین یسرفون فی صب الماء‘‘( حاشیہ الطحاوی :ص 80) عن ابن عمر، قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يتوضأ، فقال: «لا تسرف، لا تسرف» (سنن ابن ماجۃ ، فضل عمار بن یاسر 1/52، الرقم 424)
عن عبد الله بن عمرو، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بسعد، وهو يتوضأ، فقال: «ما هذا السرف» فقال: أفي الوضوء إسراف، قال: «نعم، وإن كنت على نهر جار» (سنن ابن ماجۃ، فضل عمار بن یاسر 1/52، الرقم 425)
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال جاء أعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسأله عن الوضوء، فأراه ثلاثا ثلاثا، ثم قال: «هذا الوضوء، فمن زاد على هذا فقد أساء، أو تعدى، أو ظلم» (سنن ابن ماجۃ، فضل عمار بن یاسر 1/52، الرقم 422)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2603/45-4122
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زخم سے خون بہا اور آپ نے اس کو پونچھ دیا یا دھولیا ، پھر اس کے بعد زخم سے خون بہا تو دھونے سے پہلے اور دھونے کے بعد بہنے والے خون کے مجموعہ کو دیکھاجائے گا اگر وہ مجموعی طور پر اتنی مقدار میں ہو کہ اگر پونچھا نہ جاتا تو جمع ہو کر بہہ پڑتا تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا، اور اس خون سے جو پانی میں لگے گا وہ بھی ناپاک ہوگا۔
وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي من المتوضئ الحي معتادا أو لا، من السبيلين أو لا (إلى ما يطهر) بالبناء للمفعول: أي يلحقه حكم التطهير.ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة، لما قالوا: لو مسح الدم كلما خرج ولو تركه لسال نقض وإلا لا، كما لو سال في باطن عين أو جرح أو ذكر ولم يخرج." (رد المحتار) 1/ 134)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1084/42-328
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ )1(حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قضاء حاجت کی جگہ شیطان کا بسیرا ہوتا ہے اور دعا پڑھ کر بیت الخلاء جانے سے آدمی شیطان کے وساوس سے محفوظ رہتا ہے؛ اس لیے اگرگھر میں اٹیچ بیت الخلاء ہو تو بیت الخلاء میں شیطان کا بسیرا ہوسکتا ہے لیکن اس کا اثر گھر پر نہیں پڑتا ہے اور جولوگ بیت ا لخلاء دعا پڑھ کر جاتے ہیں وہ بھی شیطانی وساوس سے محفوظ رہتے ہیں۔
عن أنس بن مالك أن رسول الله قال: (إن هذه الحشوش محتضرة، فإذا دخلها أحدكم فليقل: اللهم إنى أعوذ بك من الخبث والخبائث) . فأخبر فى هذا الحديث أن الحشوش مواطن للشياطين، فلذلك أمر بالاستعاذة عند دخولها،(شرح صحيح البخاري لابن بطال 10/90)ومن هذا قول رسول الله صلى الله عليه وسلم إن هذه الحشوش محتضرة أي يصاب الناس فيها وقد قيل إن هذا أيضا قول الله - عز وجل - (كل شرب محتضر) القمر 28 أي يصيب منه صاحبه۔1773- مالك عن يحيى بن سعيد أنه قال أسري برسول الله صلى الله عليه وسلم فرأى عفريتا من الجن يطلبه بشعلة من نار كلما التفت رسول الله صلى الله عليه وسلم رآه فقال له جبريل أفلا أعلمك كلمات تقولهن إذا قلتهن طفئت شعلته وخر لفيه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بلى فقال جبريل فقل أعوذ بوجه الله الكريم وبكلمات الله التامات اللاتي لا يجاوزهن بر ولا فاجر من شر ما ينزل من السماء وشر ما يعرج فيها وشر ما ذرأ في الأرض وشر ما يخرج منها ومن فتن الليل والنهار ومن طوارق الليل والنهار إلا طارقا يطرق بخير يا رحمن(الاستذکار8/443)
(2)روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان گھر میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھ لیتا ہے تو اللہ تعالی کے ضمان میں آجاتا ہے اور شیطان کہتا ہے کہ اب میں تمہارے ساتھ رات نہیں گزار سکتا لیکن جب آدمی بغیر دعا کے گھر میں داخل ہوتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ رات گزاروں گااس لیے گھر میں داخل ہوتے وقت دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔
وروينا عن أبي أمامة الباهلي، واسمه صدَيُّ بن عَجْلان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ثَلاَثَةٌ كُلُّهُمْ ضَامِنٌ على اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: رَجُلٌ خرج غَازِيَاً في سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَهُوَ ضَامِنٌ على الله عَزَّ وجَلَّ حَتَّى يَتَوفَّاهُ فيدخله الجنة أو يرده بما نال من أجْرٍ وَغَنِيمَةٍ،وَرَجُلٌ رَاحَ إلى المَسْجِد فَهُو ضَامِنٌ على الله تعالى حتَّى يَتَوَفَّاهُ فَيُدْخلَهُ الجَنَّةَ أو يرده بما نال من أجر وَغَنِيمَةٍ، وَرَجُلٌ دَخَلَ بَيْتَهُ بِسلامٍ فَهُوَ ضَامنٌ على اللَّهِ سُبْحانَهُ وتَعَالى " حديث حسن، رواه أبو داود بإسناد حسن، ورواه آخرون.ومعنى " ضامن على الله تعالى ": أي صاحب ضمان، والضمان: الرعاية للشئ، كما يقال: تَامِرٌ، ولاَبنٌ: أي صاحب تمر ولبن.فمعناه: أنه في رعاية الله تعالى، وما أجزل هذه العطية، اللهمَّ ارزقناها.
60 - وروينا عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " إذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بَيْتَهُ فَذَكَرَ اللَّهَ تَعالى عِنْدَ دُخُولِهِ وَعِنْدَ طَعامِهِ قالَ الشِّيْطانُ: لا مَبِيتَ لَكُمْ وَلا عَشاءَ، وَإذا دَخَلَ فَلَمْ يَذْكُرِ اللَّهَ تَعالى عنْدَ دُخُولِه، قالَ الشَّيْطانُ: أدْرَكْتُمُ المَبِيتَ، وَإذا لَمْ يَذْكُرِ اللَّهَ تَعالى عِنْدَ طَعامِهِ قالَ: أدْرَكْتُمُ المَبِيتَ والعَشَاء " رواه مسلم في صحيحه.(کتاب ا لاذکار للنووی ص: 24)
(3)بیت الخلاء کے لٹکے کپڑے یا وہاں گرے خواتین کے با لوں پرشیطان کا جادو کرنا کوئی ضروری نہیں ہے؛ بلکہ جو لوگ اس طرح کا عمل کراتے ہیں وہ اس طرح کی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں اس لیے کہ بہتر کہ بال وغیرہ کو محفوظ مقام پر دفن کردیا جائے لیکن شیطان کا ان بالوں پر تصرف کرنا کوئی ضروری نہیں ہے اس لیے کہ شیطان ،جنات اس کے بغیر بھی تصرف پر قادر ہوجاتے ہیں ۔ (4)میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی اگر رہتی ہے تو ضروری نہیں کہ یہ جادو کہ ہی کا اثر ہو۔گھر میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب ؒ کی منزل اسی طرح معوذتین اور سورہ بقرہ کا اہتمام کریں اگر جادو وغیرہ کا کوئی اثر ہوگا تو زائل ہوجائے گااور اگر اس کے بعد بھی نااتفاقی ختم نہ تو بہتر ہوگا کہ دونوں خاندان کے بزرگ کے سامنے مسئلہ کو پیش کیا جائے وہ حضرات طرفین کی بات کو سن کر جو فیصلہ کریں اس پر دونوں حضرات عمل کریں انشاء اللہ نااتفاقی ختم ہوجائے گی ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1910/43-1812
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں دیواروں پرناپاک چھینٹیں پڑنا، یا فرش پر ناپاک پانی کا باقی رہ جانا موہوم ہے یقینی نہیں ہے، کیونکہ کپڑا پاک کرتے وقت ناپاک پانی بہہ جاتاہے، نیز ہلکی پھلکی چھینٹیں جن سے بچنا مشکل ہے وہ معاف ہیں۔ لہذا دوسرا کوئی شخص وہاں نہائے یا کپڑے دھوئے تو وہ شخص بھی پاک ہے اور کپڑا بھی پاک ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2602/45-4123
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوئی کے ناکے کے برابرپیشاب کی باریک چھینٹیں بدن یا کپڑوں پر پڑجائیں اور نظر نہ آتی ہوں بلکہ صرف احساس ہوا ہو تو وہ معاف ہیں، البتہ اگر پیشاب کی چھینٹیں نظر آرہی ہوں اور مجموعی طور پر ایک درہم (یعنی سوا انچ کے برابر )کے پھیلاؤ سے زیادہ ہوں تو پھر وہ معاف نہیں ہوں گی اور ان کو دھوئے بغیر نماز نہیں ہوگی۔ ہاں اگر ایک درہم کے پھیلاؤ سے کم ہوں تو ان میں نماز تو ہوجائے گی لیکن جان بوجھ کر اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
۔و بول انتفخ كررؤس ابر وكذا جانبها الأخر و ان كثر باصابة الماء للضرورة (فتاوى شامي 580/1)
(.كرؤوس ابر ) بكسر الهمزه جمع ابرة احتراز عن المسئلة كما في” شرح منيه “ر “الفتح ” ، قوله : ( وكذا جانبها الاخر ) اي : خلافا” لابي جعفر الهندواني حيث مع جانب الاخر ، وغيره من المشائخ قالوا : لا يعتبر الجا نبان ، و اختاره “الكافي ” “حليه” فرؤوس الابر تمثيل للتقليل كما في” القهستاني ” عن الطلبه ، لكن في ايضا” عن الكرماني ان هذا ما لم ير على الثوب ، والا وجب غسله اذا صار بالجمع اكثر من قدر الدرهم اه… ( فتاوى شامي 580/1)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند