طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر وہ اس قدر معذور ہیں کہ وضو اور نماز کے بقدر بھی عذر سے خالی وقت نہیں ملتا ہے تو پھر ہر نماز کے لیے وضو کرلیں اور پیمپر بدل لیں، اور اگر پیمپر بدلنے میں کافی دشواری ہو تو بدلنا ضروری نہیں ہے، اسی نجس پیمپر میں نماز صحیح ہوجائے گی؛ لیکن اگر اتنا وقت بغیرعذر کے مل جاتا ہے جس میں وضو کرکے فرض نماز ادا کرسکیں تو پھر وہ معذور کے حکم میں نہیں ہوں گے اور ہر نماز کے لیے وضو کرنے کے ساتھ پیمپر بدلنا لازم ہوگا ورنہ نماز نہیں ہوگی۔
’’مریض تحتہ ثیاب نجسۃ، وکلما بسط شیئا تنجس من ساعتہ صلی علی حالہ وکذا لو لم یتنجس إلا أنہ یلحقہ مشقۃ بتحریکہ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص421

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر پیمپرپر قدرِ درہم سے زیادہ نجاست لگی ہو، تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا شرعاً جائز نہیں ہے؛ البتہ قطرہ آنے کی شکایت اتنی زیادہ ہو کہ ایک پیمپر یا کپڑا ہٹا تے ہی دوسرا ناپاک ہوجاتا ہو بغیر قطرے کے نماز کا وقت نہ ملتا ہو اور اس حالت میں نماز کے پانچ اوقات سے زیادہ گزر جائیں تو اسے معذور قرار دیا جائے گا اور پھر اس عذر کی وجہ سے ناپاک پیمپر کے ساتھ بھی نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔
’’مریض تحتہ ثیاب نجسۃ وکلما بسط شیئا تنجّس من ساعتہ یصلّی علی حالہ وکذا لو لم یتنجس الثانی لکن یلحقہ زیادۃ مشقّۃ بالتحویل کذا فی فتاوی قاضی خان‘‘(۱)
’’المستحاضۃ ومن بہ سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الریح أو رعاف دائم أو جرح لا یرقأ یتوضؤن لوقت کل صلاۃ ویصلون بذلک الوضوء ما شاؤا من الفرائض والنوافل‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’مما یتصل بذلک أحکام المعذور‘‘: ج ۱، ص: ۹۵، زکریا دیوبند۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص422

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1306/42-677

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بچہ کا پیشاب بھی اسی طرح ناپاک ہے جس طرح بڑے کا ناپاک ہے۔ یہ پیشاب نجاست غلیظہ ہے، اگر بچہ کا پیشاب کپڑے پر ایک درھم سے زائد لگ جائے تو اس کا دھونا اور پاک کرنا ضروری ہے، ورنہ نماز نہیں ہوگی۔ اور اگر ایک درھم سے کم لگاہو تو نمازگرچہ درست ہوجائے گی مگر جان بوجھ کر ایسے کپڑے میں نماز پڑھنا ٹھیک نہیں ہے۔

 وکذالک بول الصغیر والصغیرة، أکلاَ أو لا، کذا في الاختیار شرح المختار (ھندیة: 1/100) وقال الطحاوي: النضح الوارد في بول الصبي المراد بہ الصبّ لما روی ھشام بن عمروة عن أبیہ عن عائشة قالت: أتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بصبي فبال علیہ، فقال صبّوا علیہ الماء صبًّا (مرقاة المفاتیح: 2/189) النجاسۃ اذا کانت غلیظۃ وھی اکثر من قدر الدرھم فغسلھا فریضۃ والصلوۃ بھا باطلۃ وان کانت مقدار درھم فغسلھا واجب والصلوۃ معھا جائز وان کانت اقل من قدر الدرھم فغسلھا سنۃ (ھندیۃ 1/58)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1703/43-1368

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ریاح کا نکلنا مطلقا ناقض وضو ہے، ریاح کم ہو یا زیادہ اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے، اسی طرح اس میں بدبو ہو یا نہ ہو، آواز ہو یا نہ ہو، بہرصورت وضو ٹوٹ جائے گا ۔ 

(الفصل الخامس في نواقض الوضوء) منها ما يخرج من السبيلين من البول والغائط والريح الخارجة من الدبر والودي والمذي والمني والدودة والحصاة، الغائط يوجب الوضوء قل أو كثر وكذلك البول والريح الخارجة من الدبر. كذا في المحيط. (الھندیۃ، الفصل الخامس في نواقض الوضوء 1/9) ، وعن ابن مسعود، وابن عباس - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - قالا. في الودي الوضوء، رواه البيهقي، والمذي والودي غير معتادين، وقد وجب فيهما الوضوء ولأنه خارج من السبيل فينقض كالريح والغائط ولأنه إذا وجب الوضوء بالمعتادة، والذي تعم به البلوى بغيره أولى.  (البنایۃ، ماخرج من السبیلین من نواقض الوضوء 1/258)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:جب تک اس بات کا یقین نہ ہو کہ غیرمسلم کے ہاتھ نجس ہیں، تو رس و پانی کے ناپاک ہونے کا حکم نہ ہوگا، پس غیر مسلم سے رس خریدنا، اس کا استعمال کرنا اور ان کے ہاتھ کا بنا ہوا کولھو کا سامان خریدنا (گڑ و شکر وغیرہ) جائز اور پاک ہے، ان کے ہاتھ سے لیا گیا پانی پاک ہے، اس سے وضوء درست ہے اور نماز کی ادائے گی اس سے صحیح ہے۔(۲)

(۲)و في الھندیۃ: قال محمد: و یکرہ الأکل والشرب في أواني المشرکین قبل الغسل، و مع ھذا لو أکل أو شرب فیھا قبل الغسل جاز۔۔۔ ھذا إذا لم یعلم بنجاسۃ الأواني۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع عشر في أھل الذمۃ والأحکام التي تعود إلیھم،ج ۵، ص:۳۴۷) 

 فسؤر آدمي مطلقا ولو جنبا أو کافرا أو إمرأۃ لأن علیہ السلام أنزل بعض المشرکین في المسجد علی مافي الصحیحین۔ فالمراد بقولہ تعالیٰ: إنما المشرکین نجس(التوبہ) النجاسۃ في اعتقادھم ( ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ،باب المیاہ، مطلب في السؤر،ج۱، ص:۳۸۱) ، فأما إذا لم یتیقن نجاستہ فالأصل طھارتہ و کذلک میاھھم و ثیابھم علی الطھارۃ فقد روي أن النبي ﷺ توضأ من مزادۃ مشرکۃ و توضأ عمر من ماء في جرۃ، باب ما یجوز الصید بہ (الإمام البغوي، شرح السنۃ ، ج۱۱، ص:۲۰۰)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص429

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2228/44-2368

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  شراب حلال اور پاک چیزوں سے بنائی جاتی ہے، ایک خاص حالت میں پہنچنے پر اس میں سکر اور نشہ آجاتاہے، جب اس میں  نشہ آجائے تو اس کی قلیل وکثیر مقدار  حرام  ہے، لیکن جب دوبارہ اس میں سے سکر کا وصف ختم ہوجائے تو اس میں پاکی کا حکم عود کرآئے گا،  برخلاف سوال میں ذکر کردہ چیزوں کے کہ وہ اپنی اصل میں ہی نجس ہیں، لہذا ان کو شراب پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:افیون اور بھنگ وغیرہ نجس اور ناپاک نہیں ہیں، یہ چیزیں نشہ کی وجہ سے حرام ہیں(۱)؛ مگر ناپاک نہیں ہیں(۲) اس لیے اگر ان چیزوں کا اثر پانی میں آجائے، تو پانی ناپاک نہیں ہوتا ہے۔(۳)

(۱)و حرمھا محمد أي الأشربۃ المتخذۃ من العسل والتین و نحوھما۔ قالہ المصنف مطلقا قلیلھا و کثیرھا وبہ یفتی۔قولہ: و بہ یفتی أي بقول محمد، وھو قول الأئمۃ الثلاثۃ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام ’’کل مسکر خمر، و کل مسکر حرام‘‘ رواہ مسلم، (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الأشربۃ،ج۱۰، ص:۳۶)
(۲)کیوںکہ افیون، چرس وغیرہ پتوں سے بنائی جاتی ہیں، اپنی ذات میں یہ چیزیں نجس و ناپاک نہیںہیں، البتہ ہر پاک چیز کا حلال ہونا ضروری نہیں، حرام چیز بھی پاک ہوسکتی ہے جیسا کہ مٹی۔ مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ صاحبؒ فرماتے ہیں: ’’افیون، چرس، بھنگ، کوکین یہ تمام چیزیںپاک ہیں اور ان کا دوا میں خارجی استعمال جائز ہے۔ نشہ کی غرض سے ان کو استعمال کرنا ناجائز ہے۔(کفایت المفتی، مایتعلق بالبیع الصحیح، ج۱۱، ص:۴۹)

(۳)ولا یضر تغیّر أوصافہ کلھا بجامد کزعفران و فاکھۃ و ورق شجرۃ۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح،کتاب الطھارۃ،ص۲۴)


 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص430

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:ناپاک کپڑے کی چھینٹ بھی ناپاک ہے، جس جگہ کپڑے یا بدن وغیرہ پر پڑے گی، اس کو ناپاک کردے گی۔ لہٰذا اگر قدر عفو سے زائد ہو تو کپڑے اور بدن کو دھونا ضروری ہوگا۔(۱)

(۱)غُسالۃ النجاسۃ في المرات الثلاثۃ مغلظۃ في الأصح (طحطاوي، باب الأنجاس والطھارۃ عنھا، ص:۱۵۵) الشي في ماء الحمام لا ینجس مالم یعلم أنہ غسالۃ متنجس (ابن الھمام، فتح القدیر، باب الأنجاس و تطہیرہا، ج۱، ص:۲۱۱)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص431

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:عموماً وہ تالاب جہاں دھوبی کپڑے دھوتے ہیں، وہ بڑے تالاب (دہ در دہ) ہوتے ہیں جن کا پانی پاک ہوتا ہے، اس کا دھلا ہوا کپڑا بھی پاک ہوتا ہے ہاں اگر ان کے پانی کا رنگ، مزا، بو تبدیل ہیں تو ان سے پاکی حاصل نہیں ہوگی۔(۲)

(۲)والغدیر العظیم الذي لا یتحرک أحد طرفیہ بتحریک الطرف الآخر     إذا وقعت نجاسۃ في أحد جانبیہ، جاز الوضوء من الجانب الآخر… و بعضھم قدروا بالمساحۃ عشرا في عشر بذراع الکرباس توسعۃ للأمر علی الناس، و علیہ الفتویٰ۔ (المرغینانی، الہدایہ، کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز بہ، ج ۱،ص:۳۷)، وفي النصاب: والفتوی في الماء الجاري: أنہ لا یتنجس مالم یتغیر طعمہ أو لونہ أو ریحہ من النجاسۃ، کذا في ’’المضمرات‘‘۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، ج۱، ص:۶۸)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص431

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ پانی ناپاک ہے، اس کے کپڑے ناپاک ہوگئے  ان کو نکالنا اور دھونا ضروری ہے۔(۱)

(۱)لعاب الفیل نجس کلعاب الفھد والأسد إذا أصاب الثوب بخرطومہ، نجسہ۔ (فتاویٰ قاضی خاں مع الہندیۃ کتاب الطھارۃ، فصل في النجاسۃ التي تصیب الثوب أو البدن أو الأرض (الجزء السابع، الجزء الأول لقاضی خاں، ص:۱۴)؛  و سؤر الکلب والخنزیر و سباع البھائم نجس، کذا في الکنز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني، فیما لا یجوز بہ التوضؤ، ج۱، ص:۷۶)، و سؤر خنزیر و کلب و سباع بھائم… نجس، قولہ: (و سباع بھائم) ھي ماکان یصطاد بنابہ کالأسد والذئب والفھد والنمر والثعلب والفیل والضبع و أشباہ ذلک (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارۃ، مطلب في السؤر،ج۱، ص:۳۸۲)؛ و سؤر الفیل والخنزیر والکلب والأسد والذئب والنمر نجس۔ (سراج الدین محمد، فتاویٰ سراجیہ، کتاب الطہارۃ، باب الآسار، ج۱، ص:۵۰)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص432