طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: اگر کوئی ظاہری نجاست نہیں لگی تو وہ جگہ پاک ہے۔(۲)

(۲)کما لا ینجس ثوب جاف طاھر لف في ثوب نجس رطب لا ینعصر الرطب … …لو عصر… إلا أن یظھر أثرھا فیہ۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، باب الأنجاس، ص:۵۳)؛ ولو مس کلباً أو خنزیراً أو وطیٔ نجاسۃ لا وضوء علیہ لإنعدام الحدث حقیقۃ و حکما إلاّ أنہ إذا التزق بیدہ شيء من النجاسۃ یجب غسل ذلک الموضع و إلا فلا۔ ( الکاساني،بدائع الصنائع ،باب نواقض الوضوء، ج۱،ص:۳۹؍۱۴۰)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص434

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شاور، ٹونٹی، نل اور ٹب وغیرہ کے ذریعے غسل کرنے کے لیے اگر اچھی طرح کلی کرلی گئی اور ناک میں نرم ہڈی تک پانی پہونچایا گیا اور پھر پورے بدن پر کم از کم ایک مرتبہ اس طرح پانی بہا لیا گیا کہ بدن کا کوئی حصہ بال برابر بھی خشک نہ رہا، تو غسل کے واجبات ادا ہو جائیں گے، صاحب نور الایضاح نے بیان کیا ہے: ’’وغسل نجاسۃ لو کانت بانفراد ہا‘‘ اگر بدن پر نجاست حقیقیہ لگی ہو، تو اولا نجاست کو دور کرے دونوں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئے پھر وضو کرے اور اگر روزہ کی حالت نہ ہو تو کلی کے ساتھ غرغرہ بھی کرے اور اگر کسی ایسے مقام پر غسل کر رہا ہے جہاں غسل کا پانی جمع ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں غسل سے فارغ ہونے کے بعد دوسری جگہ ہٹ کر پیر دھوئے۔
’’وعن عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن النبي صلی اللّٰہ علیہوسلم: کان إذا اغتسل من الجنابۃ بدأ فغسل یدیہ ثم یتوضأ کما یتوضأ للصلاۃ ثم یدخل أصابعہ في الماء فیخلل بہا أصول شعرہ ثم یصب علی رأسہ ثلاث غرف بیدیہ ثم یفیض الماء علی جلدہ کلہ‘‘ (۱)
نیز جسم پر پانی کسی بھی چیز سے ڈالا جائے خواہ شاور سے ہو یاکسی اور چیز سے اس میں کوئی حرج نہیں؛ البتہ کھڑے ہوکر غسل کرنے کے بجائے بیٹھ کر غسل کرنا زیادہ پسندیدہ ہے؛ کیوں کہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
’’(ویجب) أي یفرض (غسل) کل ما یمکن من البدن بلا حرج مرۃ کأذن و (سرۃ وشارب وحاجب و) أثناء (لحیۃ) وشعر رأس ولو متلبداً لما في {فاطہروا} (سورۃ المائدۃ: ۶) من المبالغۃ (وفرج خارج) لأنہ کالفم لا داخل؛ لأنہ باطن، ولا تدخل
أصبعہا في قبلہا بہ یفتی۔ (لا) یجب (غسل ما فیہ حرج کعین) وإن اکتحل بکحل نجس (وثقب انضم و) لا (داخل قلفۃ)‘‘(۲)

 

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الغسل: باب الوضوء قبل الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۵۹، رقم: ۲۴۸۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص348

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: خنزیر کے بال ناپاک ہیں، جب کسی آدمی کے بدن یا کپڑے سے لگے۔ اگر خشک تھے، تو انسان کا بدن یا کپڑا ناپاک نہیں ہوا۔(۱)

(۱)کما لا ینجس ثوب جاف طاھر لف في ثوب نجس رطب لا ینعصر الرطب لو عصر… إلا أن یظھر أثرھا فیہ۔ (الشرنبلالی، نورالإیضاح، باب الأنجاس، ص:۵۳)؛ ولو مس کلباً أو خنزیراً أو وطیٔ نجاسۃ لا وضوء علیہ لإنعد ام الحدث حقیقۃ و حکما إلا أنہ إذا التزق بیدہ شيء من النجاسۃ یجب غسل ذلک الموضع و إلا فلا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع ، باب نواقض الوضوء، ج۱، ص:۳۹؍۱۴۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص435

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوکر اٹھنے کے بعد اگر تری کے بارے میں منی ہونے کا یقین نہیں ہے؛ بلکہ سفید پانی یا مذی یا ودی ہونے کا یقین ہے تو غسل فرض نہیں ہوگا؛ بلکہ صرف وضو کرکے نماز ادا کرلے گی۔(۱)

(۱) ولا یجب اتفاقاً فیما إذا علم أنہ ودي مطلقاً وفیما إذا علم أنہ مذي أو شک في الأخرین مع عدم تذکر الاحتلام ویجب عند ہما فیما إذا شک في الأولین أو الطرفین أو في الثلاثۃ احتیاطاً ولا یجب عند أبي یوسف للشک في وجوب الموجب۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۱)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص349

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2844/45-4480

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حیض کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت حرام ہے، منزل میں قرآن       کریم کی سورتیں  اور آیتیں  ہیں  اس لئے ان کو پڑھنا جائز نہیں  ہے۔ اگر کبھی  گھبراہٹ ہوتو کوئی دوسرا ان سورتوں کو پڑھکر اس لڑکی پر دم  کرسکتاہے۔
اگر ہوم ورک میں صرف قرآنی آیت لکھ رہی ہو تواسے چھوتے ہوئے ناپاکی کی حالت میں قرآن کریم لکھنا ممنوع ہے،  لیکن اگرکچھ عربی کے الفاظ ہوں اور انکا ترجمہ لکھاجائے یاجملہ بنایا جائے توقرآنی آیت کوہاتھ نہ لگائے توقلم سےلکھنے  کی گنجائش ہوگی۔

"(ومنها) حرمة مس المصحف، لايجوز لهما وللجنب والمحدث مس المصحف إلا بغلاف متجاف عنه كالخريطة والجلد الغير المشرز، لا بما هو متصل به، هو الصحيح. هكذا في الهداية، وعليه الفتوى. كذا في الجوهرة النيرة.

والصحيح منع مس حواشي المصحف والبياض الذي لا كتابة عليه. هكذا في التبيين.

واختلفوا في مس المصحف بما عدا أعضاء الطهارة وبما غسل من الأعضاء قبل إكمال الوضوء، والمنع أصح. كذا في الزاهدي، ولايجوز لهم مس المصحف بالثياب التي هم لابسوها، ويكره لهم مس كتب التفسير والفقه والسنن، ولا بأس بمسها بالكم. هكذا في التبيين" (الفتاوى الهندية (1/ 38)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: جب کپڑے کو دھو کر پاک کر لیا جائے، مگر اس کا دھبہ نہ جائے، تب بھی کپڑا پاک ہے اور اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔(۱)

(۱) و یطھر مني أي محلہ یابس بفرک ولا یضر بقاء أثرہ أي کبقاء ہ بعد الغسل (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۱۴)؛  وفما کان منھا مرئیا فطھارتہ زوال عینھا؛ لأن النجاسۃ حلت المحل بإعتبار العین فتزول بزوالھا إلا أن یبقی من أثرھا ما تشق إزالتہ لأن الحرج مدفوع۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، باب الأنجاس، ج۱، ص:۲۱۰)
و بقاء أثر المني بعد الفرک لا یضر کبقائہ بعد الغسل۔ ھکذا في ’’الزاھدي‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، الباب السابع في النجاسۃو أحکامھا، الفصل الأول، منھا الفرک في المني، ج۱، ص:۹۸)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص436

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1311/42-683

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگرخواب یاد نہ ہو تو جب تک منی ہونے کا یقین نہ ہو غسل واجب نہیں ہوگا۔  جاننا چاہئے کہ منی گاڑھی ہوتی ہے اور اس کا خروج قوت کے ساتھ کود کر ہوتا ہے، اوراس کے بعد انتشار ختم ہوجاتا ہے۔۲- مذی رقیق ہوتی ہے جو بیوی سے ملاعبت  یا شہوت پیدا ہونے پر نکلتی ہےاور اس میں انتشار پڑھتاجاتاہے۔ ۳- ودی بھورے رنگ کی ہوتی ہے جو پیشاب کے بعد یا کبھی پہلے خارج ہوتی ہے۔  

"وَلَوِاسْتَيْقَظَ فَوَجَدَ شَيْئًا وَشَكَّ فِي كَوْنِهِ مَنِيًّا أَوْ غَيْرَهُ (وَالشَّكُّ: اسْتِوَاءُ الطَّرَفَيْنِ دُونَ تَرْجِيحِ أَحَدِهِمَا عَلَى الآْخَرِ) فَلِلْفُقَهَاءِ فِي ذَلِكَ عِدَّةُ آرَاءٍ: أ - وُجُوبُ الْغُسْل، وَهُوَ قَوْل الْحَنَفِيَّةِ وَالْمَالِكِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ، إِلاَّ أَنَّ الْحَنَفِيَّةَ أَوْجَبُوا الْغُسْل إِنْ تَذَكَّرَ الاِحْتِلاَمَ وَشَكَّ فِي كَوْنِهِ مَنِيًّا أَوْ مَذْيًا، أَوْ مَنِيًّا أَوْ وَدْيًا، وَكَذَا إِنْ شَكَّ فِي كَوْنِهِ مَذْيًا أَوْ وَدْيًا؛ لأَِنَّ الْمَنِيَّ قَدْ يَرِقُّ لِعَارِضٍ كَالْهَوَاءِ، لِوُجُودِ الْقَرِينَةِ، وَهِيَ تَذَكُّرُ الاِحْتِلاَمِ. فَإِنْ لَمْ يَتَذَكَّرِ الاِحْتِلاَمَ فَالْحُكْمُ كَذَلِكَ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٍ، أَخْذًا بِالْحَدِيثِ فِي جَوَابِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُل يَجِدُ الْبَلَل وَلَمْ يَذْكُرِ احْتِلاَمًا قَال: يَغْتَسِل. لِلإِْطْلاَقِ فِي كَلِمَةِ " الْبَلَل ". وَقَال أَبُو يُوسُفَ: لاَ يَجِبُ، وَهُوَ الْقِيَاسُ؛ لأِ نَّ الْيَقِينَ لاَ يَزُول بِالشَّكِّ". (الموسوعة الفقهية الكويتية،2/97)

"وَإِنْ اسْتَيْقَظَ الرَّجُلُ وَوَجَدَ عَلَى  فِرَاشِهِ أَوْ فَخِذِهِ بَلَلًا وَهُوَ يَتَذَكَّرُ احْتِلَامًا إنْ تَيَقَّنَ أَنَّهُ مَنِيٌّ أَوْ تَيَقَّنَ أَنَّهُ مَذْيٌ أَوْ شَكَّ أَنَّهُ مَنِيٌّ أَوْ مَذْيٌ فَعَلَيْهِ الْغُسْلُ وَإِنْ تَيَقَّنَ أَنَّهُ وَدْيٌ لَا غُسْلَ عَلَيْهِ وَإِنْ رَأَى بَلَلًا إلَّا أَنَّهُ لَمْ يَتَذَكَّرْ الِاحْتِلَامَ فَإِنْ تَيَقَّنَ أَنَّهُ وَدْيٌ لَا يَجِبُ الْغُسْلُ وَإِنْ تَيَقَّنَ أَنَّهُ مَنِيٌّ يَجِبُ الْغُسْلُ وَإِنْ تَيَقَّنَ أَنَّهُ مَذْيٌ لَا يَجِبُ الْغُسْلُ وَإِنْ شَكَّ أَنَّهُ مَنِيٌّ أَوْ مَذْيٌ قَالَ أَبُويُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: لَا يَجِبُ الْغُسْلُ حَتَّى يَتَيَقَّنَ بِالِاحْتِلَامِ، وَقَالَا: يَجِبُ. هَكَذَا ذَكَرَهُ شَيْخُ الْإِسْلَامِ وَقَالَ الْقَاضِي الْإِمَامُ أَبُو عَلِيٍّ النَّسَفِيُّ: ذَكَرَ هِشَامٌ فِي نَوَادِرِهِ عَنْ مُحَمَّدٍ إذَا اسْتَيْقَظَ الرَّجُلُ فَوَجَدَ الْبَلَلَ فِي إحْلِيلِهِ وَلَمْ يَتَذَكَّرْ حُلْمًا إنْ كَانَ ذَكَرُهُ مُنْتَشِرًا قَبْلَ النَّوْمِ فَلَا غُسْلَ عَلَيْهِ إلَّا إنْ تَيَقَّنَ أَنَّهُ مَنِيٌّ وَإِنْ كَانَ ذَكَرُهُ سَاكِنًا قَبْلَ النَّوْمِ فَعَلَيْهِ الْغُسْلُ قَالَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ الْحَلْوَانِيُّ هَذِهِ الْمَسْأَلَةُ يَكْثُرُ وُقُوعُهَا وَالنَّاسُ عَنْهَا غَافِلُونَ فَيَجِبُ أَنْ تُحْفَظَ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَلَوْ تَذَكَّرَ الِاحْتِلَامَ وَلَذَّةَ الْإِنْزَالِ وَلَمْ يَرَ بَلَلًا لَا يَجِبُ عَلَيْهِ الْغُسْلُ وَالْمَرْأَةُ كَذَلِكَ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ؛ لِأَنَّ خُرُوجَ مَنِيِّهَا إلَى فَرْجِهَا الْخَارِجِ شَرْطٌ لِوُجُوبِ الْغُسْلِ عَلَيْهَا وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى. هَكَذَا فِي مِعْرَاجِ الدِّرَايَةِ". (الْفَصْلُ الثَّالِثُ فِي الْمَعَانِي الْمُوجِبَةِ لِلْغُسْلِ، الْفَصْلُ الثَّالِثُ فِي الْمَعَانِي الْمُوجِبَةِ لِلْغُسْلِ وَهِيَ ثَلَاثَةٌ، (الھندیۃ 1/15)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:شراب پینے کے کچھ دیر بعد جب کہ منھ میں شراب کے قطرے باقی نہیں تھے شرابی مذکور نے قلم منہ میں دبایا پھر نکالا پھر اس کو دوسرے شخص نے منہ میں دبایا  تو اس میں کچھ حرج نہیں، اس کا منہ پاک ہے ناپاک نہیں ہوا، البتہ جان بوجھ کر ایسا نہ کرے کہ اس میں کراہیت طبعی بھی ہے۔(۲)

(۲) و شارب خمر فور شربھا أي بخلاف ما إذا مکث ساعۃ ابتلع ریقہ ثلاث مرات بعد لحس شفتیہ بلسانہ و ریقہ ثم شرب فإنہ لا ینجس ولا بد أن یکون المراد إذا لم یکن في بزاقہ أثر الخمر من طعم أو ریح۔ (ابن عابدین، ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في السؤر، ج۱، ص:۳۸۲)؛ و إلا إذا مکثت ساعۃ لغسل فمھا بلعابھا لأنھما یجوزان إزالۃ النجاسۃ بالمائعات الطاھرۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، فصل في الآسار وغیرہا ، ج۱، ص:۱۱۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص436

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قرآن کے صفحات پر خون لگ جائے، تو ان کو پونچھ دینے سے پاکی حاصل ہو جائے گی، ان کو دھو کر خراب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’وإزا لتہا إن کانت مرئیۃ بإزالۃ عینہا وأثرہا إن کانت شیئا یزول أثرہا ولا یعتبر فیہ العدد وإن کان شیئاً لا یزول أثرہا فإزا لتہا بإزالۃ عینہا ویکون ما بقی من الأثر عفواً وإن کان کثیراً وإنما اعتبرنا زوال العین‘‘ (۱)
’’والنجاسۃ إذا أصابت المرآۃ والسیف اکتفی بمسحہما لأنہ لا تتداخلہما النجاسۃ وما علی ظاہرہ یزول بالمسح‘‘ (۲)

(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الطہارات: الفصل السابع في النجاسات وأحکامہا، في تطہیر النجاسات‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۵(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: باب الأنجاس وتطہیر لہا‘‘: ج ۱، ص: ۷۱۸۔ (زکریا بک ڈپو دیوبند )

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص27

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر فوراً زندہ نکال دیا گیا تو ناپاک نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) و (سؤر) سواکن بیوت طاھر للضرورۃ مکروہ تنزیھا في الأصح إن وجد غیرہٗ و إلا لم یکرہ أصلا أي مما لہٗ دم سائل کالفارۃ والحیۃ والوزغۃ (ابن عابدین، رد المحتار، باب المیاہ، مطلب في السؤر، ج۱، ص:۳۸۴)، و کذا سؤر سواکن البیوت کالفأرۃ والحیۃ والوزغۃ والعقرب و نحوھا (الکاساني، بدائع الصنائع، فصل في الطہارۃ الحقیقۃ، أحکام السور، ج۱، ص:۲۰۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص437