طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذی ناپاک ہے اگر بدن اور کپڑے پر لگ جائے تو ناپاکی کا حکم لگایا جائے گا تاہم لنگی میں اگر ایسی خشک ہو گئی کہ ا س کا اثر بھی معلوم نہیں ہوتا ہے، تو اس کے گیلے بدن پر لگنے سے بدن ناپاک نہیں ہوگا؛ لیکن ایسا کرنا احتیاط کے خلاف ہے؛ اس لیے دوسری لنگی جو مکمل پاک ہو اس کو استعمال کرنا چاہئے۔
’’ولو وضع قدمہ الجاف الطاہر أو نام علی نحو بساط نجس رطب ان ابتل ما أصاب ذلک تنجس وإلا فلا ولا عبرۃ بمجرد النداوۃ علی المختار کما في السراج عن الفتاویٰ‘‘ (۱)
’’کما لو نشر الثوب المبلول علی حبل نجس یابس أو غسل رجلہ ومشی علی أرض نجسۃ أو قام علی فراش نجس فعرق ولم یظہر أثرہ لا یتنجس خانیۃ‘‘(۲)
’’إذا لف الثوب النجس في الثوب الطاہر والنجس رطب فظہرت نداوتہ في الثوب الطاہر لکن لم یصر رطباً بحیث لو عصر یسیل منہ شيء ولا یتقاطر فالأصح أنہ لا یصیر نجساً وکذا لو بسط الثوب الطاہر علی الثوب النجس أو علی أرض نجسۃ مبتلۃ وأثرت تلک النجاسۃ في الثوب لکن لم یصر رطباً بحال لوعصر یسیل منہ شيء ولکن یعرف موضع النداوۃ فالأصح أنہ لا یصیر نجساً، ہکذا في الخلاصۃ‘‘(۱)
(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس والطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۸۔(دارالکتاب، دیوبند)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مسائل شتیٰ‘‘: ج ۶، ص: ۷۳۳۔(زکریا بک ڈپو، دیوبند)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع: في النجاسۃ وأحکامہا، والنوع الثاني: المخففۃ، الفصل الثاني: في الأعیان النجسۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۲۔(مکتبۃ فیصل، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص28

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2700/45-4168

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ناپاک مٹی کے گردوغبار  کے بدن یا کپڑے پر لگنے سے بدن یا کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 40/867

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نجاست کا جِرم اگر مکمل طور پر زائل ہوگیا ہے تو صرف دھبہ کے باقی رہنے سے اور اس پر ہاتھ یا پیر کے مَس ہونے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1716/43-1391

الجواب وباللہ التوفیق:

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چار مہینے یا اس سے زیادہ کا حمل  اگر ساقط ہوجائے تواس کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہوگا، یہی حکم ہے اگر چار مہینہ مکمل ہونے میں کچھ دن کم ہوں اور اعضاء مکمل ہوچکے ہوں اور نفخ روح ہوچکاہو تو بھی اسقاط کے بعد آنےوالا خون نفاس ہوگا۔  اور اگر تین ماہ یا اس سے کم کا  حمل ساقط ہوا  جبکہ بچہ کی تخلیق مکمل نہیں ہوئی تھی تو اب  یہ نفاس کا خون شمار نہیں ہوگا، بلکہ اگر یہ خون عورت کی حیض کی جو عادت تھی ان دنوں میں شروع ہوا تو اب یہ حیض کا خون شمار کیا جائے گا۔   اور اگر عادت کے دنوں میں شروع ہوا لیکن دس دن سے تجاوز کرگیا تو اب یہ استحاضہ کا خون ہوگا، اسی طرح اگر خون شروع ہو کر تین سے پہلے بند ہوگیا تو بھی استحاضۃ کا خون ہوگا۔ عورت حیض و نفاس کے ایام میں نماز نہیں  پڑھے گی، اور بعد میں اس کی  قضاء بھی  نہیں کرے  گی، البتہ استحاضہ کے دنوں میں عورت  ہر نماز کے وقت وضو کرکے نماز ادا کرے گی۔ 

نعم نقل بعضہم أنہ اتفق العلماء علی أن نفخ الروح لا یکون إلاّ بعد أربعة أشہر أي عقبہا کما صرّح بہ جماعة--- ولا ینافي ذلک ظہور الخلق قبل ذلک؛ لأن نفخ الروح إنّما یکون بعد الخلق، وتمام الکلام في ذلک مبسوط في شرح الحدیث الرابع من الأربعین النوویة (شامی،۱/۵۰۱، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ، ط: زکریا)--- والسقط إن ظہر بعضہ فہو ولد تصیر بہ نفساء والأمة أم الولد---؛ لأنہ ولد لکنہ ناقص الخلقة ونقصان الخلقة لا یمنع أحکام الولادة، وفي قولِ صاحب التبیین: لا یستبین خلقہ إلا في مأة وعشرین یومًا، نظر، تأمل․ (مجمع الأنہر مع ملتقی الأبحر، ۱/ ۸۴، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت) دیکھیں: (امداد الفتاوی: ۱/۱۰۱، سوال: ۷۶، ۷۷، ۷۸، ط: کراچی۔ احسن الفتاوی: ۱۰/ ۱۷۴، ط: زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:دھوبی سے کپڑا دھلوانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ ناپاک پانی سے نہ دھوئے اور پاک کرنے کا پورا خیال رکھے۔ (۲)

(۲)و إن کانت شیئا لا یزول أثرہ إلا بمشقۃ بأن یحتاج في إزالتہ إلی شيء آخر سوی الماء کالصابون لا یکلف بإزالتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامھا، ج۱، ص:۹۶)؛ و أما لو غسل في غدیر أو صب علیہ ماء کثیرا، أو جری علیہ الماء طھر مطلقا بلا شرط عصر و تجفیف و تکرار غمس ھو المختار۔ (ابن عابدین، ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في حکم الوشم، ج۱، ص:۴۲-۵۴۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص437

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پرنالے کے پانی کو کسی برتن وغیرہ میں روک کر استعمال کرنا درست ہے، شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی نجاست نہ ہو جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’ولو کان علی السطح عذرۃ فوقع علیہ المطر فسأل المیزاب إن کانت النجاسۃ عند المیزاب وکان الماء کلہ یلاقي العذرۃ أو أکثرہ أو نصفہ فہو نجس وإلا فہو طاہر‘‘(۲)
’’قال في المنیۃ: وعلی ہذا ماء امطر إذا جری في المیزاب وعلی السطح عذرات فالماء طاہر وإن کانت العذرۃ عند المیزاب أو کان الماء کلہ أو نصفہ أو أکثرہ یلاقي العذرۃ فہو نجس و إلا طاہر قال في الحلیۃ: ینبغي أن لا یعتبر في مسألۃ السطح سوی تفسیر أحد الأوصاف‘‘ (۱)
(۲)  جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثالث في المیاہ الفصل الأول: فیما یجوز بہ الوضوء، النوع الأول: الماء الجاري‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۔(مکتبۃ فیصل، دیوبند)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’باب المیاہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص29

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2701/45-4213

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صراط مستقیم پر گامزن ہونے، ایمان مضبوط ہونے، اور آپ کے ساتھ خاندان کے بھی حالات بہتر ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ نیز آپ پر اللّٰه تعالیٰ کا خاص فضل ہونے کی علامت کے ساتھ ساتھ خوش بختی، خدا ترسی، اعمال صالحہ کی توفیق، رضاء الٰہی اور حق کی سربلندی کے لئے اپنے آپ کو قربان کرنے کی دلیل ہے۔ اور یہ کہ سماج میں بڑا مرتبہ حاصل ہوگا، عوام میں یک گونہ شان و شوکت نصیب ہوگی، اور عزت و وقار میں اضافہ ہوگا، آپ کے ارد گِرد قدر شناسوں کا ہجوم ہوگا۔ان شاء اللہ

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:بستر میں جو ناپاکی جذب ہوگئی ہے، اس کو پاک کرنے کے لیے دھونا ہی لازم ہے۔ خشک ہونے سے پاکی حاصل نہیں ہوگی، اگر دھونے سے پہلے اس پر نماز پڑھنی پڑے تو اس پر نماز پڑھنے کے لیے کوئی موٹا کپڑا بچھالیا جائے۔(۱)

(۱)ومالا ینعصر یطھر بالغسل ثلاث مرات، والتجفیف في کل مرۃ، لأن للتجفیف أثرا في استخراج النجاسۃ۔ و حدُّ التجفیف: أن یخلیہ حتی ینقطع التقاطر، ولا یشترط فیہ الیبس، ھکذا في ’’التبیین‘‘ ھذا إذا تشربت النجاسۃ کثیراً، و إن لم تشرب فیہ، أو تشربت قلیلا، یطھر بالغسل ثلاثاً، ھکذا في ’’محیط السرخسي‘‘۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامہا، ج۱، ص:۹۶)؛ و قال ابن نجیم في البحر : و في النجاسۃ الحقیقیۃ المرئیۃ إزالۃ عینھا، و في غیر المرئیۃ غسل محلھا ثلاثا والعصر في کل مرۃ إن کان مما ینعصر والتجفیف في کل مالا ینعصر الخ۔(زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج۱، ص۱۰)؛ و عند أبي یوسف: ینقع في الماء ثلاث مراتٍ و یجفف في کل مرۃ إلا أن معظم النجاسۃ قد زال فجعل القلیل عفواً في حق جواز الصلاۃ للضرورۃ۔ (علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ، کتاب الطہارۃ، فصل : و أما بیان ما یقع بہ التطہیر،  ج۱، ص:۲۴۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص438

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  کپڑے کی نجاست کو اگر دور کر دیا گیا، تو نجاست کے اثر کا باقی رہ جانا مضر نہیں، لہٰذا دھبہ کے ہوتے ہوئے بھی ایسا کپڑا پاک ہے اور کپڑے کے دھبہ کو صابن یا آلہ سے زائل کرنا ضروری نہیں ہے۔
’’فإذا غسل طہر لأنہ اثر یشق زوالہ لأنہ لا یزول إلا بسلخ الجلد أو جرحہ فإذا کان لا یکلف بإزالۃ الأثر الذي یزول بماء حار أو صابون فعدم التکلیف ہنا أولیٰ‘‘ (۲)
’’قال ولا یضر بقاء أثر یشق زوالہ لقولہ علیہ السلام في دم الحیض اغسلیہ ولا یضرک أثرہ دفعاً للحرج‘‘(۳)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في حکم الوشم‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۰۔
(۳) عبد اللّٰہ بن محمود الحنفي، الاختیار لتعلیل المختار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل فیما یجوز إزالۃ النجاسۃ بہ ومالا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰۔(دار الرسالۃ العالمیۃ، بیروت)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص30

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدث اصغر وحدث اکبر دونوں صورتوں میں تیمم ایک ہی طرح سے ہوتا ہے، اور تیمم کے بعد آدمی پاک ہو جاتا ہے اور دونوں کا درجہ برابر ہے، اس وجہ سے صورت مسئولہ میں خواہ کوئی بھی امامت کرے درست ہے۔ ہاں امام دیگر وجوہ ترجیح کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بہتر ہو سکتا ہے۔(۱)

(۱) اقتداء المتوضي بالمتیمم في صلاۃ الجنازۃ جائز بلا خلاف( ابن الہمام، فتح القدیر، ’’باب الإمامۃ‘‘ ج ۱، ص:۳۷۸) والحدث والجنابۃ فیہ سواء۔ (المرغیناني، ہدایہ مع فتح القدیر،’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۵۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص351