طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:شراب پینے کے کچھ دیر بعد جب کہ منھ میں شراب کے قطرے باقی نہیں تھے شرابی مذکور نے قلم منہ میں دبایا پھر نکالا پھر اس کو دوسرے شخص نے منہ میں دبایا  تو اس میں کچھ حرج نہیں، اس کا منہ پاک ہے ناپاک نہیں ہوا، البتہ جان بوجھ کر ایسا نہ کرے کہ اس میں کراہیت طبعی بھی ہے۔(۲)

(۲) و شارب خمر فور شربھا أي بخلاف ما إذا مکث ساعۃ ابتلع ریقہ ثلاث مرات بعد لحس شفتیہ بلسانہ و ریقہ ثم شرب فإنہ لا ینجس ولا بد أن یکون المراد إذا لم یکن في بزاقہ أثر الخمر من طعم أو ریح۔ (ابن عابدین، ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في السؤر، ج۱، ص:۳۸۲)؛ و إلا إذا مکثت ساعۃ لغسل فمھا بلعابھا لأنھما یجوزان إزالۃ النجاسۃ بالمائعات الطاھرۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، فصل في الآسار وغیرہا ، ج۱، ص:۱۱۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص436

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قرآن کے صفحات پر خون لگ جائے، تو ان کو پونچھ دینے سے پاکی حاصل ہو جائے گی، ان کو دھو کر خراب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’وإزا لتہا إن کانت مرئیۃ بإزالۃ عینہا وأثرہا إن کانت شیئا یزول أثرہا ولا یعتبر فیہ العدد وإن کان شیئاً لا یزول أثرہا فإزا لتہا بإزالۃ عینہا ویکون ما بقی من الأثر عفواً وإن کان کثیراً وإنما اعتبرنا زوال العین‘‘ (۱)
’’والنجاسۃ إذا أصابت المرآۃ والسیف اکتفی بمسحہما لأنہ لا تتداخلہما النجاسۃ وما علی ظاہرہ یزول بالمسح‘‘ (۲)

(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الطہارات: الفصل السابع في النجاسات وأحکامہا، في تطہیر النجاسات‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۵(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: باب الأنجاس وتطہیر لہا‘‘: ج ۱، ص: ۷۱۸۔ (زکریا بک ڈپو دیوبند )

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص27

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر فوراً زندہ نکال دیا گیا تو ناپاک نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) و (سؤر) سواکن بیوت طاھر للضرورۃ مکروہ تنزیھا في الأصح إن وجد غیرہٗ و إلا لم یکرہ أصلا أي مما لہٗ دم سائل کالفارۃ والحیۃ والوزغۃ (ابن عابدین، رد المحتار، باب المیاہ، مطلب في السؤر، ج۱، ص:۳۸۴)، و کذا سؤر سواکن البیوت کالفأرۃ والحیۃ والوزغۃ والعقرب و نحوھا (الکاساني، بدائع الصنائع، فصل في الطہارۃ الحقیقۃ، أحکام السور، ج۱، ص:۲۰۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص437

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذی ناپاک ہے اگر بدن اور کپڑے پر لگ جائے تو ناپاکی کا حکم لگایا جائے گا تاہم لنگی میں اگر ایسی خشک ہو گئی کہ ا س کا اثر بھی معلوم نہیں ہوتا ہے، تو اس کے گیلے بدن پر لگنے سے بدن ناپاک نہیں ہوگا؛ لیکن ایسا کرنا احتیاط کے خلاف ہے؛ اس لیے دوسری لنگی جو مکمل پاک ہو اس کو استعمال کرنا چاہئے۔
’’ولو وضع قدمہ الجاف الطاہر أو نام علی نحو بساط نجس رطب ان ابتل ما أصاب ذلک تنجس وإلا فلا ولا عبرۃ بمجرد النداوۃ علی المختار کما في السراج عن الفتاویٰ‘‘ (۱)
’’کما لو نشر الثوب المبلول علی حبل نجس یابس أو غسل رجلہ ومشی علی أرض نجسۃ أو قام علی فراش نجس فعرق ولم یظہر أثرہ لا یتنجس خانیۃ‘‘(۲)
’’إذا لف الثوب النجس في الثوب الطاہر والنجس رطب فظہرت نداوتہ في الثوب الطاہر لکن لم یصر رطباً بحیث لو عصر یسیل منہ شيء ولا یتقاطر فالأصح أنہ لا یصیر نجساً وکذا لو بسط الثوب الطاہر علی الثوب النجس أو علی أرض نجسۃ مبتلۃ وأثرت تلک النجاسۃ في الثوب لکن لم یصر رطباً بحال لوعصر یسیل منہ شيء ولکن یعرف موضع النداوۃ فالأصح أنہ لا یصیر نجساً، ہکذا في الخلاصۃ‘‘(۱)
(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس والطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۸۔(دارالکتاب، دیوبند)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مسائل شتیٰ‘‘: ج ۶، ص: ۷۳۳۔(زکریا بک ڈپو، دیوبند)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع: في النجاسۃ وأحکامہا، والنوع الثاني: المخففۃ، الفصل الثاني: في الأعیان النجسۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۲۔(مکتبۃ فیصل، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص28

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2700/45-4168

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ناپاک مٹی کے گردوغبار  کے بدن یا کپڑے پر لگنے سے بدن یا کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 40/867

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نجاست کا جِرم اگر مکمل طور پر زائل ہوگیا ہے تو صرف دھبہ کے باقی رہنے سے اور اس پر ہاتھ یا پیر کے مَس ہونے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1716/43-1391

الجواب وباللہ التوفیق:

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چار مہینے یا اس سے زیادہ کا حمل  اگر ساقط ہوجائے تواس کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہوگا، یہی حکم ہے اگر چار مہینہ مکمل ہونے میں کچھ دن کم ہوں اور اعضاء مکمل ہوچکے ہوں اور نفخ روح ہوچکاہو تو بھی اسقاط کے بعد آنےوالا خون نفاس ہوگا۔  اور اگر تین ماہ یا اس سے کم کا  حمل ساقط ہوا  جبکہ بچہ کی تخلیق مکمل نہیں ہوئی تھی تو اب  یہ نفاس کا خون شمار نہیں ہوگا، بلکہ اگر یہ خون عورت کی حیض کی جو عادت تھی ان دنوں میں شروع ہوا تو اب یہ حیض کا خون شمار کیا جائے گا۔   اور اگر عادت کے دنوں میں شروع ہوا لیکن دس دن سے تجاوز کرگیا تو اب یہ استحاضہ کا خون ہوگا، اسی طرح اگر خون شروع ہو کر تین سے پہلے بند ہوگیا تو بھی استحاضۃ کا خون ہوگا۔ عورت حیض و نفاس کے ایام میں نماز نہیں  پڑھے گی، اور بعد میں اس کی  قضاء بھی  نہیں کرے  گی، البتہ استحاضہ کے دنوں میں عورت  ہر نماز کے وقت وضو کرکے نماز ادا کرے گی۔ 

نعم نقل بعضہم أنہ اتفق العلماء علی أن نفخ الروح لا یکون إلاّ بعد أربعة أشہر أي عقبہا کما صرّح بہ جماعة--- ولا ینافي ذلک ظہور الخلق قبل ذلک؛ لأن نفخ الروح إنّما یکون بعد الخلق، وتمام الکلام في ذلک مبسوط في شرح الحدیث الرابع من الأربعین النوویة (شامی،۱/۵۰۱، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ، ط: زکریا)--- والسقط إن ظہر بعضہ فہو ولد تصیر بہ نفساء والأمة أم الولد---؛ لأنہ ولد لکنہ ناقص الخلقة ونقصان الخلقة لا یمنع أحکام الولادة، وفي قولِ صاحب التبیین: لا یستبین خلقہ إلا في مأة وعشرین یومًا، نظر، تأمل․ (مجمع الأنہر مع ملتقی الأبحر، ۱/ ۸۴، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت) دیکھیں: (امداد الفتاوی: ۱/۱۰۱، سوال: ۷۶، ۷۷، ۷۸، ط: کراچی۔ احسن الفتاوی: ۱۰/ ۱۷۴، ط: زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:دھوبی سے کپڑا دھلوانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ ناپاک پانی سے نہ دھوئے اور پاک کرنے کا پورا خیال رکھے۔ (۲)

(۲)و إن کانت شیئا لا یزول أثرہ إلا بمشقۃ بأن یحتاج في إزالتہ إلی شيء آخر سوی الماء کالصابون لا یکلف بإزالتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامھا، ج۱، ص:۹۶)؛ و أما لو غسل في غدیر أو صب علیہ ماء کثیرا، أو جری علیہ الماء طھر مطلقا بلا شرط عصر و تجفیف و تکرار غمس ھو المختار۔ (ابن عابدین، ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في حکم الوشم، ج۱، ص:۴۲-۵۴۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص437

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پرنالے کے پانی کو کسی برتن وغیرہ میں روک کر استعمال کرنا درست ہے، شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی نجاست نہ ہو جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’ولو کان علی السطح عذرۃ فوقع علیہ المطر فسأل المیزاب إن کانت النجاسۃ عند المیزاب وکان الماء کلہ یلاقي العذرۃ أو أکثرہ أو نصفہ فہو نجس وإلا فہو طاہر‘‘(۲)
’’قال في المنیۃ: وعلی ہذا ماء امطر إذا جری في المیزاب وعلی السطح عذرات فالماء طاہر وإن کانت العذرۃ عند المیزاب أو کان الماء کلہ أو نصفہ أو أکثرہ یلاقي العذرۃ فہو نجس و إلا طاہر قال في الحلیۃ: ینبغي أن لا یعتبر في مسألۃ السطح سوی تفسیر أحد الأوصاف‘‘ (۱)
(۲)  جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثالث في المیاہ الفصل الأول: فیما یجوز بہ الوضوء، النوع الأول: الماء الجاري‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۔(مکتبۃ فیصل، دیوبند)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’باب المیاہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص29

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2701/45-4213

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صراط مستقیم پر گامزن ہونے، ایمان مضبوط ہونے، اور آپ کے ساتھ خاندان کے بھی حالات بہتر ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ نیز آپ پر اللّٰه تعالیٰ کا خاص فضل ہونے کی علامت کے ساتھ ساتھ خوش بختی، خدا ترسی، اعمال صالحہ کی توفیق، رضاء الٰہی اور حق کی سربلندی کے لئے اپنے آپ کو قربان کرنے کی دلیل ہے۔ اور یہ کہ سماج میں بڑا مرتبہ حاصل ہوگا، عوام میں یک گونہ شان و شوکت نصیب ہوگی، اور عزت و وقار میں اضافہ ہوگا، آپ کے ارد گِرد قدر شناسوں کا ہجوم ہوگا۔ان شاء اللہ

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند