طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:صوفہ پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ اس کو پانی سے دھویاجائے اور ہر مرتبہ کے بعد اتنی دیر چھوڑدیاجائے کہ پانی ٹپکنا بندہوجائے اور اگر تر کپڑا نجاست لگی جگہ پر پھیردیاجائے تو بھی صوفہ پاک ہوجاتا ہے۔ (۲)

(۲)و عند أبي یوسف ینقع في الماء ثلاث مرات و یجفف في کل مرۃ إلا أن معظم  … النجاسۃ قد زال فجعل القلیل عفوا في حق جواز الصلوۃ للضرورۃ الخ۔ (علاء الدین الکاساني،بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الطہارۃ، فصل :و أما بیان ما یقع بہ التطہیر،ج۱، ص:۲۴۲)؛ و النجاسۃ الحقیقیۃ المرئیۃ إزالۃ عینھا، و في غیر المرئیۃ غسل محلھا ثلاثاً، والعصر في کل مرۃ: إن کان مما ینعصر، والتجفیف في کل مالا ینعصر الخ۔  قدر (بتثلیث جفاف) أي: انقطاع تقاطر (في غیرہ) أي: غیر منعصر مما یتشرب النجاسۃ وإلا فبقلعہا۔’’في حاشیۃ الواني علی الدرر. (قولہ: أي: غیر منعصر) أي: بأن تعذر عصرہ کالخزف أو تعسر کالبساط‘‘ (ابن نجیم، البحر الرائق، شرح کنز الدقائق، ج۱، ص:۱۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص439

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تین بار دھونے اور ہر بار اچھی طرح نچوڑنے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے، فقہاء نے تین بار دھونے سے ضرورت کی وجہ سے اس کو پاک قرار دیا ہے تاکہ لا متناہی سلسلہ سے بچا جا سکے؛ اس لئے جس کپڑے پر نجاست لگی ہو سب سے پہلے نجاست کو دور کریں پھر تین بار اچھی طرح کپڑے کو دھوئیں اور ہر بار نچوڑیں، اس سے کپڑا پاک ہو جائے گا، اب مزید کوئی وسوسہ پیدا نہ کریں۔
’’إذا تشربت النجاسۃ … یطہر بالغسل ثلاثاً‘‘(۱)
’’وأما في الثالث: فإن کان مما یمکن عصرہ کالثیاب فطہارتہ بالغسل والعصر إلی زوال المرئیۃ وفي غیرہ بتثلیثہما‘‘(۲)
’’وجہ قول أبي یوسف أن القیاس یأبي حصول الطہارۃ بالغسل بالماء أصلاً لأن الماء متی لاقي النجاسۃ تنجس سواء ورد الماء علی النجاسۃ أو وردت النجاسۃ علی الماء والتطہیر بالنجس لا یتحقق إلا أنا حکمنا بالطہارۃ لحاجۃ الناس تطہیر الثیاب والأعضاء النجسۃ والحاجۃ تندفع بالحکم بالطہارۃ عند ورود الماء علی النجاسۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الأول: في تطہیر الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۹۶۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس مطلب في حکم الوشم‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۱۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في طریق التطہیر بالغسل‘‘: ج ۱، ص: ۸۷۔(مکتبۃ زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص31

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ تیمم سے دیگر عبادات یا تلاوت کرنا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) و أما التیمم لصلاۃ الجنازۃ أو عید خیف فوتھا فغیر کامل، لأنہ یکون مع حضور الماء لھذا لا تصع صلاۃ الفرض بہ ولا صلاۃ جنازۃ حضرت بعدہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’سنن التیمم‘‘ج۱، ص:۳۳۸)؛ و فشرط لجواز تیممھا لصلوٰۃ الجنازۃ أو العید انقطاع الحیض لتمام العشرۃ لأن المراد بھذا التیمم ھو التیمم الناقص الذي یکون عند وجود الماء لخوف فوت صلاۃ تفوت لا إلی بدل، و إنما کان ناقصاً؛ لأنہ لا یصلي بہ الفرض (ابن عابدین ’’رد المحتار، باب الحیض، مطلب لو أفتی مفت بشيء من ھذہ الأقوال‘‘ج۱، ص:۴۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص352

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:(۱) یہ جو بھی ہے بغیر شہوت کے ہے، ایسی صورت میں وضو کرے، غسل کی ضرورت نہیں ہے، ’’ولیس في المذي والودي غسل وفیہما الوضوء‘‘(۱)
(۲) شہوت کے ساتھ آہستہ آہستہ جو پانی نکلتا ہے، جس میں چپچپاہٹ ہوتی ہے، اس کو مذی کہتے ہیں، مذی نکلتی ہے، تو شہوت اور بڑھتی ہے۔ اور شہوت کے ساتھ ایک ہیجانی کیفیت کے بعد جو پانی نکلتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا ہے اور اس کے بعد شہوت  کم ہوجاتی ہے، اس کو منی کہتے ہیں۔ اس تعریف سے فرق بھی واضح ہو گیا۔(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المختار علی الدر المختار،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في حکم الوشم، ج۱، ص:۵۴۱)
(۲)ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، فصل في الغسل، ج۱، ص:۷۱

(۱)قال: ولیس في المذي والودي غسل و فیھما الوضوء لقولہ علیہ السلام: ’’کل فحل یمذي و فیہ الوضوء‘‘ والودي الغلیظ من البول یتعقب الدقیق منہ خروجا، فیکن معتبراً بہ، والمني حاثر أبیض ینکسر منہ الذکر، والمذي رقیق یضرب إلی البیاض یخرج عند ملاعبۃ الرجل أھلہ والتفسیر مأثور عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا۔ (المرغینانی، الہدایۃ، کتاب الطہارۃ، قبیل ’’باب الماء الذي یجوز بہ الوضو الخ، ج ۱، ص:۳۳)؛ وھو (أي المذي) ماء أبیض رقیق یخرج عند شھوۃ لا بشھوۃ ولا دفق، ولا یعقبہ فتور، و ربما لا یحس بخروجہ، وھو أغلب في النساء من الرجال - وھو (الودي) ماء أبیض کدر ثخین یشبہ المني في الثخانہ و یخالفہ في الکدورۃ ولا رائحہ لہ و یخرج عقیب البول إذا کانت الطبیعۃ مستمسکۃ، و عند حمل شيء ثقیل، و یخرج قطرۃ أو قطرتین و نحوھما۔ و أجمع العلماء علی أنہ لا یجب الغسل بخروج المذي والودي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۱۱۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص440

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صحیح قول کے مطابق کپڑے کے ہر حصہ کا چوتھائی مراد ہے جیسے کپڑے کی آستین، کرتے کی کلی ودامن وغیرہ، اسی طرح اگر نجاست خفیفہ بدن پر لگ جائے تو قلیل مقدار معاف ہے اور کثیر معاف نہیں پھر قلیل اور کثیر کے بارے میں فقہاء میں اختلاف ہے، صحیح یہ ہے کہ ربع سے کم معاف ہے اور احناف کے یہاں صحیح قول کے مطابق بدن کے اعضاء میں سے ہر عضو کا چوتھائی مراد ہے۔
’’وقال الشامي رحمہ اللّٰہ: ربع طرف أصابتہ النجاسۃ کالذیل والکم والدخریص إن کان المصاب ثوبا وربع العضو المصاب کالید والرجل إن کان بدناً وصححہ في التحفۃ والمحیط والمجتبی والسراج وفي الحقائق وعلیہ الفتویٰ‘‘(۱)
’’وقیل: ربع الموضع المصاب کالذیل والکم قال في التحفۃ ہو الأصح وفي الحقائق وعلیہ الفتویٰ‘‘(۲)
’’وعنہ ش: أي عن أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ، م: (ربع أدنیٰ ثوب تجوز فیہ الصلاۃ المئزر) ش: لأنہ أقصر الثیاب وفیہ الاحتیاط ویقرب منہ ما قال أبوبکر الرازي یعتبر السراویل احتیاطاً، م: (وقیل ربع الموضع الذي أصابہ کالذیل والدخریص) ش: قال في المحیط: وہو الأصح وکذا قال في التحفۃ‘‘(۳)
’’ربع العضو المصاب کالید والرجل إن کان بدنا وصححہ في التحفۃ والمحیط والمجتبیٰ والسراج وفي الحقائق وعلیہ الفتویٰ‘‘ (۴)
وہکذا في الہدایۃ:
’’وربع العضو المصاب کالید والرجل إن کان بدناً وصححہ صاحب التحفۃ  والمحیط والبدائع والمجتبیٰ والسراج الوہاج وفي الحقائق وعلیہ الفتویٰ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مبحث في بول الفارۃ وبعرہا‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۶۔
(۲) طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ج ، ص: ۱۵۷۔
(۳) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس وتطہیرہا‘‘: ج ۱، ص: ۷۲۹۔
(۴) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مبحث في بول الفارۃ وبعرہا‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۶۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا: الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱۔


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص32

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2703/45-4167

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دوران حیض مدینہ منورہ میں اپنے ہوٹل میں یا مسجد نبوی ﷺ کے باہر رہ کر درود شریف یا ذکر واذکار کرسکتی ہے۔ البتہ مسجد نبوی ﷺ یا ریاض الجنۃ میں جانا ممنوع ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسے ڈھیلے سے تیمم جائز نہیں۔(۲)

(۲)الأرض تطھر بالیبس و ذہاب الأثر للصلاۃ، لا للتیمم… الأجرّۃ إذا کانت مفروشۃ، فحکمھا حکم الأرض، تطھر بالجفاف و إن کانت موضوعۃ تنقل و تحول، لا بد من الغسل ھکذا في المحیط و کذا الحجر واللبنۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع في النجاسۃ و أحکامہا، و منھا الجفاف و زوال الأثر‘‘ج ۱، ص:۹۹) ؛ و لو تیمم بأرض قد أصابتھا نجاسۃ فجفت و ذھب أثرھا، لم یجز في ظاھر الروایۃ۔ (الکاسانی، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع،’’کتاب الطہارۃ، فصل في بیان ما یتیمم بہ‘‘ ج۱، ص:۱۸۰) ؛ والأرض إذا أصابتھا النجاسۃ فجفت ولم یر أثرھا جازت الصلاۃ فوقھا… أما التیمم عنھا روایتان۔ والصحیح أنہ لایجوز۔ (عالم بن العلاء الحنفی، الفتاویٰ التاتارخانیہ، تطہیر النجاسات ، ج۱۰، ص:۴۶۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص352

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:قرآن کریم کی آیات کو قرآن کی حیثیت سے پڑھنا جنبی کے لیے حرام ہے۔(۲)

(۲)عن ابن عمر عن النبي ﷺ قال: لا تقرأ الحائض ولا الجنب شیئا من القرآن الخ۔ (أخرجہ محمد بن عیسیٰ الترمذي، في سننہ، باب ما جاء في الجنب والحائض أنھما لا یقرآن القرآن، …(ج۱،ص:۳۴، رقم: ۱۳۱)؛ و قال صاحب المرقاۃ: اتفقوا علی أن الجنب لا یجوز لہ قراء ۃ القرآن۔ (علی بن محمد، مرقاۃ المفاتیح،  باب مخالطۃ الجنب و یباح لہ، ج۱، ص۱۴۸)؛ ویحرم بہ تلاوۃ قرآن ولو دون آیۃ علی المختار بقصدہ و مسہ، (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، یطلق الدماء علی ما یشمل الثناء، ج۱، ص:۳۱۳)؛ و لا تقرأ الحائض والنفساء والجنب شیئا من القرآن، والآیۃ وما دونھا سواء في  التحریم علی الأصح، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الطھارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء،الفصل الرابع في أحکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ: ومنھا حرمۃ قراء ۃ القرآن، ج۱، ص:۹۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص441

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نظر آنے والی نجاست مٹی یا کسی بھی چیز سے رگڑ کر اس طرح صاف کردی جائے کہ نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے، تو وہ چیز پاک ہو جائے گی؛ لہٰذا گوبر کو اگر اچھی طرح گھاس پر رگڑ کر صاف کر دیا تھا، تو نماز درست ہو گئی۔
’’وعن أبي یوسف رحمہ اللّٰہ أنہ إذا مسحہ في التراب أو الرمل علی سبیل المبالغۃ یطہر وعلیہ فتویٰ من مشائخنا للبلویٰ والضرورۃ‘‘(۲)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص34

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پریشانی ومجبوری کی وجہ سے تیمم کی اجازت ہے، تیمم واجب نہیں، اس لیے اگر کوئی شخص رخصت سے فائدہ نہ اٹھائے، تب بھی کوئی گناہ نہیں۔(۱)

(۱)فإن لم تجدوا مائً فتیمموا صعیداً طیباً۔ (مائدۃ)  إعلم أن التیمم لم یکن مشروعاً لغیر ھذہ الأمۃ، و إنما شرع رخصۃً لنا۔ (عالم بن العلاء الحنفي، الفتاویٰ تاتارخانیہ، ’’الفصل الخامس في التیمم‘‘ج۱، ص:۳۶۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص353