طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:دونوں صورتوں میں مٹی کا برتن ناپاک ہو جاتا ہے، برتن کو خوب ملکر تین مرتبہ دھونے سے پاک ہو جاتا ہے۔ (۱)

(۱) و یطھر محل غیرھا أي غیر مرئیۃ بغلبۃ ظن غاسل لو مکلفا و إلا فمستعمل طھارۃ محلھا بلا عذر بہ یفتی۔ و قدر ذلک لموسوس بغسل و عصر ثلاثا أو سبعا فیما ینعصر مبالغا بحیث لا یقطر۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،ج۱، ص:۳۱۳)؛ و إزالتھا إن کانت مرئیۃ بإزلۃ عینھا۔۔۔ و إن کانت غیر مرئیۃ یغسلھا ثلاث مرات، کذا في المحیط، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع؛ في النجاسۃ و أحکامھا و منھا: الغسل،ج۱، ص:۹۶)؛  و یطھر متنجس بنجاسۃ مرئیۃ بزوال عینھا ولو بمرۃ علی الصحیح ولا یضر بقاء أثر شق زوالہ و غیر المرئیۃ بغسلھا ثلاثاً والعصر کل مرۃ فیما ینعصر۔( الشرنبلالي، مراقی الفلاح،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنہا، ص:۶۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص442

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بچہ کے پیشاب کردہ پاجامہ میں اس قدر تری ہو کہ اگر اس کو نچوڑا جائے، تو نچوڑنے پر پیشاب کا قطرہ ٹپکے، تو اس کے کپڑے سے مس ہونے سے کپڑا ناپاک ہو جائے گا۔ اور اگر پاجامہ گیلا تھا مگر نچوڑنے کے قابل نہیں تھا اور پاک کپڑے پر پیشاب لگ جانا معلوم نہیں ہو رہا ہو، تو اس کے مس ہونے سے کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔
’’کما لا ینجس ثوب جاف طاہر لف في ثوب نجس رطب لا ینعصر الرطب لو عصر لعدم انفصال جرم النجاسۃ إلیہ اختلف المشائخ فیما لو کان الثوب الجاف الطاہر بحیث لو عصر لا یقطر فذکر الحلواني أنہ لا ینجس في الأصح وفیہ نظر لأن کثیراً من النجاسۃ یتشربہ الجاف ولا یقطر بالعصر کما ہو مشاہد عند ابتداء غسلہ فلا یکون المنفصل إلیہ مجرد نداوۃ إلا إذا کان النجس لا یقطر بالعصر فیتعین أن یفتی بخلاف ما صحح الحلواني ولا ینجس ثوب رطب بنشرہ علی أرض نجسۃ ببول أو سرقین لکونہا یابسۃ فتندت الأرض منہ أي من الثوب الرطب ولم یظہر أثرہا فیہ‘‘ (۱)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۹؛ ونور الإیضاح، ’’في الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص35

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنا درست ہے۔(۲)

(۲)جاز تیمم جماعۃ من محل واحد، (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم، مطلب فاقد الطہورین‘‘ج ۱، ص:۴۲۴)؛ و لو تیمم إثنان من موضع واحد، جاز کذا في محیط السرخسی، و إذا تیمم مراراً من موضع واحد جاز (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الرابع: في التیمم، الفصل الثالث: في المتفرقات‘‘ ج۱،ص:۸۵) ولو تیمم جنب أو محدث من مکان، ثم تیمم غیرہ من ذلک المکان، أجزأہ، لأن التراب المستعمل ما التزق بید المتیمم الأول لا ما باقی علی الأرض۔ (الکاساني،بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع،’’کتاب الطہارۃ، فصل في بیان یتیمم بہ‘‘ ج۱، ص:۱۸۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص353

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:قالین وغیرہ پر اگر ناپاکی لگ جائے اوراس کو باہر نکال کر دھونا ممکن ہو، یا اس کو گھر سے نکالنا ممکن ہو، تو اس پر پانی ڈال کر دیوار وغیرہ پر ڈال دیا جائے اور جب پانی کا قطرہ گرنا بند ہوجائے، تو اس پر دوبارہ پانی ڈالا جائے اس طرح تین مرتبہ کرنے سے قالین پاک ہوجائے گی، اور اگر اس کو گھر سے نکالنا ممکن نہ ہو؛ لیکن اس کو زمین سے اوپر کرنا ممکن ہو اس طور پر کہ نجاست کی جگہ کے نیچے کوئی چیز ڈال دی جائے تاکہ پانی اس کے نیچے گر جائے اس طرح تین مرتبہ کرنے سے قالین پاک ہوجائے گی، اور اگر اس کو زمین سے اوپر کرنا بھی ممکن نہ ہو، تو نجاست کی جگہ پانی ڈال دیا جائے اور کسی جذب کرنے والی چیز کے ذریعہ اس کو جذب کرلیا جائے، اس طرح تین مرتبہ کرنے سے پاک ہوجائے گا(۱) ’’وما لا ینعصر یطہر بالغسل ثلاث مرات، والتجفیف في کل مرۃ؛ لأن للتجفیف أثرا في استخراج النجاسۃ، وحد التجفیف أن یخلیہ حتی ینقطع التقاطر ولا یشترط فیہ الیبس‘‘۔(۲)

 (۱) وفي النجاسۃ الحقیقیۃ المرئیۃ إزالۃ عینھا، و في غیر المرئیۃ غسل محلھا ثلاثاً، والعصر في کل مرۃ إن کان مما ینعصر، والتجفیف في کل مالا ینعصر۔ (زین الدین ابن نجم، البحر الرائق،ج۱، ص:۱۰)؛ و عند أبي یوسف: ینقع في الماء ثلاث مرات و یجفف في کل مرۃ إلا أن معظم النجاسۃ۔، قد زال فجعل القلیل عفوا الخ۔(علاؤ الدین الکاساني، بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، فصل: و أما بیان ما یقع بہ التطہیر،ج۱، ص:۲۴۲)
(۲)جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ،کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامھا،ج۱، ص:۹۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص443

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نظر نہ آنے والی نجاست اگر کپڑے میں لگ جائے، تو اس کو تین مرتبہ اس طرح دھونا چاہئے کہ نجاست زائل ہو جائے، نجاست کے زائل ہونے کا غالب گمان بھی کافی ہے، صورت مسئولہ میں جب کہ کپڑا پھٹنے کا اندیشہ ہے، تو کپڑے کو آہستہ آہستہ تین مرتبہ نچوڑیں طاقت سے نہ نچوڑیں، ایسی صورت میں بھی کپڑا پاک ہو جائے گا۔
’’ویشترط العصر في کل مرۃ فیما ینعصر ویبالغ فی المرۃ الثالثۃ حتی لو عصر بعدہ لا یسیل منہ الماء‘‘ (۱)
’’وطہارۃ المرئي بزوال عینہ ویعفی أثر شق زوالہ وغیر المرئي بالغسل ثلاثاً والعصر کل مرۃ إذا أمکن‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الأول: في تطہیر الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۔
(۲) عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۱۔(شاملۃ)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص36

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس مٹی کے گو لے پر بار بار تیمم کرنا جائز ہے، اس پر نجاست کا کوئی اثر نہیں ہوتا، جو شخص اس کو نا جائز کہتا ہے وہ غلط کہتا ہے، در مختار میں اس کی تصریح موجود ہے کہ ایک جگہ ایک ہی مٹی پر بار بار تیمم کرنا جائز ہے۔(۱)

(۱)السادس من الشروط أن یکون التیمم بضربتین بباطن الکفین لما روینا فإن نوی التیمم و أمر بہ غیرہ فیممہ صح۔ ولو کان الضربتان في مکان واحد علی الأصح لعدم صیرورتہ مستعملا لأن التیمم بما في الید۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’باب التیمم‘‘ ج۱،ص:۱۲۰) ؛ والسادس أن یکون بضربتین بباطن الکفین ولو في مکان واحد۔( الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج۱،ص:۴۲) ؛ و أما إذا تیمم جماعۃ من محل واحد فیجوز کما سیأتي في الفروع: لأنہ لم یصر مستعملاً إذ التیمم إنما یتأدی بما التزق بیدہ لا بما فضل۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۴۰۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص354

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نجاست حقیقیہ کے جسم پر باقی رہتے ہوئے نماز پڑھنا درست نہیں؛ بلکہ نجاست حقیقیہ زائل کر کے تیمم کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔
’’تطہیر النجاسۃ واجب من بدن المصلی … ویجوز تطہیرہا بالماء وبکل مائع طاہر‘‘(۱)
’’ہي طہارۃ بدنہ من حدث وخبث وثوبہ ومکانہ … أما طہارۃ بدنہ من الحدث فبآیۃ الوضوء والغسل والخبث فبقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تنزہو من البول فإن عامۃ عذاب القبر منہ، والحدیث فاطمۃ بنت أبي حبیش اغسلي منک الدم وصلی‘‘(۲)
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس وتطہیرہا‘‘: ج ۱، ص: ۷۱۔(مکتبۃ الاتحاد، دیوبند)
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۳۔(دارالکتاب دیوبند)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص37

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیخ فانی کے لیے کسی خاص عمر کی تحدید نہیں ہے، بلکہ شیخ فانی اس بوڑھے کو کہتے ہیں جو قریب المرگ ہو گیا ہو اور اس کی قوت جسمانی روز بروز زوال اور کمی کی طرف جا رہی ہو، ایسے شیخ فانی کے لیے روزے میں بھی یہ حکم ہے کہ وہ روزوں کا فدیہ دیدے، مگر نماز کے لیے کوئی خاص حکم شیخ فانی کے لیے نہیں ہے، بلکہ نماز کے متعلق حکم یہی ہے کہ کوئی شخص خواہ کتنی عمر کا ہو جب تک کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکے تو بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں، اسی طرح جب تک بیماری وغیرہ کا کوئی  عذر نہ ہو تیمم اس کے لیے درست نہیں ہے، اور اگر ٹھنڈے پانی سے موسم سرما میں ضرر (بیماری بڑھنے یا اعضاء کا تلف ہونے) کا اندیشہ ہو، تو اگر پانی گرم کرنے کی قدرت ہے، تو پانی گرم کرا کر وضوئکرے تیمم ایسی حالت میں درست نہیں ہے اور اگر پانی گرم کرنے کی قدرت نہ ہو، تو تیمم درست ہے۔(۱)

(۱)من عجز مبتدأ خبرہ تیمم۔ عن استعمال الماء المطلق الکافي لطہارتہ لصلاۃ تفوت إلی الخلف۔۔۔ إلی۔۔۔۔ أو لمرض یشتد أو یمتد بغلبۃ ظن أو قول حاذق مسلم و لو بتحرک۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج۱، ص:۹۷-۹۶-۳۹۵) ؛ ویتمم المسافر ومن ھو في خارج المصر لبعدہ عن الماء میلاً أو لمرض خاف زیادتہ۔ (إبراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۵۸) ؛ ومن عجز من استعمال الماء لبعدہ … أو برد) یھلک الجنب أو یمرضہ۔ ولو في المصر… قولہ : (یھلک الجنب أو یمرضہ) قید بالجنب، لأن المحدث لا یجوز لہ التیمم للبرد في الصحیح۔۔۔۔ تیمم لھذہ الأعذار کلھا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج۱،ص:۴۰۱-۳۹۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص354

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 865 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دھوبی سے کپڑا دھلوانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ ناپاک پانی سے نہ دھوئے اور پاک کرنے کا پورا خیال رکھے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: باتھ روم میں جمع شدہ ناپاک پانی سے جوتا ناپاک ہو گیا اور ناپاکی جوتے کے اندر سرایت کر گئی، اس جوتے کو تین مرتبہ پانی سے دھو دیا جائے تو جوتا پاک ہو جائے گا، دھوپ میں خشک کرنے سے پاکی حاصل نہ ہوگی۔
’’وطہارۃ المرئي بزوال عینہ ویعفی أثر شق زوالہ وغیر المرئي بالغسل ثلاثا والعصر کل مرۃ إن أمکن عصرہ‘‘(۱)
’’إذا تشربت النجاسۃ … یطہر بالغسل ثلاثاً‘‘(۲)
(۱) عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۹۱۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الأول: في تطہیر الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص38