Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو میں مسواک کرنا عورتوں کے لئے بھی سنت ہے جیسے مردوں کے لئے؛ لیکن اگر عورتوں کے مسوڑھے مسواک کے متحمل نہ ہوں اور اس میں تکلیف ہو، تو عورت کے لیے دنداسہ (جو ایک قسم کا رنگین اور ذائقہ دار ہوتا ہے) مسواک کے قائم مقام ہے اور نیت کے ساتھ دنداسہ سے بھی سنت ادا ہوجائے گی۔
جیسا کہ اسی مفہوم کو علامہ بدر الدین العینی نے’’ البنایہ شرح الہدایۃ‘‘ میں لکھا ہے:
’’العلک للمرأۃ یقوم مقام السواک؛ لأنہا تخاف سقوط أسنانہا؛ لأن سنہا ضعیف، والعلک مما ینقی الأسنان ویشد اللثۃ‘‘(۲)
مسواک کا ذکر کئی احادیث متواترہ میں آیا ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص جان بوجھ کر مسواک کا مذاق اڑائے یا مطلقاً سرے سے اس کا انکار ہی کردے تو گویا کہ اس نے احادیث متواترہ کا مذاق اڑایا اور اس کا انکار کیا ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا، کیونکہ تواتر کا منکر کافر ہوتا ہے جیسا کہ کتب فقہ میں اس کا ذکر موجود ہے:
’’قیل ھذا استخفاف بسنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم، وأنہ کفر … وکذلک في سائر السنن خصوصا في سنۃ ھي معروفۃ و ثبوتھا بالتواتر کالسواک وغیرہ‘‘(۱)
’’ومنہا ما یتعلق بالأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام من لم یقر ببعض الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام، أو لم یرض بسنۃ من سنن المرسلین فقد کفر‘‘(۲)
’’والسواک سنۃ، واعتقاد سنیتہ فرض، وتحصیل علمہ سنۃ، وجحودہا کفر،وجہلہ حرمان، وترکہ عتاب أو عقاب‘‘(۳)
’’(قولہ: کما یقوم العلک مقامہ) أي في الثواب إذا وجدت النیۃ، وذلک أن المواظبۃ علیہ تضعف أسنانہا فیستحب لہا فعلہ‘‘(۴)
(۲) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: حکم من لم یجد السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۶۔
(۱) عالم بن العلاء، الفتاوی التاتارخانیۃ، ’’ ‘‘: ج ۵،ص: ۴۸۲۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۳۔
(۳) الکشمیري، في إکفار الملحدین في ضروریات الدین، ج۱، ص: ۶۔
(۴) ابن عابدین الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في منافع السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص210
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1771/43-1502
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کپڑے پر کوئی ظاہری نجاست نہیں ہے تو ان کو پاک ہی سمجھاجائے گا۔ غیرمسلم کا بدن بھی پاک ہے تو اس کا کپڑا بھی پاک شمار ہوگا الا یہ کہ اس کے کپڑے یا بدن پر کوئی نجاست ہو تو اب ان کی ناپاکی کا حکم لگے گا۔
" الأول من الأقسام: سؤر طاهر مطهر بالاتفاق من غیر کراهة في استعماله، وهوما شرب منه آدمي لیس بفمه نجاسة ... ولا فرق بین الصغیر والکبیر والمسلم والکافر والحائض والجنب."--------- )"وإذا تنجس فمه فشرب الماء من فوره تنجس.‘‘ (نورالإیضاح مع شرحه مراقي الفلاح، الطبعة الأولیٰ : ص ۱۸ ط مصطفیٰ البابي الحلبي وأولاده بمصر)
وأما نجاسة بدنه فالجمهور علی أنه لیس بنجس البدن والذات؛ لأن الله تعالیٰ أحل طعام أهل الکتاب". (تفسیر ابن کثیر تحت قوله تعالیٰ: ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ﴾ الآیة : ۲/۳۴۶ ط سهیل أکادمي)
’’قال محمد - رحمه الله تعالى -: ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل، ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز، ولايكون آكلاً ولا شارباً حراماً، وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني، فأما إذا علم فإنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل، ولو شرب أو أكل كان شارباً وآكلاً حراماً(‘‘.الفتاوى الهندية (5/ 347)
’’شک فی وجود النجس فالاصل بقاء الطھارۃ.‘‘(الاشباہ و النظائر،صفحہ 61،مطبوعہ کراچی) ’’ولو شک فی نجاسۃ ماء أو ثوب أو طلاق أو عتق لم یعتبر) در مختار مع رد المحتار،جلد1،صفحہ310،مطبوعہ کوئٹہ(
’’قولہ:(ولو شک)فی التاتر خانیۃ: من شک فی انائہ أو ثوبہ أو بدنہ أصابتہ نجاسۃ أو لا، فھو طاھر ما لم یستیقن،و کذا لآبار والحیاض والحباب الموضوعۃ فی الطرقات و یستقی منھا الصغار و الکبار والمسلمون والکفار )رد المحتار مع الدر المختار،جلد1،صفحہ310،مطبوعہ کوئٹہ(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1769/43-1501
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ شرعی معذورہیں تو وضو نماز کا وقت شروع ہوجانے کے بعد کریں۔ معذور کا وضو ایک فرض نماز کا وقت نکلنے سے ختم ہو جاتا ہے، اس کے لیے اگلی نماز ادا کرنے کے لیے نیا وضو کرنا ضروری ہوتاہے، مغرب میں وقت دیکھ کر کہ جوں ہی غروب آفتاب ہو وضو کرلیں، عام طور پر اذان دو تین منٹ بعد ہوتی ہے۔اس طرح آپ کا وضو وقت کے اندر ہوگا اور نماز بھی جماعت سے مل جائے گی۔
و صاحب عذر من به سلس بول لايمكنه إمساكه أو استطلاق بطن أو انفلات ريح... إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة بأن لايجد في جميع وقتها زمناً يتوضؤ و يصلي فيه خالياً عن الحدث ولو حكماً؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم". (شامی، باب الحيض: مطلب في أحكام المعذور ٣٠٥/١ ط سعيد)
المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل هكذا في البحر الرائق. (الھندیۃ الفصل الرابع في أحكام الحيض والنفاس والاستحاضة1/41)
وإلى ثمرة الخلاف أشار بقوله (فالمتوضئ وقت الفجر لا يصلي به بعد الطلوع) عند علمائنا الثلاثة لانتفاض طهارته بالخروج (إلا عند زفر والمتوضئ بعد الطلوع) قبل الزوال ولو لعيد على الصحيح (يصلي به الظهر) عند الطرفين لعدم خروج وقت الفرض فلا ينتقض بخروج وقت الطهر (خلافا له) أي لزفر لوجود دخول الوقت ولأبي يوسف لوجود أحد الناقضين، وهو دخول الوقت. (مجمع الانھر، باب الانجاس 1/57)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:بارش کا پانی اگر سڑک پر جمع ہو اور وہ صرف بارش کا ہی پانی ہو، اس میں گٹر کے پانی یا دیگر نجاستوںکی آمیزش نہ ہو تو وہ پانی پاک ہے،کپڑوں پر لگنے سے کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے اور اگر بارش کے پانی میں گٹر کے پانی یا دیگر نجاستوں کی آمیزش ہوجائے اور وہ کسی کے کپڑے یا جسم پر لگ جائے، تو اس کی دو صورتیں ہیں: اگر اس علاقے میںمسلسل بارش ہوتی ہے اور اس راستہ پر کثرت سے آمد و رفت ہوتی ہے اور اس سے بچنا مشکل ہے، تو اگر بعینہ نجاست نظر نہ آئے تو ضرورت کی وجہ سے یہ پاک سمجھا جائے گا یعنی اس حالت میں نماز ادا ہوجائے گی، اگر چہ اسے بھی دھو لینا چاہیے اور اگر اس طرح کی ضرورت نہیں، تو وہ ناپاک ہے، بہرصورت اس کو پاک کرنا ضروری ہوگا۔ الحاصل أن الذي ینبغي أنہ حیث کان العفو للضرورۃ، و عدم إمکان الاحتراز أن یقال بالعفو و إن غلبت النجاسۃ مالم یر عینھا لو أصابہ بلا قصد و کان ممن یذھب و یجیء، و إلا فلا ضرورۃ، و قد حکی في القنیۃ أیضا قولین فیما لو ابتلت قدماہ مما رش في الأسواق الغالبۃ النجاسۃ، ثم نقل أنہ لو أصاب ثوبہ طین السوق أو السکۃ ثم وقع الثوب في الماء تنجس۔(۱)
(۱)ابن عابدین، حاشیہ رد المحتار، کتاب الطہارت، باب الأنجاس، ج ۱، ص:۳۲۴
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص444
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1971/44-1913
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ابالنے کے لئے رکھا ہوا پانی قلیل ہے، اس لئے اس میں نجس انڈا ڈالنے سے پانی ناپاک ہوجائے گا، البتہ انڈا پاک رہے گا اور اس کا چھلکا اتارنے کے بعد اس کو کھایا جاسکتاہے۔ نجاست کے اثرات انڈے تک منتقل نہیں ہوتے ہیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 318):
"(و بول غير مأكول و لو من صغير لم يطعم) إلا بول الخفاش و خرأه ... (و خرء) كل طير لايذرق في الهواء كبط أهلي (و دجاج) أما ما يذرق فيه، فإن مأكولًا فطاهر و إلا فمخفف (و روث وخثي) أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور. و قالا: مخففة. و في الشرنبلالية قولهما أظهر.
(قوله: أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان) أراد بالنجاسة المغلظة؛ لأن الكلام فيها و لانصراف الإطلاق إليها كما يأتي، و لقوله و قالا: مخففة، وأراد بالحيوان ما له روث أو خثي: أي: سواء كان مأكولا كالفرس والبقر، أو لا كالحمام وإلا فخرء الآدمي وسباع البهائم متفق على تغليظه كما في الفتح والبحر وغيرهما فافهم. (قوله: وفي الشرنبلالية إلخ) عزاه فيها إلى [مواهب الرحمن] لكن في النكت للعلامة قاسم أن قول الإمام بالتغليظ رجحه في المبسوط وغيره اهـ ولذا جرى عليه أصحاب المتون".
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2270/44-2430
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ختنہ ہوا ہو تو عضو تناسل کے ظاہری حصہ کا دھونا فرض ہے، اس کے اندرونی حصہ میں پانی پہنچانا فرض نہیں ہے۔ اور اگر ختنہ نہیں ہوا ہے تو چمڑے کو اوپر چڑھاکر سپاری کو دھونا ضروری ہے لیکن پیشاب کے راستہ میں پانی داخل کرنا ضروری نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:مسلمان اپنے تانبے، پیتل، لوہے کے برتن کفارکو عاریۃً یا کرائے پر دے سکتے ہیں۔ اگر غیرمسلم ان برتنوں میںجھٹکا، میتہ یا خنزیر کا گوشت پکائیں، تو برتن دھونے سے پاک ہوجائیں گے، البتہ مٹی کے برتن نہیں دینے چاہئیں، ان میں یہ چیزیں پکنے کے بعد مسلمان کی طبیعت و قلب مطمئن نہ ہو سکے گا۔ اگر چہ دھونے سے یہ بھی پاک ہوجائیں گے۔
فأما إذا علم فأنہ لا یجوز أن یشرب و یأکل منھا قبل الغسل۔ (۱)
و روي عن رسول اللّٰہ ﷺ أنہ سئل عن الشراب في أواني المجوس فقال: ’’إن لم تجدوا منھا بدّا فاغسلوھا ثم اشربوا فیھا‘‘ و إنما أمر بالغسل لأن ذبائحھم میتۃ و أوانیھم قلما تخلوا عن دسومۃ منھا۔ (۲)
یکرہ الأکل والشرب في أواني المشرکین قبل الغسل ۔۔۔ و إذا علم حرم ذلک علیہ قبل الغسل۔(۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الکراہیہ، الباب الرابع عشر في أھل الذمۃ والأحکام الخ، ج۵، ص:۴۰۱
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، حکم العذرات، والأرواث، ج۱، ص:۲۳۶
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق ، کتاب الکراہیۃ، فصل في البیع، ج۸، ص:۳۷۴
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص444
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1766/43-1508
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
مرغی کی بیٹ ناپاک ہے، اور ماء قلیل میں مرغی کی بیٹ ملنے سے پانی ناپاک ہوجاتاہے۔ اس لئے گھر دھوتے وقت جس حصہ میں پانی جمع ہے اور اس میں مرغی کی بیٹ ملی ہوئی ہے، وہ ناپاک ہے۔ بیٹ ملنے کے بعد گھر کا جو حصہ دھویاگیاہے وہ بھی ناپاک ہے، اس کو دوبارہ دھونا ضروری ہے۔
واما العذرات و خرء الدجاج والبط فنجاستھا غلیظۃ بالاجماع (بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، باب الارواث والعذرات 1/235 زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1972/44-1914
بسم اللہ الرحمن الرحیم: راستہ میں جمع پانی اگر نجاست سے قریب ہو اور اس کے اثرات اس میں نظر آرہے ہوں یا آپ کو یقین ہو کہ یہ ناپاک ہے تو اس کو ناپاک ہی سمجھیں، اگر وہ کپڑے یا بند پر لگ گیا تو ناپاک کردے گا۔ اور اگر پانی کے بارے میں یقین نہیں ہے، اور کوئی ناپاکی بھی پانی میں نظر نہیں آرہی ہے تو اس کو پاک سمجھیں اور کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو دھونا ضروری نہیں ہے، تاہم دھولینا بہتر ہے۔
"مطلب في العفو عن طين الشارع
(قوله: وطين شارع) مبتدأ خبره قوله: عفو والشارع الطريق ط. وفي الفيض: طين الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورة ولو مختلطا بالعذرات وتجوز الصلاة معه. اهـ. . وقدمنا أن هذا قاسه المشايخ على قول محمد آخرا بطهارة الروث والخثي، ومقتضاه أنه طاهر لكن لم يقبله الإمام الحلواني كما في الخلاصة. قال في الحلية: أي: لا يقبل كونه طاهرا وهو متجه، بل الأشبه المنع بالقدر الفاحش منه إلا لمن ابتلي به بحيث يجيء ويذهب في أيام الأوحال في بلادنا الشامية لعدم انفكاك طرقها من النجاسة غالبا مع عسر الاحتراز، بخلاف من لايمر بها أصلاً في هذه الحالة فلايعفى في حقه حتى إن هذا لايصلي في ثوب ذاك. اهـ.
أقول: والعفو مقيد بما إذا لم يظهر فيه أثر النجاسة كما نقله في الفتح عن التجنيس. وقال القهستاني: إنه الصحيح، لكن حكى في القنية قولين وارتضاهما؛ فحكى عن أبي نصر الدبوسي أنه طاهر إلا إذا رأى عين النجاسة، وقال: وهو صحيح من حيث الرواية وقريب من حيث المنصوص؛ ثم نقل عن غيره فقال: إن غلبت النجاسة لم يجز، وإن غلب الطين فطاهر. ثم قال: وإنه حسن عند المنصف دون المعاند اهـ.
والقول الثاني مبني على القول بأنه إذا اختلط ماء وتراب وأحدهما نجس فالعبرة للغالب، وفيه أقوال ستأتي في الفروع.
والحاصل أن الذي ينبغي أنه حيث كان العفو للضرورة، وعدم إمكان الاحتراز أن يقال بالعفو وإن غلبت النجاسة ما لم ير عينها لو أصابه بلا قصد وكان ممن يذهب ويجيء، وإلا فلا ضرورة. وقد حكى في القنية أيضًا قولين فيما لو ابتلت قدماه مما رش في الأسواق الغالبة النجاسة، ثم نقل أنه لو أصاب ثوبه طين السوق أو السكة ثم وقع الثوب في الماء تنجس".(شامی 1/324)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند