طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1769/43-1501

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ شرعی معذورہیں تو وضو نماز کا وقت شروع ہوجانے کے بعد کریں۔ معذور کا وضو  ایک فرض نماز کا وقت  نکلنے  سے ختم ہو جاتا ہے، اس کے لیے اگلی نماز ادا کرنے کے لیے نیا وضو کرنا ضروری  ہوتاہے، مغرب میں وقت دیکھ کر  کہ جوں ہی    غروب آفتاب ہو وضو کرلیں، عام طور پر اذان دو تین منٹ بعد ہوتی ہے۔اس طرح  آپ کا وضو وقت کے اندر ہوگا اور نماز بھی جماعت سے مل جائے گی۔

و صاحب عذر من به سلس بول لايمكنه إمساكه أو استطلاق بطن أو انفلات ريح... إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة بأن لايجد في جميع وقتها زمناً يتوضؤ و يصلي فيه خالياً عن الحدث ولو حكماً؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم". (شامی، باب الحيض: مطلب في أحكام المعذور ٣٠٥/١ ط سعيد)

المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل هكذا في البحر الرائق. (الھندیۃ الفصل الرابع في أحكام الحيض والنفاس والاستحاضة1/41)

وإلى ثمرة الخلاف أشار بقوله (فالمتوضئ وقت الفجر لا يصلي به بعد الطلوع) عند علمائنا الثلاثة لانتفاض طهارته بالخروج (إلا عند زفر والمتوضئ بعد الطلوع) قبل الزوال ولو لعيد على الصحيح (يصلي به الظهر) عند الطرفين لعدم خروج وقت الفرض فلا ينتقض بخروج وقت الطهر (خلافا له) أي لزفر لوجود دخول الوقت ولأبي يوسف لوجود أحد الناقضين، وهو دخول الوقت. (مجمع الانھر، باب الانجاس 1/57)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:بارش کا پانی اگر سڑک پر جمع ہو اور وہ صرف بارش کا ہی پانی ہو، اس میں گٹر کے پانی یا دیگر نجاستوںکی آمیزش نہ ہو تو وہ پانی پاک ہے،کپڑوں پر لگنے سے کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے اور اگر بارش کے پانی میں گٹر کے پانی یا دیگر نجاستوں کی آمیزش ہوجائے اور وہ کسی کے کپڑے یا جسم پر لگ جائے، تو اس کی دو صورتیں ہیں: اگر اس علاقے میںمسلسل بارش ہوتی ہے اور اس راستہ پر کثرت سے آمد و رفت ہوتی ہے اور اس سے بچنا مشکل ہے، تو اگر بعینہ نجاست نظر نہ آئے تو ضرورت کی وجہ سے یہ پاک سمجھا جائے گا یعنی اس حالت میں نماز ادا ہوجائے گی، اگر چہ اسے بھی دھو لینا چاہیے اور اگر اس طرح کی ضرورت نہیں، تو وہ ناپاک ہے، بہرصورت اس کو پاک کرنا ضروری ہوگا۔ الحاصل أن الذي ینبغي أنہ حیث کان العفو للضرورۃ، و عدم إمکان الاحتراز أن یقال بالعفو و إن غلبت النجاسۃ مالم یر عینھا لو أصابہ بلا قصد و کان ممن یذھب و یجیء، و إلا فلا ضرورۃ، و قد حکی في القنیۃ أیضا قولین فیما لو ابتلت قدماہ مما رش في الأسواق الغالبۃ النجاسۃ، ثم نقل أنہ لو أصاب ثوبہ طین السوق أو السکۃ ثم وقع الثوب في الماء تنجس۔(۱)

(۱)ابن عابدین، حاشیہ رد المحتار، کتاب الطہارت، باب الأنجاس، ج ۱، ص:۳۲۴

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص444

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1971/44-1913

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ابالنے کے لئے رکھا ہوا پانی قلیل ہے، اس لئے اس میں نجس انڈا ڈالنے سے پانی ناپاک ہوجائے گا، البتہ انڈا پاک رہے گا اور اس کا چھلکا اتارنے کے بعد اس کو کھایا جاسکتاہے۔ نجاست کے اثرات انڈے  تک منتقل نہیں ہوتے ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 318):

"(و بول غير مأكول و لو من صغير لم يطعم) إلا بول الخفاش و خرأه ... (و خرء) كل طير لايذرق في الهواء كبط أهلي (و دجاج) أما ما يذرق فيه، فإن مأكولًا فطاهر و إلا فمخفف (و روث وخثي) أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور. و قالا: مخففة. و في الشرنبلالية قولهما أظهر.

(قوله: أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان) أراد بالنجاسة المغلظة؛ لأن الكلام فيها و لانصراف الإطلاق إليها كما يأتي، و لقوله و قالا: مخففة، وأراد بالحيوان ما له روث أو خثي: أي: سواء كان مأكولا كالفرس والبقر، أو لا كالحمام وإلا فخرء الآدمي وسباع البهائم متفق على تغليظه كما في الفتح والبحر وغيرهما فافهم. (قوله: وفي الشرنبلالية إلخ) عزاه فيها إلى [مواهب الرحمن] لكن في النكت للعلامة قاسم أن قول الإمام بالتغليظ رجحه في المبسوط وغيره اهـ ولذا جرى عليه أصحاب المتون".

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2270/44-2430

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ختنہ ہوا ہو تو عضو تناسل کے ظاہری حصہ کا دھونا فرض ہے، اس کے اندرونی حصہ میں پانی پہنچانا فرض نہیں ہے۔  اور اگر ختنہ نہیں ہوا ہے تو چمڑے کو اوپر چڑھاکر سپاری کو دھونا ضروری ہے لیکن پیشاب کے راستہ میں  پانی داخل کرنا ضروری نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مسلمان اپنے تانبے، پیتل، لوہے کے برتن کفارکو عاریۃً یا کرائے پر دے سکتے ہیں۔ اگر غیرمسلم ان برتنوں میںجھٹکا، میتہ یا خنزیر کا گوشت پکائیں، تو برتن دھونے سے پاک ہوجائیں گے، البتہ مٹی کے برتن نہیں دینے چاہئیں، ان میں یہ چیزیں پکنے کے بعد مسلمان کی طبیعت و قلب مطمئن نہ ہو سکے گا۔ اگر چہ دھونے سے یہ بھی پاک ہوجائیں گے۔
فأما إذا علم فأنہ لا یجوز أن یشرب و یأکل منھا قبل الغسل۔ (۱)
و روي عن رسول اللّٰہ ﷺ أنہ سئل عن الشراب في أواني المجوس فقال: ’’إن لم تجدوا منھا بدّا فاغسلوھا ثم اشربوا فیھا‘‘ و إنما أمر بالغسل لأن ذبائحھم میتۃ و أوانیھم قلما تخلوا عن دسومۃ منھا۔ (۲)
یکرہ الأکل والشرب في أواني المشرکین قبل الغسل ۔۔۔ و إذا علم حرم ذلک علیہ قبل الغسل۔(۳)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الکراہیہ، الباب الرابع عشر في أھل الذمۃ والأحکام الخ، ج۵، ص:۴۰۱
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، حکم العذرات، والأرواث، ج۱، ص:۲۳۶
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق ، کتاب الکراہیۃ، فصل في البیع، ج۸، ص:۳۷۴

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص444

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1766/43-1508

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  

مرغی کی بیٹ ناپاک ہے، اور ماء قلیل میں مرغی کی بیٹ ملنے سے پانی ناپاک ہوجاتاہے۔ اس لئے گھر دھوتے وقت  جس حصہ میں  پانی جمع ہے  اور اس میں مرغی کی بیٹ ملی ہوئی ہے، وہ ناپاک ہے۔ بیٹ ملنے کے بعد گھر کا جو حصہ دھویاگیاہے وہ بھی ناپاک ہے، اس کو دوبارہ دھونا ضروری ہے۔

واما العذرات و خرء الدجاج والبط فنجاستھا غلیظۃ بالاجماع (بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، باب الارواث والعذرات 1/235 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1972/44-1914

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  راستہ میں جمع پانی اگر نجاست سے قریب ہو اور اس کے اثرات اس میں نظر آرہے ہوں یا آپ کو یقین ہو کہ یہ ناپاک ہے تو اس کو ناپاک ہی سمجھیں، اگر وہ کپڑے یا بند پر لگ گیا تو ناپاک کردے گا۔ اور اگر پانی کے بارے میں یقین نہیں ہے، اور کوئی ناپاکی بھی پانی میں نظر نہیں آرہی ہے تو اس کو پاک سمجھیں اور کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو  دھونا ضروری نہیں ہے، تاہم دھولینا بہتر ہے۔

"مطلب في العفو عن طين الشارع

(قوله: وطين شارع) مبتدأ خبره قوله: عفو والشارع الطريق ط. وفي الفيض: طين الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورة ولو مختلطا بالعذرات وتجوز الصلاة معه. اهـ. . وقدمنا أن هذا قاسه المشايخ على قول محمد آخرا بطهارة الروث والخثي، ومقتضاه أنه طاهر لكن لم يقبله الإمام الحلواني كما في الخلاصة. قال في الحلية: أي: لا يقبل كونه طاهرا وهو متجه، بل الأشبه المنع بالقدر الفاحش منه إلا لمن ابتلي به بحيث يجيء ويذهب في أيام الأوحال في بلادنا الشامية لعدم انفكاك طرقها من النجاسة غالبا مع عسر الاحتراز، بخلاف من لايمر بها أصلاً في هذه الحالة فلايعفى في حقه حتى إن هذا لايصلي في ثوب ذاك. اهـ.
أقول: والعفو مقيد بما إذا لم يظهر فيه أثر النجاسة كما نقله في الفتح عن التجنيس. وقال القهستاني: إنه الصحيح، لكن حكى في القنية قولين وارتضاهما؛ فحكى عن أبي نصر الدبوسي أنه طاهر إلا إذا رأى عين النجاسة، وقال: وهو صحيح من حيث الرواية وقريب من حيث المنصوص؛ ثم نقل عن غيره فقال: إن غلبت النجاسة لم يجز، وإن غلب الطين فطاهر. ثم قال: وإنه حسن عند المنصف دون المعاند اهـ.
والقول الثاني مبني على القول بأنه إذا اختلط ماء وتراب وأحدهما نجس فالعبرة للغالب، وفيه أقوال ستأتي في الفروع.
والحاصل أن الذي ينبغي أنه حيث كان العفو للضرورة، وعدم إمكان الاحتراز أن يقال بالعفو وإن غلبت النجاسة ما لم ير عينها لو أصابه بلا قصد وكان ممن يذهب ويجيء، وإلا فلا ضرورة. وقد حكى في القنية أيضًا قولين فيما لو ابتلت قدماه مما رش في الأسواق الغالبة النجاسة، ثم نقل أنه لو أصاب ثوبه طين السوق أو السكة ثم وقع الثوب في الماء تنجس".(شامی 1/324)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:آبدست کرتے وقت کپڑوں پر پانی کے قطرے گرنے کی دو صورتیں ہیں: ایک وہ پانی جو نجاست دھونے اور ناپاک ہونے کے بعد گرتا ہے ، وہ تو ناپاک ہے ایک درہم کی مقدار تک معاف ہے اور اس سے زائد کا دھونا ضروری ہے۔ دوسرا وہ پانی جو نجاست سے مخلوط ہونے سے قبل گر جاتا ہے تو وہ پاک ہے۔
و قال محمد ھو طاھر فان أصاب ذلک الماء ثوبا إن کان ماء الاستنجاء و أصابہ أکثر من قدر الدرھم، لا تجوز فیہ الصلوۃ۔(۱)
(۱) فتاویٰ قاضی خاں ،  کتاب الطہارت، فصل: في الماء المستعمل، ج۱، ص:۱۱


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص445

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: اگر ناپاک بستر پر گیلے پائوں پڑنے سے پائوں پر ناپاکی کے اثرات نمایاں ہوگئے، تو پائوں ناپاک ہوں گے ورنہ نہیں۔ نام أو مشی علی نجاسۃ، إن ظھر عینھا تنجس: و إلا لا۔ (قولہ: نام) أي فعرق، و قولہ: أو مشی: أي: وقدمہ مبتلۃ (قولہ: علی نجاسۃ) أي : یابسۃ لما في متن الملتقی: لو وضع ثوباً رطباً علی ماطین بطین نجس جاف لا ینجس، قال الشارح: لأن بالجفاف تنجذب رطوبۃ الثوب من غیر عکس، بخلاف ما إذا کان الطین رطباً۔ اھـ (قولہ: إن ظھر عینھا) المراد بالعین ما یشمل الأثر؛ لأنہ دلیل علی وجودھا، لو عبر بہ کما في نور الإیضاح لکان أولی۔(۲)
(۲)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء، ج۱، ص:۵۶۰، قولہ: مشی حمام و نحوہ أي کما لو مشی علی ألواح مشرعۃ بعد مشی من رجلہ قذر لا یحکم بنجاسۃ رجلہ مالم یعلم أنہ وضع رجلہ علی موضعہ للضرورۃ: فتح، و فیہ عن التنجیس: مشی في طین أو أصابہ ولم یغسلہ و صلی تجزیہ مالم یکن فیہ أثر النجاسۃ لانہ المانع إلا أن یحتاط، و أما في الحکم فلا یجب۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء، ج۱، ص:۵۶۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص446

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:یہ صورت جب ہوسکتی ہے، جب خون بہہ رہا ہو۔ اگر بہنا بند ہوجائے، تو پھر جب تک اثر زائل نہ ہوجائے دھویا جائے، ہاں اگر بہہ رہا ہے مگر کتھا یا دوا کی وجہ سے نظر نہیںآتا، تو جب تک زخم سے خون نکل رہا ہو وہ بہنے کے حکم میں ہوگا۔ درمختار میں ہے: لو مسح الدم کلما خرج ولو ترکہ لسال نقض وإلا لا۔
اور شامی میں ہے وکذا إذا وضع علیہ قطنا أو شیئا آخر حتی ینشف ثم وضعہ ثانیا و ثالثا فإنہ یجمع جمیع ما نشف۔ (۱)

(۱)ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب نواقض الوضو،ج۱،ص:۲۶۲؛ ولو ظھر الدم علی رأس الجرح فمسحہ مراراً، فإن کان بحال لو ترکہ لسال یکون حدثا و إلا فلا۔ لأن الحکم متعلق بالسیلان۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، ماینقض الوضوء، ج۱،ص:۱۲۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص447