طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسجد کی دیوار پر تیمم کرنا خلافِ اولیٰ ہے؛ کیونکہ مسجد وقف ہے، اور مال وقف کو غیر مصرف میں صرف کرنا نا پسندیدہ ہے، تاہم تیمم صحیح ہو جائے گا، اور اس سے جو نماز ادا کی ہے وہ بھی صحیح ہو جائے گی۔ (۲)

(۲)منھا منع أخذ شئ من أجزائہ۔ قالو في ترابہ۔۔۔ ان کان مجتمعاً جاز الأخذ منہ و مسح الرجل منہ و إلا لا۔ انتھی۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر،  ’’الفن الثالث: القول في أحکام المساجد‘‘ج۴، ص:۵۴) ؛ولو مشی في الطین کرہ أن یمسحہ بحائط المسجد أو باسطوانتہ، و إن مسح بحصیر المسجد  لا بأس بہ، و الأولی لہ أن لا یفعل۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلوٰۃ، الباب السابع : فیما یفسد الصلاۃ، وما یکرہ فیھا، فصل کرہ غلق باب المسجد‘‘ ج۱،ص:۱۶۹) ؛ و یکرہ مسح الرجل من طین الروغۃ بأسطوانۃ المسجد أو بحائطہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ،’’کتاب الطہارۃ، فصل في المسجد‘‘ج۱، ص:۴۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص355

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: گوشت پر اگر خون لگا ہوا تھا اور اس کو پانی میں ڈالا تو پانی ناپاک ہو جائے گا، اس سے وضو وغسل درست نہیں اور اس سے کپڑا دھونا بھی درست نہیں ہے؛ تاہم اگر اس پر خون نہیں تھا، تو گوشت پاک ہے اس کو پانی میں ڈالنے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا۔
’’الدم الملتزق باللحم إن کان ملتزقاً من الدم السائل بعد ما سال کان نجساً وإن لم یکن ملتزقاً من الدم السائل لم یکن نجساً وروی المعلی عن أبي یوسف: أن غسالۃ الدم إذا أصابت الثوب لم تجز الصلوٰۃ فیہ وإن صب في بئر یفسد الماء یرید بہ الدم الذي بقی في اللحم ملتزماً بہ ولو طبخ اللحم‘‘ (۱)
’’لا یفسد الثوب الدم الذي یبقی في اللحم لأنہ لیس بمسفوح‘‘(۲)
(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الطہارات: الفصل السابع: في النجاسات وأحکامہا، الأول في معرفۃ الأعیان النجسۃ، وحدہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹۔(بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الأول: في تطہیر الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص38

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسلمان حکیم کی طرف رجوع کیجئے، اگر وہ یہ کہے کہ وضو کرنے سے تکلیف بڑھ سکتی ہے، پانی نقصان دے گا تو تیمم کر سکتے ہیں، وضو بیٹھ کر کرنا مشکل ہے، تو اس کا حل یہ ہے کہ دوسرا آدمی وضو کرا دے۔(۱)

(۱) من عجز عن استعمال الماء لبعدہ میلاً أو لمرض یشتد أو یمتد بغلبۃ ظن أو قول حاذق مسلم ولو بتحرک، أو لم یجد من یوضّئہ، فإن وجد ولو بأجرۃ مثل، ولہ ذلک لا یتیمم في ظاھر المذھب۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد، ’’باب التیمم‘‘ج ۱، ص:۹۷-۹۶-۳۹۵) ؛ والثانی: المرض، و رخصہ کثیرۃ: التیمم عند الخوف علی نفسہ، أو علی عضوہ أو من زیادۃ المرض أو بطوء ہ۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ’’القاعدۃ الرابعہ: ألمشقۃ تجلب التیسیر‘‘ص:۲۲۷) ؛ ویتیمم المسافر ومن ھو خارج المصر لبعدہ عن الماء میلاً أو لمرض خاف زیادتہ أو بطء برئہ۔(ابراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’باب التیمم‘‘ج۱، ص:۵۸، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)؛و فإن وجد خادما أو ما یستأجر بہ أجیراً، أو عندہ من لو استعانہ بہ أعانہ، فعلی ظاھر المذھب: أنہ لا یتیمم؛ لأنہ قادر۔ ( جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع: في التیمم، ومنھا عدم القدرۃ علی الماء، ج۱، ص: ۸۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص356

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بالوں کے اندر نجاست سرایت نہیں کرتی ہے؛ اس لئے اگر زیر ناف بالٹی میں گر جائیں تو اس سے پانی ناپاک نہیں ہوگا،ایسے پانی سے غسل کرنا درست ہے۔
’’إن الشعر والصوف والوبر والریش طاہرۃ لا تنجس بالموت کمذہبنا‘‘(۳)

(۳) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: باب الماء الذي یجوز بہ والوضوء ومالا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۳۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص39

طہارت / وضو و غسل

    الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی چپ، کیسٹ یا سی ڈی جس میں قرآن کریم محفوظ ہو اس کو بلاوضو چھونا درست ہے؛ اس لیے کہ یہاں پر چپ کو چھونا ایسے ہی ہے جیسے کہ اس موبائل کو بلاوضو چھونا، جس میں قرآن کریم محفوظ ہے۔ چپ یا کیسٹ میں عام طور پر قرآن کریم کی آواز محفوظ ہوتی ہے اور آواز قرآن کا جسم سے مس ہونا جائز ہے، اسی وجہ سے جنبی کے لیے قرآن کریم کا سننا جائز ہے۔
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت: کان رأس رسول اللّٰہ ﷺ في حجر إحدانا وھي حائض وھو یقرأ القرآن۔ (۱)
(۱) أخرجہ النسائي، في سننہ، کتاب الحیض والاستحاضہ، باب الرجل یقرأ القرآن و رأسہ في حجر إمرأتہ وھي حائض ج۱،ص:۴۴، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)، ولو کان المصحف في صندوق فلا بأس للجنب أن یحملہ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ھذہ الأقوال،‘‘ ج۱، ص:۴۸۸)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص154

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ عذر ایسا نہیں ہے کہ اس صورت میں تیمم کی اجازت ہو۔(۱)

(۱)و یجوز لخوف فوت صلاۃ جنازۃ أو عید ابتداء … لا لخوف فوت جمعۃ أو وقتیۃ۔ (إبراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’باب التیمم‘‘ج۱، ص:۶۳) ؛ ولا یتیمم لفوت جمعۃ و وقت لو وترا، لفواتھا إلی بدل۔ (إبن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج۱، ص:۴۱۳) ؛والأصل: أن کل موضع یفوت فیہ الأداء لا إلی خلف، فإنہ یجوز لہ التیمم، وما یفوت إلی خلف، لا یجوز لہ التیمم کالجمعۃ۔ ( جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج۱،ص:۸۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص357

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2403/44-3626

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تین مرتبہ گوشت کو اس طرح دھوئے کہ ہر مرتبہ گوشت والے برتن کا پورا پانی بہادے، یہاں تک کہ گوشت سے پانی کے قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں تو اس طرح کرنے سے گوشت پاک ہوجائے گا۔اسی طرح پانی میں سے گوشت ہاتھ میں اٹھالے اور جب اس میں سے پانی ٹپکنا بند ہوجائے تو اس کو دوسرے پانی میں ڈال دے پھر اسی طرح تین مرتبہ عمل کرے تو وہ گوشت پاک ہوجائے گا، گوشت کو نچوڑنا یا اس کو خشک کرنا ضروری نہیں ہے۔ نجاست غیر مرئیہ کو پاک کرنے کا یہی طریقہ کتب فقہ میں مذکور ہے۔

(الھندیۃ: (42/1، ط: دار الفکر)

وإن كانت غير مرئية يغسلها ثلاث مرات۔۔۔۔وما لا ينعصر يطهر بالغسل ثلاث مرات والتجفيف في كل مرة؛ لأن للتجفيف أثرا في استخراج النجاسة وحد التجفيف أن يخليه حتى ينقطع التقاطر ولا يشترط فيه اليبس.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2462/45-3760

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آنکھوں میں درد کی وجہ سے  آنے والاآنسو بھی   پاک ہے۔  اس لئے اس موسم میں آنکھ آنے کی جو بیماری چل رہی ہے ، اس میں آنکھ کے آنسو کو پاک  قرار دیاجائے گا جب تک کہ آنسو پانی کی طرح صاف و شفاف ہو، اس میں  وضو بھی باقی رہے گا اور نماز بھی درست ہوگی۔ البتہ اگر آنکھ میں زخم ہوجائے یا کوئی پھنسی وغیرہ  ہوجائے، جس سےپانی نکلے اور پانی گدلا ہویا اس کا رنگ، بو ، ذائقہ اور بہاؤ وغیرہ  عام پانی سے مختلف ہو،  تو ایسی صورت میں اس کو ناپاک کہاجائے گا اور طہارت کے احکام جاری ہوں گے۔

"الدم و القیح و الصدید و ماء الجرح و النفطۃ والسرۃ والثدی و العین و الاذن لعلۃ سواء علی الاصح" (فتاویٰ عالمگیری، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 10)

 (كما) لا ينقض (لو خرج من أذنه) ونحوها كعينه وثديه (قيح) ونحوه كصديد وماء سرة وعين (لا بوجع) وإن خرج (به) أي بوجع (نقض) لأنه دليل الجرح، فدمع من بعينه رمد أو عمش ناقض، فإن استمر صار ذا عذر مجتبى، والناس عنه غافلون۔۔۔۔.
(
قوله: وعمش) هو ضعف لرؤية مع سيلان الدم في أكثر الأوقات درر وقاموس (قوله: ناقض إلخ) قال في المنية: وعن محمد إذا كان في عينيه رمد وتسيل الدموع منها آمره بالوضوء لوقت كل صلاة لأني أخاف أن يكون ما يسيل منها صديدا فيكون صاحب العذر. اه.
قال في الفتح: وهذا التعليل يقتضي أنه أمر استحباب، فإن الشك والاحتمال لا يوجب الحكم بالنقض، إذ اليقين لا يزول بالشك نعم إذا علم بإخبار الأطباء أو بعلامات تغلب ظن المبتلى، يجب. اه. قال في الحلية: ويشهد له قول الزاهدي عقب هذه المسألة: وعن هشام في جامعه إن كان قيحا فكالمستحاضة وإلا فكالصحيح. اه. ثم قال في الحلية: وعلى هذا ينبغي أن يحمل على ما إذا كان الخارج من العين متغيرا اه. أقول: الظاهر أن ما استشهد به رواية أخرى لا يمكن حمل ما مر عليها، بدليل قول محمد لأني أخاف أن يكون صديدا، لأنه إذا كان متغيرا يكون صديدا أو قيحا فلا يناسبه التعليل بالخوف، وقد استدرك في البحر على ما في الفتح بقوله لكن صرح في السراج بأنه صاحب عذر فكان الأمر للإيجاب اه ويشهد له قول المجتبى ينتقض وضوءه (قوله المجتبي) عبارته: الدم والقيح والصديد وماء الجرح والنفطة وماء البثرة والثدي والعين والأذن لعلة سواء على الأصح، وقولهم: العين والأذن لعلة دليل على أن من رمدت عينه فسال منها ماء بسبب الرمد ينتقض وضوءه وهذه مسألة الناس عنها غافلون. اه. وظاهره أن المدار على الخروج لعلة وإن لم يكن معه وجع، تأمل. وفي الخانية الغرب في العين بمنزلة الجرح فيما يسيل منه فهو نجس. قال في المغرب: والغرب عرق في مجرى الدمع يسقي فلا ينقطع مثل الباسور. وعن الأصمعي: بعينه غرب إذا كانت تسيل ولا تنقطع دموعها. والغرب بالتحريك: ورم في المآقي، وعلى ذلك صح التحريك والتسكين في الغرب. اه.أقول: وقد سئلت عمن رمد وسال دمعه ثم استمر سائلا بعد زوال الرمد وصار يخرج بلا وجع، فأجبت بالنقض أخذا مما مر لأن عروضه مع الرمد دليل على أنه لعلة وإن كان الآن بلا رمد ولا وجع خلافا لظاهر كلام الشارح فتدبر۔

(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، ارکان الوضوء، 147/1، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حیض ونفاس میں مبتلا عورت حکماً ناپاک ہوتی ہے؛ اس لئے اگر حیض ونفاس والی عورت کے ہاتھوں پر کوئی ظاہری نجاست نہ لگی ہو اور ہاتھ پاک ہوں، تو چھونے سے برتن ناپاک نہیں ہوتے، شبہ نہ کیا جائے۔
’’ولا یکرہ طبخہا ولا استعمال ما مستہ من عجین أو ماء أو نحوہما‘‘ (۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۶؛ و ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۵۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص40

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی شخص باوضو ہو اور تبرک کے لیے وضو یا غسل کرے یا آب زمزم کو اپنے جسم پر ملے، تو یہ جائز ہے؛ لیکن ناپاکی کی حالت میں اس سے وضویا غسل کرنا یا ناپاکی دور کرنا درست نہیں ہے۔تاہم اگر وضو یا غسل کرلیا، تو وضو اور غسل درست ہوجائے گا۔

یجوز الاغتسال والتوضوء بماء زمزم إن کان علی طھارۃ للتبرک (۱) و کذا إزالۃ النجاسۃ الحقیقیۃ من ثوبہ أو بدنہ، حتی ذکر بعض العلماء تحریم ذلک۔ و یستحب حملہ إلی البلاد، فقد روی الترمذي۔ عن عائشۃ- رضي اللّٰہ عنھا- أنھا کانت تحملہ و تخبر أن رسول اللّٰہ ﷺ کان یحملہ (وفي غیر الترمذي) أنہ کان یحملہ، و کان یصبہ علی المرضي و یسقیھم۔ و أنہ حنک بہ الحسن والحسین رضي اللّٰہ عنھما (۲) فلا ینبغی أن یغتسل بہ جنب ولا محدث ولا في مکان نجس ولا یستنجي بہ ولا یزال بہ نجاسۃ حقیقیۃ۔ (۳)
(۱) طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۲۲
(۲) ابن عابدین، رد المحتار ’’مطلب في الاستنجاء بماء زمزم،‘‘ ج۲، ص:۶۲۵
(۳) طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي،’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۲۲

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص155