Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2462/45-3760
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آنکھوں میں درد کی وجہ سے آنے والاآنسو بھی پاک ہے۔ اس لئے اس موسم میں آنکھ آنے کی جو بیماری چل رہی ہے ، اس میں آنکھ کے آنسو کو پاک قرار دیاجائے گا جب تک کہ آنسو پانی کی طرح صاف و شفاف ہو، اس میں وضو بھی باقی رہے گا اور نماز بھی درست ہوگی۔ البتہ اگر آنکھ میں زخم ہوجائے یا کوئی پھنسی وغیرہ ہوجائے، جس سےپانی نکلے اور پانی گدلا ہویا اس کا رنگ، بو ، ذائقہ اور بہاؤ وغیرہ عام پانی سے مختلف ہو، تو ایسی صورت میں اس کو ناپاک کہاجائے گا اور طہارت کے احکام جاری ہوں گے۔
"الدم و القیح و الصدید و ماء الجرح و النفطۃ والسرۃ والثدی و العین و الاذن لعلۃ سواء علی الاصح" (فتاویٰ عالمگیری، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 10)
(كما) لا ينقض (لو خرج من أذنه) ونحوها كعينه وثديه (قيح) ونحوه كصديد وماء سرة وعين (لا بوجع) وإن خرج (به) أي بوجع (نقض) لأنه دليل الجرح، فدمع من بعينه رمد أو عمش ناقض، فإن استمر صار ذا عذر مجتبى، والناس عنه غافلون۔۔۔۔.
(قوله: وعمش) هو ضعف لرؤية مع سيلان الدم في أكثر الأوقات درر وقاموس (قوله: ناقض إلخ) قال في المنية: وعن محمد إذا كان في عينيه رمد وتسيل الدموع منها آمره بالوضوء لوقت كل صلاة لأني أخاف أن يكون ما يسيل منها صديدا فيكون صاحب العذر. اه.
قال في الفتح: وهذا التعليل يقتضي أنه أمر استحباب، فإن الشك والاحتمال لا يوجب الحكم بالنقض، إذ اليقين لا يزول بالشك نعم إذا علم بإخبار الأطباء أو بعلامات تغلب ظن المبتلى، يجب. اه. قال في الحلية: ويشهد له قول الزاهدي عقب هذه المسألة: وعن هشام في جامعه إن كان قيحا فكالمستحاضة وإلا فكالصحيح. اه. ثم قال في الحلية: وعلى هذا ينبغي أن يحمل على ما إذا كان الخارج من العين متغيرا اه. أقول: الظاهر أن ما استشهد به رواية أخرى لا يمكن حمل ما مر عليها، بدليل قول محمد لأني أخاف أن يكون صديدا، لأنه إذا كان متغيرا يكون صديدا أو قيحا فلا يناسبه التعليل بالخوف، وقد استدرك في البحر على ما في الفتح بقوله لكن صرح في السراج بأنه صاحب عذر فكان الأمر للإيجاب اه ويشهد له قول المجتبى ينتقض وضوءه (قوله المجتبي) عبارته: الدم والقيح والصديد وماء الجرح والنفطة وماء البثرة والثدي والعين والأذن لعلة سواء على الأصح، وقولهم: العين والأذن لعلة دليل على أن من رمدت عينه فسال منها ماء بسبب الرمد ينتقض وضوءه وهذه مسألة الناس عنها غافلون. اه. وظاهره أن المدار على الخروج لعلة وإن لم يكن معه وجع، تأمل. وفي الخانية الغرب في العين بمنزلة الجرح فيما يسيل منه فهو نجس. قال في المغرب: والغرب عرق في مجرى الدمع يسقي فلا ينقطع مثل الباسور. وعن الأصمعي: بعينه غرب إذا كانت تسيل ولا تنقطع دموعها. والغرب بالتحريك: ورم في المآقي، وعلى ذلك صح التحريك والتسكين في الغرب. اه.أقول: وقد سئلت عمن رمد وسال دمعه ثم استمر سائلا بعد زوال الرمد وصار يخرج بلا وجع، فأجبت بالنقض أخذا مما مر لأن عروضه مع الرمد دليل على أنه لعلة وإن كان الآن بلا رمد ولا وجع خلافا لظاهر كلام الشارح فتدبر۔
(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، ارکان الوضوء، 147/1، ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حیض ونفاس میں مبتلا عورت حکماً ناپاک ہوتی ہے؛ اس لئے اگر حیض ونفاس والی عورت کے ہاتھوں پر کوئی ظاہری نجاست نہ لگی ہو اور ہاتھ پاک ہوں، تو چھونے سے برتن ناپاک نہیں ہوتے، شبہ نہ کیا جائے۔
’’ولا یکرہ طبخہا ولا استعمال ما مستہ من عجین أو ماء أو نحوہما‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۶؛ و ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص40
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی شخص باوضو ہو اور تبرک کے لیے وضو یا غسل کرے یا آب زمزم کو اپنے جسم پر ملے، تو یہ جائز ہے؛ لیکن ناپاکی کی حالت میں اس سے وضویا غسل کرنا یا ناپاکی دور کرنا درست نہیں ہے۔تاہم اگر وضو یا غسل کرلیا، تو وضو اور غسل درست ہوجائے گا۔
یجوز الاغتسال والتوضوء بماء زمزم إن کان علی طھارۃ للتبرک (۱) و کذا إزالۃ النجاسۃ الحقیقیۃ من ثوبہ أو بدنہ، حتی ذکر بعض العلماء تحریم ذلک۔ و یستحب حملہ إلی البلاد، فقد روی الترمذي۔ عن عائشۃ- رضي اللّٰہ عنھا- أنھا کانت تحملہ و تخبر أن رسول اللّٰہ ﷺ کان یحملہ (وفي غیر الترمذي) أنہ کان یحملہ، و کان یصبہ علی المرضي و یسقیھم۔ و أنہ حنک بہ الحسن والحسین رضي اللّٰہ عنھما (۲) فلا ینبغی أن یغتسل بہ جنب ولا محدث ولا في مکان نجس ولا یستنجي بہ ولا یزال بہ نجاسۃ حقیقیۃ۔ (۳)
(۱) طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۲۲
(۲) ابن عابدین، رد المحتار ’’مطلب في الاستنجاء بماء زمزم،‘‘ ج۲، ص:۶۲۵
(۳) طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي،’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۲۲
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص155
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو کرنا ضروری نہیں ہے، صرف تیمم بھی کافی ہے۔(۲)
(۲) لو کان مع الجنب ما یکفی للوضوء، یتیمم، ولا یجب التوضؤ بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم، الفصل الثالث: في المتفرقات‘‘ ج۱،ص:۸۴) ؛ وجنب وجد من الماء قدر ما یکفی للوضوء دون الاغتسال، فإنہ یتیمم، ولا یلزمہ استعمال ذلک الماء عندنا۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’فصل في التیمم‘‘ج۱، ص:۳۹۴) إذا وجد مائً یکفیہ للوضوء فقط، إنما یتوضأ بہ إذا أحدث بعد تیممہ عن الجنابۃ، أما لو وجدہ وقت التیمم قبل الحدث لا یلزمہ عندنا الوضوء بہ عن الحدث الذي مع الجنابۃ، لأنہ عبث، إذ لا بد لہ من التیمم (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر، ’’باب التیمم، مطلب: فاقد الطہورین‘‘ ج۱، ص:۴۲۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص357
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بچہ کے پیشاب سے کرنسی نوٹ ناپاک ہو گیا، اس کو پاک کرنے کے لئے پانی یا پٹرول وغیرہ اس پر بہا دیا جائے جب قطرہ ٹپکنا بند ہو جائے، تو پھر بہائے اس طرح تین مرتبہ کرنے سے کرنسی نوٹ پاک ہو جائے گا، پاک کرنے کے لئے کسی کیمیکل کا بھی استعمال کر سکتے ہیں تاہم اگر اس کو پاک نہیں کیا، تو اس کو جیب میں رکھ کر نماز درست نہیں ہوگی۔
’’یجوز رفع نجاسۃ حقیقیۃ عن محلہا ولو إناء أو مأکولا علم محلہا أو لا بماء لو مستعملا بہ یفتی وبکل مائع طاہر قالع للنجاسۃ ینعصر بالعصر کخل وماء ورد حتی الریق فتطہر أصبع وثدي تنجس بلحس ثلاثاً‘‘ (۱)
’’ولہذا جازت صلاۃ حامل المحدث والجنب وحامل النجاسۃ لا تجوز صلاتہ‘‘(۲)(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۰۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الطہارۃ الحقیقیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص40
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: زائد انگلی بھی اعضائے وضو میں شمار ہوگی اور اس کا دھونا بھی بقیہ اعضاء کی مانند ضروری ہوگا، خشک رہ جانے کی صورت میںوضو درست نہیں ہوگا۔ و کذا الزائدۃ إن نبتت من محل الفرض کأصبع و کف زائدین، و إلا فما حاذی منھما محل الفرض غسلہ ومالا فلا لکن یندب مجتبی۔ (۱)
(۱)ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في السنۃ و تعریفہا‘‘، ج۱، ص:۲۱۸)؛ ولو خلق لہ یدان علی المنکب فالتامۃ ھی الأصلیۃ یجب غسلھا، والأخری في حاذ منھا محل الفرض وجب غسلہ ومالا فلا یجب بل یندب غسلہ، و کذا یجب غسل ما کان مرکبا علی الیدین من الأصبع الزائدۃ والکف الزائدۃ والسلعۃ و کذا إیصال الماء إلی ما بین الأصابع إذا لم تکن ملحمۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج۱، ص:۲۹-۳۰)، و یجب غسل ما کان مرکبا علی أعضاء الوضوء من الإصبع الزائدۃ والکف الزائدۃ کذا في السراج الوھاج۔ (جماعۃ من علماء الھند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفرض الثاني : غسل الیدین،‘‘ ج۱، ص:۵۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص156
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پانی ہوتے ہوئے تیمم کر کے قرآن چھونا جائز نہیں ہے (۱) در مختار میں ہے ’’کتیمم مس المصحف فلا یجوز لواجد الماء‘‘۔(۲)
(۱)قلت: وفي المنیۃ و شرحھا: تیممہ لدخول مسجد و مس مصحف مع وجود الماء لیس بشیء بل ھو عدم۔ (ابن عابدین، درمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۴۱۱)
(۲)ایضاً، ج۱،ص:۴۱۲
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص358
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو رطوبت داد یا زخم سے نکلتی ہے اگر اپنی جگہ سے بہہ پڑے، تو ناپاک اور نجس مغلظ ہے اور نجس مغلظ ایک درہم تک معاف ہے؛ اس لئے اگر وہ داغ ودھبہ پھیلاؤ میں ایک درہم سے زائد نہ ہو، تو ایسے کپڑے میں نماز درست ہو جائے گی اور اگر ایک درہم سے زائد ہو، تو اس کپڑے میں نماز درست نہیں ہوگی؛ بلکہ کپڑے کو دھونا ضروری ہے۔ اور اگر پانی یا پیپ زخم کے منہ پر ہو اور کپڑا اس پر بار بار لگنے کی وجہ سے وہ پانی کپڑے پر پھیل گیا، تو مبتلا بہ کو اگر معلوم ہو کہ زخم پر اگر کپڑا نہ لگتا تو بہہ پڑتا، تو اس صورت میں کپڑا ناپاک ہے اس کا دھونا واجب ہے اور اگر ایسا معلوم ہو کہ کپڑا نہ لگتا، تو نہ بہتا، اس صورت میں کپڑا ناپاک نہیں ہے نہ اس کا دھونا واجب ہے، اگر ایسے کپڑے میں نماز پڑھ لی تو درست ہوگی۔
’’الدم والقیح والصدید وماء الجرح والنقطۃ وماء البثرۃ والثدي والعین والأذن لعلۃ سواء علی الأصح‘‘(۱)
’’وکذا کل ما خرج منہ موجبا لوضوء أو غسل مغلظ‘‘(۲)
’’کل ما یخرج من بدن الإنسان مما یوجب خروجہ الوضوء أو الغسل فہو مغلظ … فإذا أصاب الثوب أکثر من قدر الدرہم یمنع جواز الصلوٰۃ‘‘(۳)
’’إن مسح الدم عن رأس الجرح بقطنہ ثم خرج فمسح ثم وثم … ینظر إن کان بحال لو ترک لسال ینتقض وإلا لا‘‘(۴)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۰؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطھارۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۲؍ ۵۲۳۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع: في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع المغلظۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰۔
(۴) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملی في شرح منیۃ المصلی: ج ۱، ص: ۱۳۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص41
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب تک اس وضو سے کم از کم دو رکعت نہ پڑھ لی جائے یا کوئی دوسری عبادت جس میںوضو شرط ہے، ادا نہ کرلی جائے یا کافی وقت نہ گزر جائے دوبارہ وضو کرنا مکروہ ہے۔
أن الوضوء عبادۃ غیر مقصودۃ لذاتھا، فإذا لم یؤدّ بہ عمل مما ھو المقصود من شرعیتہ کالصلاۃ و سجدۃ التلاوۃ و مس المصحف، ینبغي أن لا یشرع تکرارہ قربۃ لکونہ غیر مقصود لذاتہ، فیکون إسرافاً محضاً۔ (۲) و مقتضی ھذا کراھتہ و إن تبدل المجلس مالم یودّ بہ صلاۃ أو نحو۔(۱)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في الوضوء علی الوضوء،‘‘ ج۱، ص:ـ۲۴۱
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في الوضوء علی الوضوء،‘‘ ج۱، ص:ـ۲۴۱
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص156
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:اگر مہلک مرض ایسا ہو کہ پانی سے غسل کرنے سے بھی مرض بڑھتا ہو، یا گرم پانی میسر نہیں آ سکتا ہو، تو تیمم کر کے نماز پڑھنا جائز ہے؛ لیکن صرف نزلہ کے بڑھنے کے خوف سے غسل نہ کرنا اور تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔
’’من عجز عن استعمال الماء المطلق الکافي لطہارتہ لصلاۃ تفوت إلی خلف لبعدہ أو لمرض یشتد أو یمتد بغلبۃ ظن أو قول حاذق مسلم‘‘(۳)
’’ولو کان یجد الماء إلا أنہ مریض فخاف إن استعمل الماء اشتد مرضہ یتیمم‘‘ (۴)
’’لا یجوز التیمم في المصر إلا لخوف فوت جنازۃ أو صلاۃ عید أو للجنب الخائف من البرد‘‘ (۱)
(۳)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج ۱، ص:۳۹۵تا۳۹۷
(۴)بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم: ألعجز من استعمال الماء لمرض‘‘ ج۱، ص: ۵۱۶
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۲۴۴
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص358