طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو کرنا ضروری نہیں ہے، صرف تیمم بھی کافی ہے۔(۲)

(۲) لو کان مع الجنب ما یکفی للوضوء، یتیمم، ولا یجب التوضؤ بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم، الفصل الثالث: في المتفرقات‘‘ ج۱،ص:۸۴) ؛ وجنب وجد من الماء قدر ما یکفی للوضوء دون الاغتسال، فإنہ یتیمم، ولا یلزمہ استعمال ذلک الماء عندنا۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’فصل في التیمم‘‘ج۱، ص:۳۹۴) إذا وجد مائً یکفیہ للوضوء فقط، إنما یتوضأ بہ إذا أحدث بعد تیممہ عن الجنابۃ، أما لو وجدہ وقت التیمم قبل الحدث لا یلزمہ عندنا الوضوء بہ عن الحدث الذي مع الجنابۃ، لأنہ عبث، إذ لا بد لہ من التیمم (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر، ’’باب التیمم، مطلب: فاقد الطہورین‘‘ ج۱، ص:۴۲۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص357

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بچہ کے پیشاب سے کرنسی نوٹ ناپاک ہو گیا، اس کو پاک  کرنے کے لئے پانی یا پٹرول وغیرہ اس پر بہا دیا جائے جب قطرہ ٹپکنا بند ہو جائے، تو پھر بہائے اس طرح تین مرتبہ کرنے سے کرنسی نوٹ پاک ہو جائے گا، پاک کرنے کے لئے کسی کیمیکل کا بھی استعمال کر سکتے ہیں تاہم اگر اس کو پاک نہیں کیا، تو اس کو جیب میں رکھ کر نماز درست نہیں ہوگی۔
’’یجوز رفع نجاسۃ حقیقیۃ عن محلہا ولو إناء أو مأکولا علم محلہا أو لا بماء لو مستعملا بہ یفتی وبکل مائع طاہر قالع للنجاسۃ ینعصر بالعصر کخل وماء ورد حتی الریق فتطہر أصبع وثدي تنجس بلحس ثلاثاً‘‘ (۱)
’’ولہذا جازت صلاۃ حامل المحدث والجنب وحامل النجاسۃ لا تجوز صلاتہ‘‘(۲)(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۰۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الطہارۃ الحقیقیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص40

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: زائد انگلی بھی اعضائے وضو میں شمار ہوگی اور اس کا دھونا بھی بقیہ اعضاء کی مانند ضروری ہوگا، خشک رہ جانے کی صورت میںوضو درست نہیں ہوگا۔ و کذا الزائدۃ إن نبتت من محل الفرض کأصبع و کف زائدین، و إلا فما حاذی منھما محل الفرض غسلہ ومالا فلا لکن یندب مجتبی۔ (۱)

(۱)ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في السنۃ و تعریفہا‘‘، ج۱، ص:۲۱۸)؛  ولو خلق لہ یدان علی المنکب فالتامۃ ھی الأصلیۃ یجب غسلھا، والأخری في حاذ منھا محل الفرض وجب غسلہ ومالا فلا یجب بل یندب غسلہ، و کذا یجب غسل ما کان مرکبا علی الیدین من الأصبع الزائدۃ والکف الزائدۃ والسلعۃ و کذا إیصال الماء إلی ما بین الأصابع إذا لم تکن ملحمۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج۱، ص:۲۹-۳۰)، و یجب غسل ما کان مرکبا علی أعضاء الوضوء من الإصبع الزائدۃ والکف الزائدۃ کذا في السراج الوھاج۔ (جماعۃ من علماء الھند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفرض الثاني : غسل الیدین،‘‘ ج۱، ص:۵۴)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص156

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پانی ہوتے ہوئے تیمم کر کے قرآن چھونا جائز نہیں ہے (۱) در مختار میں ہے ’’کتیمم مس المصحف فلا یجوز لواجد الماء‘‘۔(۲)

(۱)قلت: وفي المنیۃ و شرحھا: تیممہ لدخول مسجد و مس مصحف مع وجود الماء لیس بشیء بل ھو عدم۔ (ابن عابدین، درمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۴۱۱)
(۲)ایضاً، ج۱،ص:۴۱۲

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص358

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو رطوبت داد یا زخم سے نکلتی ہے اگر اپنی جگہ سے بہہ پڑے، تو ناپاک اور نجس مغلظ ہے اور نجس مغلظ ایک درہم تک معاف ہے؛ اس لئے اگر وہ داغ ودھبہ پھیلاؤ میں ایک درہم سے زائد نہ ہو، تو ایسے کپڑے میں نماز درست ہو جائے گی اور اگر ایک درہم سے زائد ہو، تو اس کپڑے میں نماز درست نہیں ہوگی؛ بلکہ کپڑے کو دھونا ضروری ہے۔ اور اگر پانی یا  پیپ زخم کے منہ پر ہو اور کپڑا اس پر بار بار لگنے کی وجہ سے وہ پانی کپڑے پر پھیل گیا، تو مبتلا بہ کو اگر معلوم ہو کہ زخم پر اگر کپڑا نہ لگتا تو بہہ پڑتا، تو اس صورت میں کپڑا ناپاک ہے اس کا دھونا واجب ہے اور اگر ایسا معلوم ہو کہ کپڑا نہ لگتا، تو نہ بہتا، اس صورت میں کپڑا ناپاک نہیں ہے نہ اس کا دھونا واجب ہے، اگر ایسے کپڑے میں نماز پڑھ لی تو درست ہوگی۔
’’الدم والقیح والصدید وماء الجرح والنقطۃ وماء البثرۃ والثدي والعین والأذن لعلۃ سواء علی الأصح‘‘(۱)
’’وکذا کل ما خرج منہ موجبا لوضوء أو غسل مغلظ‘‘(۲)
’’کل ما یخرج من بدن الإنسان مما یوجب خروجہ الوضوء أو الغسل فہو مغلظ … فإذا أصاب الثوب أکثر من قدر الدرہم یمنع جواز الصلوٰۃ‘‘(۳)
’’إن مسح الدم عن رأس الجرح بقطنہ ثم خرج فمسح ثم وثم … ینظر إن کان بحال لو ترک لسال ینتقض وإلا لا‘‘(۴)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۰؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطھارۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۲؍ ۵۲۳۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع: في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع المغلظۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰۔
(۴) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملی في شرح منیۃ المصلی: ج ۱، ص: ۱۳۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص41

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب تک اس وضو سے کم از کم دو رکعت نہ پڑھ لی جائے یا کوئی دوسری عبادت جس میںوضو شرط ہے، ادا نہ کرلی جائے یا کافی وقت نہ گزر جائے دوبارہ وضو کرنا مکروہ ہے۔
أن الوضوء عبادۃ غیر مقصودۃ لذاتھا، فإذا لم یؤدّ بہ عمل مما ھو المقصود من شرعیتہ کالصلاۃ و سجدۃ التلاوۃ و مس المصحف، ینبغي أن لا یشرع تکرارہ قربۃ لکونہ غیر مقصود لذاتہ، فیکون إسرافاً محضاً۔ (۲) و مقتضی ھذا کراھتہ و إن تبدل المجلس مالم یودّ بہ صلاۃ أو نحو۔(۱)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في الوضوء علی الوضوء،‘‘ ج۱، ص:ـ۲۴۱
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في الوضوء علی الوضوء،‘‘ ج۱، ص:ـ۲۴۱

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص156

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر مہلک مرض ایسا ہو کہ پانی سے غسل کرنے سے بھی مرض بڑھتا ہو، یا گرم پانی میسر نہیں آ سکتا ہو، تو تیمم کر کے نماز پڑھنا جائز ہے؛ لیکن صرف نزلہ کے بڑھنے کے خوف سے غسل نہ کرنا اور تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔
’’من عجز عن استعمال الماء المطلق الکافي لطہارتہ لصلاۃ تفوت إلی خلف لبعدہ أو لمرض یشتد أو یمتد بغلبۃ ظن أو قول حاذق مسلم‘‘(۳)
 ’’ولو کان یجد الماء إلا أنہ مریض فخاف إن استعمل الماء اشتد مرضہ یتیمم‘‘ (۴)
’’لا یجوز التیمم في المصر إلا لخوف فوت جنازۃ أو صلاۃ عید أو للجنب الخائف من البرد‘‘ (۱)

(۳)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج ۱، ص:۳۹۵تا۳۹۷
(۴)بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم: ألعجز من استعمال الماء لمرض‘‘ ج۱، ص: ۵۱۶
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۲۴۴

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص358

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں کپڑے کے نوچے ہوئے اور پھٹے ہوئے حصہ پر کتے کا لعاب ضرور لگا ہوگا؛ اگر وہ ایک درہم سے کم ہے تو مانع نماز نہیں ہے اور جب تک لعاب کے کثیر ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو قلیل پر محمول کیا جائے گا اور اس کپڑے کو پہن کر پڑھی گئی نماز درست ہوگی اعادہ کی ضرورت نہیں، اگر کثیر ہونے کا اندازہ ہو تو نماز کا اعادہ کیا جائے۔
’’والأصح أنہ إن کان فمہ مفتوحا لم یجز لأنہ لعابہ لبس فی کمہ فینجس لو أکثر من قدر الدر ہم‘‘(۱)
’’الکلب إذا أخذ عضو إنسان أو ثوبہ لا ینجس ما لم یظہر فیہ أثر البلل راضیا کان أو غضبان‘‘(۲)
’’وعفا الشارع عن قدر الدرہم وإن کرہ تحریماً فیجب غسلہ وما دونہ تنزیہا فیسن وفوقہ مبطل فیفرض … أشارہ إلی أن العفو عنہ بالنسبۃ إلی صحۃ الصلاۃ بہ فلا ینافي الإثم‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في    أحکام الدباغۃ، باب المیاہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثاني: في الأعیان النجسۃ، النوع الثاني الخففۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار مع الد المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص43

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: اٹیچ باتھ روم کا رواج آج کل عام ہے اور بظاہر غسل خانہ میں نجاست بھی نہیں ہوتی؛ اس لیے اس طرح کے باتھ روم میںوضو کرنا اور اس وضو سے نماز ادا کرنا بالکل درست ہے: کما قال ابن نجیم : أن لا یتوضأ في المواضع النجسۃ لأن لماء الوضوء حرمۃً کذا في المضمرات (۲) والتوضؤ في مکان طاہر لأن لماء الوضوء حرمۃ۔(۳)

(۲) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، باب سنن الوضوء، ج۱، ص:۳۰
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الثالث في المستحبات، و من الأدب،‘‘ ج۱، ص:۵۹

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص157

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق :مذکورہ شخص کے لیے پیر دھونا تو مشکل ہے، پاؤں کو دھونے کے بجائے، اس پر ہاتھ بھگو کر مسح کر نا چاہیے۔(۱)

(۱) و یمسح نحو مفتصد وجریح علی کل عصابۃ مع فرجتھا في الأصح، قولہ علی کل عصابۃ أي علی کل فرد من أفرادھا، سواء کانت تحتھا جراحۃ وھي بقدرھا، أو زائدۃ علیھا کعصابۃ المفتصد أو لم یکن تحتھا جراحۃ أصلا بل کسرا وکي، و ھذا معنی قول الکنز کان تحتھا جراحۃ أولا، لکن إذا کانت زائدۃ علی قدر الجراحۃ فإن ضرہ الحل والغسل مسح الکل تبعاً، و إلا فلا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، مطلب في لفظ کل إذا دخلت علی منکر أو معروف،‘‘ ج۱، ص:۴۷۱مکتبۃ زکریا دیوبند)؛ و یجوز أي یصح مسحھا کالغسل إن ضر و إلا لایترک وھو أي مسحھا مشروط بالعجز عن مسح نفس الموضع، فإن قدر علیہ فلا مسح علیھا۔ والحاصل لزم غسل المحل ولو بماء حار، فإن ضر مسحہ، فإن ضر مسحھا، فإن ضر سقط أصلاً۔۔۔ والرجل والمرأۃ والجنب في المسح علیھا و علی توابعھما سواء۔ (ابن عابدین ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، مطلب الفرق بین الفرض العملي والقطعي والواجب،‘‘ج۱، ص:۴۷۰-۴۷۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص260