Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا شخص جس کو پانی ملنے کی امید ہو اس کے لیے مستحب ہے کہ نماز کو اخیر وقت تک موخر کرے، لیکن اگر اس نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی تو تیمم کی اہلیت ہونے کی وجہ سے نماز درست ہوجائے گی بشرطیکہ مصلی اور پانی کے درمیان کم از کم ایک میل یا زیادہ کا فاصلہ ہو۔
و ندب لراجیہ رجاء قویا آخر الوقت المستحب ولو لم یؤخر و تیمم و صلی جاز، إن کان بینہ و بین الماء میل و إلا لا۔(۲)
(۲)ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم، مطلب في الفرق بین الظن و غلبۃ الظن‘‘ ج۱، ص:۱۸-۴۱۷؛ و الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي،’’ کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۱۲۲
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص359
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 874 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 1۔ مقیم (غیرمسافر) کے لئے ایک دن ایک رات (24 گھنٹے) اور مسافر شرعی کے لئے تین دن تین رات خفین پر مسح کرنے کی شرعا اجازت ہے۔ عن المغیرۃ قال آخرغزوۃ غزونا مع رسول اللہ ﷺ امرنا ان نمسح علی خفافنا للمسافر ثلثلۃ ایام ولیالیھن وللمقیم یوم و لیلۃ (الطبرانی) الدرایۃ فی تخریج احادیث الھدایۃ ج 1 ص56
2۔ جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ان تمام چیزوں سے مسح بھی ٹوٹ جاتا ہے اس لئے جب سوگیا تو وضو کے ساتھ مسح بھی ٹوٹ گیا، اگر وضو کیا مسح نہیں کیا تو وضو درست نہیں ہوگا۔ وینقض المسح کل شیئ ینقض الوضوء لانہ بعض الوضوء ۔ الھدایۃ ج1 ص59
3۔ جو موزہ چمڑے کا نہ ہو لیکن ایسا موٹا اور دبیز ہو کہ پیر کی کھال نظر نہ آتی ہو، اور اس میں پانی نہ چھنتاہو اور اس کو پہن کر بغیرجوتے کےمیل بھر چلنا بھی دشوار نہ ہو تو ایسے موزہ پر بھی مسح کرنے کی شرعا اجازت ہے۔ کیونکہ اصل میں چمڑے کے موزے پر مسح کرنا جائز ہے اسلئے یہ شرطیں اگر کسی اور موزے میں پائی جائیں تو وہ خفین کے مشابہ ہوگا اور اس پر بھی مسح درست ہوگا۔ ولایجوز المسح علی الجوربین عند ابی حنیفۃ الاان یکونا مجلدین او منعلین وقالا یجوز اذا کانا ثخینین لایشفان لماروی ان النبی ﷺ مسح علی جوربیہ۔۔۔۔۔۔۔ وعنہ انہ رجع الی قولھما وعلیہ الفتوی ۔ الھدایہ ج1 ص 61
4۔ جوتا نکالے بغیر جوتے پر مسح کرنے سے خفین پر مسح شمار نہ ہوگا، کیونکہ جوتا پیر وں کا بدل کا نہیں بن سکتا۔لہذا جوتا نکال کر خفین پر ہی مسح کرنا ضروری ہوگا۔ اگر کوئی خفین پر مسح کرکے جوتے پر بھی مسح کرلے تو اس میں حرج نہیں لیکن صرف جوتوں پر مسح کرنا اور خفین پر مسح ترک کردینا درست نہیں۔ عن المغیرۃ ابن شعبۃ قال توضآ النبی ﷺ ومسح علی الجوربین والنعلین۔ ترمذی ج1ص29،۔ ولوکان الجرموق (الخف الذی یلبس فوق الخف) من کرباس لایجوز المسح علیہ لانہ لایصلح بدلا عن الرجل الا ان تنفذ البلۃ الی الخف ۔ الھدایۃ ج1 ص 61۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:گھروں، کمروں اور رہائش کی جگہوں پر جو پانی کھلا ہوا رکھا ہو وہ اکثر قلیل پانی ہوتا ہے اور قلیل پانی میں بلی منہ ڈال دے اور اس نے اسی وقت چوہا کھایا ہو تو پانی ناپاک ہو جاتا ہے، اس کا استعمال درست نہیںہے؛ لیکن یہ صورت کم پیش آتی ہے، بلی نے اگر فوراً چوہا نہیں کھایا تھا، تو بلی کا جھوٹا پانی استعمال کرنا مکروہ ہے، اس پانی سے کپڑا وغیرہ دھویا یا وضو کی، تو ان کپڑوں اور اس وضو سے پڑھی گئی نمازیں مکروہ ہوئی ہیں تاہم اعادہ ضروری نہیں ہے۔
’’وہرۃ فور أکل فارۃ نجس: قولہ: أکل فارۃ فإن مکثت ساعۃ ولحست فمکروہ‘‘(۱)
’’الأمر الثالث: سؤر الہرۃ الأہلیۃ فإذا شربت الہرۃ الأہلیۃ من ماء قلیل فإنہ یکرہ ’’الأمر الثالث: سؤر الہرۃ الأہلیۃ فإذا شربت الہرۃ الأہلیۃ من ماء قلیل فإنہ یکرہ استعمالہ لأنہا لا تتحاشی النجاسۃ وإن کان سؤرہا مکروہا ولم یکن نجسا‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في السؤر‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۳۔
(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: حکم الماء الطہور‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص44
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہر وہ چیز جو وضو اور غسل میں پانی پہونچنے کے لیے مانع ہو، اس سے وضو اور غسل نہیں ہوتا، اسی میں فیوی کوک اور فیوی کول وغیرہ بھی داخل ہے: اس لیے پہلے اس کو جدا کرکے پانی بہایا جائے، پھر نماز ادا کی جائے، ورنہ اس سے غفلت کی بنا پر جو نماز ادا کی جائے گی، وہ نماز ادا نہیں ہوگی: ولابد من زوال ما یمنع من وصول الماء للجسد کشمع وعجین الخ(۱)ہو إسالۃ الماء علی جمیع ما یمکن إسالتہ علیہ من البدن من غیر حرج مرۃ واحدۃ حتی لو بقیت لمعۃ لم یصبہا الماء لم یجز الغسل(۲)المراد وبالأثر اللون والریح فإن شق إزالتہما سقطت(۳) البتہ پوری کوشش کے باوجود اگر فیوی کول وغیرہ کا کچھ حصہ رہ جائے تو ضرورت و حاجت کی وجہ سے وضو اور غسل میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی۔
(۱)حسن بن عمار بن علي، الشرنبلالي، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح،’’فصل یفترض في الاغتسال‘‘ الخ ص:۱۰۲
(۲) زین الدین ابن نجیم الحنفی، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص ۸۶
(۳) و یعني أثر شق زوالہ بأن یحتاج في إخراجہ إلی نحو الصابون۔ (إبراھیم بن محمد، جمع الأنھر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،‘‘ ج۱، ص۹۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص158
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق :افضل یہ ہے کہ سر کا مسح کرکے مسح کے باقی ماندہ پانی سے ہی کانوں کامسح کیا جائے؛ لیکن الگ سے پانی لینا بھی درست ہے۔(۱)
(۱)و عن أبي أمامۃ ذکر وضوء رسول اللّٰہ ﷺ قال: و کان یمسح الماقین و قال: الأذنان من الرأس أخرجہ ابن ماجہ و ابوداؤد والترمذي، و ذکرا: قال حماد لا أدری: الأذنان من الرأس من قول أبي أمامۃ۔ أم من قول رسول اللہ ﷺ : (محمد بن عبداللّٰہ، مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب سنن الوضوء، في الفصل الثاني،‘‘ ج۱، ص:۴۷المکتبۃ الاشرفیۃ دیوبند)، قال الطیبي : أي کان یغسل و یمسح الماقین، ولم یوصل الماء إلی الأذنین، و قال: ھما من الرأس فیمسحان بمسحہ، و احتمال أن یکون عطفاً علی قال أي قیل: فکان فیکون من قول أبي أمامۃ أي قال الراوي: ذکر أبو أمامۃ کان رسول اللّٰہ ﷺ یغسل الوجہ و یمسح الماقین و قال: إنھما (الأذنین) من الرأس اھ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب سنن الوضوء،‘‘ج۲، ص:۱۱۵مکتبۃ فیصل دیوبند)، وفي التاتارخانیۃ: ومن السنۃ مسحھما بماء الرأس ولا یأخذ لھما ماء جدیداً۔ ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ مطلب في تصریف قولھم معزیا،‘‘ ج۱، ص:۲۴۳)؛ و مسح کل رأسہ مرۃ مستوعبۃ فلو ترکہ و داوم علیہ أثم۔ (ایضاً، ج۱،ص:۲۴۴)؛ والأظھر أن یضع کفیہ و أصابعہ علی مقدم رأسہ و یمدھا إلی القفا علی وجہ یستوعب جمیع الرأس لم یمسح أذنیہ بإصبعیہ اھ، وما قیل من أنہ یجافي المسبحتین والإبھامین لیمسح بھما الأذنین والکفین لیمسح بھما جانبي الرأس خشیۃ الاستعمال، فقال في الفتح: لا أصل لہ في السنۃ لأن الاستعمال لا یثبت قبل الإنفصال و الأذنان من الرأس۔(ایضا، ج۱،ص:۲۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص261
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو چیز زمین کی جنس سے ہو اس پر تیمم کرنا جائز ہے اور جو چیز زمین کی جنس سے نہ ہو اس پر تیمم کرناجائزنہیں۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ جو چیز جلانے سے نہ جلے وہ زمین کی جنس سے ہے۔ ماربلس اور ٹائلس بھی سیمنٹ اور چونا وغیرہ سے بنایا جاتا ہے جو زمین کی جنس سے ہے اس لیے ماربلس اور ٹائلس پر تیمم کرنا جائز ہے۔ اگرچہ اس پر گرد و غبار نہ ہو۔ یجزئ التیمم بکل ما کان من الأرض التراب والرمل والحجارۃ والزرنیخ والنورۃ والطین الأحمر (۱) و کل شئ من الأرض تیمم بہ من تراب أو جص أو نورۃ أو زرنیخ فھو جائز۔ (۲) من جنس الأرض و غیرہ أن کل ما یحترق بالنار فیصیر رمادا کالشجر والحشیش أو ینطبع و یلین کالحدید والصفر والذھب والزجاج و نحوھا فلیس من جنس الأرض ابن کمال عن التحفۃ ۔(۳)
(۱) إمام جصاص، أحکام القرآن ، ’’سورہ مائدہ، باب التیمم، باب ما یتمم بہ‘‘ ج۲، ص:۴۸۷ (القاھرۃ: دارابن جوزی، مصر)
(۲) امام سرخسي، مبسوط للسرخسي، ’’باب التیمم‘‘ج ۱، ص:۴۰۴(القاھرۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، مصر)
(۳) ابن عابدین،ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج۱، ص:۲۳۹
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص360
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نجاست صاف کرنے کے لئے کپڑے یا ٹیشو پیپر کا استعمال کرنا چاہئے، لکھنے کے قابل کاغذ سے استنجا کرنا یا نجاست زائل کرنا درست نہیں، انگریزی اخبار پر موجود انگریزی حروف بھی قابل احترام ہیں ان کی توہین کرنا اور ان سے نجاست صاف کرنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ انگریزی میں بھی کوئی قابل احترام جملہ لکھا ہوا ہو سکتا ہے۔
’’إن للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ … ومفادہ الحرمۃ بالمکتوب مطلقاً وإذا کانت العلۃ في الأبیض کونہ آلۃ للکتابۃ کما ذکرناہ یؤخذ منہا عدم الکراہۃ فیما لا یصلح لہا إذا کان قالعاً للنجاسۃ غیر متقوم کما قدمناہ من جوازہ بالخرق البوالي‘‘(۲)
’’ولو قطع الحرف من الحرف أو خیط علی بعض الحروف حتی لم تبق الکلمۃ متصلۃ لا تزول الکراہۃ لأن للحروف المفردۃ حرمۃ وکذا لو کان علیہا الملک أو الألف وحدہا أو اللام‘‘(۱)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۰۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فصل في االلبس‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص45
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں جن چیزوںکا ذکر کیا گیا ہے، ان سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ البتہ وضو کرلینا مستحب ہے: الوضوء ثلاثۃ أنواع فرض علی المحدث للصلوۃ، و واجب للطواف بالکعبۃ، ومندوب بعد غیبۃ وکذب، و نمیمۃ و انشاد شعر الخ(۱)
ولا ینقض الکلام الفاحش الوضوء الخ۔(۲)
والکلام الفاحش لا ینقض الوضوء و إن کان في الصلوٰۃ! لأن الحدث اسم لخارج نجس، ولم یوجد ہذا الحدث في الکلام الفاحش۔(۳)
(۱)محمد بن فرامرز، دررالحکام شرح غرر الأحکام ، ’’باب نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۲
(۲) السرخسي، المبسوط، ’’ باب الوضوء والغسل،‘‘ج۱، ص:۷۹۲
(۳)أبوالمعالي، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني في بیان ما یوجب الوضوء و مالا یوجب، نوع آخر من ھذا الفصل،‘‘ ج۱، ص:۷۵
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص158
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق :مستحبات درج ذیل ہیں:(۱) ہاتھ سے مسح کرنا (۲) مسح کے وقت ہاتھ کی انگلیوں کو کشادہ رکھنا (۳) مسح کے وقت موزوں پر انگلیاں اس طرح کھینچنا کہ موزوں پر نشان کھنچ جائیں (۴) مسح کوپیر کی انگلیوں کی طرف سے شروع کرنا ہے (۵) پنڈلی کی جڑ تک مسح کرنا (۶) دونوں موزوں پر ایک ساتھ مسح کرنا (۷) دائیں موزے کا دائیں ہاتھ سے اور بائیں کا بائیں ہاتھ سے مسح کرنا (۸) ہاتھ کی ہتھیلیوں کی طرف سے مسح کرنا۔(۱)
(۱)والسنۃ أن یخطہ خطوطاً بأصابع ید مفرجۃ قلیلا یبدأ من قبل أصابع رجلہ متوجھا إلی أصل ساق و محلہ علی ظاھر خفیہ من رؤوس أصابعہ، ذکرہ قاضی خان في شرح الجامع الصغیر: أن یضع أصابع یدہ الیمنی علی مقدم خفہ الأیمن، و أصابع یدہ الیسری علی مقدم خفہ الأیسر من قبل الأصابع، فإذا تمکنت الأصابع یمدھا حتی ینتھی إلی أصل الساق فوق الکعبین، لأن الکعبین یلحقھما فرض الغسل و یلحقھما سنۃ المسح، و إن وضع الکفین مع الأصابع کان أحسن۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار،’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین مطلب: اعراب قولہم إلا أن یقال،‘‘ ج۱، ص:۴۴۸)؛ و عن المغیرۃ بن شعبۃ قال رأیت رسول اللّٰہ ﷺ بال ثم جاء حتی توضأ و مسح علی خفیہ و وضع ید الیمنی علی خفہ الأیمن و یدہ الیسری علی خفہ الأیسر ثم مسح أعلاھما مسحۃ واحدۃ حتی کأنی أنظر إلی أصابع رسول اللّٰہ علی الخفین ۔ (أخرجہ ابن أبي شیبہ، مصنف ابن ابی شیبہ، من کان لا یری المسح، ج۱، ص:۱۷۰، رقم : ۱۹۵۷)؛ وعن ھشام عن الحسن قال المسح علی الخفین خطا بالأصابع۔ (أخرجہ ابن أبي شیبہ، في مصنفہ، ’’باب في المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۱۶۶، رقم:۱۹۰۶، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص261