طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں جن چیزوںکا ذکر کیا گیا ہے، ان سے وضو نہیں  ٹوٹتا؛ البتہ وضو کرلینا مستحب ہے: الوضوء ثلاثۃ أنواع فرض علی المحدث للصلوۃ، و واجب للطواف بالکعبۃ، ومندوب بعد غیبۃ وکذب، و نمیمۃ و انشاد شعر الخ(۱)
ولا ینقض الکلام الفاحش الوضوء الخ۔(۲)
والکلام الفاحش لا ینقض الوضوء و إن کان في الصلوٰۃ! لأن الحدث اسم لخارج نجس، ولم یوجد ہذا الحدث في الکلام الفاحش۔(۳)

(۱)محمد بن فرامرز، دررالحکام شرح غرر الأحکام ، ’’باب نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۲
(۲) السرخسي، المبسوط، ’’ باب الوضوء والغسل،‘‘ج۱، ص:۷۹۲
(۳)أبوالمعالي، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني في بیان ما یوجب الوضوء و مالا یوجب، نوع آخر من ھذا الفصل،‘‘ ج۱، ص:۷۵

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص158

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :مستحبات درج ذیل ہیں:(۱) ہاتھ سے مسح کرنا (۲) مسح کے وقت ہاتھ کی انگلیوں کو کشادہ رکھنا (۳) مسح کے وقت موزوں پر انگلیاں اس طرح کھینچنا کہ موزوں پر نشان کھنچ جائیں (۴) مسح کوپیر کی انگلیوں کی طرف سے شروع کرنا ہے (۵) پنڈلی کی جڑ تک مسح کرنا (۶) دونوں موزوں پر ایک ساتھ مسح کرنا (۷) دائیں موزے کا دائیں ہاتھ سے اور بائیں کا بائیں ہاتھ سے مسح کرنا (۸) ہاتھ کی ہتھیلیوں کی طرف سے مسح کرنا۔(۱)

(۱)والسنۃ أن یخطہ خطوطاً بأصابع ید مفرجۃ قلیلا یبدأ من قبل أصابع رجلہ متوجھا إلی أصل ساق و محلہ علی ظاھر خفیہ من رؤوس أصابعہ، ذکرہ قاضی خان في شرح الجامع الصغیر: أن یضع أصابع یدہ الیمنی علی مقدم خفہ الأیمن، و أصابع یدہ الیسری علی مقدم خفہ الأیسر من قبل الأصابع، فإذا تمکنت الأصابع یمدھا حتی ینتھی إلی أصل الساق فوق الکعبین، لأن الکعبین یلحقھما فرض الغسل و یلحقھما سنۃ المسح، و إن وضع الکفین مع الأصابع کان أحسن۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار،’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین مطلب: اعراب قولہم إلا أن یقال،‘‘ ج۱، ص:۴۴۸)؛ و عن المغیرۃ بن شعبۃ قال رأیت رسول اللّٰہ ﷺ بال ثم جاء حتی توضأ و مسح علی خفیہ و وضع ید الیمنی علی خفہ الأیمن و یدہ الیسری علی خفہ الأیسر ثم مسح أعلاھما مسحۃ واحدۃ حتی کأنی أنظر إلی أصابع رسول اللّٰہ علی الخفین ۔ (أخرجہ ابن أبي شیبہ، مصنف ابن ابی شیبہ، من کان لا یری المسح، ج۱، ص:۱۷۰، رقم : ۱۹۵۷)؛  وعن ھشام عن الحسن قال المسح علی الخفین خطا بالأصابع۔ (أخرجہ ابن أبي شیبہ، في مصنفہ، ’’باب في المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۱۶۶، رقم:۱۹۰۶، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص261

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس صورت میں تیمم کرکے نماز ادا کرے قضا نہ ہونے دے؛ اور تیمم پڑھی ہوئی نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے : ومن الأعذار: برد یخاف منہ بغلبۃ الظن التلف لبعض الأعضاء أو المرض۔(۱) أو برد أي إن خاف الجنب أو المحدث إن اغتسل أو توضأ أن یقتلہ البرد أو یمرضہ تیمم، سواء کان خارج المصر أو فیہ۔(۲)  قال الکاساني في بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع: ولو أجنب في لیلۃ باردۃ یخاف علی نفسہ الہلاک لو اغتسل ولم یقدر علی تسخین الماء، ولا أجرۃ الحمام في المصر أجزاہ التیمم في قول أبي حنفیۃ الخ۔(۳)

(۱)حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نورالإیضاح، ’’باب التیمم‘‘ (ج۱، ص:۴۸)
(۲) ابن نجم، البحر الرائق، ’’باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۲۴۶
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل في شرائط رکن التیمم‘‘ ج۱ص:۱۷۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص361

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 37 / 1071

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: پیر دھونا اور اگر خفین پہنے ہو تو اس پر مسح کرناجبکہ  فرض ہے تو جوتے پہن کر وضو کرنے کا کیا مطلب ہے؟ جوتے تو بہرحال اتارنے پڑیں گے۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء نے جو لکھا ہے کہ پانی کے اوصاف بدل جائیں، تو اس کا استعمال درست نہیں ہے یہ بات علی الاطلاق نہیں ہے؛ بلکہ مراد یہ ہے کہ نجاست وگندگی کے ملنے سے اوصاف بدل جائیں، تو پانی ناپاک ہوتا ہے، پانی کے رکے رہنے کی وجہ سے یا کسی جگہ پانی میں کوئی پاک چیز مل جانے کی وجہ سے اگر اوصاف بدل جائیں، تو اس پانی کو ناپاک نہیں کہا جائے گا گاؤں، دیہات میں جو تالاب ہوتے ہیں ان میں پانی رکے رہنے کی وجہ سے ان کے اوپر کائی جم جاتی ہے، اوصاف بدل جاتے ہیں؛ لیکن پھر بھی وہ پانی پاک ہی رہتا ہے، کپڑے دھونے کے لئے پانی پاک ہی نہیں؛ بلکہ صاف بھی ہونا چاہئے تاکہ طبعی کراہت بھی نہ ہو تاہم اگر اس پانی سے کپڑے دھوئے جاتے ہیں، تو ان کپڑوں کو ناپاک نہیں کہا جائے گا، وہ کپڑے پاک ہیں اور ان میں نماز پڑھنی درست ہے، علامہ جزیری رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت فرمائی ہے:
’’قد یتغیر لون الماء وطعمہ ورائحتہ ومع ذلک یبقی طہور الصحیح استعمالہ في العبادات من وضوء وغسل ونحو ذلک ولکن ذلک مشروط بعد م  الضرر للشخص في عضو من أعضائہ فإنہ لا یحل لہ أن یتوضأ من ذلک الماء وقد یضطر سکان البوادی والصحاری إلی استعمال المیاہ المتغیرۃ حیث لا یجدون سواہا فأبا حت الشریعۃ الإسلامیۃ لمثال ہؤلاء أن یستعملوا ذلک الماء إذا أمنوا شرہ‘‘(۱)
’’لا لو تغیر بطول مکث فلو علم نتنہ بنجاسۃ لم یجز‘‘(۲)
(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: ما لا یخرج الماء عن الطہوریۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔(بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب حکم سائر المائعات کالماء في الأصح‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص46

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: لپسٹک اگر اتنی ہلکی سی لگی ہو کہ وضو وغسل کے وقت ہونٹوں تک پانی پہنچے میں رکاوٹ نہ بنے، تو اس کے لگے ہونے کی حالت میں وضو و غسل درست ہے اور اگر اتنی زیادہ لگی ہوکہ وہ پانی پہنچنے سے مانع ہو، تو وضو اور غسل کے وقت اسے بالکل صاف کرنا ضروری ہے وضو درست ہونے کے بعد اگر لپسٹک لگائی ہو،تو نماز درست ہے : شرط صحتہ أي الوضوء ۔۔۔ زوال ما یمنع وصول الماء إلی الجسد کشمع وشحم۔(۴) ولایمنع الطہارۃ ونیم وحناء و درن و وسخ وتراب في ظفر مطلقاً، ولایمنع ما علی ظفر صباغ ۔۔۔ وقیل  إن صلبا منع(۱) والخضاب إذا تجسد ویبس یمنع تمام الوضوء والغسل کذا في السراج الوھاج۔(۲)

(۴)حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في أحکام الوضوء،‘‘ ص:۲۵
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل، فرض الغسل،‘‘ ج۱، ص:۲۸۸
(۲) جماعۃ من علماء الھند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الأول: في فرائض  الوضوء، الفرض الثاني: غسل الیدین،‘‘ ج۱، ص:۵۴؛  و أبوبکر بن علي، الجوہرۃ النیرۃ علی مختصر القدوری، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۴)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص159

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :شریعت میں خفین اس کو کہتے ہیں، جو چمڑے یا چمڑے جیسی کسی چیز سے بنائے جائیں۔
وہ پیروں کو ٹخنے یا پنڈلی تک ڈھانپ لیں۔
پاؤں سے متصل رہیں۔
 اور ان میں پانی نہ چھن سکے۔

ہر قسم کے موزے کو خف نہیں کہا جاتا، محدثین کا یہ ہی قول ہے۔(۱)

(۱)و أما المسح علی الجوربین فإن کانا مجلدین أو منعلین یجزیہ بلا خلاف، و إن لم یکونامجلدین ولا منعلین فإن کانا رقیقین یشفان الماء لا یجوز المسح علیھما بالإجماع۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی درالمختار، ج۱، ص:۳۱۵)؛ و الاوّل : کونہ ساتر محل فرض الغسل القدم مع الکعب۔والثاني: کونہ مشغولا بالرجل لیمنع سرایۃ الحدث الخ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۳۷-۴۳۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص262

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام طہارت وپاکیزگی والا دین ہے، شریعت اسلامیہ میں ظاہر وباطن کی طہارت کو نہایت اہمیت دی گئی ہے؛ چنانچہ زیر ناف بالوں کو کاٹنا ہر مسلمان بالغ مرد اور عورت پر لازم ہے جس کی صفائی کی آخری حد چالیس روز ہے، اس سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ تحریمی اور گناہ کا باعث ہے۔ حدیث شریف میں اس کی سخت وعید آئی ہے۔ امام مسلمؒ نے نقل کیا ہے:
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: قال أنس: وقت لنا في قص الشارب وتقلیم الأظفار ونتف الإبط وحلق العانۃ أن لا نترک أکثر من أربعین لیلۃ‘‘(۱)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن کاٹنے بغل اور زیر ناف کی صفائی کے سلسلے میں ہمارے واسطے حد مقرر کردی گئی ہے کہ چالیس روز سے زیادہ نہ چھوڑیں۔
زیر ناف کاٹنے کی حد ناف کے نیچے پیڑو کی ہڈی (اگر آدمی اکڑو بیٹھے، تو ناف سے تھوڑا نیچے جہاں پیٹ میں بل پڑتا ہے وہاں) سے لے کر شرم گاہ اور اس کے آس پاس کا حصہ، خصیتین اسی طرح مقعد کے آس پاس کا حصہ اور رانوں کا صرف وہ حصہ جہاں نجاست ٹھہرنے یا لگنے کا خطرہ ہو یہ تمام بال کاٹنے کی حد ہے اور انہیں صاف کرنے کی ابتداء ناف کے نیچے سے کرنی چاہئے۔
’’ویبتدئ في حلق العانۃ من تحت السرۃ، ولو عالج بالنورۃ في العانۃ یجوز کذا في الغرائب‘‘(۲)
’’وأما الاستحداد فہو حلق العانۃ سمی استحداداً لاستعمال الحدیدۃ وہي الموسی، وہو سنۃ، والمراد بہ نظافۃ ذلک الموضع، والأفضل فیہ الحلق، ویجوز بالقص والنتف والنورۃ والمراد بالعانۃ الشعر الذي فوق ذکر الرجل وحوالیہ وکذلک الشعر الذي حوالي فرج المرأۃ‘‘(۱)
’’والعانۃ الشعر القریب من فرج الرجل والمرأۃ ومثلہا شعر الدبر بل ہو أولی بالإزالۃ؛ لئلایتعلق بہ شيء من الخارج عند الاستنجاء بالحجر‘‘(۲)
اگر کوئی نابینا شخص ہے، تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ حجام سے زیر ناف کٹوائے جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’حلق عانتہ بیدہ وحلق الحجام جائز إن غض بصرہ، کذا في التتار خانیۃ‘‘(۳)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأۃ شعرہا ووصلہا شعر غیرہا‘‘: ج ۵، ص: ۴۱۳۔
(۱) النووي، شرح النووي علی مسلم، ’’کتاب الطہارۃ: باب خصال الفطرۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۲۸۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الحج: فصل في الإحرام و صفۃ المفرد‘‘: ج ۲، ص: ۴۸۱۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب التاسع عشر في الختان والخصاء‘‘: ج ۵، ص: ۴۱۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص48

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اہل سیر کے درمیان اجماع ہے کہ وضو اور غسل مکی زندگی میں نماز کے ساتھ فرض ہوا۔
 وأجمع أہل السیر أن الوضوء والغسل فرضا بمکۃ مع فرض الصلوٰۃ یتعلم جبریل علیہ السلام۔(۳)
 حضرت جبریل امینؑ نے اس کی تعلیم دی جیسا کہ آپ Bنے ارشاد فرمایا :
 ان رسول اللّٰہ ﷺ: توضأ مرۃ مرۃ و قال: ھذا وضوء لا یقبل اللّٰہ الصلوۃ إلا بہ، و توضأ مرتین مرتین و قال: ھذا وضوء من یضاعف اللّٰہ لہ الأجر مرتین، و توضأ ثلاثا ثلاثا و قال: ھذا وضوئي و وضوء الأنبیاء من قبلي(۴) مذکورہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ امت ِ محمدیہ سے قبل بھی دوسری امتوں میں وضو کا حکم تھا۔
(۳)ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في اعتبارات المرکب التام،‘‘ ج۱، ص:۱۹۸
(۴) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’الموالاۃ في الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۱۳

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص160

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :اگر خفین پر پیشاب لگ جائے، تو اس کا بھی دھونا فرض ہے اور اگر کوئی سخت نجاست لگ جائے، تو اس کو بھی خفین سے دور کرنا ضروری ہے؛ البتہ اگر خفین چکنے ہوں اور اس کا اثرپورے طور پر رگڑ کر یا کسی چیز سے صاف کر دیا جائے تو پاک ہو جاتا ہے۔(۲)
اگر نجاست غلیظہ ہو، مثلاً :خون اور انسان کا پیشاب وغیرہ اور ایک درہم سے کم لگ جائے، تو اس پر مسح کرکے نماز پڑھ لی جائے، تو نماز ہو جاتی ہے(۳) اور اگر نجاست خفیفہ ہو  جیسے: ان جانوروں کا پیشاب جن کا گوشت کھایا جاتا ہے، تو خفین کا بھی چوتھائی حصہ تک معاف ہے(۱)؛ مگر جان بوجھ کر اتنی نجاست لگا رکھنا، مکروہ تحریمی ہے۔

(۲)الخف إذا أصابہ النجاسۃ إن کانت متجسدۃ کالعذرۃ والروث والمني یطھر بالحت إذا یبست، و إن کانت رطبۃ لا یطھر إلا بالغسل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامہا، و منھا: الحت والدلک،‘‘ ج۱، ص:۴۴، مکتبۃ فیصل دیوبند)
(۳)و إن لم تکن النجاسۃ متجسدۃ کالخمر والبول إذا التصق بھا مثل التراب أو ألقی علیھا فمسحھا یطھر؛ وھو الصحیح ھکذا في التبیین وعلیہ الفتویٰ۔ (ایضاً،ج۱، ص:۹۹)
(۱) وعفي قدر الدرھم وزنا في المتجسدۃ و مساحۃ في المائعۃ، وھو قدر مقعر الکف داخل مفاصل الأصابع من النجاسۃ المغلظۃ فلا یعني عنھا إذا زادت علی الدرھم مع القدرۃ علی الإزالۃ۔(احمد بن محمد، مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنھا،‘‘ ج۱، ص:۶۲)؛  و عفي دون ربع ثوب من نجاسۃ مخففۃ۔ (ابن عابدین، درمختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مبحث في بول فأرۃ و بعرھا و بول الہرۃ،‘‘ ج۱، ص:۵۲۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص263