طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :کھال تو دباغت سے پاک ہو جاتی ہے اور موزے پاک چمڑے کے ہی بنائے جاتے ہیں اس لیے اس میں شبہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)

(۲) کل إھاب دبغ فقد طھر، و جازت الصلوٰۃ فیہ والوضوء منہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر،’’کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي مایجوز بہ الوضو مالا یجوز،‘‘ ج۱، ص:۹۶)؛  ومنھا الدباغ للجلود النجسۃ، فالدباغ تطھیر للجلود کلھا إلا جلد الإنسان والخنزیر؛ الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في بیان مقدار ما یصیر بہ المحل نجسا، الدباغۃ،‘‘ ج۱، ص:۲۴۳مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص264

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں لوٹے یا بوتل میں موجود پانی اگر ناپاک ہوجائے تو اس کو استعمال نہیں کرسکتے؛ کیوں کہ وہ مائِ قلیل (کم پانی) ہے، اگر وضو وغسل کے لیے اس کے علاوہ پانی نہ ہو، تو تیمم کیا جائے:
{وَإِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی أَوْ عَلٰی سَفَرٍ أَوْجَآئَ أَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ أَوْلٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَأَیْدِیْکُمْ مِّنْہُط}(۱)
’’من عجز عن استعمال الماء المطلق الکافی لطہارتہ لصلاۃ تفوت إلی خلف الخ‘‘(۲)


(۱) سورۃ المائدہ: ۶۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص51

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق : اعضاء وضو وغسل پر پینٹ لگ جائے اور وہ وضو اور غسل وغیرہ میں پانی پہونچنے کے لیے مانع ہو، تو اس صورت میںوضو اور غسل نہیں ہوگا۔ نیز اس حالت میں جو نماز ادا کی جائے گی، وہ نماز ادا نہیں ہوگی، جب تک پینٹ کو صاف کرکے اس پر پانی نہ بہا دیا جائے۔ کذا فی الفقہ ۔(۱)

(۱) ولابد من زوال ما یمنع من وصول الماء للجسد کشمع وعجین۔ (حسن بن عمار بن علي، الشرنبلالي، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل یفترض في الأغتسال،‘‘ ج۱، ص:۴۵)؛ و إسالۃ الماء علی جمیع ما یمکن إسالتہ علیہ من البدن من غیر حرج مرۃ واحدۃ؛ حتی لو بقیت لمعۃ لم یصبہا الماء لم یجز الغسل۔ وکذا في الوضو۔  (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطھارۃ، فصل: فرائض الغسل،‘‘ ج۱، ص:۸۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص162

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :صورت مذکورہ میں شرعی عذر کی وجہ سے پٹی باندھی ہو اور اس سے خون نہ بہتا ہو، تو اس پر مسح کر کے امامت کرنا درست ہے(۱) ’’ویجوز اقتداء الغاسل بماسح الخف وبالماسح علی الجبیرۃ‘‘(۲)

(۱)و یجوز المسح علی الجبائر و إن شدھا علی غیر وضوء۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۱۵۹-۱۶۱)؛  و کذا یجوز اقتداء الغاسل بالماسح علی الجبائر لما مر أنہٗ بدل عن المسح قائم مقامہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، بیان شرائط الاقتداء،‘‘ ج۱، ص:۳۵۵)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث:  في بیان من یصلح إماما لغیرہ،‘‘ ج۱، ص:۱۴۲

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص265

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر گوبر سے لیپا ہوا فرش ایسا ہو کہ اس پر چلنے سے نجاست کا اثر پاؤں میں نہیں لگتا، تو اس پر چلنے سے پاؤں ناپاک نہیں ہوگا، اگرچہ چلنے کی وجہ سے فرش پر پیروں کے نشان پڑ جائیں اور اگر فرش ایسا گیلا ہو کہ اس پر چلنے سے گوبر کے اثرات پاؤں میں لگ  جائیں تو پاؤں ناپاک ہو جائے گا اور اس کو دھونا ضروری ہوگا۔
’’في غنیۃ المستملی: وکذا إن مشی علی أرض نجسۃ بعد ما غسل رجلیہ فابتلت الأرض من بلل رجلیہ واسود وجہ الأرض، أي: بالنسبۃ إلی لونہ الأول؛ لکن لم یظہر أثر البلل المتصل بالأرض في رجلیہ لم تتنجس رجلہ، وجازت صلاتہ بدون إعادۃ غسلہا لعدم ظہور عین النجاسۃ في جمیع ذلک، والطاہر بیقین لایصیر نجساً إلا بیقین مثلہ‘‘(۱)
’’غسل رجلہ ومشی علی أرض نجسۃ أو قام علی فراش نجس فعرق ولم یظہر أثرہ لا یتنجس۔ خانیۃ‘‘(۲)
’’ولو وضع رجلہ المبلولۃ علی أرض نجسۃ أو بساط نجس لا یتنجس وإن وضعہا جافۃ علی بساط نجس رطب إن ابتلت تنجست ولا تعتبر النداوۃ ہو المختار کذا في السراج الوہاج ناقلا عن الفتاوی۔ وإذا جعل السرقین في الطین فطین بہ السقف فیبس فوضع علیہ مندیل مبلول لا یتنجس‘‘(۳)
’’نام أو مشی أي وقدمہ مبتلۃ علی نجاسۃ إن ظہر عینہا المراد بالعین ما یشمل الأثر لأنہ دلیل علی وجودہا تنجس وإلا لا‘‘(۴)
(۱) إبراہیم حلبي، غنیۃ المستملي، ’’ ‘‘: ص: ۱۵۳۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مسائل شتی‘‘: ج ۶، ص: ۷۳۳۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع الثاني المخففۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۲۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص51

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پاؤں اعضائے مغسولہ میں سے ہے، وضو کے وقت پاؤں کو دھونا ضروری ہے، ان پر مسح نہیں کیا جائے گا، نیز ’’و أرجلکم إلی الکعبین‘‘ کا عطف اعضائے مغسولہ، یعنی: چہرہ اور ہاتھ پر ہو رہا ہے؛ اس لیے ان کو دھونا فرض ہے، صرف روافض (امامیہ وغیرہ) کے نزدیک مسح کرنا فرض ہے۔(۱)

 (۱) ولنا قراء ۃ النصب و أنہا تقتضي کون وظیفۃ الأرجل الغسل، لأنہا تکون معطوفۃ علی المغسولات، و ہي الوجہ والیدان، و المعطوف علی المغسول یکون مغسولاً تحقیقاً لمقتضی العطف۔ (الکاساني، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع: ج۱، ص:۷۲)؛ ویایھا الذین آمنوا إذا قمتم الی الصلٰوۃ فاغسلوا الخ الآیۃ۔ قال الآلوسی: جمہور الفقہاء المفسرین: فرضھما الغسل۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ج۳، ص:۲۴۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص162

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :صورت مسئولہ میں مسح صحیح اور درست ہے، شرط یہ ہے کہ وہ مہندی ہی ہو۔(۳)

(۳)المرأۃ التي صبغت أصبعھا بالحناء أو الصرام أوالصباغ قال :کل ذلک سواء یجزیھم وضوئھم۔ (جماعۃ من علماء الہند، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفرض الثاني، غسل الیدین،‘‘ ج۱، ص:۵۴)؛ و لا یمنع الطھارۃ کالطعام بین الأسنان وضوء ًا کان أو غسلا لأنھا لا تمنع نفوذ الماء (عليحیدر، درر الحکام شرح غرر الأحکام، ’’فرائض‘‘،ج۱،ص:۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص265

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنبی کی نجاست حکمی ہے اگر اس کے بدن پر کوئی ناپاکی نہیں ہے، تو اس کے جسم سے نکلنے والا پسینہ ناپاک شمار نہیں ہوگا اور اس پسینہ کے کسی کپڑے پر لگنے کی وجہ سے کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔
’’عرق کل شيء معتبر بسؤرہ کذا في الھدایۃ، سؤر الآدمي طاھر ویدخل في ھذا الجنب والحائض والنفساء الخ کذا في السراج الوھاج‘‘(۱)
’’سئل مالک عن رجل جنب وضع لہ ماء یغتسل بہ فسہا فأدخل أصبعہ فیہ  لیعرف حر الماء من بردہ قال مالک إن لم یکن أصاب أصبعہ أذی فلا أری ذلک ینجس علیہ الماء‘‘(۲)
’’ویعتبر سؤر بمسئر فسؤر آدمي مطلقاً ولو جنبا أو کافرا أو امرأۃ‘‘(۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الطھارۃ: الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني، فصل: فیما لا یجوز بہ التوفی ومما یتصل بذلک المسائل‘‘: ج ۱، ص: ۷۶۔…

…(۲) مالک بن أنس، مؤطأ الإمام مالک، ’’جامع غسل الجنابۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷رقم: ۱۴۴۔(مکتبۃ بلال، دیوبند)
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في السؤر‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص53

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک مرتبہ چہرہ دھونے سے فرض کی ادائے گی ہوجاتی ہے،  دو مرتبہ دھونا سنت اور تین مرتبہ دھونا کمال سنت ہے۔ تین مرتبہ دھونے کا اہتمام کرنا چاہیے ایک کی عادت بنانا درست نہیں ہے۔ (۲)

(۲) غسل الوجہ مرۃ واحدۃ لقولہ تعالیٰ: فاغسلوا وجوہکم۔ والأمر المطلق لایقتضي التکرار،  (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، و أما أرکان الوضوء‘‘،ج۱، ص:۶۶)،  غسل الوجہ مرۃ واحدۃ۔ (محمد بن أحمد، أبوبکر علاء الدین السمرقندي، تحفۃ الفقہاء، ’’کتاب الطہارۃ‘‘، ج۱؍ ص:۸ ، شاملہ)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص163

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :شریعت کی بنیاد سہولت پر نہیں ہے کہ جہاں بھی جس میں بھی سہولت ہو، وہ جائز ہو،؛بلکہ شریعت میں اس کی نظیر کا پایا جانا ضروری ہے(۱) موزے پر مسح کرنا ثابت ہے، تو مسح جائز ہوگا،(۲)اور جہاں مسح کرنا ثابت نہیں، اس پر مسح کرنا نا جائز ہوگا۔(۳)

(۱)عن علیؓ قال: لو کان الدین بالرأي، لکان أسفل الخف أولی بالمسح من أعلاہ، وقد رأیت رسول اللّّہ ﷺ یمسح علی ظاھر خفیہ۔ (أخرجہ ابوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب کیف المسح‘‘ ج۱،ص:۲۲،رقم:۱۶۲، مکتبۃ نعیمیۃ دیوبند)
(۲)وھو جائز بسنۃ مشھورۃ فمنکرہ مبتدع، وعلی رأي الثاني کافر، و في التحفۃ: ثبوتہ بالإجماع؛ بل بالتواتر، رواتہ أکثر من ثمانین منھم العشرۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب المسح علی الخفین، مطلب في المسح علی الخف،‘‘ ج ۱، ص:۴۴۱-۴۴۶)
(۳)لا یجوز علی عمامۃ و قلنسوۃ و برقع و قفازین، لعدم الحرج۔ (ایضاً، ج۱،ص:۴۵۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص266