طہارت / وضو و غسل
نجاست غلیظہ کتنی معاف ہے؟ (۲۶)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام، مفتیان عظام کہ: نجاست سے مکمل پرہیز تو ممکن نہیں ہے، تو کیا تھوڑی بہت نجاست کے ساتھ اگر نماز پڑھ لی جائے تو نماز ہو جائے گی؟ نجاست غلیظہ کی کتنی مقدار معاف ہے، اس کی وضاحت فرما دیں کرم ہوگا۔ فقط: والسلام المستفتی: محمد سرور، غازی آباد

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزدیک چہرہ دھوتے وقت پانی کا بہانا شرط ہے، جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں مذکور ہے: الغسل ہو الاسالۃ اور اسالۃ کہتے ہیں: پانی کے بہانے کو اس لیے چہرہ پر پانی کا بہانا ضروری ہے، اس کے بغیر وضو درست نہیں ہوتا۔(۱)

(۱) و أن تسییل الماء شرط في الوضوء في ظاہر الروایۃ فلا یجوز الوضوء ما لم یتقاطر الماء۔(جماعۃ من الہند، الفتاوی الہندیۃ،’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول، في الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۵۳)؛ والغسل ہو إسالۃ المانع علی المحل، والمسح ہو الإصابۃ؛ حتی لو غسل أعضاء  وضوء ہ، ولم یسل الماء بأن استعملہ مثل الدہن لم یجز في ظاہر الروایۃ۔ ( الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، تفسیر الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۶۵)؛ و لا یجوز الوضوء والغسل بدون التسییل في الغسل۔ (علاء الدین السمرقندي، تحفۃ الفقھاء، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص164

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :اگر یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ امام صاحب نے نقض وضو کے بعد پاؤں دھونے کے بجائے عام موزوں پر مسح کیا ہے، تو احناف کے نزدیک امام کا وضو نہ ہونے کی وجہ سے ایسے امام کی اقتداء کرنا جائز نہیں،جو موزہ چمڑے کا نہ ہو؛ لیکن ایسا دبیز ہو کہ اس میں پانی نہ چھنتا ہو اور اس کو پہن کر میل بھر چلنا ممکن ہو، تو ایسے موزے پر مسح جائز ہے؛ لیکن عام موزوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی؛ اس لیے ان پر مسح جائز نہیں۔ (۱)   حنفی مسلک والے لوگوں کی دوسری جماعت ممکن ہو، تو جماعت سے پڑھ لیں؛ ورنہ تنہا پڑھیں؛ بوجہ مجبوری ترک جماعت کے گناہ سے محفوظ رہیں گے، ان شاء اللہ، چاروں ائمہ کرام کا مسلک حق ہے(۲)۔ صرف سہولت کے لیے مسلک تبدیل کرنا درست نہیں۔(۳)

(۱)أو جوربیہ ولو من غزل أو شعر الثخینین بحیث یمشي فرسخا، و یثبت علی الساق بنفسہ، ولا یری ماتحتہ ولا یشف۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’باب المسح علی الخفین ، مطلب: اعراب قولھم إلا أن یقال،‘‘ ج۱، ص:۴۵۱)
(۲)إن ھذہ المذاھب الأربعۃ المحررۃ قد أجمعت الأمۃ -أو من یُعتدّ بہ منھا- علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا، و في ھذا من المصالح مالا یخفی، لا سیما في ھذہ الأیام التي قصرت فیھا الھمم جداً، و أشربت النفوس الھوی، و أعجب کل ذي رأي برأیہ۔ (الشاہ ولی اللہ الدہلوي، حجۃ اللہ البالغہ، ’’فصل: حکم التقلید والرد علی ابن حزم في تحریمہ،‘‘ ج۱، ص:۵۰۶، مکتبۃ فیصل دیوبند)
(۳)و  أن الحکم الملفق باطل بالإجماع، و أن الرجوع عن التقلید بعد العمل باطل إتفاقا، وھو المختار في المذھب۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’مقدمہ، مطلب: لا یجوز العمل بالضعیف حتی لنفسہ عندنا،‘‘ج ۱، ص:۱۷۷)، یجوز للحنفي أن ینتقل إلی مذھب الشافعي وبالعکس لکن بالکلیۃ، أما في مسئلۃ واحدۃ، فلا یمکن، کما لو خرج دم من بدن حنفي و سال، فلا یجوز لہ أن یصلي قبل أن یغسلہ اقتداء بمذھب الشافعي في ھذہ المسألۃ، فإن صلّی، بطلت صلاتہ (لعدم مراعاتہ شروط الشافعي في حکم الطھارۃ والصلاۃ بأجمعھا)  و قال بعضھم : لیس لعامي أن یتحول من مذھب إلی مذھب حنفیاً کان أو شافعیا (أي لکونہ انتقالہ مبنیاً علی التشھي والتلھي غالباً۔ والتلھي بالمذاھب حرام بالإجماع) انتھی۔ (ظفر احمد العثماني، إعلاء السنن، ’’فوائد في علوم الفقہ، الفائدۃ الحادیۃ عشرۃ،‘‘ ج ۲۰، ص:۲۹۳المکتبۃ الاشرفیۃ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص267

طہارت / وضو و غسل
ناخن، سر کے بال، بغل کے بال، زیر ناف کے بالوںکو کاٹنے کے بعد کہاں پھینکنا چاہیے؟ (۲۷)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں: ناخن، سر کے بال، بغل کے بال، زیر ناف کے بالوں، کو کاٹنے کے بعد ان کو کہیں بھی پھینک دیں یا ان کو کہیں زمین میں یا کہیں صاف جگہ دبا دیں؟ ذرا تفصیل سے سمجھا دیں۔ فقط: والسلام المستفتی: محمدعبد اللہ، حیدرآباد

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت زندگی کے تمام مراحل میں اعتدال کو پسند کرتی اور اسی کی ترغیب دیتی ہے، بے اعتدالی کو شریعت ناپسند کرتی ہے، افراط وتفریط اسلامی مزاج کے خلاف ہے، پانی کے استعمال میں بھی اس امر کی تاکید کی گئی ہے کہ وضو وغسل وغیرہ میں پانی ضرورت کے بقدر ہی استعمال کیا جائے، مطلوبہ مقدار سے زیادہ پانی استعمال کرنا اسراف اور کم استعمال کرنا تقتیر کہلاتا ہے۔ شریعت میں اسراف بھی ناپسندیدہ ہے اور تقتیر بھی کراہت کے زمرہ میں ہے۔
’’کما یکرہ الإسراف في الوضوء کراہۃ تنزیہیۃ کذلک التقتیر کراہۃ تنزیہیۃ والتقتیر عند الحنفیۃ ہو أن یکون تقاطر الماء عن العضو المغسول غیر ظاہر‘‘(۱)
اگر کوئی شخص وضو یا غسل میں مطلوبہ پانی سے کم استعمال کرتا ہے، تو وہ تقتیر ہے اور اگر مطلوبہ مقدار سے زیادہ استعمال کرتا ہے، تو وہ اسراف ہے، پانی کی فراوانی کی صورت میں لوگ زیادہ غفلت کرتے اور اسراف سے کام لیتے ہیں، یہ صورت ناپسندیدہ اور ممنوع ہے، روایت ہے:
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر بسعد، وہو یتوضأ، فقال: ما ہذا السرف، فقال: أ في الوضوء إسراف؟ قال: نعم: وإن کنت علی نہر جار‘‘(۲)
وضو وغسل میں میانہ روی کے لئے پیمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد یعنی تقریباً ساڑھے چھ سو گرام پانی سے وضو اور ایک صاع یعنی تقریباً چھبیس سو گرام پانی سے غسل فرما یا کرتے تھے۔
’’إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یتوضأ بالمد ویغتسل بالصاع، فقیل لہ: إن لم یکفنا فغضب وقال لقد کفی من ہو خیر منکم وأکثر شعراً‘‘(۳)
تاہم وضو وغسل وغیرہ میں پانی کے استعمال میں یہ مقدار لازمی وحتمی نہیں ہے؛ بلکہ ادنیٰ کفایتی مقدار کا بیان ہے، حسبِ ضرورت وحسبِ موقع اس میں اس حد تک کمی یا اضافہ درست ہے کہ وہ اسراف یا تقتیر کے تحت نہ آ جائے۔
’’ثم ہذا التقدیر الذي ذکرہ محمد من الصاع والمد في الغسل والوضوء لیس بتقدیر لازم بحیث لا یجوز النقصان عنہ أو الزیادۃ علیہ بل ہو بیان مقدار أدنی الکفایۃ عادۃ‘‘(۱)
حاصل کلام یہ ہے کہ وضو وغسل میں اتنا پانی استعمال کرنا چاہئے جس سے وضو وغسل مکمل طور پر درست ہوں اور اطمینان حاصل ہو جائے، اس سے کم پانی استعمال کرنا پسندیدہ نہیں ہے، اسی طرح ضرورت سے زیادہ پانی استعمال نہیں کرنا چاہئے کہ یہ اسراف اور مکروہ ہے۔
 

(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: مباحث الوضوء، مکروہات الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۷۶۔
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ وسننہا: باب ما جاء في القصد في الوضوء وکراہیۃ التعدي فیہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ’’کتاب الطہارۃ: آداب الغسل‘‘ج ۱، ص: ۱۴۴۔
(۱) أیضاً: ج ۱، ص: ۱۴۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص165

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :(۱) مقیم (غیر مسافر) کے لیے ایک دن ایک رات (۲۴؍ گھنٹے) اور مسافر شرعی کے لیے تین دن تین رات خفین پر مسح کرنے کی شرعاً اجازت ہے ’’عن المغیرۃ قال آخر غزوۃ غزونا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أمرنا أن نمسح علی خفافنا للمسافر ثلثۃ أیام ولیالیہن وللمقیم یوم ولیلۃ‘‘ (۱)
(۲) جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، ان تمام چیزوں سے مسح بھی ٹوٹ جاتا ہے؛ اس لیے جب سو گیا، تو وضو کے ساتھ مسح بھی ٹوٹ گیا۔ اگر وضو کیا مسح نہیں کیا، تو وضو درست نہیں ہوگا۔ ’’وینقض المسح کل شيء ینقض الوضوء لأنہ بعض الوضوء‘‘ (۲)
(۳) جو موزہ چمڑے کا نہ ہو؛ لیکن ایسا موٹا اور دبیز ہو کہ پیر کی کھال نظر نہ آتی ہو اور اس میں پانی نہ چھنتا ہو اور اس کو پہن کر بغیر جوتے کے میل بھر چلنا بھی دشوار نہ ہو، تو ایسے موزہ پر بھی مسح کرنے کی شرعاً اجازت ہے۔ کیوںکہ اصل میں چمڑے کے موزے پر مسح کرنا جائز ہے، اس لیے یہ شرطیں اگر کسی اور موزے میں پائی جائیں، تو وہ خفین کے مشابہ ہوگا اور اس پر بھی مسح درست ہوگا۔
     ’’ولا یجوز المسح علی الجوربین عند أبي حنفیۃ إلا أن یکونا مجلدین أو منعلین وقالا یجوز إذا کانا ثخینین لایشفان لما روي أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسح علی جوربیہ۔ وعنہ أنہ رجع إلی قولہما وعلیہ الفتویٰ‘‘ (۱)
(۴) جوتا نکالے بغیر جوتے پر مسح کرنے سے خفین پر مسح شمار نہ ہوگا؛ کیوںکہ جوتا پیروں کا بدل نہیں بن سکتا؛ لہٰذا جوتا نکال کر خفین پر ہی مسح کرنا ضروری ہوگا۔ اگر کوئی خفین پر مسح کر کے جوتے پر بھی مسح کرلے، تو اس میں حرج نہیں؛ لیکن صرف جوتوں پر مسح کرنا اور خفین پر مسح ترک کر دینا درست نہیں۔
 ’’عن المغیرۃ ابن شعبۃ قال توضأ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومسح علی الجوربین والنعلین(۲) ولو کان الجرموق (الخف الذي یلبس فوق الخف) من کرباس لا یجوز المسح علیہ لأنہ لا یصلح بدلا عن الرجل إلا أن تنفذ البلۃ إلی الخف‘‘ (۳)

(۱)الطبراني، الداریۃ في تخریج أحادیث الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم،‘‘ ج۱، ص: ۵۶ (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان، مکتبہ شاملہ)
(۲)المرغینانی، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص: ۵۹
(۱)ایضاً، ج ۱، ص: ۶۱
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ، باب في المسح علی الجوربین والنعلین،‘‘ ج۱، ص: ۲۹ (مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۳) المرغینانی، الہدایۃ، کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، ج۱، ص: ۶۱

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص268

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2538/45-3875

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خون پتلا ہو یا گاڑھا ہو، اسی طرح خون لال ہو یا خون کے اندر موجود سفید پانی ہو یا خون خراب ہو کر پیپ ہوگیا ہو وغیرہ ، سب  خون ہی کے حکم میں ہے۔ اور خون کا حکم یہ ہے کہ اگر خون  اپنی جگہ سے بہہ پڑے تو چاہے سوئی کے ناکہ کے برابر بہہ پڑے اس سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نجاست حقیقیہ وہ ہے جو دیکھنے میں آتی ہے اور شریعت نے اسے ناپاک قرار دیا ہے، نجاست حقیقیہ کی دو قسمیں ہیں: (۱) نجاست غلیظہ (۲) نجاست خفیفہ:
 نجاست غلیظہ: امام صاحب کے نزدیک وہ نجاست ہے جس کے نجس ہونے پر نص وارد ہو اور اس کے خلاف کوئی نص نہ ہو اور صاحبین کے نزدیک نجاست غلیظہ وہ نجاست ہے جس کے نجس ہونے پر ائمہ کا اتفاق ہو اور اگر اختلاف ہو تو نجاست خفیفہ ہے۔ نجاست غلیظہ کی مثال جیسے پیشاب پاخانہ شراب وغیرہ، نجاست غلیظہ مقدار درہم معاف ہے۔ عالمگیری میں ہے:
’’النجاسۃ نوعان: الأول : المغلظۃ وعفی منہا قدر الدرہم … کل ما یخرج من بدن الإنسان مما یوجب خروجہ الوضوء أو الغسل فہو مغلظ کالغائط‘‘(۱)
(۲) نجاست خفیفہ: اگر کپڑے عضو یا بدن پر لگی ہو تو دیکھا جائے گا کہ اگر نجاست خفیفہ اس حصے کے چوتھائی سے کم پر ہے، تو معاف ہے اور اگر چوتھائی یا اس سے زائد پر ہے تو دھونا ضروری ہوگا۔
’’والنوع الثاني المخففۃ: وعفي منہا مادون ربع الثوب، کذا في أکثر المتون … وربع العضو المصاب کالید والرِجل إن کان بدناً وصححہ صاحب التحفۃ … وعلیہ الفتویٰ کذا في البحر الرائق‘‘(۲)
دوسری قسم نجاست حکمیہ ہے: نجاست حکمیہ اسے کہتے ہیں جو بظاہر دیکھنے میں نہ آئے؛ لیکن شریعت کا حکم ہونے کی وجہ سے ناپاک مان کر پاکی حاصل کرنا فرض ہوتا ہے اس کی بھی دو قسمیں ہیں:
(۱) حدث اکبر: جیسے منی، اس کے خروج سے غسل واجب ہوتا ہے (۲) حدث اصغر: جیسے ریح اس کے خارج ہونے سے وضو واجب ہوتا ہے۔
’’الطہارات في الإتیان بالجمع إشارۃ إلی أن الطہارۃ أنواع فإن رفع النجاسۃ طہارۃ ورفع الخبث أیضاً طہارۃ وہما نوعان مختلفان‘‘(۳)
’’وإنما صح إلحاق المائعات المزیلۃ بالماء المطلق لتطہیر النجاسۃ الحقیقیۃ لوجود شرط الإلحاق وہي تناھي أجزاء النجاسۃ بخروجہا مع الغسلات وہو منعدم في الحکمیۃ لعدم نجاسۃ محسوسۃ بأعضاء المحدث والحدث أمر شرعي لہ حکم النجاسۃ لمنع الصلاۃ معہ وعین الشارع لإزالتہ أنہ مخصوصۃ فلا یمکن إلحاق  غیرہا بہا‘‘(۱)
’’وذکر الکرخي أن النجاسۃ الغلیظۃ عند أبي حنیفۃ: ما ورد نص علی نجاستہ ولم یرد نص علی طہارتہ معارضاً لہ، وإن اختلف العلماء فیہ والحقیقۃ ما تعارض نصان في طہارتہ ونجاستہ‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا: الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع الأول: المغلظۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰۔
(۲) أیضا، ’’النوع الثاني المخففۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱۔
(۳) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: (حاشیہ نمبر: ۱۵)‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۔

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ، ص: ۲۴۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص56

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو کے شرائط و ارکان میں کوئی ذکر نہیں ہے؛ اس لیے بغیر کسی ذکر ودعا کے بھی وضو درست ہے؛ البتہ وضو کے شروع میں یعنی ہاتھوں کو دھوتے وقت ہی تسمیہ مسنون ہے، کوئی بھی ذکر کر لیا جائے، تو یہ سنت ادا ہو جاتی ہے؛ لیکن یہ چند اذکار افضل ہیں، ان میں سے کوئی ایک ہو یا سب کو جمع کر لیا جائے۔
’’(۱) بسم اللّٰہ العظیم والحمد للّٰہ علی دین الإسلام، (۲) أعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، (۳) بسم اللّٰہ والحمد للّٰہ‘‘
’’البدائۃ بالتسمیۃ قولا وتحصل بکل ذکر لکن الوارد عنہ علیہ الصلاۃ والسلام بسم اللّٰہ العظیم والحمد للّٰہ علی دین الإسلام، قال ابن عابدین: وقیل عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بسم اللّٰہ العظیم والحمد للہ علی دین الإسلام وقیل الأفضل بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم بعد التعوذ وفي المجتبی یجمع بینہما وفي شرح الہدایۃ للعیني: المروي عن رسول اللّٰہ علیہ وسلم بسم اللّٰہ والحمد للّٰہ‘‘(۱)
’’منہا التسمیۃ وہي سنۃ لازمۃ سواء کان المتوضي مستیقظاً من نوم أولا ومحلہا عند الشروع في الوضوء‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب سائر بمعنی باقی لا بمعنی جمع‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۶۔
(۲) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: بیان عدد السنن وغیرہا‘‘: ج ۱، ص: ۶۵۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص166

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق :علامہ شامی نے بیان کیا ہے: معتبر روایت کے اعتبار سے  چوتھائی سر کا مسح فرض ہے اور پورے سر کا سنت ہے۔(۱)

(۱)ومسح ربع الرأس مرّۃ واعلم أن في مقدار فرض المسح روایات، أشھرھا في المتن الثانیۃ مقدار الناصیۃ، واختارھا القدوري و في الھدایۃ وھي الربع… والحاصل أن المعتمد روایۃ الربع و علیھا مشی المتاخرون کابن الھمام و تلمیذ۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في معنی الاشتقاق و تقسیمہ،‘‘ ج۱، ص:۲۱۳)؛والمفروض في مسح الرأس مقدار الناصیۃ وھو ربع الرأس لما روي المغیرۃ بن شعبۃ أن النبي ﷺ أتی سباطۃ قوم فبال و توضأ و مسح علی ناصیتہ و خفیہ، والکتاب مجمل فالتحق بیاناً بہ، یستوعب رأسہ بالمسح وھو سنۃ، (ابن ہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات‘‘، ج۱، ص:۱۳ -۳۴)؛  و صح المسح علی الخفین في الطھارۃ من الحدث الأصغر لما ورد فیہ من الأخبار المستفیضۃ فیخشی علی منکرہ الکفر… و ذکر الحافظ في فتح الباري عن بعضھم: أنہ روي المسح أکثر من ثمانین منھم العشرۃ المبشرون۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي؟ کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، ج۱،ص:۱۲۸، دارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص269