طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2122/44-2180

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر نجاست مَرئی ہو یعنی نجاست دکھائی دے تو عین نجاست کو زائل کرنا فرض ہے، چاہے ایک مرتبہ میں ہی زائل ہوجائے، اور اگر نجاست غیرمرئی ہو یعنی دکھائی نہ دے تو اس کو تین مرتبہ دھونا ضروری ہے تاکہ ازالۂ نجاست یقینی ہوجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ناپاک کپڑے کی تری پاک کپڑے میں لگ جائے اور وہ گیلا ہو جائے، تو وہ کپڑے ناپاک ہو جائیں گے اور اگر ناپاکی کا اثر دوسری چیز یا کپڑے میں ظاہر نہ ہو تو وہ چیزیں یا وہ کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے اور اگر پیشاب کی ایک دو چھینٹیں پڑ جائیں، تو تین مرتبہ دھونا ضروری ہے؛ البتہ اگر ایک درہم سے کم لگی ہوں اور اسے دھونا یاد نہ رہا ہو اور اسی حالت  میں نماز شروع کردی، تو فقہاء نے لکھا ہے کہ نماز پڑھ لینے سے نماز اداء ہو جائے گی۔
’’ولو ابتل فراش أو تراب نجسا وکان ابتلالہما من عرق نائم علیہما أو کان من بلل قدم وظہر أثر النجاسۃ وہو طعم أو لون أو ریح في البدن والقدم تنجسا لوجودہا بالأثر وإلا أي: وإن لم یظہر أثرہا فیہما فلا ینجسان‘‘ ’’کما لا ینجس ثوب جاف طاہر لف في ثوب نجس رطب لا ینعصر الرطب لو عصر لعدم انفصال جرم النجاسۃ إلیہ۔ واختلف المشایخ فیما لو کان الثوب الجاف الطاہر بحیث لو عصر لا یقطر فذکر الحلواني أنہ لا ینجس في الأصح وفیہ نظر لأن کثیرا من النجاسۃ یتشربہ الجاف ولا یقطر بالعصر کما ہو مشاہد عند ابتداء غسلہ فلا یکون المنفصل إلیہ مجرد نداوۃ إلا إذا کان النجس لا یقطر بالعصر فیتعین أن یفتی بخلاف ما صحح الحلواني ولا ینجس ثوب رطب بنشرہ علی أرض نجسۃ ببول أو سرقین لکونہا یابسۃ فتندت الأرض منہ أي: من الثوب الرطب ولم یظہر أثرہا فیہ‘‘(۱)
وفي الدر المختار مع رد المحتار:
’’(وعفا) الشارع (عن قدر درہم) وإن کرہ تحریما، فیجب غسلہ، وما دونہ تنزیہا فیسن، وفوقہ مبطل‘‘(۲)
’’والأقرب أن غسل الدرھم وما دونہ مستحب مع العلم بہ والقدرۃ علی غسلہ فترکہ حینئذ خلاف الأولی، نعم الدرھم غسلہ آکد مما دونہ فترکہ أشد کراھۃ کما یستفاد من غیرما کتاب من مشاھیر کتب المذھب الخ‘‘(۳)

(۱) حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ: …بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ پر…
باب الأنجاس والطہارۃ، عنہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۹۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۰۔    (۳) أیضاً۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص58


 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آن لائن قرآن پڑھنے سے اگر لیپ ٹاپ، کمپیوٹر یا موبائل فون کی اسکرین پر کھلا ہوا قرآن پڑھنا مراد ہے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ موبائل یا لیپ ٹاپ کی اسکرین کو دیکھ کر قرآن کریم پڑھنا جائز ہے، تلاوت خواہ وضو کی حالت میں ہو یا بے وضو ہو اور اس دوران بے وضو موبائل کو مختلف اطراف سے چھونا اور پکڑنا، تو جائز ہے؛ لیکن اسکرین کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ جس وقت قرآن کریم اسکرین پر کھلا ہوا ہوتا ہے، اس وقت اسکرین کو چھونا قرآن کو چھونے کے حکم میں ہوتا ہے۔
اور اگر آن لائن پڑھنے کا مطلب کسی قاری صاحب سے آن لائن قرآن پڑھنا ہے، مثلا استاذ قرآن کی تلاوت کرے اور طالب علم سن کر اس کی اصلاح وتصحیح کرے دونوں میں سے کسی کے سامنے قرآن نہ ہو، تو اس صورت میں بلا وضو قران کی تلاوت کرنا جائز ہوگا او راگر استاذ موبائل میں انٹرنیٹ کی مدد سے پڑھائے اور طالب کے سامنے قرآن کھلا ہو، تو اس کو چھونے کے لیے وضو کرنا ضروری ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن چھونے کے لیے وضو کی ضرورت ہے،قرآن کی تلاوت کے لیے وضو کی ضرورت نہیں ہے، اور موبائل یا کمپیوٹر کی اسکرین پر کھلا قرآن یہ عام قرآن کے حکم میں ہے اس کو بلا وضو چھونا جائز نہیں ہے۔
’’ولیس لہم مس المصحف إلا بغلافہ ولا أخذ درہم فیہ سورۃ من القرآن إلا بصرتہ، وکذا المحدث لا یمس المصحف إلا بغلافہ؛ لقولہ علیہ السلام لا یمس القرآن إلا طاہر‘‘(۱)
’’(و) یحرم (بہ) أي بالأکبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فیہ آیۃ کدرہم وجدار، وہل مس نحو التوراۃ کذلک؟ ظاہر کلامہم لا (إلا بغلاف متجاف) غیر مشرز أو بصرۃ بہ یفتی، وحل قلبہ بعود، (قولہ: أي ما فیہ آیۃ إلخ) أي المراد مطلق ما کتب فیہ قرآن مجازاً، من إطلاق اسم الکل علی الجزء، أو من باب الإطلاق والتقیید۔ قال ح: لکن لایحرم في غیر المصحف إلا بالمکتوب: أي موضع الکتابۃ کذا في باب الحیض من البحر، وقید بالآیۃ؛ لأنہ لو کتب ما دونہا لایکرہ مسہ کما في حیض القہستاني۔ وینبغي أن یجری ہنا ما جری في قرائۃ ما دون آیۃ من الخلاف، والتفصیل المارین ہناک بالأولی؛ لأن المس یحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القرائۃ فکانت دونہ تأمل … (قولہ: غیر مشرز) أي غیر مخیط بہ، وہو تفسیر للمتجافی، قال في المغرب: مصحف مشرز أجزاؤہ مشدود بعضہا إلی بعض من الشیرازۃ ولیست بعربیۃ۔ فالمراد بالغلاف ما کان منفصلاً کالخریطۃ وہي الکیس ونحوہا؛ لأن المتصل بالمصحف منہ حتی یدخل في بیعہ بلا ذکر۔ وقیل: المراد بہ الجلد المشرز، وصححہ في المحیط والکافي، وصحح الأول في الہدایۃ وکثیر من الکتب، وزاد في السراج: أن علیہ الفتوی۔ وفي البحر: أنہ أقرب إلی التعظیم۔ قال: والخلاف فیہ جار في الکم أیضاً۔ ففي المحیط: لایکرہ عند الجمہور، واختارہ في الکافي معللاً بأن المس اسم للمباشرۃ بالید بلا حائل۔ وفي الہدایۃ: أنہ یکرہ ہو الصحیح؛ لأنہ تابع لہ، وعزاہ في الخلاصۃ إلی عامۃ المشایخ، فہو معارض لما في المحیط فکان ہو أولی۔ أقول: بل ہو ظاہر الروایۃ کما في الخانیۃ، والتقیید بالکم اتفاقي فإنہ لایجوز مسہ ببعض ثیاب البدن غیر الکم کما في الفتح عن الفتاوی۔ وفیہ قال لي بعض الإخوان: أیجوز بالمندیل الموضوع علی العنق؟ قلت: لا أعلم فیہ نقلاً۔ والذي یظہر أنہ إذا تحرک طرفہ بحرکتہ لایجوز وإلا جاز، لاعتبارہم إیاہ تبعاً لہ کبدنہ في الأول دون الثاني فیما لو صلی وعلیہ عمامۃ بطرفہا الملقی نجاسۃ مانعۃ، وأقرہ في النہر والبحر۔ (قولہ: أو بصرۃ) راجع للدرہم، والمراد بالصرۃ ما کانت من غیر ثیابہ التابعۃ لہ۔ (قولہ: وحل قلبہ بعود) أي تقلیب أوراق المصحف بعود ونحوہ لعدم صدق المس علیہ‘‘(۱)

(۱) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’مس المصحف للمحدث و الحائض‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۹۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب یطلق الدعاء علی ما یشمل الثناء‘‘: ج۱، ص: ۳۱۵ - ۳۱۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص168

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :چمڑے کے موزوں پر مسح کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ در مختار میں ہے کہ سنت مشہورہ سے اس کا ثبوت ہے۔ اور مسح علی الخفین کے راوۃِ حدیث اسی (۸۰) صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے زیادہ ہیں، ان میں عشرۂ مبشرہ بھی شامل ہیں۔(۲)

(۲) و في التحفۃ ثبوتہ بالإجماع بل بالتواتر، رواتہ أکثر من ثمانین منھم العشرۃ (ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، مطلب تعریف الحدیث المشہور،‘‘ ج۱، ص:۴۴۶)، والأخبار فیہ مستفیضۃ قال أبوحنیفۃ: ما قلت بالمسح حتی جاء ني فیہ مثل ضوء النھار، و عنہ أخاف الکفر علی من لم یر المسح علی الخفین: لأن الآثار التي جاء ت فیہ في حیز التواتر۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۱۴۶مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص270

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نجاست حقیقی سے پاک ہونے کو طہارت حقیقی کہتے ہیں اور نجاست حکمی سے پاک ہونے کو طہارت حکمی کہتے ہیں۔
’’عرّف صاحب البحر الطہارۃ شرعاً بأنہا زوال حدث أو خبث وہو تعریف صحیح لصدقہ بالوضوء وغیرہ کالغسل من الجنابۃ أو الحیض أو النفاس بل وبالتیمم  أیضاً‘‘(۱)
’’ویختص الخبث بالحقیقي ویختص الحدث بالحکمي‘‘(۲)
’’ثم الخبث یطلق علی الحقیقي والحدث علی الحکمي والنجس یطلق علیہما … والتطہیر إن فسرہا بالإزالۃ فحسن إضافۃ التطہیر إلیہا وإن فسر باثبات الطہارۃ فالمراد طہارۃ محلہا کالبدن والثوب والمکان لأن نجاسۃ ہٰذہ الأشیاء مجاورۃ النجاسۃ فإذا زالت ظہرت الطہارۃ الأصلیۃ‘‘(۳)
(۱) طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’ کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۔…بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ پر…
…(۲) المرجع السابق، ’’باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ج ، ص: ۱۵۲۔
(۳)  بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس وتطہیرہا‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص60

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صاحب نور الایضاح نے اٹھارہ اشیا تحریر کی ہیں:
(۱) دونوں ہاتھوں کو مع کہنیوں کے دھونا۔
(۲) شروع میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا۔
(۳) ابتداء میں مسواک کرنا۔
(۴) تین دفعہ کلی کرنا۔
(۵) ناک میں پانی ڈالنا۔
(۶) کلی اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنا، علاوہ روزہ دار کے۔
(۷) داڑھی کا خلال کرنا۔
(۸) انگلیوں کا خلال کرنا۔
(۹) ہر عضو کو تین تین بار دھونا۔
(۱۰) پورے سر کا ایک مرتبہ مسح کرنا۔
(۱۱) دونوں کانوں کا مسح کرنا۔
(۱۲) مَل کر دھونا۔
(۱۳) پے در پے وضو کرنا یعنی پہلا عضو خشک ہونے سے پہلے دوسرا شروع کر دینا۔
(۱۴) وضو کی نیت کرنا۔
(۱۵) اعضاء وضو کو دھونے میں ترتیب قائم رکھنا، جیسا کہ کلام پاک میں ہے۔
(۱۶) دائیں جانب سے شروع کرنا۔
(۱۷) مسح میں سر کے سامنے سے شروع کرنا
(۱۸) گردن کا مسح کرنا۔
’’یسن في الوضوء ثمانیۃ عشر شیئاً غسل الیدین … إلی قولہ مسح الرقبہ لا الحلقوم‘‘(۱)

(۱) الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل یسن في الوضوء‘‘: ص: ۳۴۔ و ہکذا في المراقي مع حاشیۃ الطحطاوي: ’’کتاب الطہارۃ: فصل في سنن الوضوء‘‘: ج ، ص: ۶۴، یا ۷۴۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص170

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :ایسا شخص آنکھ کے علاوہ چہرہ کے دیگر حصہ کو دھوئے گا یا تر ہاتھ اس طرح پھیرے گا کہ چہرہ پر پانی بہنے لگے؛ البتہ آنکھ پر اگر ممکن ہو، تو مسح کرلے اور اگر مسح باعث تکلیف ہو، تو مسح بھی ترک کردے ’’و إذا رمد و أمر أن لایغسل عینہ۔۔۔جاز لہ المسح و إن ضرہ المسح ترکہ‘‘ (۱)

(۱) الشرنبلالي، نورالإیضاح،  ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، فصل إذا افتصد أو جرح،‘‘ ج۱،ص:۴۷، و إذا رمد و أمر أي أمرہ طبیب مسلم حاذق أن لا یغسل عینہ أو غلب علی ظنہ ضرر الغسل ترکہ۔ (طحطاوي،حاشیۃ الطحطاوی، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الجبیرۃ و نحوہا،‘‘ج۱، ص:۱۳۷)؛ و فاعلم أنہ لا خلاف في أنہ إذا کان المسح علی الجبیرۃ یضرہ أنہ یسقط عنہ المسح لأن الغسل یسقط بالعذر فالمسح أولی۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۳۲۱، دارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص271

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:
اشیاء کی پاکی کے تقریباً دس طریقے ہیں:
(۱) دھونا، جیسے کپڑے وغیرہ کو دھو کر پاک کیا جاتا ہے۔
(۲) صاف کر دینا، جیسے شیشے وغیرہ کو صاف کر کے پاک کیا جاتا ہے۔
(۳) کھرچنا، یہ طریقہ منی سے پاک کرنے کے سلسلے میں مذکور ہے اگر بہت گاڑھی ہو۔(۴) ملنا اور رگڑنا یہ طریقہ اس صورت کے لئے ہے جب نجاست خشک ہونے کے بعد نظر آتی ہو۔
(۵) سوکھ جانا، یہ حکم زمین سے متعلق ہے جیسے دیواریں اینٹیں وغیرہ۔
(۶) جلانا، جیسے گوبر وغیرہ راکھ بن کر پاک ہو جاتا ہے۔
(۷) تبدیل حقیقت، یعنی ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہو جانا جیسے شراب کا سرکہ بن جانا۔
(۸) دباغت: یہ طریقہ خنزیر اور آدمی کے علاوہ تمام مردار جانوروں کی کھالوں کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔
(۹) ذکاۃ: یعنی جانوروں کو ذبح کر کے ان کی جلد کو پاک کر دینا۔
(۱۰) نزح: یعنی اگر کنویں یا ٹنکی میں نجاست گر جائے تو نجاست نکال کر پانی کی خاص مقدار نکال کر پاک کرنا۔

مذکورہ دس طریقے علامہ شامیؒ اور علامہ حصکفیؒ نے اپنی اپنی کتابوں میں کچھ اشعار میں نقل کئے ہیں:
علامہ شامیؒ نقل فرماتے ہیں:
وآخر دون الفرک والندف الجفاف
والنحت قلب العین والغسل یطہر
ولا دبغ تخلیل ذکاۃ تخلل
ولا المسح والنزح الدخول التغور
وزاد شارحہا بیتاً، فقال:
وأکل وقسم غسل بعض ونحلہ
وندف وغلی بیع بعض تقور‘‘(۱)
علامہ حصکفیؒ اس طرح فرماتے ہیں:
وغسل ومسح والجفاف مطہِّر
ونحت وقلب العین والحفر یذکر
ودبغ وتخلیل ذکاۃ تخلل
وفرک ودلک والدخول التغور
تصرفہ في البعض ندف ونزحہا
ونار وغلی غسل بعض تقور‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۸۔

(۲) أیضاً۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص61

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صاحب نور الایضاح نے مکروہات وضو کی تعداد چھ بیان کی ہے:
(۱) اسراف یعنی ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنا۔
(۲) کمی کرنا، یعنی اس قدر کم پانی استعمال کرنا کہ اعضاء وضو کے دھلنے میں کمی رہ جائے۔
(۳) پانی کو چہرے پر مارنا یعنی وضو کرتے ہوئے پانی کو چہرے پر زور زور سے مارنا۔
(۴) وضو کرتے وقت دنیاوی باتیں کرنا۔
(۵) بغیر عذر وضو میں دوسرے سے مدد لینا۔
(۶) نئے پانی سے تین بار مسح کرنا۔
’’ویکرہ للمتوضي ستۃ أشیاء الإسراف في الماء والتقتیر فیہ وضرب الوجہ بہ والتکلم بکلام الناس والاستعانۃ بغیرہ من غیر عذر وتثلیث المسح بماء جدید‘‘(۱)

(۱) الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۶۔
ہکذا في المراقي مع حاشیۃ الطحطاوي: ’’کتاب الطہارۃ: فصل في المکروہات‘‘: ج ، ص: ۸۰، یا ۸۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص171

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :بالوںکی افزائش کے بعد وضو اور غسل کے احکام میں یہ پہلو قابل غور ہوگا کہ بالوں کی افزائش کس طرح کی گئی ہے: اگر سرجری کے طور پر بالوںکو اگایا گیا ہے، یا مستقل طو رپر بالوںکو چسپاں کیا گیا ہے، تو ظاہر ہے: یہ ایک مستقل عضو کے حکم میں ہوگا اور جو احکام فطری بالوں کے ہوتے ہیں وہی احکام یہاں پر بھی جاری ہوں گے، ان بالوں پر مسح کے لیے یا غسل کے لیے ان کا نکالنا ضروری نہیں ہوگا اور اگر بالوں کو مستقل طور پر چسپاں نہیں کیا گیا؛ بلکہ عارضی طور پر لگایا گیا کہ لگانے والا یا لگانے والی عورت جب چاہے اپنی مرضی سے بلا مشقت کے نکال لے اور جب چاہے ان کو لگالے، تو ان کا حکم خارجی شے کا ہوگا اور ان پر وضو میںمسح کرنے یا غسل کرنے سے فرض ادا نہیں ہوگا؛ بلکہ وضو میں مسح کے لیے یا غسل فرض کے لیے ان کو نکالنا لازم و ضروری ہوگا، یہ ایسے ہی ہے؛ جیسے کہ دانت کے مسئلہ میں حضرات فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر دانت کو نکالنا آسان ہو، تو غسل میں اس کا نکالنا ضروری ہوگا اور اگر دانت کا نکالنا آسان نہ ہو، تو اس کو مستقل عضو قراردیا جائے گا۔فتاوی حبیبیہ میں حضرت مفتی حبیب الرحمن صاحب دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں :
وِگ (مصنوعی بال) پر مسح کرنا جائز نہیں ہے، ان پر مسح درست نہیں ہوگا، وگ اتار کر مسح کرنا ضروری ہے، وگ کا استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ہے، اس کے سرپر لگانے سے احتراز کرنا چاہیے، اگر کسی نے وگ کے اوپر مسح کیا، تو ا س کا وضو صحیح نہ ہوگا اور نماز بھی صحیح نہ ہوگی ۔ (۱)
’’ولا یجوز المسح علی القلنسوۃ و العمامۃ‘‘ (۲)

(۱)مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی، فتاویٰ حبیبیہ، فرائض وضو، ج۱، ص: ۹۴
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفرض الرابع مسح الراس،‘‘ ج۱، ص: ۵۶)؛ و (لا یصح المسح) علی عمامۃ و قلنسوۃ و برقع و قفازین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، باب المسح علی الخفین، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۳۱۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص272