طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان کو پاک پانی سے دھو لیا جائے اور ان کپڑوں کو پہن کر جو نماز یں اداء کی تھیں ان کی قضا کرلی جائے۔ (۱)

(۱) أما لو غسل في غدیر أو صب علیہ ماء کثیر أو جریٰ علیہ الماء طہر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفیف وتکرار غمس ہو المختار۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۲)
النجاسۃ إن کانت غلیظۃ وہي أکثر من قدر الدرہم فغسلہا فریضۃ والصلوٰۃ بہا باطلۃ وإن کانت مقدار درہم فغسلہا واجب والصلوٰۃ معہا جائزۃ وإن کانت أقل من الدرہم فغسلہا سنۃ وإن کانت خفیفۃ فإنہا لا تمنع جواز الصلوٰۃ حتی تفحش، کذا في المضمرات۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثالث، في شروط الصلوٰۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص63

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں پے در پے وضو کرنا یعنی ایک عضو کے سوکھنے سے پہلے دوسرے عضو کو دھو لینا سنت ہے، اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے۔ تولیہ اور خارجی آلہ سے اعضائے وضو کو بغیر کسی عذر کے خشک کرنا بھی مکروہ ہے؛ البتہ وضو ہو جائے گا۔
نیز پے در پے وضو کرنے کے سنت ہونے کا تعلق بھی عام حالت کے ساتھ ہے کہ جب کوئی عذر نہ ہو؛ لیکن اگر کوئی عذر اور مجبوری ہو جس کی وجہ سے وضو میں تسلسل برقرار رکھنا اور اس سنت پر عمل پیرا ہونا مشکل ہو، تو ایسی صورت میں یہ معاف ہے جیسے اگر کسی شخص نے وضو کرتے وقت کچھ اعضائے وضو دھو لیے اس کے بعد پانی ختم ہو جائے اور وہ پانی کی تلاش میں مشغول ہو جائے جس کی وجہ سے وضو میں تسلسل برقرار نہ رہے اور اس بنا پر دوسرا عضو دھونے میں اس قدر تاخیر ہو جائے کہ پہلا عضو خشک ہو جائے تو یہ معاف ہے، اس کی وجہ سے وضو میں تسلسل کی سنت کی خلاف ورزی اور کراہت لازم نہیں آئے گی۔
’’ومنہا: الموالاۃ وہي التتابع، وحدہ أن لا یجف الماء علی العضو قبل أن یغسل ما بعدہ في زمان معتدل، ولا اعتبار بشدۃ الحر والریاح ولا شدۃ البرد ویعتبر أیضا استواء حالۃ المتوضئ، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ وإنما یکرہ التفریق في الوضوء إذا کان بغیر عذر، أما إذا کان بعذر بأن فرغ ماء الوضوء فیذہب لطلب الماء أو ما أشبہ ذلک فلا باس بالتفریق علی الصحیح۔ وہکذا إذا فرق في الغسل والتیمم، کذا في السراج الوہاج‘‘(۱)
’’ہذا وقد عرفہ في البدائع بأن لا یشتغل بین أفعال الوضوء بما لیس منہ۔ ولا یخفی أن ہذا أعم من التعریفین السابقین من وجہ، ثم قال: وقیل: ہو أن لا یمکث في أثنائہ مقدار ما یجف فیہ العضو۔ أقول: یمکن جعل ہذا توضیحا لما مر بأن یقال: المراد جفاف العضو حقیقۃ أو مقدارہ، وحینئذ فیتجہ ذکر المسح، فلو مکث بین مسح الجبیرۃ أو الرأس وبین ما بعدہ بمقدار ما یجف فیہ عضو مغسول کان تارکا للولاء، ویؤیدہ اعتبارہم الولاء في التیمم أیضا کما یأتي قریبا مع أنہ لا غسل فیہ، فاغتنم ہذا التحریر۔ (قولہ: حتی لو فنی ماؤہ إلخ) بیان للعذر۔ (قولہ: لا بأس بہ) أي علی الصحیح، سراج (قولہ: ومثلہ الغسل والتیمم) أي إذا فرق بین أفعالہما لعذر لا بأس بہ کما في السراج، ومفادہ اعتبار سنیۃ الموالاۃ فیہما‘‘(۱)

 

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الثاني، في سنن الوضوء ومنہا: الموالاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: سنن الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص173

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :(۱) خفین پر مسح کرنا ائمہ اربعہ اور صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نزدیک جائز ہے؛ سوائے شیعہ کے ایک فرقہ روافض کے (امامیہ) ان کے نزدیک مسح علی الخفین جائز نہیں روافض کی دلیل أرجلکم میں دوقرأت ہیں، قراء ت نصب تقاضہ کرتی ہے پاؤں کے دھونے کے وجوب پر اور قرأ ت کسرہ تقاضا کررہی ہے پاؤں پر مسح کرنے کے وجوب پر  نہ کہ خفین پر مسح کرنے پر، اس لیے روافض کے نزدیک خفین پر مسح جائز نہیں۔
(۲) مدت مسح کے بارے میں احناف اور امام مالکؒ کے درمیان اختلاف ہے، امام مالکؒ کے نزدیک صرف سفر کی حالت میں جائز ہے، حضر کی حالت میں جائز نہیں؛ اس لیے کہ مسح مشقت اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے مشروع ہوا ہے اور مشقت کی جگہ سفر ہے نہ کہ حضر ۔
احناف کے نزدیک خفین پر مسح کرنا جس طرح حالت سفر میں جائز ہے، اسی طرح حالت حضر میں بھی جائز ہے؛ البتہ مقیم خفین پر ایک دن اور ایک رات مسح کرے گاجب کہ مسافرتین دن اور تین رات مسح کرے گا۔ فالمسح علی الخفین جائز عند عامۃ الفقہاء و عامۃ الصحابۃؓ۔ (۱) وقال مالک یجوز للمسافر ولا یجوز للمقیم، واحتج من أنکر المسح بقولہ تعالی: ’’یاأیہا الذین آمنوا إذا قمتم إلی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوہکم‘‘ الآیۃ، فقراء ۃ النصب تقتضي وجوب غسل الرجلین مطلقاً عن الأحوال، لأنہ جعل الأرجل معطوفۃ علی الوجہ والیدین وہي مغسولۃ فکذا الأرجل، و قراء ۃ الخفض تقتضي وجوب المسح علی الرجلین لا علی الخفین۔(۱)
 

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۷
(۱) ایضاً، ج۱،ص:۷۶

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص273


 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مینگنی اگر چاول میں صحیح سالم ہے، تو اس کے آس پاس کے کچھ دانوں کے علاوہ پورے چاولوں کا کھانا درست ہے اور اگر مینگنی چاولوں میں گھل گئی ہے، تو پھر پورے چاولوں کا کھانا درست نہیں ہے، کیونکہ چوہے کی مینگنی ناپاک ہے۔
کبیری میں ہے:
’’وبول الحمار، وخرء الدجاج، والبط، وکذا خرء الأوز والجباریٰ وما أشبہ ذلک مما یستحیل إلی نتن وفساد نجس بنجاسۃ غلیظۃ إجماعا‘‘(۱)
’’قال العلامۃ الحلبي، لو وقع بعر الفأرۃ في الحنطۃ فطحنت حیث لا ینجس ما لم یظہر أثرہ في الدقیق إذا الضرورۃ ہناک أشد حتی أن کثیراً ما یفرخ فیہا والاحتراز عنہ متعذر … والاحتراز عنہ ممکن في الماء غیر ممکن في الطعام والثیاب فیعفی عنہ فیہما الخ‘‘(۲)
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’الحاصل أن ظاہر الروایۃ نجاسۃ الکل لکن الضرورۃ متحققۃ في بول الہرّۃ في غیر المائعات کالثیاب وکذا في خرء الفأرۃ في نحو الحنطۃ دون الثیاب والمائعات … لکن عبارۃ التاترخانیۃ بول الفأرۃ وخرؤہا نجس‘‘(۳)

(۱) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الأنجاس‘‘: ج۱،ص: ۱۲۹، ۱۳۰۔(دارالکتاب دیوبند)
(۲) أیضاً: ص: ۱۳۱۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مبحث في بول الفأرۃ وبعرہا وبول الہرۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص63

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :حدیث میں ہے: عن المغیرۃ بن شعبۃ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسح علی الخفین فقلت یا رسول اللہ أنسیت؟ قال بل أنت نسیت بہذا أمرني ربي عز و جل۔(۲) عن المغیرۃ بن شعبۃ رضي اللہ عنہ قال رأیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یمسح علی الخفین وقال غیر محمد علی ظہر الخفین،(۳) عن ابن عباس رضي اللہ عنہ قال: أشہد لقد علمت أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم مسح علی الخفین(۴) (مذکورہ تینوں) احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خفین پر مسح کرنا ثابت ہے اور خفین کا اطلاق محدثین اور فقہاء کے یہاں چمڑے کے موزوں پر ہوتا ہے۔ کما لا یخفي علی من ینظر کلام الفقہاء و المحدثین؛ لہٰذا اگر چمڑے کے موزے ہوں، تو ان پر بلا کسی اختلاف کے مسح جائز ہے اور اگر چمڑے کے موزے نہ ہوں؛ بلکہ سوت یا اون  کے موزے ہوں، تو فقہاء نے ایسے موزوں پر جواز مسح کے لیے درج ذیل شرطیں تحریر فرمائی ہیں ۔
یجوز المسح علیہ لو کان ثخیناً بحیث یمکن أن یمشي معہ فرسخا من غیر تجلید و تنعیل، و إن کان رقیقاً فمع التجلید أو التنعیل۔ (۱)
ایک وہ موزہ جو ایسے دبیز، موٹے اور مضبوط ہوں کہ ان کو پہن کر تین میل پیدل چلا جا سکے دوسرے یہ کہ پنڈلی پر بغیر باندھے (کپڑے کے موٹا ہونے کی وجہ سے) پیر پر ٹھہر سکتے ہوں تیسرے یہ کہ ان میں پانی نہ چھنے اور جذب ہوکر پاؤں تک نہ پہونچے اگر سوت یا اون کے ایسے ہی موزے ہوں، تو ان پر مسح کرنا جائز ہے؛ اس لیے کہ ایسے موزے چمڑے کے موزے کے حکم میں آجاتے ہیں، نائلون کے موزے اول تو دبیز نہیں ہوتے؛ بلکہ بالکل رقیق ہوتے ہیں، ان کو پہن کر تین میل چلنا مشکل ہے، پھٹ جانے کا اندیشہ ہے اور اگر نہ بھی پھٹیں، تب بھی ان میں یہ کمی ہے کہ اگر ان پر پانی ڈالا جائے، تو جذب ہوکر پیر تک چلا جاتا ہے اس لیے ایسے نائلون کے موزوں پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ مجمع الأنہر میں ہے:  و اجمعوا علی أنہ لو کان منعلاً أو مبطنا یجوز   و لو کان من الکرباس لا یجوز المسح علیہ، و إن کان من الشعر فالصحیح أنہ إن کان صلباً مستمسکاً یمشي معہ فرسخاً أو فراسخ۔(۲)

(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین‘‘ ج۱، ص:۲۱، رقم : ۱۵۶
(۳) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب کیف المسح‘‘ ج۱، ص: ۲۲، رقم :۱۶۱(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۴)أخرجہ البزاز ، في مسندہ، ج۳، ص:۱۱۳، رقم:۷۴۳۰(مؤسسۃ الرسالۃ ، القاھرۃ)
(۱)ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۴۳۸
(۲) الحصفکي، مجمع الأنہر في شرح ملقتی الٔابہر، ’’کتاب الطہارۃ، المسح علی الجبیرۃ،‘‘ ج۱، ص:۷۵(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص274

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سفید مادہ عصر سے قبل سونے میں نکلا ہوگا اس لیے غسل کرکے، عصر ومغرب کی نماز بھی لوٹانی ہوگی،(۱) صرف خیالات کی وجہ سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔ خیالات کی وجہ سے اگر مادہ منویہ کا خروج ہوا، تو غسل واجب ہے ورنہ نہیں،(۲) چلتے پھرتے شہوت سے جو ایک چپچپا مادہ نکلتا ہے، اس کو مذی کہتے ہیں، اس میں وضو کافی ہے، مذی میں غسل واجب نہیں ہے۔(۳)
(۱) روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الرجل یجد البلل ولم یجد احتلاما قال یغتسل ولأن النوم راحۃ تہیج الشہوۃ وقد یرق المني لعارض والاحتیاط لازم في باب العبادات وہذا إذا لم یکن ذکرہ منتشراً قبل النوم۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’فصل ما یوجب الاغتسال‘‘: ج ۱، ص: ۹۹)
(۲) الماء من الماء۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث أبي أیوب الأنصاري‘‘: ج ۳۸، ص: ۵۱۱)(المؤسسۃ الرسالۃ، القاھرۃ)
(۳) لا یفترض الغسل عند خروج مذي … أو ودي بل الوضوء منہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’سنن الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص65

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :عمامہ اور ٹوپی پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر کسی شخص نے ٹوپی اور عمامہ پر مسح کیا، تو اس کا وضو درست نہیں ہوگا۔ ولایجوز المسح علی العمامۃ والقلنسوۃ لأنہما یمنعان إصابۃ الماء الشعر۔(۱)
ولا یجوز المسح علی العمامۃ والقلنسوۃ والبرقع والقفازین لأنہ لا حرج في نزع ہذہ الأشیاء الخ۔ (۲)

(۱)الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء، المسح علی العمامۃ والقلنسوۃ،‘‘ ج۱، ص:۷۱
(۲) المرغیناني، الہدایۃ ’’کتاب الطہارات، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۶۱)؛ و أبوبکر بن علی، الجوہرۃ النیرۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین‘‘ ج۱، ص:۳۳؛ وشمس الدین أبوبکر السرخیي، المسبوط للسرخسي، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۲۳۵(القاھرۃ، مؤسسۃ الرسالۃ، مصر)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص276

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ناپاک مہندی لگانے سے ہاتھ میں چڑھا ہوا رنگ ناپاک نہیں ہوگا اس لیے ہاتھ پاک ہے اس میں شبہ نہ کیا جائے، مہندی ناپاک تھی جس کو دھو دیا گیا اور ہاتھ پاک ہو گیا۔
’’اختضبت المرأۃ بالحناء النجس أو صبغ الثوب بالصبغ النجس ثم غسل کل ثلاثاً طہر وفيالخانیۃ إذا وقعت النجاسۃ في صبغ فإنہ یصبغ بہ الثوب ثم یغسل ثلاثاً فیطہر کالمرأۃ اختضبت بحناء نجس‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص65

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :عورت کا خمار کے اوپر مسح کرنا جائز نہیں۔ ولا یجوز مسح المرأۃ علی خمارہا،  لما روي عن عائشۃ رضي اللہ عنہا: أنہا أدخلت یدہا تحت الخمارو مسحت برأسہا، وقالت: بہذا أمرني رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(۳) فإن مسحت علی خمارہا فنفذت البلۃ إلی رأسہا حتی ابتل قدر الربع أجزائہا۔(۱)

(۳)الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء، المسح العمامۃ والقلنسوۃ‘‘، ج۱، ص:۷۱

(۱) محمد بن أحمد السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۲۳۵-۲۳۶
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص276

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :جیل کریم جس سے بال اپنی جگہ ٹکے رہتے ہیں، وہ تیل کے ہی حکم میںہے اور وہ بالوں تک پانی کے پہنچنے سے مانع نہیں ہوتا؛ اس لیے جیل کریم کے لگے ہوئے ہونے کی حالت میں مسح کرنا جائز ہے۔(۲)

(۲) ولا یمنع (ما علی ظفر صباغ) ولا (طعام بین أسنانہ) أوفي سنہ المجوف بہ یفتی و قیل إن صلبا منع وھو الأصح۔ ( ابن عابدین ، رد المحتار مع الدر المختار، ’’مطلب في أبحاث الغسل تنبیہ، لا یمنع الطھارۃ کالطعام بین الأسنان وضوء ا کان أو غسلا لأنھا لا تمنع نفوذ الماء (علی حیدر، درر الحکام شرح غرر الأحکام، ’’فرائض الوضوء‘‘،ج۱، ص:۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص277