طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر ٹرین کے ڈبے میں پانی ختم ہوجائے، دوسرے ڈبے میں بھی پانی نہ ہو، نہ قریب میں پانی ملنے کا امکان ہو، پانی کو خریدنا بھی اس کے لیے ممکن نہ ہو یا مناسب قیمت پر پانی دستیاب نہ ہو اور پانی ملنے تک نماز کے قضا ہونے کا اندیشہ ہو، تو اخیر وقت تک انتظار کرے اور جب وقت کے ختم ہونے کا خدشہ ہو، تو تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور ٹرین کے باہری حصہ پر جو غبار ہوتا ہے اس پر تیمم کیا جاسکتا ہے۔ ھو لمحدث و جنب و حائض و نفساء لم یقدروا علی الماء أي علی ماء یکفی لطھارتہ (۱) و منہ خوف عدو آدمي أو غیرہ سواء خافہ علی نفسہ أو مالہ أو أمانتہ أو خافت فاسقا عند الماء أو خاف المدیون المفلس الحبس و منہ و عطش سواء خافہ حالا أو مآلا علی نفسہ أو رفیقہ في القافلۃ أو دابتہ (۲) و کذا یجوز بالغبار مع القدرۃ علی الصعید عند أبی حنیفۃ و محمد لأنہ رقیق ۔(۳)

(۱) عبیداللّٰہ بن سعود، شرح وقایہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج ۱،ص:۸۸
(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نورالإیضاح، ’’باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۴۸
(۳) المرغیناني، الہدایۃ،’’کتاب الطہارات، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۵۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص362

طہارت / وضو و غسل
اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں http://dud.edu.in/darulifta/?qa=55/%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%B4%D8%A7%D9%86-%DB%81%D9%88%D8%AC%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%BE%D9%88%DA%86%DA%BE%D9%86%D8%A7-%DA%A9%D8%B1%D8%B3%DA%A9%D8%AA%D8%A7-%D8%AA%D8%B1%D8%A7%D9%88%DB%8C%D8%AD-%D9%84%D8%A6%DB%92%D8%AC%D8%A7%D9%86%D8%A7-%D8%B1%DB%81%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D9%81%D8%B1%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%BA%DB%94&show=82#a82

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ والتوفیق:ٹائلس اور پتھر والے پکے فرش کو پاک کرنے کے سلسلے میں کتب فتاویٰ میں دو طریقے مذکور ہیں:
پہلا طریقہ:
مذکورہ فرش پر اتنی وافر مقدار میں پانی ڈال کر بہا دیا جائے کہ اس پر نجاست کا کوئی اثر باقی نہ
رہے، تو اس طرح وہ فرش پاک ہوجائے گا۔
دوسرا طریقہ:
اس پر پانی ڈال کر صاف کیا جائے، پھر کپڑے سے خشک کرلیا جائے، اس طرح تین مرتبہ کرنے سے بھی وہ پاک ہوجائے گا۔
یہ حکم احتیاط پر مبنی ہے، از روئے فتویٰ تو مذکورہ زمین خشک ہونے اور نجاست کا اثر باقی نہ رہنے کی صورت میں بغیر دھوئے بھی پاک ہوجائے گی، اس جگہ پر نماز پڑھنا درست ہوگا؛ البتہ اس جگہ سے تیمم اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک اسے دھو کر پاک نہ کرلیا جائے؛ لیکن جہاں سہولت ہو احتیاط پر عمل کرنا چاہیے۔
لہٰذا اگر زمین پر پیشاب یا نجاست کا اثر باقی نہ ہو، تو محض گیلا کپڑا پھیرنا بھی کافی ہو گا؛ لیکن احتیاط کرنا زیادہ بہتر ہے۔
’’الأرض إذا تنجست ببول واحتاج الناس إلی غسلھا، فإن کانت رخوۃ یصب الماء علیھا ثلاثاً فتطھر، وإن کانت صلبۃ قالوا: یصب الماء علیھا وتدلک  ثم تنشف بصوف أوخرقۃ، یفعل کذلک ثلاث مرات فتطھر، وإن صب علیھا ماء  کثیر حتی تفرقت النجاسۃ ولم یبق ریحھا ولا لونھا وترکت حتی جفت تطھر   کذا في فتاوی قاضي خان‘‘(۱)  
’’البول إذا أصاب الأرض واحتیج إلی الغسل یصب الماء علیہ ثم یدلک  وینشف ذلک بصوف أو خرقۃ فإذا فعل ذلک ثلاثاً طہر، وإن لم یفعل ذلک  ولٰکن صب علیہ ماء کثیر حتی عرف أنہ زالت النجاسۃ ولایوجد في ذٰلک لون ولا ریح ثم ترک حتی نشفتہ الأرض کان طاہراً‘‘(۱)
’’وإن کان اللبن مفروشا فجف قبل أن یقلع طہر بمنزلۃ الحیطان، وفي النہایۃ إن کانت الآجرۃ مفروشۃ في الأرض فحکمہا حکم الأرض، وإن کانت موضوعۃ تنقل وتحول، فإن کانت النجاسۃ علی الجانب الذي یلی الأرض جازت الصلاۃ علیہا، وإن کانت النجاسۃ علی الجانب الذي قام علیہ المصلی لا تجوز صلاتہ‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع: في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الأول في تطہیر النجاسۃ، منہا: الغسل‘‘: ج ۱، ص:  ۹۶۔
(۱) برہان الدین، محمد بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل السابع في النجاسات وأحکامہا، تطہیر النجاسات‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۰۔
(۲) ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص363

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسجد کی اشیا سے تیمم کرسکتا ہے؛ لیکن پرہیز اولیٰ ہے کیونکہ بعض صورتوں میں کراہت ہے جس سے ہر کس وناکس واقف نہیں ہوتا۔

’’ومنہا أخذ شيء من أجزائہ قالوا في ترابہ إن کان مجتمعا جاز الأخذ منہ ومسح الرجل منہ وإلا لا‘‘(۱)
’’ویکرہ مسح الرجل من طین والردغۃ بأسطوانۃ المسجد أو بحائطہ‘‘ (۲)
’’وإن مسح بتراب في المسجد فإن کان التراب مجموعاً لا بأس بہ وإن
کان منبسطا یکرہ وہو المختار‘‘(۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص364

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں کوشش کے باوجود پانی نہ ملے اور نماز کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو، تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت زید تیمم کر کے نماز پڑھ لے اور پانی ملنے کے بعد وضو کر کے نماز کا اعادہ کرلے؛ کیونکہ پانی پر عدم قدرت من جانب اللہ نہیں ہے۔
’’المحبوس في السجن یصلي بالتیمم ویعید بالوضوء، لأن العجز إنما تحقق بصنع العباد وصنع العباد لا یؤثر في اسقاط حق اللّٰہ تعالیٰ‘‘ (۱)
’’اعلم أن المانع من الوضوء إن کان من قبل العباد کأسیر منعہ الکفار من الوضوء ومحبوس في السجن ومن قیل لہ إن توضأت قتلتک جاز لہ التیمم ویعید
الصلوٰۃ إذا زال المانع … وأما إذا کان من قبل اللّٰہ تعالیٰ کالمرض فلا یعید‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۸، ۳۹۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص365

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کئی بار تجربہ اس بات کا ہو چکا ہے کہ گرم پانی سے مرض بڑھ جاتا ہے،تو ایسی حالت میں غسل یا وضو کے لیے تیمم کیا جا سکتا ہے۔
یہ جب ہے کہ جب کہ ٹھنڈے پانی سے بھی مرض بڑھ جاتا ہو اگر ایسا نہیں ہے، تو ٹھنڈے پانی سے غسل ووضو کرے۔
در مختار میں ہے:
’’من عجز عن استعمال الماء لبعدہ میلاً أو لمرض یشتد بغبلۃالظن أو قول حاذق مسلم … تیمم لہذہ الأعذار کلہا۔‘‘(۱)
بدائع الصنائع میں ہے:
’’ولنا قولہ تعالیٰ: {وإن کنتم مرضیٰ أو علیٰ سفر … إلی قولہ … فتیمموا صعیداً طیباً} أباح التیمم للمریض مطلقاً من غیر فصل بین مرض ومرض إلا أن المرض الذي لا یضر معہ استعمال الماء لیس بمراد فبقی المرض الذي یضر معہ
استعمال الماء مراداً بالنص‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۳۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: باب شرائط التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص366

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں اگر نماز جنازہ شروع ہونے جا رہی ہو اور لوگ مزید انتظار نہ کرسکیں، اب ایسے افراد کے وضو میں مشغول ہونے کی صورت میں نماز جنازہ فوت ہو جانے کا اندیشہ ہے، تو ایسی حالت میں تیمم کر کے نماز اداء کر سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ ایسا شخص غیر ولی ہو کیونکہ وضو کرنے تک ولی کا تو انتظار کیا جاتا ہے؛ اس لیے ولی کے لئے تیمم کر کے نماز جنازہ پڑھنا درست نہیں ہے۔
’’قولہ: وجاز لخوف فوت صلاۃ الجنازۃ أي ولو کان الماء قریباً: ثم اعلم أنہ اختلف فیمن لہ حق التقدم فیہا فروی الحسن، عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أنہ لا یجوز للولي لأنہ ینتظر ولو صلوا لہ حق الإعادۃ وصححہ في الہدایۃ والخانیۃ‘‘(۱)
’’ویجوز التیمم إذا حضرتہ جنازۃ والولي غیرہ فخاف إن اشتغل بالطہارۃ
أن تفوتہ الصلاۃ ولا یجوز للولي وہو الصحیح ولا لمن أمرہ الولي‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۸۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الرابع، باب التیمم: الفصل الثالث في المتفرقات‘‘: ج ۱، ص: ۸۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص367

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1736/43-1427

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب ایک بار آپ کا عذر ثابت ہوگیا تو روئی کے رکھنے  سے عذر ختم نہیں ہوگا، آپ معذور ہی رہیں گے اور ہر نماز کے وقت وضو کرکے نماز ادا کریں گے۔

والمستحاضة هي التي لا يمضي عليها وقت صلاة إلا والحدث الذي ابتليت به يوجد فيه وكذا كل من هو في معناها وهو من ذكرناه ومن به استطلاق بطن وانفلات ريح لأن الضرورة بهذا تتحقق وهي تعمم الكل. (الھدایۃ 1/35)

(كما) ينقض (لو حشا إحليله بقطنة وابتل الطرف الظاهر) هذا لو القطنة عالية أو محاذية لرأس الإحليل  - - - (قوله: إحليله) بكسر الهمزة مجرى البول من الذكر بحر (قوله: هذا) أي النقض بما ذكر، ومراده بيان المراد من الطرف الظاهر بأنه ما كان عاليا عن رأس الإحليل أو مساويا له: أي ما كان خارجا من رأسه زائدا عليه أو محاذيا لرأسه لتحقق خروج النجس بابتلاله؛ بخلاف ما إذا ابتل الطرف وكان متسفلا عن رأس الإحليل أي غائبا فيه لم يحاذه ولم يعل فوقه، فإن ابتلاله غير ناقض إذا لم يوجد خروج فهو كابتلال الطرف الآخر (شامی، سنن الوضوء 1/148)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر مسجد میں سونے کے دوران احتلام ہو جائے، تو تیمم کر لینا مستحب ہے ضروری نہیں ہے۔
درمختار میں ہے:
’’لو احتلم فیہ (المسجد) إن خرج مسرعاً تیمم ندباً وإن مکث لخوف فوجوبا ولا یصلی ولا یقرأ‘‘ وقال الشامي ولو أصابتہ جنابۃ في المسجد قیل لا یباح لہ الخروج من غیر تیمم اعتباراً بالدخول‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲؛
وکذا في التاتار خانیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص368

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1737/43-1425

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر قطرات ٹپکنے کی بیماری مسلسل ہے اور اتنا وقفہ نہیں ملتا کہ وقت کی نماز بغیر عذر کے پڑھ سکے تو ایسے معذور شخص کے لئے یہ طریقہ درست ہے، ہر نماز کے لئے اس کو تبدیل کرلیا کرے۔

والمستحاضة هي التي لا يمضي عليها وقت صلاة إلا والحدث الذي ابتليت به يوجد فيه وكذا كل من هو في معناها وهو من ذكرناه ومن به استطلاق بطن وانفلات ريح لأن الضرورة بهذا تتحقق وهي تعمم الكل. (الھدایۃ 1/35)

(كما) ينقض (لو حشا إحليله بقطنة وابتل الطرف الظاهر) هذا لو القطنة عالية أو محاذية لرأس الإحليل  - - - (قوله: إحليله) بكسر الهمزة مجرى البول من الذكر بحر (قوله: هذا) أي النقض بما ذكر، ومراده بيان المراد من الطرف الظاهر بأنه ما كان عاليا عن رأس الإحليل أو مساويا له: أي ما كان خارجا من رأسه زائدا عليه أو محاذيا لرأسه لتحقق خروج النجس بابتلاله؛ بخلاف ما إذا ابتل الطرف وكان متسفلا عن رأس الإحليل أي غائبا فيه لم يحاذه ولم يعل فوقه، فإن ابتلاله غير ناقض إذا لم يوجد خروج فهو كابتلال الطرف الآخر (شامی، سنن الوضوء 1/148)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند