Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:آبدست کرتے وقت کپڑوں پر پانی کے قطرے گرنے کی دو صورتیں ہیں: ایک وہ پانی جو نجاست دھونے اور ناپاک ہونے کے بعد گرتا ہے ، وہ تو ناپاک ہے ایک درہم کی مقدار تک معاف ہے اور اس سے زائد کا دھونا ضروری ہے۔ دوسرا وہ پانی جو نجاست سے مخلوط ہونے سے قبل گر جاتا ہے تو وہ پاک ہے۔
و قال محمد ھو طاھر فان أصاب ذلک الماء ثوبا إن کان ماء الاستنجاء و أصابہ أکثر من قدر الدرھم، لا تجوز فیہ الصلوۃ۔(۱)
(۱) فتاویٰ قاضی خاں ، کتاب الطہارت، فصل: في الماء المستعمل، ج۱، ص:۱۱
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص445
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: اگر ناپاک بستر پر گیلے پائوں پڑنے سے پائوں پر ناپاکی کے اثرات نمایاں ہوگئے، تو پائوں ناپاک ہوں گے ورنہ نہیں۔ نام أو مشی علی نجاسۃ، إن ظھر عینھا تنجس: و إلا لا۔ (قولہ: نام) أي فعرق، و قولہ: أو مشی: أي: وقدمہ مبتلۃ (قولہ: علی نجاسۃ) أي : یابسۃ لما في متن الملتقی: لو وضع ثوباً رطباً علی ماطین بطین نجس جاف لا ینجس، قال الشارح: لأن بالجفاف تنجذب رطوبۃ الثوب من غیر عکس، بخلاف ما إذا کان الطین رطباً۔ اھـ (قولہ: إن ظھر عینھا) المراد بالعین ما یشمل الأثر؛ لأنہ دلیل علی وجودھا، لو عبر بہ کما في نور الإیضاح لکان أولی۔(۲)
(۲)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء، ج۱، ص:۵۶۰، قولہ: مشی حمام و نحوہ أي کما لو مشی علی ألواح مشرعۃ بعد مشی من رجلہ قذر لا یحکم بنجاسۃ رجلہ مالم یعلم أنہ وضع رجلہ علی موضعہ للضرورۃ: فتح، و فیہ عن التنجیس: مشی في طین أو أصابہ ولم یغسلہ و صلی تجزیہ مالم یکن فیہ أثر النجاسۃ لانہ المانع إلا أن یحتاط، و أما في الحکم فلا یجب۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء، ج۱، ص:۵۶۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص446
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:یہ صورت جب ہوسکتی ہے، جب خون بہہ رہا ہو۔ اگر بہنا بند ہوجائے، تو پھر جب تک اثر زائل نہ ہوجائے دھویا جائے، ہاں اگر بہہ رہا ہے مگر کتھا یا دوا کی وجہ سے نظر نہیںآتا، تو جب تک زخم سے خون نکل رہا ہو وہ بہنے کے حکم میں ہوگا۔ درمختار میں ہے: لو مسح الدم کلما خرج ولو ترکہ لسال نقض وإلا لا۔
اور شامی میں ہے وکذا إذا وضع علیہ قطنا أو شیئا آخر حتی ینشف ثم وضعہ ثانیا و ثالثا فإنہ یجمع جمیع ما نشف۔ (۱)
(۱)ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب نواقض الوضو،ج۱،ص:۲۶۲؛ ولو ظھر الدم علی رأس الجرح فمسحہ مراراً، فإن کان بحال لو ترکہ لسال یکون حدثا و إلا فلا۔ لأن الحکم متعلق بالسیلان۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، ماینقض الوضوء، ج۱،ص:۱۲۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص447
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:اگر یقینی طور سے معلوم ہوجائے کہ صابن میں ناپاک اشیاء کی آمیزش ہے، تو دیکھا جائے گا کہ ان اشیاء کی حقیقت تبدیل ہوئی تھی یا نہیں؟ اگر نہیں ہوئی، تو ناپاک ہے اور اگر حقیقت بدل گئی تھی، جیسا کہ عام طور سے دیکھا گیا ہے، تو پاک ہے اور اس کا استعمال درست ہے(۱) علامہ شامیؒ نے صراحت کی ہے: جعل الدھن النجس في صابون یفتی بطھارتہ لأنہ تغیر، والتغییر یطھر عند محمد رحمہ اللہ و یفتی بہ للبلوی۔(۲)
(۱) الأصل في الأشیاء الإباحۃ، الفن الثالث ۔ باب :الیقین لا یزول بالشک۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر،ج۱، ص:۲۰۹)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،ج۱، ص:۵۱۹
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص447
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ طریقے سے پیشاب بدبودار اور مضرت رساں اجزاء کو نکال دیا گیا اور باقی جو اجزاء بچے وہ اسی پیشاب کے ہیں اور وہ اپنے تمام اجزاء کے ساتھ نجس العین ہے، اس لیے یہ باقی ماندہ اجزاء بھی نجس العین اور نجس بنجاستِ غلیظہ رہیں گے۔ (۳)
شامی میں ہے: و یرفع بماء ینعقد بہ ملح لا بماء حاصل بذوبان ملح لبقاء الأول علی طبیعۃ الأصلیۃ و انقلاب الثاني إلی طبیعۃ الملحیۃ۔ (۴)
(۳)مفتی نظام الدین اعظمی صاحب، منتخباتِ نظام الفتاویٰ، ج۱، ص:۱۱۵
(۴) ابن عابدین، رد المحتار،کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، ج۱، ص:۳۲۵
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص448
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1381/42-790
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔پیشاب کے قطروں سے نجات کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ انڈرویر کا استعمال کریں اور کچھ ٹشو پیپر اندر رکھ لیں۔ اگر قطرے صرف ٹشو پیپر پر ہوں تو ان کو نکال کر استنجا کرکےوضو کرلیں اور نماز پڑھ لیں۔ اور اگر انڈرویر تک تری آگئی ہو تو اس انڈرویر نکال کر ایک تھیلی میں رکھ لیں اور استنجاکرکے وضو اور نماز ادا کرلیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور بات ہو تو اس کی پوری وضاحت کرکے سوال دوبارہ لکھیں۔
متى قدر المعذور على رد السيلان برباط أو حشو أو كان لو جلس لا يسيل ولو قام سال وجب رده ويخرج برده عن أن يكون صاحب عذر بخلاف الحائض إذا منعت الدرور فإنها حائض. كذا في البحر الرائق. (الھندیۃ ، الفصل الاول فی تطھیر النجاسۃ 1/41)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:جب تک کسی پنیر کے بارے میں یہ بات دلیل سے متحقق نہ ہوجائے کہ اس میں حرام یا ناپاک چیز کا استعمال ہوا ہے، اس وقت تک اس پر حرام یا ناپاک ہونے کا حکم نہیں لگائیں گے اور جب یہ دلیل سے یقین ہوجائے اور ثبوت مل جائے کہ اس میں کوئی حرام یا ناپاک چیز ملی ہے، تو اس کو ہرگز استعمال نہ کیا جائے، (۱)
الاشباہ والنظائر میں ہے: الأصل في الأشیاء الأباحۃ۔ باب :الیقین لا یزول بالشک۔ (۲)
(۱) أقول۔ و صرح في التحریر بأن الاصل الإباحۃ عند الجمہور من الحنفیۃ والشافعیۃ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، مطلب المختار أن الأصل في الأشیاء الإباحۃ،ج۱، ص:۲۲۱)
(۲)ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، الأصل في الأشیاء الإباحۃ، الفن الثالث،ج۱، ص:۲۰۹
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص449
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: جب تک نجس ہونے کا یقین یا غالب گمان نہ ہو تو اس کو پاک سمجھا جائے گا۔(۱)
(۱) ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الثالثۃ،الیقین لا یزول بالشک، ص:۱۸۳، القاعدۃ المطردۃ أن الیقین لا یزول بالشک (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الفصل الثاني: في الأعیان النجسۃ، ج۱، ص:۱۰۲)؛ فلا نحکم بنجاسۃ بالشک علی الأصل المعہود أن الیقین لایزول بالشک (الکاساني، بدائع الصنائع، فصل في بیان المقدار الذي یصیر بہ، ج۱، ص:۲۱۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص449
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کتا اور بلی کو پکڑنے سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ البتہ گندگی وغیرہ ہاتھ پر لگ جائے، تو اس کو دھو لیا جائے۔(۱)
(۱)الکلب إذا أخذ عضو إنسان أو ثوبہ لا یتنجس مالم یظھر فیہ أثر البلل (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني :في الأعیان النجسۃ، والنوع الثاني: المخففۃ، و مما یتصل بذلک مسائل،‘‘ج۱،ص:۱۰۳ )؛ والکلب إذ أخذ عضو إنسان أو ثوبہ حالۃ المزاح یجب غسلہ و حالۃ الغضب لا۔ یہاں حالت مزاح اور غضب میں فرق کیا ہے؛ لیکن شامی میں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور فتویٰ بھی شامی کے قول پر ہی ہے۔ (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ،ج۱، ص:۵۲)؛ و إذا انتقض فأصاب ثوباً لا ینجسہ مطلقا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۸۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص212
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1682/43-1299
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انقلاب ماہیت اور چیز ہے اور اختلاط (تجزیہ و تبدیل) اور چیز ہے، اور دونوں کے حکم میں فرق ہے۔ انقلاب ماہیت یعنی جس میں تمام حرام اجزاء مکمل طور پر تبدیل ہوگئے ہوں، یا صرف بنیادی جزء کی تبدیلی ہوئی ہو تو احناف کے نزدیک وہ پاک ہے۔ مثلا شراب میں نشہ کا ہونا بنیادی وصف ہے، اس کی تبدیلی ہوجائے تو باقی اوصاف کا پایا جانا مضر نہیں ہے، بلکہ وہ چیز حلال ہوجائے گی۔ صابن میں ناپاک تیل اورناپاک چربی کی ماہیت تبدیل ہوتی ہے یا نہیں ، اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے، بعض نے عموم بلوی کی وجہ سے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے اور بعض نے انقلاب ماہیت کی وجہ سے جواز کا فتوی دیا ہے۔ اس لئے صابن کا استعمال جائز قراردیاگیاہے۔ اور اگر کسی چیز میں انقلاب ماہیت نہ ہو بلکہ بنیادی عمل تجزیہ و اختلاط کا ہو تو ایسی صورت میں پہلا حکم باقی رہے گا، کیونکہ اس ترکیبی عمل میں صرف اس حرام شیء کا نام، بو اور ذائقہ بدلا ہے نہ کہ اس کی حقیقت۔ اس لئے اگر وہ پہلے حرام تھی تو اب بھی حرام رہے گی۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے : فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند 2/454)
لأنَّ الشَّرْعَ رَتَّبَ وَصْفَ النِّجَاسَةِ عَلٰی تِلْکَ الْحَقِیْقَةِ وَتَنْتَفِی الْحَقِیْقَةُ باِنْتِفَاءِ بَعْضِ أجْزَاءِ مَفْہُوْمِہَا، فَکَیْفَ بِالْکُلِّ فَانَّ الْمِلْحَ غَیْرُ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ، فاذَا صَارَ مِلْحًا تَرَتَّبَ حُکْمُ الْمِلحِ“․ (ردالمحتار:۱/۲۳۹، رشیدیہ) انَّہ یُفْتیٰ بہ لِلْبَلْویٰ“ (ردالمحتار: ۱/۱۹، البحرالرائق:۱/۴۹۴) (جدید فقہی تحقیقات: ۱۰/۱۱۱، مکتبہ نعیمیہ دیوبند) (کفایت المفتی: ۲/۳۳۴، چوتھا باب) (فتاویٰ مظاہرعلوم:۱/۲۲)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند