Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 891 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مکان کسی غیر مسلم کو کرایہ پررہائش کے لئے دینا درست ہے۔ چونکہ آپ نے مکان اصالۃً رہائش کےلئے دیا ہے، نہ کہ پوجاپاٹ کےلئے؛ اس لئے اس طرح کرایہ پر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔تاہم احیتاط اولی اور اقرب الی التقوی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2730/45-4259
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں مسلمان قصائی کا اجرت پر ایسا عمل کرنا اگرچہ جائز اور درست ہے تاہم اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے، اور جو اجرت لی ہے وہ حلال ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 911/14-23B
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
You are already receiving money from government for your work. So, the commission you are taking is a bribe which is extremely prohibited in Islam. It is Haram and a major sin. A Muslim must abstain from taking or receiving bribe.
One who took a bribe while being on job must seek repentance from Allah give back rights to those they belong or give it to the poor without the intention of reward.
The Almighty Allah (saws) has cursed the bribe-giver and taker. (Tirmizi) There is another Hadith which states that the bribe-giver and taker both will go to Hell (Jahannam). May Allah save us all from it. Aameen
ولاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلوا بھا الی الحکام لتاکلوا فریقا من اموال الناس بالاثم وانتم تعلمون (البقرۃ 188)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom waqf Deoband
تجارت و ملازمت
Ref. No. 37/1087
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:مکمل پردہ کے ساتھ جس میں مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو، راستہ بھی مامون ہو نیز مسافت شرعی سے کم ہو تو اس طرح کی نوکری و تجارت کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ تاہم عورتوں کا اس فتنہ کے دور میں گھر سے باہر نکلنا بہت سارے مفاسد کا پیش خیمہ ہے۔ اور ایسے حالات میں حدیث میں عورتوں کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1201/42-211
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معاملہ کی مذکورہ صورت درست ہے۔ اور پہلے ڈرائیور کی حیثیت دلال اور بروکر کی ہوگی؛ اور دلال کی طرف سے اگر محنت اور کام پایاجائے تو اس کے لئے کمیشن لینا درست ہے، اس لئے مذکورہ معاملہ درست ہے۔
الاجرالذی یاخذہ السمسارحلال لانہ اجر علی عمل وجھد معقول (الفقہ الاسلامی وادلتہ : الشرط الثانی من شروط صیغ البیع 5/3326)۔ واجرۃ السمسار والمنادی والحمامی والصکاک ومالایقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لماکان الناس بہ حاجۃ (الدر مع الرد 5/32)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1288
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: حجامت یعنی پچھنا لگانا ایک پیشہ ہے، یہ کام کرنا اور اس کی اجرت لینا ودینا جائز ودرست ہے؛ یہ طب اور ڈاکٹری ہی کے دائرہ میں ہے۔ کذافی الفتاوی۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1202/42-503
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سرکاری ملازم ہو یا کسی کمپنی کا ملازم ہو سفر کرنے پر جو خرچ آتا ہے وہی وصول کرنا چاہئے ، اگر کسی کے یہاں مہمان ہونے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے کچھ خرچ نہیں ہوا تو ایسی صورت میں جو خرچ نہیں ہوا وہ لینا درست نہیں ہے، اس لئے کہ یہاں پر جھوٹ بول کر پیسہ وصول کرنا لازم آئے گا۔ اسی طرح سو روپئے کی جگہ دو سو روپئے وصول کرنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ یہ بھی جھوٹ اور دھوکہ کے دائرے میں آتاہے۔ ہاں اگر سو روپئے خرچ ہوئے لیکن کمپنی سے پچاس روپئے ہی ملے تو اگلے سفر میں بڑھاکر اپنےباقی پچاس روپئے وصول کئے جاسکتے ہیں۔
قال النبی ﷺ لیس منا من غش۔ (مسند احمد، ابتداء مسند ابی ھریرۃ، 7/123، حدیث نمبر 7290) لان عین الکذب حرام قلت وھو الحق قال اللہ تعالی قتل الخراصون (الذاریات 10) وقال علیہ السلام الکذب مع الفجور وھما فی النار (فتاوی شامی، فرع یکرہ اعطاء سائل المسجد 6/427) لو ظفر بجنس حقہ فلہ اخذہ (شامی، مطلب فی نفقۃ الاصول 3/622)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1931/43-1830
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قسطوں پر خریداری کی مذکورہ صورت جائز نہیں ہے۔ اگر آپ اس طرح کی کسی کمپنی کے ساتھ معاملہ کریں تو وقت پر ادائیگی کریں تاکہ سود نہ دینا پڑے۔ جو اضافی رقم بطور جرمانہ کے ادا کیجاتی ہے وہ سود کے زمرے میں آتی ہے۔ سودی معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ جس طرح کسی مسلمان کے لئے سود لینا جائز نہیں ہے اسی طرح اس کا دینا بھی جائز نہیں ہے۔ حدیث میں سودی معاملہ میں ہر طرح کے تعاون کو حرام قرار دیا گیا ہے، اور اسے سنگین جرم بتایاگیا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے مذکورہ طریقہ پر نفع حاصل کرنے سے احتراز لازم ہے۔
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدة:2] ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ . فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ۔ عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»۔(الصحيح لمسلم ، كتاب البيوع ، باب لعن آكل الربوا ج: 2 ص: 27)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1649/43-1232
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔یہ دلالی کا کام ہے، اور علماء نے ضرورت کے پیش نظر اس کی اجازت دی ہے۔ ایک آدمی جائز کام کرتاہے مگر کچھ رکاوٹیں آتی ہیں ، اور کام کا مکمل تجربہ نہیں ہوتاہے اور کام میں خطرہ کم سے کم مول لینا چاہتاہے تو وہ دلال سے ایک معاملہ طے کرلیتاہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ایسے آدمی کا پیسہ لینا بھی درست ہے۔ البتہ اگر خلاف قانون کام ہو تو اس سے بچنا ضروری ہوگا تاکہ مال، عزت وآبرو کی حفاظت برقرار رہے۔
عن الحکم وحماد عن إبراہیم وابن سیرین قالوا: لا بأس بأجر السمسار إذا اشتری یدا بید۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، في أجر السمسار، موسسۃ علوم القرآن ۱۱/ ۳۳۹، رقم: ۲۲۵۰۰)وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل۔ وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ، … لکثرۃ التعامل۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، مطلب في أجرۃ الدلال، کراچی ۶/ ۶۳، زکریا ۹/ ۸۷، تاتارخانیۃ، زکریا ۱۵/ ۱۳۷، رقم: ۲۲۴۶۲)
قال في الشامیۃ عن البزازیۃ: إجارۃ السمسار والمنادی والحمامي والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ، ویطیب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل۔ (شامي، کاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، زکریا ۹/ ۶۴، کراچی ۶/ ۴۷، بزازیۃ، زکریا جدید ۲/ ۲۳، وعلی ہامش الہندیۃ ۵/ ۴۰) وأما الدلال: فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا (تحتہ في الشامیۃ) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتري أو علیہما بحسب العرف۔ (شامي، کتاب البیوع، قبیل مطلب في حبس المبیع لقبض الثمن … زکریا ۷/ ۹۳، کراچی ۴/ ۵۶۰، تنقیح الفتاوی الحامدیۃ ۱/ ۲۴۷)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2176/44-2302
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں تھوڑا ابہام ہے، اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ ایک مدرسہ کے تحت فلاحی اسپتال ہے جس میں میڈیکل اسٹور آپ ماہانہ کرایہ پر چلاتے ہیں یعنی مدرسہ کے اسپتال کے تحت آپ کا میڈیکل اسٹور ہےجو آپ ماہانہ کرایہ پر چلاتے ہیں یہ میڈیکل اسٹور آپ کا ذاتی ہے جو آپ نے اپنے پیسوں سے بنایا ہے اور میڈیکل اسٹور کھولتے وقت مدرسہ یا اسپتال سے آپ کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا تو ادارے کا ماہانہ آمدنی ظاہر کرنے کا مطالبہ درست نہیں ہے ۔ اگر سوال میں مزید کچھ وضاحت ہو تو دوبارہ سوال کریں۔ باقی معاملہ کی تفصیل چونکہ سوال میں نہیں ہے اس لئے واضح جواب نہیں لکھاجاسکتا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند