تجارت و ملازمت

Ref. No. 1202/42-503

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   سرکاری ملازم ہو یا کسی کمپنی کا ملازم ہو سفر کرنے پر جو خرچ آتا ہے وہی وصول کرنا چاہئے ، اگر کسی کے یہاں مہمان ہونے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے کچھ خرچ نہیں ہوا تو ایسی صورت میں جو خرچ نہیں ہوا وہ لینا درست نہیں ہے، اس لئے کہ یہاں پر جھوٹ بول کر پیسہ وصول کرنا لازم آئے گا۔ اسی طرح سو روپئے کی جگہ دو سو روپئے وصول کرنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ یہ بھی جھوٹ اور دھوکہ  کے دائرے میں آتاہے۔ ہاں اگر سو روپئے خرچ ہوئے لیکن کمپنی سے پچاس روپئے ہی ملے تو اگلے سفر میں بڑھاکر اپنےباقی پچاس روپئے وصول کئے جاسکتے ہیں۔

قال النبی ﷺ لیس منا من غش۔ (مسند احمد، ابتداء مسند ابی ھریرۃ، 7/123، حدیث نمبر 7290) لان عین الکذب حرام قلت وھو الحق قال اللہ تعالی قتل الخراصون (الذاریات 10) وقال علیہ السلام الکذب مع الفجور وھما فی النار (فتاوی شامی، فرع یکرہ اعطاء سائل المسجد 6/427) لو ظفر بجنس حقہ فلہ اخذہ (شامی، مطلب فی نفقۃ الاصول 3/622)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1931/43-1830

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قسطوں پر خریداری کی مذکورہ صورت جائز نہیں ہے۔  اگر آپ  اس طرح کی کسی کمپنی کے ساتھ معاملہ کریں تو وقت پر ادائیگی کریں تاکہ سود نہ دینا پڑے۔ جو اضافی رقم بطور جرمانہ کے ادا کیجاتی ہے وہ سود کے زمرے میں آتی ہے۔ سودی معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ جس طرح کسی مسلمان کے لئے سود لینا جائز نہیں ہے اسی طرح اس کا  دینا بھی جائز نہیں ہے۔ حدیث میں سودی معاملہ میں ہر طرح کے تعاون کو حرام قرار دیا گیا ہے، اور اسے سنگین جرم بتایاگیا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے مذکورہ طریقہ پر نفع حاصل کرنے سے احتراز لازم ہے۔ 

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدة:2] ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ . فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ۔ عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»۔(الصحيح لمسلم ، كتاب البيوع ، باب لعن آكل الربوا ج: 2 ص: 27)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1649/43-1232

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔یہ دلالی کا کام ہے، اور علماء نے ضرورت کے پیش نظر اس کی اجازت دی ہے۔ ایک آدمی جائز کام کرتاہے مگر کچھ رکاوٹیں آتی ہیں ، اور کام کا مکمل تجربہ نہیں ہوتاہے اور کام میں خطرہ کم سے کم مول لینا چاہتاہے تو وہ دلال سے ایک معاملہ طے کرلیتاہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ایسے آدمی کا پیسہ لینا بھی درست ہے۔ البتہ  اگر خلاف قانون کام ہو تو اس سے بچنا ضروری ہوگا تاکہ مال، عزت وآبرو کی حفاظت برقرار رہے۔

عن الحکم وحماد عن إبراہیم وابن سیرین قالوا: لا بأس بأجر السمسار إذا اشتری یدا بید۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، في أجر السمسار، موسسۃ علوم القرآن ۱۱/ ۳۳۹، رقم: ۲۲۵۰۰)وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل۔ وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ، … لکثرۃ التعامل۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، مطلب في أجرۃ الدلال، کراچی ۶/ ۶۳، زکریا ۹/ ۸۷، تاتارخانیۃ، زکریا ۱۵/ ۱۳۷، رقم: ۲۲۴۶۲)

قال في الشامیۃ عن البزازیۃ: إجارۃ السمسار والمنادی والحمامي والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ، ویطیب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل۔ (شامي، کاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، زکریا ۹/ ۶۴، کراچی ۶/ ۴۷، بزازیۃ، زکریا جدید ۲/ ۲۳، وعلی ہامش الہندیۃ ۵/ ۴۰) وأما الدلال: فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا (تحتہ في الشامیۃ) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتري أو علیہما بحسب العرف۔ (شامي، کتاب البیوع، قبیل مطلب في حبس المبیع لقبض الثمن … زکریا ۷/ ۹۳، کراچی ۴/ ۵۶۰، تنقیح الفتاوی الحامدیۃ ۱/ ۲۴۷)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2176/44-2302

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سوال  میں تھوڑا ابہام ہے، اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ ایک مدرسہ کے تحت فلاحی اسپتال ہے جس میں میڈیکل اسٹور آپ ماہانہ کرایہ پر چلاتے ہیں یعنی مدرسہ کے اسپتال کے تحت آپ کا میڈیکل اسٹور ہےجو آپ ماہانہ کرایہ پر چلاتے ہیں یہ میڈیکل اسٹور آپ کا ذاتی ہے جو آپ نے اپنے پیسوں سے بنایا ہے اور میڈیکل اسٹور کھولتے وقت مدرسہ یا اسپتال سے آپ کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا تو ادارے کا ماہانہ آمدنی ظاہر کرنے کا مطالبہ درست نہیں ہے ۔ اگر سوال میں مزید کچھ وضاحت ہو تو دوبارہ سوال کریں۔ باقی معاملہ کی تفصیل چونکہ سوال میں نہیں ہے اس لئے واضح جواب نہیں لکھاجاسکتا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1640/43-1285

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گاڑی والے سے فون پر معاملہ طے کرلینے کے بعد آڈتی کی کوشش اور محنت سے گاڑی مل گئی تو اس آڈتی کا اپنا معاوضہ لینا جائز ہے، اور یہ دلالی کے زمرے میں آئے گا۔  آڈتی شخص اگر خود اپنے طور پروہ کام  کرا دیتا ہے اور کچھ بھی طے نہیں کرتا ہے تو اس کا یہ کام اس کی  جانب سے تبرع شمار ہوگا اس پر معاوضہ طلب کرنے کاحق  نہیں۔ تاہم اگر پولس کے ساتھ مل کر آڈتی نے کوئی پلاننگ کی ہو تو یہ درست نہیں ہے۔ 

عن الحکم وحماد عن إبراہیم وابن سیرین قالوا: لا بأس بأجر السمسار إذا اشتری یدا بید۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، في أجر السمسار، موسسۃ علوم القرآن ۱۱/ ۳۳۹، رقم: ۲۲۵۰۰)وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل۔ وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ، … لکثرۃ التعامل۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، مطلب في أجرۃ الدلال، کراچی ۶/ ۶۳، زکریا ۹/ ۸۷، تاتارخانیۃ، زکریا ۱۵/ ۱۳۷، رقم: ۲۲۴۶۲)

قال في الشامیۃ عن البزازیۃ: إجارۃ السمسار والمنادی والحمامي والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ، ویطیب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل۔ (شامي، کاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، زکریا ۹/ ۶۴، کراچی ۶/ ۴۷، بزازیۃ، زکریا جدید ۲/ ۲۳، وعلی ہامش الہندیۃ ۵/ ۴۰) وأما الدلال: فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا (تحتہ في الشامیۃ) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتري أو علیہما بحسب العرف۔ (شامي، کتاب البیوع، قبیل مطلب في حبس المبیع لقبض الثمن … زکریا ۷/ ۹۳، کراچی ۴/ ۵۶۰، تنقیح الفتاوی الحامدیۃ ۱/ ۲۴۷)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 38 / 1200

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    زمین کا کرایہ متعین کرکے کرایہ لینا درست ہے، لیکن فی لیٹر پر اتنا لیں گے یہ درست نہیں ہے۔ کرایہ داری کو پٹرول کے کاروبار کے ساتھ جوڑنا درست نہیں ہے۔    واللہ اعلم بالصواب

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1935/43-1848

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اسکول انتظامیہ کی طرف سے جو گھنٹے پڑھانے کے لئے آپ کو دئے گئے، آپ ان کو پابندی سے پڑھاتے ہیں اور خالی گھنٹوں میں اسی طرح جب بچے نہ ہوں  تو فارغ اوقات میں مطالعہ کرتے ہیں یا فون پر بات کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کو خیانت میں شمار نہیں کیاجائے گا۔ اسکول کی جانب سے مقررکردہ امور میں کوتاہی نہ ہونی چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1562/43-1114

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مالک نے تو اس قطعہ اراضی کو پارک کے لئے مختص کیا تھااس کو پارک کے لئے ہی استعمال ہونا چاہئے، اب اگر وہاں کے رہائش پذیر افراد آپسی مشورہ سے پارک کی زمین پر مندر بنالیں تو اس میں مالک زمین اور پلاٹنگ کرنے والے  گناہ گار نہیں ہوں گے۔  لیکن ابتداء سے کالونی کاٹتے وقت اس طرح کی صراحت کرنا تاکہ متعلقہ افراد زمین زیادہ خریدیں  یہ درست نہیں ہے۔ یہ ایک طرح کا دھوکہ ہے، اور حدیث میں ہے: من غشنا فلیس منا(جو دھوکہ دے وہ ہم مسلمانون میں سے نہیں)

"فقد صرح في السیر  بأنه لو ظهر علی أرضهم وجعلهم ذمةً لایمنعون من إحداث کنیسةٍ؛ لأن المنع مختص بأمصار المسلمین  التي تقام فیها الجمع والحدود، فلو صارت مصراً للمسلمین منعوا من الإحداث(شامی 4/203)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 978/41-138

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  شریعت اسلامیہ نے علم طب سیکھنے سکھانے کو نہ صرف مباح کہا ہے  بلکہ مصالح عظیمہ و منافع یعنی  صحت کی حفاظت اورامراض کے ضررسے بدن کو بچانے کی بنا پر فرض کفایہ قرار دیاہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں  کہ مسلم معاشرے کو خاتون معالج اور لیڈی ڈاکٹر کی اشد ضرورت ہے جو کہ مسلم خواتین کا چیک اپ کریں، ان کا علاج و معالجہ کریں۔ مسلمانوں کو اپنی بیوی بیٹی اور بہن کا چیکپ کروانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اپنی کوئی لیڈی مسلم ڈاکٹر میسر نہیں ہوتی صرف مرد ڈاکٹر ملتے ہیں اس لئے مسلمان لڑکیوں کا اس شعبے سے وابستہ ہونا شریعت کے ایک بڑے ہدف کو پورا کرنا ہے۔

 آپ ولادت، آپریشن دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کر سکتی ہیں اگر آپ گائنالوجسٹ بن رہی ہیں تو یاد رکھیے کہ اسقاط حمل کی نہ مطلقا اجازت ہے اور نہ مطلقا ممانعت ہے۔ بلکہ  اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر حمل چار ماہ سے کم کا ہے اور اس بچہ کی پیدائش سے ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت حمل کا تحمل نہیں کر سکتی تو اسقاط حمل کی گنجائش ہے،  اگر کثرت  اولاد  کی وجہ سے معاشی خوف ہو تو اسقاط حمل ناجائز ہے اگرچہ حمل چار ماہ سے کم مدت کا ہو اور اگر حمل چار ماہ کا ہوجائے تو اسے ضائع کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے ؛ اسقاط کرانے والی اور کرنے والی دونوں گناہ گار ہیں۔ حضورﷺ  نے تخلیق کو بیان فرمایا:  ان احدکم یجمع فی بطن امہ اربعین یوما ثم علقۃ مثل ذلک ثم یکون مضغۃ مثل ذلک ثم یبعث اللہ ملکا فیومر باربع برزقہ واجلہ وشقی او سعید (بخاری شریف)۔

 چار ماہ سے قبل مجبور ی کی حالت میں اسقاط کراسکتی ہے۔  ھل یباح الاسقاط بعد الحبل یباح مالم یتخلق شیئ منہ ثم فی غیر موضع ولایکون ذلک الا بعد مائۃ وعشرین یوما انھم ارادوا بالتخلیق نفخ الروح (کذا فی الشامی و فتح القدیر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2567/45-3909

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  فاریکس ٹریڈنگ یا اس طرح کے کسی بھی فکسڈ دپازٹ اسکیم یا سودی کاروبار میں پیسہ لگاکر نفع کمانا حرام ہے، اور اگر کسی نے نادانی میں کسی ایسی کمپنی میں  پیسے لگادئے تو نفع کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے بلکہ غریبوں پر بلانیت ثواب صدقہ کرنا واجب ہے، ۔ اچھے ارادہ اور نیک نیتی کی بناء پر کوئی ناجائز کام جائز نہیں ہوجائے گا۔ اچھے مقاصد سامنے رکھ کر بھی سودی کاروبار میں ملوث ہونا جائز نہیں ہے، گوکہ  بظاہر اس کے ہزاروں فائدے ہوں۔  اس لئے حلال ذرائع پر ہی اکتفاء کیاجائے کہ اسی میں برکت ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo ) القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 278- 279(
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.  ) صحیح مسلم: (227/2(
والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه ) الدر المختار مع رد المحتار: (99/5، ط: دار الفکر(
یجب علیہ أن یردہ إن وجد المالک وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل ملک الأموال علی الفقراء۔ ) بذل المجہود: (359/1، ط: مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي(

"إن آيات الربا التي في آخر سورة البقرة مبينة لأحكامه وذامة لآكليه، فإن قلت: ليس في الحديث شيء يدل على كاتب الربا وشاهده؟ قلت: لما كانا معاونين على الأكل صارا كأنهما قائلان أيضا: إنما البيع مثل الربا، أو كانا راضيين بفعله، والرضى بالحرام حرام" ) عمدة القاري شرح صحيح البخاري (11 / 200(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند